جمہوریت انگریزی لفظ ”ڈیموکریسی“ کا ہم معنیٰ ہے اور
انگریزی کا لفظ ڈیموکریسی، یونانی لفظ ”ڈیموکریٹیا“ سے مشتق ہے جو دو لفظوں
”ڈیموس“ یعنی لوگ اور ”کریٹیا“ یعنی طاقت یا اقتدار سے مل کر بنا ہے، اس
طرح جمہوریت کے معنیٰ ہوئے: لوگوں کی طاقت یا لوگوں کا اقتدار۔ یعنی ایک
ایسا نظام حکومت جس میں اقتدار کی باگ ڈور لوگوں کے ہاتھوں میں ہو، نہ کہ
فرد واحد یا چند لوگوں کے ہاتھوں میں۔ جمہوریت میں اقتدار کا منبع لوگ ہوں۔
یعنی اصل سیاسی طاقت کے مالک لوگ ہوں اوروہی رہیں۔ یعنی اگر حکمرانی کا حق
کسی کے سپرد کردیں تو واپس لینے کا بھی حق رکھتے ہوں۔ ۔حکومت ان کی مرضی کے
مطابق ہو اور ان کی مرضی کا اظہار بغیر کسی دباؤ کے واضح اور آزادانہ طور
پر ہو۔ ۔حکام کا تقرر لوگوں کی مرضی اور ان ہی کے نمائندوں کے ذریعہ ہو اور
حکام اسی وقت تک اپنے عہدوں پر فائز رہیں، جب تک انہیں لوگوں کا اعتماد
حاصل رہے۔ جمہوریت کی مندرجہ بالا نظریاتی تعریف کو پیش نظررکھ کر جمہوریت
کا جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ جمہوریت اپنی ان خصوصیات کے ساتھ کبھی
بھی قائم نہیں ہوئی۔ پاکستان میں جمہوریت کے نام پر ایک گورکھ دھندہ ہو رہا
ہے اور تب تک ہوتا رہے گا جب تک عوام جمہوریت کی صحیح تعریف کو نہیں جان
لیتی۔ جب سیاسی مداریوں کو ٹی وی پر جمہوریت کا راگ الاپتے دیکھتا ہوں تو
رب کعبہ کی قسم خون خولتا ہے اور دل چاہتا ہے کہ ان مداریوں کو تو سرکس میں
ہونا چاہیئے۔ جس مداری کی دم پر پاؤں رکھیں وہی پکار اٹھتا ہے کہ میں نے
جمہوریت کے لئیے بڑی جدوجہد کی ہے اور قربانی بھی دی ہے۔ ان جدوجہد کرنے
والوں میں ہر سیاسی ، مذہبی پارٹیاں اور صحافی بھی شامل ہیں۔ انکی جدوجہد
ایک دو دن نہیں بلکہ دہائیوں پر مشتمل ہے لیکن کیا وجہ ہے کہ جمہوریت آج
بھی پاکستان سے لاکھوں میل دور ہے۔ آج تک پاکستان میں کسی نے جمہوریت کے
لئیے سرے سے جدوجہد کی ہی نہیں اگر کی ہے تو صرف اپنے مفادات کے لئیے
جدوجہد کی ہے ۔ کیا ایم کیو ایم کا پیپلز پارٹی سے حکومت میں مل بیٹھنا
جمہوریت کے لئیے ہے ؟ کیا نواز شریف و زرداری کی ملاقات جمہوریت کے لئیے ہے
؟ جاوید ہاشمی و شاہ محمود کا پی ٹی آئی میں آنا جمہوریت کے لئیے ہے ؟ اور
بھی جتنے سیاسی کبوتر اپنی چھتریوں سے اڑ کر حکومت کی چھتری پر آن بیٹھے
ہیں یہ سب جمہوریت کے لئیے ہے ؟ نہ جی نہ یہ سب دانے دنکے کی گیم ہے ، جب
انکو اپنا مفاد کسی آمر کی گود میں نظر آتا ہے تو اس آمر کی گود میں بھی
وسیع تر قومی مفاد کے تحت بیٹھ جاتے ہیں۔ پاکستان میں جمہوریت کے لئیے
جدوجہد نہ کسی زرداری، مزاری ، شریف ، خواجہ ، میر ، گیلانی ، ہاشمی ،
مخدوم نے کی ہے اور نہ یہ کر سکتے ہیں اگر انھوں نے کی ہوتی تو آج انکی
پارٹیوں میں جمہوریت ضرور ہوتی نہ کہ چند اشخاص کی اجارہ داری۔ اس نام نہاد
جمہوریت نے پاکستانی عوام کو رسوائی ، ضلالت ، بے روزگاری ، غربت و افلاس ،
فاقوں اور دھماکوں کے سوا کچھ نہیں دیا اور نہ یہ موروثی جمہوریت کچھ دے
سکتی ہے۔ یہ جمہوریت ہے ہی بانجھ۔ مجھے ذاتی طور پر تحریک انصاف سے بہت
امید تھی لیکن میری امیدوں پر پانی اس وقت پھر گیا تھا جب جاوید ہاشمی
پیراشوٹ سے اترا اور پارٹی کا صدر بن گیا ، شاہ محمود قریشی ، جہانگیر ترین
، اعظم خان سواتی جیسے لوگ بھی کلیدی عہدوں پر قابض ہو گئے۔ عمرآن خان اس
الیکشن میں پانچ سیٹیں کم لے لیتا مگر کسی بھگوڑے و لوٹے کو اپنی پارٹی میں
نہ لیتا، کیونکہ یہ بھگوڑے نظریاتی تو ہوتے نہیں مفادی ہوتے ہیں ، وفا انکی
فطرت میں ہوتی نہیں ۔ وفا انھوں نے سابقہ آقاؤں سے نہی کی کریں گئے آپ سے
بھی نہیں۔ انتہائی معذرت سے جناب لوٹا لوٹا ہی ہوتا ہے چاہے جتنا بھی صاف
کیوں نہ ہو۔ ہمارے میڈیا پر کچھ سیاسی پنڈتوں کو جمہوریت کا سر خیل بنا کر
پیش کیا جاتا ہے جو کہ جمہوریت کے ساتھ زیادتی ہے۔ جمہوریت کی جدوجہد کے
حوالے سے جو سب سے بڑا نام پیش کیا جاتا ہے وہ محترم مخدوم جاوید ہاشمی
صاحب کا نام ہوتا ہے اور بیان کیا جاتا ہے کہ موصوف مشرف کے سامنے جھکے
نہیں۔ لیکن میرے تجزیے کے مطابق کہانی کچھ اور تھی ، میاں صاحب باہر جا چکے
تھے اور ہاشمی صاحب پارٹی صدر بن چکے تھے، بنی بنائی مشہور پارٹی ہاتھ لگ
گئی تھی اور دور دور بھی میاں صاحب کی وآپسی کے آثار نہ تھے، دوسری طرف
مشرف نے بھی مناسب آفر نہ کی ، ق لیگ بن چکی تھی جسکی صدارت و سیادت چوہدری
برادران سنبھال چکے تھے اور ہاشمی صاحب صدارت سے کم عہدہ لینا اپنی توہین
سمجھتے تھے اور سمجھتے ہیں۔ جناب ہاشمی صاحب جمہوریت کے لئیے نون لیگ کی
صدارت فرما رہے تھے پھر میاں صاحب وآپس آگئے اور ہاشمی صاحب اب کھچے کھچے
سے رہنے لگے۔ انکی خوش قسمتی دیکھیں کہ انھی دنوں تحریک انصاف بھی عروج پر
پہنچ گئی موصوف نے عمرآن خان سے ملاقات کی اور اسے ہاں میں باغی ہوں کے
نعرے سے رام کر لیا۔ تحریک انصاف میں نوکری پکی کرنے کے بعد موصوف نے پرانے
باس نواز شریف کو خدا حافظ کہا اور تحریک انصاف کے صدر بن گئے اور پارٹی کو
دوسرے لوٹوں اور بھگوڑوں کے ساتھ ہائی جیک کر لیا اور تحریک انصاف کا اصل
ورکر پس پشت چلا گیا۔ اس سے ملتی جلتی داستان دوسرے جمہوریت کے لئیے جدوجہد
کرنے والوں کی ہے ، سرغنہ و سرخیل کی داستان بغاوت بیان کر دی ہے باقی آپ
خود سمجھ لیں کہ جمہوریت کے نام پر گورکھ دھندہ ہو رہا ہے۔ |