پاکستانی سیاست کا اور امن و
عامہ جیسی بنیادی ایشوز کا ماحول اتنا خراب ہو چکا ہے کہ لگتا ہے کہ ہمارے
یہاں لاء اینڈ آرڈر اور حکومت کا صرف نام باقی ہے عملی طور پر اس کا وجود
نہیں۔ اب وہ دور نہیں رہا جو قائد اعظم محمد علی جناح کا دور تھا۔ اس دور
کے سیاسی لیڈر بھی بہت با اخلاق اور شائستہ مزاج ہوا کرتے تھے۔ اور ہر طرف
امن قائم تھا۔ ماضی میں لوگ ایک دوسرے کے ساتھ بھائی چارے کے ساتھ رہا کرتے
تھے چاہے وہ کوئی بھی زبان بولتا ہو۔ مگر آج کی حالات میں یوں محسوس ہوتا
ہے کہ ہر علاقہ بٹا ہوا ہے اور ساتھ ہی لوگ بھی ٹکریوں میں بٹے ہوئے ہیں۔
ہمارے ملک کے سیاسی حالات انتہائی خراب ہیں، اور دہشت گردی پورے پاکستان
میں پھیلی ہوئی ہے۔ کراچی و اسلام آباد کو دہشت گردوں نے خاص نشانہ بنایا
ہوا ہے۔ جہاں روزانہ بے شمار افراد ان دہشت گردی کا شکار ہو رہے ہیں۔ کل ہی
جناب حامد میر صاحب پر قاتلانہ حملہ ہوا ، اور اب وہ آغا خان ہسپتال میں
انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں زیرِ علاج ہیں، اس کے بعد ڈاکٹر سلیم حیدر پر
قاتلانہ حملہ ہوا وہ بھی نجی ہسپتال میں زیرِ علاج ہیں۔ خدا ان دونوں کو
صحتِ کاملہ عطا فرمائیں، آمین۔ اس کے علاوہ پورے ملک میں خاص کر کراچی،
کوئٹہ میں عام افراد کا مرنا جو روزانہ کا معمول ہے۔ اتنا کچھ ہو رہا ہے
اور کوئی بھی ایکشن لینے کو تیار نہیں ایسے میں امن و امان کیسے قائم ہوگا
یہ عوام کے لیئے لمحہ فکریہ ہے۔ لوگ گھروں سے نکلتے ہوئے ڈرتے ہیں کہ پتہ
نہیں کب کہاں کیا ہو جائے۔یہاں کے حالات کو مدّنظر رکھیں تو یہ شعر ہی ذہن
کے نہاں خانوں میں گونجتا ہے۔
دو گز سہی مگر یہ مری ملکیت تو ہے
ائے موت تو نے مجھ کو زمیندار کر دیا
خدا اس ملک کے عوام پر اپنا خاص رحم و کرم کریں اور یہاں بھی دوسرے ملکوں
کی طرح امن و امان اور لاء اینڈ آرڈر قائم ہو جائے۔
یہ ہمارے آزاد اور جمہوری ملک کی سب سے بڑی بد نصیبی ہے کہ ملک میں عوام
اپنے آئینی اور جمہوری حق کے لیئے آج ھی ترس رہی ہے اور سیاسی ، سماجی،
تعلیمی اور اقتصادی ہر میدان میں دوسری قوموں سے بچھڑی ہوئی ہے۔ سرکاروں کے
تعصب نے انہیں حاشیہ پر ڈال رکھا ہے۔ اور آج انہیں سازشی عناصر کی سازش سے
خطرہ ہے، اس ملک کے عوام حاشیہ پر کیوں ہیں؟ عالمِ اسلام لہو لہان کیوں ہے؟
اپنے ملک سے لے کر دنیا کے بے شمار علاقوں میں ذلیل و خوار کیوں ہیں؟اس کی
بڑی وجہ اسلام سے دوری ہے۔ نماز سے دوری ہے، قرآن کو ہم نے طاق پر سجا یا
ہوا ہے مگر اسے پڑھنے کے لیئے کبھی نہیں نکالتے۔ مگر ایسے میں چند ایسے
لیڈران اور چند مخلص لوگ یہاں اب بھی ہیں کہ جن کی وجہ سے ملک کی اعلیٰ
اقدار اور اس کی عظمت، وقار اور سا لمیت قائم و دائم ہے۔ خدا ہماری عوام کو
اس جنت نظیر اس ملک کو تا قیامت قائم و دائم رکھے۔ آمین
موجودہ حالات میں جب عوام حکمرانوں کو بُرا بھلا بھی کہتے ہیں اور کچھ اچھا
بھی کہتے ہیں تو ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم تمام اپنے اعمالوں کی طرف توجہ
دیں۔ جب تک ہر شخص اپنے گریبان میں نہیں جھانکے گا اپنے کرتوتوں اور بد
اعمالیوں کی طرف توجہ نہیں دیتا تب تک حالات میں بہتری کی کوئی صورت نظر
نہیں آئے گی۔ نبی کریم حضرت محمد ﷺ کا فرمان ہے کہ ’’انسان کو وہی ملتا ہے
جس کی وہ سعی کرتا ہے‘‘ اگر ہم اجتماعی ترقی اور خوشحالی چاہتے ہیں تو
انفرادی طور پر اپنی شخصیت کی تعمیر، اخلاقی اقدار کی ترقی کا کام شروع کر
دیں پھر حکمران خود بخود ٹھیک ہو جائیں گے۔ویسے بھی اس سچائی کو دہرانے کی
ضرورت نہیں کہ ’’مسلمان کسی بھی مصیبت میں گھبرایا نہیں کرتا‘‘ بلکہ ہر
مصیبت کا سامنا پوری بہادری کے ساتھ کرتا ہے جو ہماری عوام کر رہی ہے، اور
دن دور نہیں جب اس شہر اور اس ملک میں بھی امن و امان کا دور دورہ ہوگا۔
انشاء اﷲ!ماضی کی تاریخ شاہد ہے کہ مسلمانوں اور مسلم ملکوں کے خلاف زمانہ
قیامت کی چالیں چلتا رہا۔ آسمان رنگ بدلتا رہا لیکن اسلام پر چلنے والوں نے
صبر کا دامن کبھی ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔
نہ گھبراؤ مسلمانوں! ابھی خدا کی شان باقی ہے
ابھی اسلام زندہ ہے، ابھی قرآن باقی ہے
گزشتہ ساٹھ برسوں میں منافرت کا نیلا زہر بڑھتا گیا اور ملک میں ہزاروں قسم
کے فسادات رونما ہو چکے ہیں اور اب دہشت گردی اور ٹارگٹ کلنگ عروج پر ہے۔
ایسا لگتا ہے کہ انسان وحشی ہو گیا ہے ۔ نیکی ، شرافت، محبت، اور اخوّت کی
قدریں روبہ زوال ہو چکی ہیں۔ امن کی دیوی ہم سے روٹھ گئی ہے، تشدد اور
ہلاکت خیزی کا دور دورہ ہے، دہشت کی آندھی چلتی ہے تو رکنے کا نام نہیں
لیتی ہے، لوگ مرتے رہتے ہیں ، املاک تباہ ہوتی ہیں، اور بے بس و مجبور عوام
سوائے چیخنے چلانے کے اور کچھ نہیں کر سکتے۔ یہی المیہ ہے جہاں غریبوں سے
ووٹ تو لیئے جاتے ہیں مگر ان کی داد رسی نہیں کی جاتی۔اس ظلم کی چکی میں
عام انسان ہی پستا ہے۔ روز کی اجرت کمانے والا مزدور اور اس کے بال بچے کشا
کش سے گزرتے ہیں۔ بچوں کو دودھ سے محروم ہونا پڑتا ہے۔ بزرگوں کے لیئے غذا
کی فراہمی مسئلہ بن جاتی ہے۔ مریض کو اسپتال لے جانا ممکن نہیں ہوتا کبھی
کبھی تو صحیح وقت پر علاج نہ ہونے پر مریض جاں بحق بھی ہو جاتا ہے۔ کیا
ایسا ممکن ہو سکتا ہے کہ ایک عام فرد اور امیر فرد دونوں کو علاج و معالجہ
کی یکساں سہولت میسر ہو جائے۔ کاش! ایسا ہو جائے تو ہمارا ملک بھی سنور
جائے۔
عوام تو بس مرکزی حکومت اور پاکستانی عدلیہ سے یہ سوال پوچھنا چاہتے ہیں کہ
کیا پاکستان کا قانون اتنا کمزور ہے کہ جمہوریت کا ’’قاتلِ اعظم‘‘ یعنی
دہشت گرد اور دہشت گردی جمہوریت کا قتلِ عام کرتا رہے اور ہم سب تماش بین
بنے رہیں؟ جب تک آپ ، ہم اور یہ پوری قوم ایک لڑی میں اکھٹے نہیں ہونگے تب
تک ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کی جمہوری فضا کو زہر آلود ہونے سے نہیں
بچایا جا سکتا ہے۔ لہٰذا وقت کی اہم ضرورت ہے کہ ہمیں سیاست برائے سیاست
نہیں بلکہ سیاست برائے خدمت ، اور بند مٹھی کی طرح اس قوم کو یکجا ہونا
ہوگا تاکہ یہ ملک ترقی کی شاہراہ پر گامزن ہو سکے، یہاں کہ عوام ترقی کا
زینہ طے کر سکیں۔ خدا ہم سب کو ہمت و حوصلہ عطا کرے۔ آمین، اختتامِ کلام بس
اتنا کہ :
ایک ہو جائیں تو بن سکتے ہیں خورشیدِ مبیں
ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا بات بنے |