2014 لوک سبھا انتخابات یا فرقہ واریت، منافرت، شدت
اور انتہا پسندی کا ننگا رقص!؟
ہندوستان میں شاید ہی کوئی ایسا ہو جو 2014 کا سولہواں لوک سبھا الیکشن کے
ہنگامہ سے واقف نہ ہو ،ہر شہر اور ہر محلہ الیکشن کے گرد و غبار میں اٹا
ہوا نظر آتاہے ۔کہیں عام آدمی پارٹی کی جھاڑو چل رہی ہے تو کہیں سماج وادی
پارٹی کی سائیکل،توکہیں بی ایس پی کا ہاتھی تو کہیں کانگریس کا پنجہ تو
کہیں بی جے پی کاکنول۔۔۔ ایک طرف سیاست کے متوالے ہیں جو اس مرتبہ اقتدار
کی مسند پر مسلط ہونے کے لئے اپنے تن من دھن کی بازی لگانے کے ساتھ ساتھ ہر
کچھ کرگزرنے کو تیار نظر آر ہے ہیں تو دوسری طرف سیاست کی آڑ میں کچھ تنگ
نظر ،متعصب ،فسادی ہیں جو الیکشن کی آڑ میں ملک میں قتل و غارتگری اور افرا
تفری کا ماحول پیدا کرنا چاہتے ہیں !
یہ جارحانہ انتخابی مہم کی ہی ایک کڑی ہے جہاں ملک کے مختلف اقوام و ملل کے
چھوٹے بڑے لیڈروں اور پیشواں کے ساتھ ساتھ میڈیا جسے لوگ جمہوریت کا چوتھا
ستون کہتے اسے بھی کھلونوں کی طرح پیسوں کے بل بوتے پر اپنے قابو میں کر
رکھا ہے جو اس موقع پر مختلف زاویہ سے اپنا منفی کردار ادا کر رہا ہے جو
ہندوستان کی گننگا جمنی تہذیب اور اس کی انمول سیکولر روایت پرکاری ضرب ہے۔
ہر طرف ایک افرا تفری کا ماحول ہے جسے دیکھنے کے بعد یہ کہنا حق بجانب ہے
کہ یہ عام انتخابات نہیں ہے بلکہ فرقہ واریت ،منافرت،شدت اور انتہا پسندی
کا ننگا ناچ ہے!جس کی ایک کڑی آر ایس ایس ،بجرنگ دل، وی ایچ پی،شیوسینک اور
بے جی پی وغیرہ کے سپوت ورون گاندھی،اشوک سنگھل،وسندھرا راجے سندھیا، ہیرا
لال ،امیت شاہ،راج گری اور توگڑیا و۔۔۔جیسے متعدد سامراجی انسان دشمن عناصر
، جاہل ،بے شعور،متعصب ، سائقہ مزاج استعماری ہتھکنڈوں کی نفرت آمیز بیان
بازی ہے جیسے: میں!مسلمانوں کا حقِ ووٹ چھین لوں گاتو کبھی 63 سالہ مودی کے
ناقدین کو جانا ہوگا پاکستان!تو کبھی بیلٹ بکس کی مدد سے مسلمانوں سے
انتقام لیں ہندو!تو کبھی ہندوں کے علاقوں سے مسلمانوں کو نکالا جائے باہر۔
و۔۔۔۔ اس قسم کی زہریلی اور نفرت آمیز بیانات کوحکومت اور اس ملک کے آئین
کی گیت گانے والے افراد ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے نکال دیتے ہیں !اور
پھر کیا ہوتا ہے وہ سب جانتے ہیں ۔لیکن کیا اس آزاد ملک میں آزادی بیان کا
یہی مطلب ؟اگر کوئی اکبر الدین اویسی یا عمران مسعود کی شکل میں اپنی ذاتی
رائے دیتا ہے یا گیلانی کی شکل میں کوئی حقیقت بیانی سے کام لیتا ہے تو اس
پر غم و غصہ کا باڈل امنڈ آتا ہے اور فوراً اس پر چوطرفہ حملہ ہونے لگتا ہے
اور معافی مانگو،معافی مانگوکی صداؤں سے پور ا ملک گونج اٹھتا ہے !
کیا یہی آزادملک کی آزادی بیان کا مطلب ہے؟!نہیں آزادی بیان کا مطلب یہ
ہرگز نہیں ہے کہ ملک میں قائم اخوت ویکجہتی کی فضا کو مسموم کی جا ئے۔اور
لوگوں میں افتراق و انتشار ،اور قتل و غارت گری کا بازار گرم کیا جا ئے۔اسے
حکومت کی نا اہلی کہا جا ئے یا پھر سکولر ملک پر کلنگ کا ٹیکا !کہ اگر کو
ئی مسلمان اسکالریا لیڈر یا اسٹوڈینٹ اپنے جذبات کا اظہار کرتا ہے تو اسے
فورا گرفتار کر لیا جا تا ہے اورورون گاندھی،اشوک سنگھل،وسندھرا راجے
سندھیا، ہیرا لال ،امیت شاہ،راج گری اور توگڑیا و۔۔۔جیسے انتہا پسند،متعصب
، جاہل،خرمنِ امن کو جہنم بنانے کی درینہ خواہش رکھنے والے،لوگوں کو نفرت
اور فتنہ و فساد کی تعلیم دینے والے انسان دشمن افراد کو ملک میں فرقہ
وارانہ فساد پھیلانے کی حکومت کی طرف سے کھلی چھوٹ دیدی جاتی ہے!جو کھلے
عام پاگل کتوں کی طرح بھونکتے پھررہے ہیں جودہلی سے کشمیراور کشمیر سے اترا
پردیش،حیدر آباد،گجرات اورریاست بہار تک اپنی نفرت آمیز اورزہریلی گفتگو
میں کبھی مسلمانوں کی بڑھتی آبادی پر زہر افشانی تو کبھی ملک کی اقلیتوں کو
تباہ وبرباد کرنا، انہیں ان کے کاروباراورجائیدادوں سے بے دخل کرنا اور
انہیں ہندوستان سے باہر جانے والا راستہ بتانا توکبھی ملک کے سیدھے سادھے
ہندوں کو سارے دیش کو گجرات بنا دینے کاخواب دکھاکر انھیں اپنے اقتدار و
کرسی کی خاطر قربان کر دیتے ہیں اگر ان نفرتوں کے سوداگروں کے بنائے ہوئے
ان منصوبوں پر ایک اچٹتی نظر ڈالا جائے تو وہ اس نقطہ پرکار پر آکر ٹہر
جاتا ہے جہاں ملکی سالمیت کی بلند و بالا عمارت زمیں بوس ہونے کیمرادف ہے
کہ 1.2 بلین آبادی والے اس ملک میں جہاں مسلمانوں کی شرح تقریبا 13سے15فیصد
ہے۔اسے نظر انداز یا انھیں مشتعل کرکے ملکی استحکام کو برقرار رکھنا چاہیں
تو یہ ناممکن ہی نہیں بلکہ محال ہے۔اس لئے اگر ملک میں مسلمانوں کی نفرت کی
آگ بھڑک گئی تو یہی نہیں بلکہ پورا ملک اور وہ خودپہلے اس آگ میں جھلس سکتے
ہیں جو ملک میں قومی تعصب اور نفرت کی آگ بھڑکاتے ہیں ۔لیکن ان سر پھروں کو
یہ نہیں معلوم کہ :
نہ ہاتھ آئے گا حسرت کے ماسوا کچھ بھی
ہے خواہشات کی دنیا سراب کی مانند
کیا ہمارا ملک ،ہماری عدلیہ اس ملک میں نفرت، تشدد اور فساد کی آگ بھڑکانے
اور اس کی تعلیم دینے والوں کی اس گھناؤنی چال سے واقف نہیں ہے؟کیا وہ یہ
نہیں جانتی ہے کہ کسی بھی انسان کے دل میں نفرت کا محرک بہت سی معاشرتی
ناہمواریاں ہیں جو کسی نہ کسی غم و غصہ، ظلم و ناانصافی ذلت و تحقیر، غیر
مساویانہ رویوں، یا پھر محرومیوں کے رد عمل کے نتیجے کے طور پر دلوں میں
پنپتی ہے؟ کیا اسے یہ نہیں معلوم ہے کہ جب کوئی محبت کا متلاشی محبت سے
محروم رہ جائے یا پھر دیگر معاشرتی ناانصافیوں کا شکار ہو جائے تو اس کے دل
میں رفتہ رفتہ محبت کی آرزو کی جگہ نفرت جڑ پکڑنے لگتی ہے جو آہستہ آہستہ
نفرت و عداوت کے ایسی بھیانک آگ کی صورت اختیار کر لیتی ہے جو کہ خود نفرت
کا شکار ہونے والوں کے ساتھ ساتھ اس نفرت کا باعث بننے والوں کے علاوہ بہت
سی معصوم جانوں کو بھی اپنی خوفناک لپیٹ میں لے کر بھسم کر دیتی ہے۔ پھر وہ
اس کا سد باب کیوں نہیں کرتی ؟!پھر ان تنظیموں پر پابندی عائد کیوں نہیں
کرتی ؟!کیا ہم یہ نہیں جانتے ہیں کہ نفرت کی یہ آگ نہ ہمیں کوئی فائدہ دے
سکتی اور نہ ہی اس سے انسانیت کی خدمت اور بھلائی کا کام لیا جا سکتا ہے؟!
پھریہ نفرت کی آگ میں جھلستا ہوا ماحول کیوں !پھر یہ اقلیتوں کے لئے دوغلی
پالیسی کیوں ؟یاد رہے !یہ انتہاپسندی در اصل ایک آتش فشاں ہے جس پر ہمارا
نام نہادی سیکولر ملک بیٹھا ہے اگراس قسم کے متعصب الذہن افرادکی گردنوں
میں جلد از جلد پٹہ نہ ڈالا گیا توایسی فرقہ وارانہ گفتگو اورزہرآلودہ
تقریریں ملکی نظام کو درہم برہم کر سکتی ہیں۔کیونکہ عوام بھڑک گئی تو نہ
ہی" سکولر" رہے گا اور نہ ہی "ازم" رہے گا اس لیے کہ :
کچھ تو ہوتے ہیں محبت میں جنوں کے آثار
اور کچھ لوگ بھی دیوانہ بنادیتے ہیں
ماضی سے اب تک ہندوستان میں ہندواور مسلمان ۔۔۔۔ امن و محبت کا ایک مثالی
استعارہ رہے ہیں لیکن ان کے درمیان خلیج پیدا کرنے والے ایسے ہی خبط الحواس
افراد ہیں جو ایک دوسرے کے خون کے درپے ہیں جو عالمی سامراج کے نمک خوار
ہیں جنھیں ملک کی ترقی اورملک میں انسان دوستی کی فضا ناگوار گزر رہی ہے
لہذا ان کی دیرینہ آرزو ہے کہ وہ ملک میں ہنگامہ آرا ئی کریں جس سے ملکی
سالمیت کا نظام تار تار ہو جا ئے اور جو ترقی ہندوستان حاصل کر رہا ہے وہ
تنزلی کے دلدل میں پھنس جائے اور اس کا تیزی سے چلتا ہوا ترقی کا پہیہ رک
جائے۔آزادی ہند کے بعد سے اب تک یہی وہ انتہاپسندتنظیمیں ہیں جو برطانیہ،
امریکہ اور اسرا ئیل سے منسلک و مربوط تھیں اور ہیں جنھیں عالمی سامراج نے
اپنا آل کار بنا رکھا ہے۔جیسا کہ ملک میں بڑھتی ہوئی ہندو دہشت گردی کے
حوالے سے ہندوستانی وزیر داخلہ شیل کمار شندے کا یہ بیان کہ ہندوستان کی
دوسری بڑی سیاسی جماعت ہندوستانیہ جنتا پارٹی اور انتہا پسندہندو تنظیم
راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ کے کیمپوں میں دہشت گردی کی ٹریننگ دی جاتی
ہے۔کیونکہ سرکاری سطح پر پہلی مرتبہ ہندوستان میں سنگھ پریوار پر مثتمل
ہندو انتہا پسندتنظیموں کے تربیتی کیمپوں اور دہشت گردی میں ملوث ہونے کی
تصدیق کی گئی ہے ۔نیزہندوستان کے سیکریٹری داخلہ، آر کے سنگھ نے مبینہ طور
پر راشٹریہ سوائم سیوک سنگھ RSS کے دس انتہا پسند ہندوں کی دہشت گردی کی
کاروائیوں میں ملوث ہونے کی تائید بھی کی ہے ۔
ہندوستان میں مسلمانوں کیخلاف دہشت گردی برٹش انڈیا کے زمانے سے ہی جاری
ہیں لیکن تقسیم ہند کے بعد مقتدر ہندوستانی حلقوں کی جانب سے ایسا پہلی
مرتبہ ہی تسلیم کیا گیا ہے کہ ہندوستان کے اندر بیشتر دہشت گردی کی
کاروائیاں سنگھ پریوار سے منسلک سیاسی اور دہشت گرد تنظیمیں ہی کراتی ہیں
اور الزام مسلمانوں اور پاکستان پر دھر دیا جاتا ہے ۔ اِس سے قبل سمجھوتہ
ایکسپریس ، مالے گاں ، مکہ مسجد اور دہلی بم دھماکوں میں ہندوستانی انسداد
دہشت گردی کی ٹیم کے دو باضمیر افسروں ہیمنت کرکرے اور سالسکر کی
غیرجانبدارانہ تفتیش کے دوران اصل حقائق سامنے آنے پر یہ بات عیاں ہو گئی
تھی کہ دہشت گردی کی اِن واقعات میں پاکستانی شدت پسند تنظیمیں یا ISI نہیں
بلکہ ہندوستانیہ جنتا پارٹی کی حمایت یافتہ انتہا پسند ہندو توا تنظیمیں جن
میں ،آر ایس ایس ، وشوا ہندو پریشد اور شیو سینا کے تربیت یافتہ کیڈر ملوث
ہیں جنہیں ہندوستانی فوج ، پولیس اور ہندوستانی انٹیلی جنس ایجنسی RAW سے
منسلک انتہا پسند متعصب افسران کی حمایت حاصل ہے ۔ اِن میں سے چند انتہا
پسند ہندو عناصر بشمول کرنل پروہت کی نشان دہی باضمیر ہندوستانی تفتیشی
آفیسر ہیمنت کرکرے نے کی تھی جس کی پاداش میں انہیں دہشت گردی کی ایک منظم
واردات میں موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔۔۔۔۔۔ حقیقت یہی ہے کہ ہندوستان کے
طول و ارض میں، آر ایس ایس، کی قیادت میں ہندو دہشت گردی کے تربیتی کیمپ
عرصہ دراز سے کام کر رہے ہیں جس کی تصدیق 1972 میں آنجہانی جے پرکاش نرائن
نے پٹنہ میں آر ایس ایس کے تربیتی کمپ کے اختتامی اجلاس سے خطاب میں یہ
کہتے ہوئے کی تھی کہ ہندوستان میں اگر کوئی طاقت پاکستان اور بنگلہ دیش کو
ہندوستان کے ساتھ ملا کر اکھنڈ ہندوستان بنا سکتی ہے تو وہ صرف اور صرف، آر
ایس ایس، ہی ہے جس کی شدت پسندی کا اندازہ اِس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ،
آر ایس ایس، کے انتہا پسند ہندوں نے تقسیم ہند کے بعد ہندوستان کے طول و
ارض میں مسلمانوں کا قتل عام کیا اور جب اِس انسانی قتل عام کو روکنے کیلئے
مہاتما گاندہی نے برت رکھنے کااعلان کیا توہندو مہا سبھا اور ، آر ایس ایس
،کے انتہا پسند لیڈر نتھو رام گوڈژی نے مہاتما گاندہی کو دن دیہاڑے قتل
کرنے سے بھی دریغ نہیں کیا تھا، یہی عمل ہیمنت کرکرے کے ساتھ دھرایا گیا جب
انہوں نے ہندوستان میں بیشتر دہشت گردی کے واقعات کا ذمہ دار ہندوستانی
انتہا پسند ہندو تنظیموں کو ٹھہرایا اور اب ہندوستانی وزیر داخلہ سشیل
کمارشندے اور سیکریٹری داخلہ کے انکشافات کے بعد انہیں بھی ،آر ایس ایس ،
کے متعصب اور منظم پروپیگنڈے کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔لہذاحکومت ہندکے
سمجھداردانشوروں اور سنجیدہ حکمرانوں سے ہماری مختصر سی یہی گزارش ہے کہ
اگر یہ اپنے سیکولر،آزاد اور جمہوری دیش کی "سیکولرازم حکومت" کو سالمیت
اور دوام بخشنا چاہتے ہیں تو ایسے افراد کو فورا اپنی حراست میں لے کر
انھیں کیفر کردار تک پہنچائیں اورملک میں اقلیت کو تحفظ فراہم کرتے ہو ئے
بغیر کسی تعصب کے ہر مشتعل مزاج متعصب افراداور انتہا پسند گروہ کی بے سر
کی راگنی سے پیدا شدہ منفی رجحانات کا خاتمہ کریں تا کہ ملک میں امن و محبت
کا ماحول پیدا ہو سکے۔
ملک کی عدلیہ اور ملک کے منصف مزاج دانشوروں کو چاہئیے کہ نفرت پھیلانے
والے سوداگروں کے سامنے ملک کی صحیح تاریخ رکھیں اور انھیں یہ بتائیں کہ
ملک میں اقلیتوں کی قربانی ،بہادری اور حب وطنی کی مثال پیش کرنا محال ہی
نہیں ناممکن ہے ۔ ہندوستان کی تاریخ حولدار عبدالحمید کے بغیر ادھوری رہ
جاتی ہے۔
1857 میں مولانا فضل حق خیرآبادی کی انگریز سامراج کے خلاف بغاوت اور آزادی
ھند کے تصور کے کے بغیر آزادی ھند کا قصیدہ پڑھنا بے سود و بے فائدہ ہے ۔جس
کا اعتراف خودپنڈت جواہر لعل نہرو نے اپنی کتاب میں کیاہے کہ انگریزوں کے
خلاف جدوجہد میں مسلمان پیش پیش تھے۔آزادی سے قبل بھی مسلم حکمرانوں نے ملک
میں اپنی رواداری اور تعمیرات کے جو انمٹ نقوش چھوڑے ہیں ، اس پر ہندوستان
کو آج بھی فخر ہے۔کس نے دیا ہے اس ملک کو لال قلعہ ؟ کس نے دی محبت کی
نشانی تاج محل؟ ہر سال دو مرتبہ جہاں سے ملک کا پرچم لہرایا جاتا ہے ، وہ
یادگار کس کی ہے؟ آزادی سے لیکر آج تک ہر شعبہ میں مسلمانوں نے ہندوستان کا
پرچم ساری دنیا میں بلند رکھاہے۔ اگرڈاکٹر عبدالکلام مملکت ہند کو دفاعی
نظام کے لئے میزائیل ٹکنالوجی سے لیس نہ کیا ہوتا تو یہ ہندوستان دنیا کے
ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کبھی کھڑانظر نہیں آتا ۔۔۔۔لہذا اس تاریخی پس
منظر کے پیش نظر حکومت بھی اقلیتوں (مسلمانوں ) کو ہر محاذ پر ریزرویشن دے
اور خودمسلمان بھی زیادہ سے زیادہ تعلیمی مسائل اور اپنی غربت و افلاس کا
حل تلاش کرے ، اورملک کا ہر طبقہ اپنے تعصب کے بتوں کوقومی اور ملی یکجہتی
کی خاطر پاش پاش کردیاوریہ بات ملحوظ خاطر رکھے کہ اسینفرت کی آگ پر حاوی
آنے کے لئے اپنے ماحول سے پیدا شدہ منفی رجحانات کا خاتمہ کرنا ہوگا تا کہ
یہ ملک امن و محبت کا گہوارہ بنا سکے۔اس لئے کہ ہمیں بقول نور العین عینی
ہماری مادر وطن ہمیشہ یہ کہہ کر بیدار کرتی ہے کہ:
میرے، حالات کے مارے ہوئے لوگو!۔وطن میں چار سو پھیلی۔فضائے بدگمانی،غربت و
افلاس ، بد امنی سے تم نومید نہ ہونا۔یہ جو قلب و نظر میں ٹوٹتی امید کے
لرزاں دیے۔آلام کے طوفاں کی زد میں ہیں۔انہیں بجھنے نہ تم دینا۔وہی ارضِ
وطن ہے یہ۔۔۔ ۔!جہاں پرکھوں نے خود اپنے لہو سے۔۔فکرِ نو کے نام اک تحریر
لکھی تھی۔۔نئی آزاد صبحوں کی حسیں تقدیر لکھی تھی!فضاں میں ابھی بھی ان
پرستارانِ حر کے نعر تکبیرکی تاثیر باقی ہے۔مگر اک خواب جو دیکھا کئی بے
چین آنکھوں نے،وہی تعبیر ادھوری ہے،اسی تعبیر کی تکمیل باقی ہے!۔
یہ دھرتی پھر ہمیں آواز دیتی ہے!۔میرے لوگو!۔میرے دیوار و در کی خستگی کی
خیر،ہمیں اس گھر کی دیواروں کو یوں مسمار ہونے سے بچانا ہے،کہ خشتِ عزم سے
اس کی فصیلوں کی،نئی تعمیر باقی ہے،میرے پرچم کی پیشانی پہ اب بھی،بخت کا
تارادمکتا ہے،ہمیں اسکو کبھی بھی سرنگوں ہونے نہیں دینا،میرے لوگو! کبھی
نومید نہ ہونا،مصائب کی شبِ تاریک سے اک دن،کبھی تو صبحِ نو کا،آس کا سورج
نکلنا ہے،کبھی تو وقت کی بیرحم موجوں کاہمیں دھارا بدلنا ہے،تبھی تعمیرِ
ملک و قوم کے اس خواب کو۔۔۔تعبیر کا اعزاز ملنا ہے!۔
نوٹ:یاد رہے اس مضمون کو تیار کرنے کے لیے نیٹ سے بھی سہارا لیا گیا ہے۔
الطمش لشکری پوری |