عشق قاتل سے بھی مقتول سے ہمدردی بھی ،،،، یہ بتا کس سے محبت کی جزا مانگے
گا،،،، سجدہ خالق کو بھی ابلیس سے یارانہ بھی ،،،،حشر میں کس سے عقیدت کا
صلہ مانگے گا۔
شاعر مشرق ڈاکٹر علامہ محمد اقبال کو دنیا فانی سے گزرے چھہتر برس کا عرصہ
گزر چکا لیکن انکی شاعری آج بھی ہر مسلمان کو دعوت فکروعمل دیتی ہے-
قوموں کی جدوجہد اور قربانیاں جب اپنا رنگ دکھاتی ہیں تو دنیا کا جغرافیہ
بدل جاتا ہے ، مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ قوموں کی سوئی خودی کو جگانے والے
بھی علامہ اقبال جیسے شاعر ہی ہوا کرتے ہیں، ڈاکٹر سر علامہ محمد اقبال کی
چھہترویں برسی آج عقیدت واحترام سے منائی جا رہی ہے۔ آپ بیسویں صدی کے ایک
معروف شاعر، مصنف، قانون دان، سیاستدان، مسلم صوفی اور تحریک پاکستان کی
اہم ترین شخصیات میں سے ایک تھے آپ 9 نومبر 1877ء کو سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔
آپ کا مشہور شاعری مجموعہ اردو اور فارسی زبان میں شائع ہوا ۔ شاعری میں
آپکا بنیادی رجحان تصوف اور احیائے امت اسلام کی طرف تھا۔ علامہ اقبال کو
دورجدید کا صوفی سمجھا جاتا ہے۔ آپ نے پاکستان کا تصورایسے حالات میں پیش
کیا جب الگ ریاست کا مطالبہ محض ایک مزاح تھا آپ کی دور اندیشی اور شاعری
نے مسلمانوں میں ایک آزاد مملکت حاصل کرنے کا عزم پیدا کیا
مسلمان کو مسلمان کر دیا طوفان مغرب نے
طلاتم ہائے دریا ہی سے ہے گوہر کی سیرابی
اقبال نے سینے میں درد بھرے دل کی تڑپ کو الفاظ کی شکل دی اور ان الفاظ کو
ایسی ترتیب دی کہ برصغیر کے فرسودہ حال لوگ شعلہ ایمانی سے منور
ہوگئے،علامہ اقبال کی شاعری میں لفظوں کی گہرائی، اشعار کا دلوں میں اتر
جانا، سوچ کو بدل دینا، اور عمل کو برائی سے نیکی کی راہ پر موڑنے جیسی
صفات شامل ہیں گو کہ انہوں نے اس نئے ملک کے قیام کو اپنی آنکھوں سے نہیں
دیکھا لیکن انہیں پاکستان کے قومی شاعرہونے کی حیثیت حاصل ہے۔ آپکے اہم
مجموعوں میں اسرار خودی، پیامِ مشرق، بانگِ دارا، اور بال جبرائیل شامل
ہیں۔ علامہ اقبال ارشاد فرماتے ہیں
خودی کو کر بلند اتنا کٓہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے۔
آپ نے اپنی شاعری میں خودی کی اہمیت پربارہا زوردیا آپ کا کہنا تھا کہ جب
کوئی انسان خودی کے مراحل تہہ کر کے اپنی حقیقت جان لیتا ہے تو پھر کچھ بھی
ناممکن نہیں رہتا۔
خودی میں ڈوب جا اے غافل یہ سرِزندگانی ہے
نکل کر حلقہِ شام و سحر سے جاویداں ہو جا |