یہ ساری باتیں جھوٹ ہیں افسانہ ہیں

پاکستان میں بدعنوانی، رشوت، لوٹ مار، اقربا پروری، قرضے معاف کرانا، پلاٹ حاصل کرنا، سرکاری دورے، سرکاری خرچ پر علاج کرانا، اور سرکاری خرچ پر حج اور عمرے کرنا کوئی غیر معمولی بات نہیں ہے۔ اس لئے چیئرمین سینٹ کے غیر ملکی دوروں پر واویلا کرنا بھی انتہائی غیر ضروری ہے، یہ دورے ہمارے نمائندوں کا استحقاق ہیں۔ جس کے لئے اس ملک کے کروڑوں لوگ پیٹ کاٹ کر اپنے منتخب نمائندوں کو ہر طرح کا عیش و آرام بہم پہنچاتے ہیں۔ ہمارے وزیر اعظم اپنے نمائندوں کے مستقبل کے لئے بھی کوشاں ہیں، وہ نہیں چاہتے کہ یہ ارکان اسمبلی جو دن رات اس قوم کی بہتری اور خوشحال مستقبل کے لئے کوشاں ہیں۔ ان کے لئے رہنے کو کوئی گھر نہ ہو۔ اس لئے بہت جلد ان ارکان اسمبلی کو اسلام آباد میں ایک ہزار گز کے پلاٹ دئیے جائیں گے۔ کراچی کی میڑوپولیٹن کارپوریشن کے ارکان نے بھی کونسل کے اجلاس میں مطالبہ کیا ہے کہ تیسر ٹاﺅن کی نئی بستی میں ان کی خدمات جلیلہ کے اعتراف میں ایک ایک پلاٹ دیا جائے، حال ہی میںدنیا بھر میں بدعنوانی کے حقائق کا جائزہ لینے والے عالمی ادارے ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل نے پاکستان کے بارے میں جو رپورٹ شائع کی ہے وہ انتہائی نامناسب ہے اور یہ ہمارے ہر دلعزیز صدر کی حکومت کو ایک زبردست دھچکا دینے کی انتہائی بھونڈی کوشش ہے۔ جو اس ملک کی بہتری کے لئے ہر ماہ ۰۲ دن غیرملکی دوروں پر گھر بار سے دور رہ کر اس ملک کے غریب عوام کے مستقبل کو روشن اور تابناک بنانے کے کوشس میں مصروف ہیں۔ اس رپورٹ میں پاکستان میں بدعنوانی کے خاتمے کے لیے حکومتی اقدامات پر جو عدم اعتماد کا اظہار کیا گیا ہے وہ بھی اس ملک کے عوام کے مستقبل سے کھیلنے کے مترادف ہے۔ یہ رپورٹ ایک ایسے نا مناسب وقت میں شائع ہوئی ہے جب صدر مملکت امریکا بہادر کے لیے بے مثال خدمات کے عوض فرینڈز آف پاکستان کے اجلاس میں شرکت کے لیے نیویارک میں موجود تھے۔ ان حرکتوں کی وجہ سے پاکستان میں سیاسی تبدیلی کے بعد دو گہرے دوستوں یعنی چین اور سعودی عرب کا اعتماد بھی پاکستان پر مجروح ہوگیا ہے۔ ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل تھوڑے تھوڑے وقفے سے پاکستان میں بدعنوانی کے بارے میں رپورٹیں شائع کرتی رہتی ہے لیکن اب یہ رپورٹ جلدی جلدی شائع کی جارہی ہیں۔

جون 2009ء میں ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی رپورٹ کے مطابق تین برسوں میں سوا چار سو فیصد بدعنوانی میں اضافہ ہواہے۔ دنیا بھر میں بدعنوانی٬ رشوت عالمی سرمایہ دارانہ نظام کا نتیجہ ہے۔ ان اداروں کو بدعنوانی سے کوئی نفرت نہیں ہے۔ بلکہ یہ رپورٹیں صرف اس لیے مرتب کی جاتی ہیں کہ رشوت کے نام پر مقامی حکمرانوں کو بلیک میل کر کے ناپسندیدہ احکامات منظور کرائے جائیں۔ ہمارے نمائندے بہت غریب ہیں۔ قومی اسمبلی میں عوام کے منتخب نمائندوں کے جمع کروائے گئے اثاثوں کے مطابق کئی سابق وزراء اور ممبران اسمبلی کی ملکیت میں کوئی گھر یا گاڑی بھی نہیں ہے۔ الیکشن کمیشن میں داخل کرائے گئے اثاثوں کے مطابق اسی سے زیادہ سابق ممبران قومی اسمبلی، سابق وفاقی وزراء فیصل صالح حیات، اویس لغاری، وصی ظفر اور نصیر خان جبکہ وزرائے مملکت مخدوم خسرو بختیار، حنا ربانی کھر اور حامد یار ہراج بھی شامل ہیں، کے پاس اپنا گھر نہیں تھا۔ سابق قانون وصی ظفر نے الیکشن کمیشن کو بتایا تھا کہ وہ اپنا گھر اپنے بیٹوں کو تحفہ میں دے چکے ہیں۔ ان اثاثوں کے مطابق چوہدری شجاعت حسین کے پاس اپنی گاڑی بھی نہیں تھی ۔ جبکہ ان کی اسلام آباد اور لاہور میں دو گھروں میں فقط شراکت داری ہے۔ خورشید شاہ کے پاس بھی کوئی گھر نہیں ہے۔ دو سابق وزرائے اعظم چوہدری شجاعت حسین اور ظفر اللہ جمالی کے پاس کوئی گاڑی نہیں ہے۔ ان کے علاوہ وفاقی وزیر دفاع راؤ سکندر اقبال، وفاقی وزیر تجارت ہمایوں اختر خان جن کی ملوں اور پیپسی کے کارخانوں کی دھوم تو سب نے سنی ہے مگر ان کے پاس بھی کوئی گاڑی نہیں ہے۔ وزیر داخلہ آفتاب شیر پاؤ، مخدوم فیصل صالح حیات، وفاقی وزیر صحت نصیر خان، وفاقی وزیر مذہبی امور اعجاز الحق اور رضا حیات ہراج نے بھی حلفاً کہا ہے کہ ان کے پاس کوئی گاڑی نہیں ہے۔ اتنے غریب ارکان اسمبلی کی مدد کے لئے اگر وزیر اعظم پلاٹ دیں، یا کوئی کمیشن دے تو کوئی بری بات نہیں ہے، دنیا والے تو بات کا بتنگڑ بنا لیتے ہیں، ٹرانسپیرینسی انٹرنیشنل والے بھی جھوٹ بولتے ہیں، یہ سب ہمارے ہر دلعزیز صدر اور عوام کی محبوب جیالی قیادت کو نا مقبول بنانے کی کوشس ہے۔ جس پر کسی کو یقین نہیں کرنا چاہیے۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 392853 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More