غلامی کی نئی دستاویز .......کیری لوگر بل

شرمناک اورمکروہ شرائط کے ساتھ جڑی امریکی بھیک

بغلیں بجائی جارہی ہیں، ڈینگیں ماری جارہی ہیں، مقتدر حلقے مارے خوشی کے بھنگڑا ڈال رہے ہیں، اپنی کامیابی و کامرانی کے راگ الاپ رہے ہیں، امریکی سینٹ سے کیری لوگر بل کے تحت پاکستان کیلئے منظور ہونے والی ڈیڑھ ارب ڈالر کی سالانہ امداد پر ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے ہیں، پاکستان میں متعین امریکی سفیر اور واشنگٹن میں موجود پاکستانی سفیر کی کارکردگی کو اس کامیابی سے جوڑ رہے ہیں اور حکومت کیری لوگر بل کی امریکی سینٹ سے منظوری کو اپنا سب سے بڑا کارنامہ اور اسے صدر آصف علی زرداری کے دورہ امریکہ کی کامیابی کا ثمر قرار دے رہی ہے، حکومت کی طرف سے یہ دعویٰ بھی کیا جارہا ہے کہ کیری لوگر بل میں بھارت نے اپنے دوست ارکان کانگریس کے ساتھ مل کر پاکستان کے خلاف جو ناروا شرائط شامل کرائی تھیں وہ ہم نے زبردست سفارت کاری سے ختم کرا دی ہیں اور اب یہ بل پاکستان میں اقتصادی امداد کا بہترین بل ہے جس سے ترقی اور خوشحالی کے دروازے کھلیں گے اور بیرونی سرمایہ کاری میں بے تحاشہ اضافہ ہوگا۔

درحقیقت خوش فہمی، خود فریبی اور خود فراموشی کی وہ نادر و نایاب مثال ہے، جس میں پاکستان کی آزادی خود مختاری سالمیت اور قومی وقار کے منافی شرمناک شرائط کے ساتھ ملنے والی امداد یا قرضے پر اس قدر خوشی کے اظہار نے پوری قوم سمیت ساری دنیا کو متعجب و حیران کیا ہوا ہے، جبکہ امر واقعہ یہ ہے کہ کیری لوگر بل کے تحت پانچ سال تک ڈیڑھ ارب ڈالر کی سالانہ امریکی امداد کے بدلے پاکستانی قوم کو کیا کچھ دینا ہوگا اور اپنا کیا کیا گروی رکھنا ہوگا؟ اس حوالے سے ہر روز نت نئے انکشافات اور چشم کشا حقائق ہمارے سامنے آرہے ہیں، گو کہ ہمارے حکمران اس معمولی امداد کو اپنی بہت بڑی کامیابی باور کرانے کی مہم میں مصروف ہیں، مگر حقیقتاً امداد کی شکل میں ملنے والے بھیک کے یہ چند ٹکے ہمیں ہماری آزادی، خود مختاری اور بقاء کے مکمل خاتمے کی قیمت پر عطا کئے جارہے ہیں، لیکن افسوس کہ اس روشن، تلخ اور واضح حقیقت جس سے ایک عام آدمی بھی اچھی طرح واقف ہے، کو سمجھنے سے ہمارے خوش فہم حکمران قاصر اور عاری نظر آتے ہیں جبکہ محب وطن حلقے اور سیاسی فہم و فراست اور بصیرت رکھنے والے دانشور اس امداد کے ممکنہ مضمرات اور وطن عزیز کو پہنچنے والے نقصانات پر نوحہ کناں ہیں۔

دوسری طرف ملکی و غیر ملکی میڈیا اس امداد کے حوالے سے ہوش ربا انکشافات سامنے لارہا ہے اور اس امر پر تعجب اور حیرت کا اظہار کررہا ہے کہ”پاکستانی سفارت کار، حکومت اور حکومتی ذمہ داران اِن چونکا دینے والی شرمناک شرائط کا جائزہ کیوں نہیں لے رہے اور سنجیدگی کے ساتھ اس کی اہمیت اور سنگینی کو کیوں محسوس نہیں کر رہے، جو حال ہی میں امریکی سینٹ کی جانب سے منظور کئے جانے والے کیری لوگر بل کا حصہ ہیں، تعجب خیز بات یہ ہے کہ حکومتی ذمہ داران یہ بتانے کیلئے بھی تیار نہیں ہیں کہ جس وقت یہ شرائط عائد کی جارہی تھیں اس وقت تمام پاکستانی اسٹیک ہولڈر آرمی انٹلیجنس ایجنسیوں اور سیاسی قیادت کو اعتماد میں لیا گیا تھا یا نہیں، گو کہ یہ حقیقت وقت کے ساتھ جلد ہی سامنے آجائے گی، لیکن یہاں ایک بات طے تو ہے کہ ان مکروہ شرائط کے پورے ہونے اور امریکی وزیر خارجہ کی جانب سے جاری سرٹیفیکٹ کے بعد ہی پاکستان کو امداد کی قسط ادا کی جائے گی۔

کیری لوگر بل سے جڑی ان شرمناک شرائظ کی پہلی قسط ” ایٹمی ہتھیاروں کے غیر قانونی نیٹ ورکس کے خلاف کارروائی میں پاکستان امریکہ کے ساتھ تعاون اور ایسے نیٹ ورک سے وابستہ کسی بھی پاکستانی تک امریکہ کو رسائی فراہم کرنیکا پابند ہوگا، پاکستان کی حکومت کسی ایسے عنصر یا گروہ کی حمایت نہیں کریگی جو امریکہ و افغانستان میں اتحادی افواج کے علاوہ پڑوسی ممالک پر حملوں میں ملوث رہ چکے ہیں، پاکستان القاعدہ و طالبان یا ان سے منسلک دہشت گرد گروپوں مثلاً لشکر طیبہ اور جیش محمد کو پڑوسی ملکوں پر حملوں کیلئے اپنی سرزمین استعمال نہیں کرنے دیگا اور پاک فوج، انٹیلی جنس ایجنسی سے وابستہ، ایسے افراد اور عناصر کی حمایت نہیں کی جائیگی جو دہشت گردوں کی براہ راست یا بالواسطہ امداد میں ملوث ہوں گے، اس کے علاوہ فاٹا اور ملک کے مختلف حصوں بشمول کوئٹہ اور مرید کے میں قائم دہشت گرد کیمپ کا خاتمے ۔“کی صورت میں ہمارے سامنے آچکی ہیں، قومی خودمختاری اور بقاء کے حوالے سے فکرمند ہر محب وطن پاکستانی کیلئے یہ تو وہ حیران کن شرائط ہیں جن کا تعلق اس معاہدے کے اُس تحریری حصے سے ہے جو کہ سامنے آچکا ہے لیکن اس معاہدے کی پس پردہ طے ہونے والی وہ خفیہ ضمانتیں اور شرائط جو حکومتی ذمہ داران نے نام نہاد ”سٹیک ہولڈرز“ کو فراہم کی ہیں، شاید جلد منظر عام پر نہ آسکیں، لیکن یہاں ایک بات طے ہے کہ اس امداد کے ملمع میں لپٹی ہوئی خوشنما بھیک کیلئے طے شدہ شرائط کا الجھاؤ آہستہ آہستہ کھلنا شروع ہو گیا ہے۔

گو کہ اس وقت کیری لوگر بل کی پانچ بنیادی دفعات اور درجن بھر شقیں منظر عام پر لائی گئی ہیں جب کہ عوامی اضطراب کے پیش نظر اس کے اس امداد کے بہت سے مطالبات کو تاحال پوشیدہ رکھنے کی کوشش کی گئی ہے، سیاسی و دفاعی تجزیہ نگاروں کے مطابق ان شرائط میں ایک بڑی، اہم اور غیر تحریر شدہ خفیہ شرط امریکی سفارتخانے کی بلا مشروط توسیع اور اس توسیعی مرکز میں جاسوسی کا ایک ایسے نیٹ ورک تشکیل ہے، جس کے تحت کیری لوگر بل میں بیان کی جانے والی دفعہ سے پاکستان کی تینوں افواج اور حساس اداروں، عدالتی اور عالمی امور اس نیٹ ورک میں مداخلت نہیں کریں گی، سب سے زیادہ تشویش ناک بات یہ ہے کہ پاک فوج سمیت دیگر حساس اداروں کی اسلام آباد میں رہ کر مانیٹرنگ کرنا، بنیادی مسئلہ ہوگا، یہ بات بھی سامنے آئی ہے کہ سفارتخانے کے اس توسیعی پروگرام میں پاکستان کے تمام حساس مقامات کی مانیٹرنگ اور ان کا کنٹرول سسٹم موجود ہوگا، امریکہ کا یہ مرکز پورے ایشیاء میں محفوظ ترین اور مضبوط ترین مرکز ہوگا، گو کہ کیری لوگر بل میں بعض ایسی شقیں بھی شامل ہیں جو بظاہر بہت معمولی نظر آتی ہیں، لیکن دراصل ان سے براہ راست پاکستان اور اس کے عوام متاثر ہوں گے مثلاً پاکستان القاعدہ اور طالبان اور اس سے منسلک پڑوسی ملک کے لئے اپنی سرزمین استعمال نہیں ہونے دے گا۔

یہاں پڑوسی ملک سے مراد بھارت کے سوا کوئی اور نہیں ہے، جو ہمارا ازلی دشمن ہے اس کے خلاف ممبئی دھماکوں کے بعد یہ سمجھنا کہ وہ ہم پر الزام تراشی اور پروپیگنڈے کو ہوا دینا بند کر دے گا، احمقانہ سی بات لگتی ہے، امریکہ سے تعاون کی شرط میں ایک بڑی خوفناک شرط، کسی بھی شہری تک رسائی ہے اس میں ڈاکٹر عبدالقدیر خان سے لے کر ہر خاص و عام ا فراد شامل ہیں، سابق آمرانہ دور میں نام نہاد ایٹمی پھیلاؤ نیٹ ورکس کا ڈھنڈورا پیٹ کر جس طرح محسن پاکستان کی کردار کشی کی گئی موجودہ جمہوری حکومت اس سے بھی دو ہاتھ آگے جارہی ہے، اسی طرح اس بل میں یہ بھی شرط رکھی گئی ہے کہ فاٹا قبائلی علاقوں کے علاوہ کوئٹہ اور مرید کے، میں بھی تربیتی مراکز کے خلاف آپریشن کیا جائے گا، یعنی اب امریکہ امداد کے بدلے جہاں چاہے گا دہشتگردی کے شبے میں پاکستانی عوام کو پاکستانی فوج سے مروائے گا یا خود ان پر حملہ کرے گا، یہاں اس حقیقت سے بھی انکار مکمن نہیں کہ افغانستان میں امریکہ کو شکست کا سامنا ہے، افغان عوام اور طالبان قیادت اپنے ملک کی آزادی کیلئے جو کچھ کر رہی ہے وہ پاکستان یا اس کے کسی ادارے کے تعاون سے نہیں بلکہ اپنی مدد آپ کے تحت ہورہا ہے لیکن پاکستان کی جذبہ جہاد سے سرشار فوج، قومی مفادات اور سلامتی کا تحفظ کرنے والی خفیہ ایجنسیوں کے گرد گھیرا تنگ کرنے کیلئے یہ ناروا شرط رکھی گئی ہے۔

تاکہ امریکہ جب چاہے شرائط کی خلاف ورزی کا الزام لگا کر ان اداروں کے خلاف منفی پروپیگنڈے اور اقدامات کا محاذ کھول سکے دوسری طرف ان شرائط پر عملدرآمد کیلئے اسلام آباد میں جو انفراسٹرکچر مسز رابن رافیل کی قیادت میں کھڑا کیا جارہا ہے اس پر قوم اپنے جذبات کا اظہار پہلے ہی کرچکی ہے اگر حکومت نے ان شرائط کو قبول کرتے ہوئے ہر چھ ماہ بعد امریکی وزیر خارجہ کی طرف سے شرمناک اور قومی غیرت و حمیت کے منافی سرٹیفکیٹ حاصل کرنے پر آمادگی ظاہر کردی تو قوم اسے کسی قیمت پر قبول نہیں کریگی اور اس کا احساس حکومت کو پہلی قسط وصول کرنے سے پہلے ہی ہو جائیگا، درحقیقت یہ پاکستان کی پارلیمنٹ، حکومت، قوم، عدلیہ، خفیہ ایجنسیوں اور دیگر قومی اداروں پر بالواسطہ کنٹرول کی وہ پالیسی ہے جو ایک آزاد، خودمختار نیو کلیر اسلامی ریاست کو اپاہج اور مفلوج بنا سکتی ہے۔

چنانچہ ان حالات کے تناظر میں سب سے اہم سوال جو پوری پاکستانی قوم کے سامنے سر اٹھائے کھڑا ہے وہ یہ ہے کہ امریکہ سے ہمارے وہ کون سے مفادات وابستہ ہیں، جس کی وجہ سے ہم ایک زرخرید غلام اور لونڈی کی طرح امریکہ کو اپنی عزت کا جنازہ نکالنے کا مسلسل اجازت نامہ دیئے جارہے ہیں؟ حیرت کی بات ہے کہ دنیا کے بہترین وسائل اور صلاحیت رکھنے کے باوجود امریکی غلامی کی ایسی شرمناک نظیر ہمیں ماضی قریب میں بھی نہیں ملتی، سب سے زیادہ حیران کن امر یہ ہے کہ ہمارا کوئی مفاد امریکہ سے وابستہ نہیں ہے، نہ ہی ہماری جغرافیائی سرحدیں امریکہ سے ملتی ہیں اور نہ ہی پاکستان کی باسٹھ سالہ تاریخ میں امریکہ نے کسی مشکل وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا اور مدد کی ہے اور اس نے کبھی پاکستان کے دکھ درد میں شریک ہونے کی کوشش کی ہے، پھر کیا وجہ ہے کہ امداد کے نام پر ڈالروں کی بھیک کی بھوک ہمارے حکمرانوں کو امریکہ کے سامنے جھکنے اور گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرتی ہے؟

کون ہے جو نہیں جانتا کہ آج تک حکمرانوں نے جتنے بھی قرضے حاصل کئے اس کے ثمرات کبھی بھی عوام تک نہیں پہنچے اور نہ ہی اس سے کبھی عوام کو کوئی فائدہ حاصل ہوا، جبکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ امداد اور قرضے جو حکمران اپنی سہولت اور اچھا وقت گزارنے کیلئے حاصل کرتے ہیں اس کے نتائج اور سود سمیت قیمت حکمرانوں کو نہیں بلکہ قوم اور آنے والی نسلوں کو ادا کرنی پڑتی ہے، کیری لوگر بل کے ذریعے امریکہ پاکستان سے جو شرائط منوانا چاہتا ہے وہ کسی طور پر بھی پاکستانی عوام کے لئے قابل قبول نہیں ہوں گی، ان شرائط کو تسلیم کرنے کا مطلب پاکستان کو امریکی کالونی بنانا اور محض ڈیڑھ ارب ڈالر سالانہ کے عوض پاکستان کی سلامتی،خود مختاری، آزادی اور وقار کو امریکہ کی جھولی میں ڈال دینا ہے جو کسی طور بھی عقلمندانہ اقدام نہیں ہے، حقیقت یہ ہے کہ کیری لوگر بل کی منظوری پاکستان کے خلاف ایک ایسی سازش ہے جس کا مقصد انتہائی حقیر معاوضے کے بدلے پاکستان کے جوہری پروگرام، ایٹمی و عسکری صلاحیت اور قدرتی وسائل پر قبضہ کرنا ہے، موجودہ حکومت جس کی اپنی کارکردگی پہلی ہی ایک سوالیہ نشان بنی ہوئی ہے اگر ان شرمناک شرائط کو تسلیم کرتی ہے تو اسے بہت جلد اپنی حیثیت اور عوامی جذبات کی حدت کا اندازہ ہوجائے گا۔

لہٰذا ہمارے حکمرانوں کو چاہیے کہ وہ نوشتہ دیوار پڑھیں اور اپنا قبلہ درست کر لیں اور قرضوں پر انحصار کے بجائے اپنے وسائل پر بھروسہ کرتے ہوئے ایسی امداد جس کے حصول سے ہمیں اپنی آزادی اور خود مختاری گروی رکھنا پڑے انکار کردیں، موجودہ حالات میں ضرورت اس امر کی ہے کہ کیری لوگر بل کا اصل مسودہ اور اس کی تمام پس پردہ شرائط کو عوام کے سامنے لایا جائے اور اسے پارلیمنٹ میں منظوری کے ساتھ عوام سے بھی منظور کرایا جائے، کیونکہ امریکی سینٹ سے منظور شدہ مسودہ سامنے آنے کے بعدامداد کیلئے جن شرمناک شرائط کا انکشاف ہوا ہے وہ پوری قوم کیلئے غم و غصے، شرمندگی اور پشیمانی کا باعث ہے حقیقت یہ ہے کہ ان توہین آمیز شرائط کو پورا کرنا نہ تو کسی ریاستی ادارے کیلئے ممکن ہے، نہ پاکستان کی غیور عوام اسے کسی طور پر قبول کرسکتے ہیں اور نہ وہ حکومت وقت کو اس بات کا اختیار دے سکتے ہیں کہ وہ محض چند ڈالر وں کی بھیک کے حصول کیلئے پاکستان کی سلامتی کو غیروں کے ہاتھوں گروی رکھ کر قوم کو غلامی کی دلدل میں دھکیل دیں، کیونکہ تاریخ گواہ ہے کہ ہمیشہ غلامی کی دستاویز پر دستخط ایک یا دو افراد ہی کرتے ہیں، لیکن غلامی پوری قوم اور آنے والی نسلوں کو بھگتنی پڑتی ہے، کیری لوگر بل بھی پاکستان اور پاکستانی قوم کیلئے غلامی کی ایک ایسی دستاویز ہے جس کی شرمناک شرائط کے تحت ملنے والی امداد پاکستان کی سالمیت، استحکام اور بقاء کیلئے نہ صرف خطرہ بلکہ اس پر عمل درآمد کا مطلب صریحاً خود کشی کے مترادف ہے۔
M.Ahmed Tarazi
About the Author: M.Ahmed Tarazi Read More Articles by M.Ahmed Tarazi: 319 Articles with 346405 views I m a artical Writer.its is my hoby.. View More