سنن ونوافل

بسم اﷲ الرحمن الرحیم
اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعَالَمِیْن، وَالصَّلاۃُ وَالسَّلامُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِیْم ِوَعَلٰی آلِہِ وَاَصْحَابِہِ اَجْمَعِیْن۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے کہ بندہ نوافل کے ذریعہ میرے قرب میں ترقی کرتا رہتا ہے یہاں تک کہ میں اس کو اپنا محبوب بنا لیتا ہوں اور جب میں محبوب بنا لیتا ہوں تو میں اس کا کان بن جاتا ہوں جس سے وہ سنے، اس کی آنکھ بن جاتا ہوں جس سے وہ دیکھے، اس کا ہاتھ بن جاتا ہوں جس سے وہ پکڑے، اس کا پا ؤں بن جاتا ہوں جس سے وہ چلے۔ جو وہ مجھ سے مانگتا ہے میں اس کو دیتا ہوں۔ (صحیح البخاری ۔ باب التواضع) ہاتھ پاؤں بن جانے کامطلب یہ ہے کہ اس کا ہر کام اﷲ کی رضا اور محبت کے ماتحت ہوتا ہے، اس کا کوئی بھی عمل اﷲ کی مرضی کے خلاف نہیں ہوتا۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشادفرمایا: قیامت کے دن آدمی کے اعمال میں سے سب سے پہلے فرض نماز کا حساب لیا جائیگا، اگر نماز درست ہوئی تو وہ کامیاب وکامران ہوگا، اگر نماز درست نہ ہوئی تو وہ ناکام اور خسارہ میں ہوگا اور اگر کچھ نماز میں کمی پائی گئی تو ارشادِ خداوندی ہوگا کہ دیکھو اس بندے کے پاس کچھ نفلیں بھی ہیں جن سے فرضوں کو پورا کردیا جائے، اگر نکل آئیں تو ان سے فرضوں کی تکمیل کردی جائیگی۔ (ترمذی، ابن ماجـہ، نسائی، ابو داؤد، مسند احمد)
مذکورہ بالا ودیگر احادیث کی روشنی میں ہر مسلمان کو چاہئے کہ فرض نمازوں کے ساتھ سنن ونوافل کا بھی خاص اہتمام کرے تاکہ اﷲ تعالیٰ کا قرب بھی حاصل ہوجائے جیسا کہ مذکورہ بالا حدیث قدسی سے معلوم ہوا کہ بندہ نوافل کے ذریعہ اﷲ تعالیٰ سے قریب ہوتا جاتا ہے۔ نیز اگر خدانخواستہ قیامت کے دن فرض نمازوں میں کچھ کمی نکلے تو سنن ونوافل سے اسکی تکمیل کردی جائے جیساکہ کتب حدیث میں وارد نبی اکرم ﷺ کا واضح فرمان ذکر کیا گیا۔

سنن ونوافل کو گھر کے اُس خاص حصہ میں ادا کرنا جو نماز کے لئے مخصوص کیا گیا ہے مسجد میں ادا کرنے سے افضل اور بہتر ہے، البتہ گھر میں اگر سکون واطمینان نہیں ہے یا مسجد سے واپس آکر دنیاوی مشاغل میں گھِر جانے کا اندیشہ ہے تو بہتر ہے کہ مسجد میں ہی سنن ونوافل ادا کرلیں۔ حضرت زید بن ثابت رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اے لوگو! اپنے گھروں میں نمازیں پڑھا کرو اس لئے کہ سوائے فرض نمازوں کے باقی نمازیں (یعنی سنتیں اور نوافل) گھر میں ادا کرنا افضل ہے۔ (بخاری ، مسلم) حضرت جابر رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جب تم فرض نماز مسجد میں ادا کرلو تو کچھ نماز (سنن ونوافل) گھر میں بھی پڑھا کرو، اس لئے کہ اﷲ تعالیٰ نمازوں کی بدولت گھر میں خیروبرکت پیدا کرتا ہے۔ (مسلم)

نمازِ تہجد:
تہجد میں حضور اکرم ﷺ کا زیادہ تر عمل آٹھ رکعت نفل اور تین رکعت وتر پڑھنے کا تھا، البتہ کبھی کبھی کم یا اس سے زیادہ بھی پڑھتے تھے۔ قرآن کریم میں فرض نماز کے بعدجس نماز کا ذکر تاکید کے ساتھ بار بار کیا گیا ہے وہ تہجد کی نماز ہے جو تمام نوافل میں سب سے افضل نماز ہے۔ ارشاد باری ہے : وہ لوگ راتوں کو اپنے بستروں سے اٹھکر اپنے رب کو عذاب کے ڈر سے اور ثواب کی امید پر پکارتے رہتے ہیں (یعنی نماز، ذکر اور دُعا میں لگے رہتے ہیں) (سورۂ السجدہ ۱۶) یہ انکی صفت اور عمل ہے لیکن جزا اور بدلہ عمل سے بہت زیادہ بڑا ہے کہ ایسے لوگوں کے لئے آنکھوں کی ٹھنڈک کا جو سامان خزانہ غیب میں موجود ہے اسکی کسی شخص کو بھی خبر نہیں۔ یہ اِن کو اُن اعمال کا بدلہ ملے گا جو وہ کیا کرتے تھے۔ (سورۂ السجدہ ۱۷) ۔۔۔ اسی طرح اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے: رحمن کے (سچے) بندے وہ ہیں جو زمین پر فروتنی (عاجزی) کے ساتھ چلتے ہیں اور جب بے علم لوگ ان سے باتیں کرنے لگتے ہیں تو وہ کہدیتے ہیں کہ سلام ہے۔ اور جو اپنے رب کے سامنے سجدے اور قیام کرتے ہوئے راتیں گزار دیتے ہیں۔ (سورۂ الفرقان ۶۴) اس کے بعد سورہ کے اختتام پر اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے: یہی لوگ ہیں جنھیں ان کے صبر کے بدلے جنت میں بالا خانے دئے جائیں گے۔ ۔۔ نیز اﷲ تبارک وتعالیٰ کا فرمان ہے: وہ لوگ رات میں بہت ہی کم سویا کرتے تھے (یعنی رات کے اکثر حصہ میں عبادت میں مشغول رہتے تھے) اور شب کے آخـری حصے میں استغفار کیا کرتے تھے۔ (سورہ الذاریات ۱۷۔۱۸)

حضرت ابوہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا: فرض نمازوں کے بعد سب سے افضل نماز رات کی ہے یعنی تہجد (جو رات کے آخری حصہ میں ادا کی جاتی ہے)۔ (مسلم) حضرت عبد اﷲ بن سلام رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: اے لوگو! سلام کو پھیلاؤ، لوگوں کو کھانا کھلاؤ اور راتوں میں ایسے وقت نمازیں پڑھو جبکہ لوگ سورہے ہوں، سلامتی کے ساتھ جنت میں داخل ہوجاؤگے۔ (ترمذی، ابن ماجہ) حضرت ابو ہریرہ اور حضرت ابو سعید رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: جب آدمی رات میں اپنے گھر والوں کو جگاتا ہے اور میاں بیوی دونوں تہجد کی (کم از کم) دو رکعت پڑھ لیتے ہیں تو ان دونوں کا شمار ذکر کرنے والوں میں ہوجاتا ہے۔ (ابوداؤد) حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ رات کو قیام فرماتے یہاں تک کہ آپ کے پاؤں مبارک میں ورم آجاتا۔ میں نے آپ ﷺ سے عرض کیا: اے اﷲ کے رسول! آپ کے تمام اگلے پچھلے گناہ معاف کردئے گئے ہیں(اگر ہوتے بھی)، پھر آپ ایسا کیوں کرتے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: کیا میں اپنے پروردگار کا شکر گزار بندہ نہ بنوں۔ (بخاری)

سننِ مؤکدہ:(۲ رکعت نمازِ فجر سے قبل، ۴ رکعت نمازِ ظہر سے قبل، ۲ رکعت نمازِ ظہر کے بعد، ۲ رکعت نمازِ مغرب کے بعد اور ۲ رکعت نمازِ عشاء کے بعد)

حضرت ام حبیبہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ انھوں نے رسول اﷲ ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا: جس شخص نے دن اور رات میں بارہ رکعتیں پڑھیں جو کہ فرض نہیں ہیں، اس کے لئے جنت میں ایک گھر بنادیا گیا۔ (مسلم) ترمذی میں یہ روایت وضاحت کے ساتھ وارد ہوئی ہے۔ حضرت ام حبیبہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: جو شخص دن رات میں یہ بارہ رکعتیں پڑھے گا، اس کے لئے جنت میں گھر بنایاجائے گا: ۴ ظہر سے پہلے اور ۲ ظہر کے بعد۔ ۲ مغرب کے بعد۔ ۲عشاء کے بعد۔ ۲ فجر سے پہلے۔ (ترمذی) حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں: آپ ﷺ ظہر سے پہلے چار رکعتیں گھر میں ادا فرماتے پھر مسجد میں جاکر لوگوں کو (فرض ) نماز پڑھاتے پھر واپس گھر تشریف لاتے اور دو رکعت (ظہر کے بعد) ادا فرماتے۔ پھر لوگوں کو مغرب کی نماز پڑھاتے اور گھر واپس تشریف لاکر دو رکعت نماز پڑھتے پھر لوگوں کو عشاء کی نماز پڑھاتے اور گھر تشریف لاکر دو رکعت نماز پڑھتے تھے۔ (مسلم)

حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا روایت کرتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا : فجر کی دو رکعت (سنتیں) دنیا اور دنیا میں جو کچھ ہے اس سے بہتر ہے۔ ایک دوسری روایت میں حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: یہ دو رکعتیں پوری دنیا سے زیادہ محبوب ہیں۔ (مسلم) حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا: فجر کی دو رکعت (سنت) نہ چھوڑو اگرچہ گھوڑوں سے تم کو روندیا جائے۔ (ابوداؤد) حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا: جس نے فجر کی دو رکعتیں (سنت) نہ پڑھی ہوں تو اسے چاہئے کہ سورج نکلنے کے بعد پڑھے۔ (ترمذی) حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ ظہر سے پہلے ۴ رکعت اور فجر سے پہلے دو رکعت کبھی نہیں چھوڑتے تھے۔ (بخاری) حضرت ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اﷲ عنہا روایت کرتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جس شخص نے ظہر سے پہلے چار اور ظہر کے بعد بھی چار رکعتیں پڑھنے کی پابندی کی، اﷲ تعالیٰ نے اسکو (جہنم کی) آگ پر حرام کردیا ۔ (ترمذی، ابوداؤد) حضرت ام المؤمنین ام حبیبہ رضی اﷲ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو مؤمن بندہ بھی ظہر کے بعد چار رکعتیں پڑھتا ہے اسے جہنم کی آگ انشاء اﷲ کبھی نہیں چھوئے گی۔ (نسائی)

﴿وضاحت﴾ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا کی روایت سے ظہر سے پہلے کی چار سنتیں اور فجر سے پہلے کی دو سنتیں ثابت ہوئیں، یہ سننِ مؤکدہ ہیں، آپ ان کا خاص اہتمام فرماتے تھے، جبکہ حضرت ام حبیبہ رضی اﷲ عنہا والی روایت میں ظہر کے بعد چار رکعت کی فضیلت بیان ہوئی۔ فقہاء نے تحریر کیا ہے کہ یہ دو رکعت سنت مؤکدہ کے علاوہ دو نفل ہیں۔ حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ جب ظہر سے پہلے ۴ رکعت نہ پڑھتے تو انہیں بعد میں پڑھ لیتے۔ (ترمذی) حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ جب نبی اکرم ﷺ کی ظہر سے پہلی ۴ رکعتیں رہ جاتی تو آپ ﷺ ظہر کے بعد دو رکعت ادا کرکے فوت شدہ چار رکعتیں پڑھ لیتے تھے۔ (ابن ماجہ) (وضاحت: کبھی کبھی حضور اکرم ﷺ ظہر سے پہلے دو رکعت ادا کرتے تھے جیسا کہ مسلم میں حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما کی روایت میں ہے)۔

سننِ غیر مؤکدہ: ( ۴رکعت نماز عصر سے قبل اور ۴ رکعت نماز عشاء سے قبل)
حضرت علی بن ابی طالب رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ عصر سے پہلے چار رکعت پڑھتے تھے۔ (ترمذی) حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺنے فرمایا: اﷲ تعالیٰ اس شخص پر رحم کرے جس نے عصر سے پہلے چار رکعت نماز پڑھی۔ (ترمذی، ابوداؤد) ﴿وضاحت﴾ اگر وقت کم ہے تو دو رکعت بھی پڑھ سکتے ہیں جیسا کہ ابو داؤد کی روایت میں ہے کہ حضرت علی رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں: رسول اﷲ ﷺ نمازِ عصر سے پہلے (کبھی کبھی) دو رکعت نماز ادا فرماتے تھے۔ (ابوداؤد)
عشاء کی نماز سے پہلے اگر وقت ہو تو ۴ رکعت ورنہ ۲ رکعت ہی پڑھ لیں: شارحِ بخاری علامہ ابن حجرؒ نے حضرت براء رضی اﷲ عنہ کے حوالہ سے حضور اکرم ﷺکا یہ ارشاد نقل کیا ہے کہ جس نے عشاء سے پہلے چار رکعت پڑھیں گویا اس نے رات کو تہجد پڑھی اور عشاء کے بعد چار رکعت پڑھنے والے کو شبِ قدر میں چار رکعت پڑھنے کا ثواب ملے گا۔ بیہقی نے اس روایت کو حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے اور نسائی و دار قطنی نے حضرت کعب رضی اﷲ عنہ سے نقل کیا ہے۔ (الدرایہ ج ۱ صفحہ ۱۹۸) حضرت سعید بن جبیر رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ حضراتِ صحابہ کرام عشاء کی نماز سے پہلے چار رکعت کو مستحب سمجھتے تھے۔ (مروزی۔ قیام اللیل ۔ صفحہ ۵۸) علامہ نواب صدیق حسن خان ؒ شرح بلوغ المرام (مسک الختام ج ۱ صفحہ ۵۲۵ و ۵۲۹) میں نقل کرتے ہیں کہ عشاء سے پہلے چار رکعت مستحب ہیں، نیز عشاء سے قبل دو رکعت نماز پڑھنے کو بھی وہ حدیث شامل ہے جس میں اذان واقامت کے درمیان نفل نماز پڑھنے کی ترغیب ہے۔

ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے رسول اﷲ ﷺ کی نماز کی بابت پوچھا گیا تو حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے فرمایا کہ آپ لوگوں کے ساتھ عشاء کی نماز پڑھ کر گھر آتے اور چار رکعتیں پڑھ کر بستر پر آرام فرماتے۔ (ابوداؤد) حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی اکرم ﷺ کبھی عشاء کے بعدنماز پڑھکر میرے یہاں تشریف نہیں لائے مگر آپ نے چار یا چھ رکعتیں(مع دو رکعت سنت ِ مؤکدہ) ضرور پڑھیں۔ (ابوداؤد)

نمازِ وتر کے بعد بیٹھکر دو نفل پڑھنا مستحب ہے:
حضرت ابو سلمہ رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا سے رسول اﷲ ﷺ کی نماز کے متعلق پوچھا تو حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا نے فرمایاکہ آپ تیرہ رکعتیں پڑھتے تھے، پہلے آٹھ رکعت تہجد پڑھتے، پھر تین وتر پڑھتے پھر دو رکعتیں بیٹھ کر پڑھتے۔ (مسلم) حضرت ام سلمہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ وتر کے بعد دو ہلکی رکعتیں (نفل) بیٹھ کر پڑھا کرتے تھے۔ (ترمذی، ابن ماجہ) حضرت ابو امامہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ وتر کے بعد دو رکعت (نفل) بیٹھ کر پڑھا کرتے تھے۔ پہلی رکعت میں سورہ (اِذَا زُلْزلَت) اور دوسری رکعت میں سورہ (قُلْ ےَا اَےّھَا الْکَافِرُون) پڑھتے تھے۔ (مسند احمد)

نمازِ اشراق اور نمازِ چاشت:
اکثر علماء نے اشراق اور چاشت کی نمازوں کو الگ الگ نماز شمار کیا ہے۔ طلوع آفتاب سے تقریباً ۱۵۔۲۰منٹ بعد اشراق کی نماز ادا کی جاتی ہے جو سورج میں تیزی آنے تک پڑھی جاسکتی ہے۔ چاشت کی نماز کا وقت سورج میں تیزی آنے کے بعد سے زوال آفتاب تک ہے۔ اشراق کے وقت ۲ یا ۴ رکعت ادا کریں۔ چاشت کی بھی چار رکعتیں ہیں، اگرچہ بعض احادیث میں آٹھ رکعتوں کا بھی ذکر ملتا ہے۔ اس لئے ان اوقات میں اﷲ تعالیٰ جتنی توفیق دے نفل نماز ادا کر لیں۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے میرے خلیل ﷺ نے تین باتوں کی وصیت فرمائی ہے: ہر مہینے تین دن کے روزے رکھنا، اشراق کی دو رکعت ادا کرنا، سونے سے پہلے وتر پڑھنا۔ (مسلم) حضرت ابو درداء رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ مجھے میرے محبوب ﷺ نے تین باتوں کی وصیت فرمائی ہے، جب تک میں زندہ رہوں گا ان کو نہیں چھوڑوں گا: ہر مہینے تین دن کے روزے رکھنا، اشراق کی نماز ادا کرنا، سونے سے پہلے وتر پڑھنا۔ (مسلم) حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ اشراق کی چار رکعت نماز پڑھتے تھے اور کبھی زیادہ بھی پڑھتے تھے۔ (مسلم) حضرت ابو ذر غفاری رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ہر صحیح سالم جوڑ یا ہڈی کے عوض ہر روز صبح کو تم پر صدقہ واجب ہوتا ہے۔ سُبْحَانَ اللّٰہ کہنا صدقہ ہے، الْحَمْدُ للّٰہ کہنا صدقہ ہے، لا الٰہَ الا للّٰہ کہنا صدقہ ہے، اللّٰہ اَکْبَرْ کہنا صدقہ ہے، نیکی کا حکم دینا صدقہ ہے، برائی سے روکناصدقہ ہے اور ان سب کے لئے وہ دو رکعتیں کافی ہوجاتی ہیں جنھیں کوئی چاشت کے وقت پڑھتا ہے۔(مسلم) حضرت عائشہ رضی اﷲ عنہا چاشت کی آٹھ رکعات پڑھا کرتی تھیں پھر فرماتیں کہ اگر میرے والدین کو آرے سے چیر بھی دیا جائے تو میں یہ نہیں چھوڑوں گی۔ (مؤطا امام مالک) حضرت انس بن مالک رضی اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص فجر کی نماز جماعت سے پڑھتا ہے اور سورج نکلنے تک اﷲ تعالیٰ کے ذکر میں مشغول رہتا ہے پھر دو رکعت نفل پڑھتا ہے تو اسے حج اور عمرہ کا ثواب ملتا ہے۔ حضرت انس رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے تین مرتبہ ارشاد فرمایا: کامل حج و عمرہ کا ثواب، کامل حج و عمرہ کا ثواب، کامل حج و عمرہ کا ثواب ملتا ہے۔ (ترمذی) حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ایک لشکر بھیجا جو بہت ہی جلد بہت سارا مالِ غنیمت لیکر واپس لوٹ آیا۔ ایک صحابی نے عرض کیا: یا رسول اﷲ! ہم نے کوئی ایسا لشکر نہیں دیکھا جو اتنی جلدی اتنا سارا مالِ غنیمت لیکر واپس لوٹ آیا ہو۔ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا: کیا میں تمہیں اس سے بھی کم وقت میں اس مال سے بہت زیادہ مالِ غنیمت کمانے والا شخص نہ بتاؤں؟ یہ وہ شخص ہے جو اپنے گھر سے اچھی طرح وضو کرکے مسجد جاتا ہے، فجر کی نماز پڑھتا ہے، پھر (سورج نکلنے کے بعد) اشراق کی نماز پڑھتا ہے، تو یہ بہت تھوڑے وقت میں بہت زیادہ نفع کمانے والا ہے۔ (صحیح ابن حبان)

حضرت معاذ بن انس رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص فجر کی نماز سے فارغ ہوکر اسی جگہ بیٹھا رہتا ہے، خیر کے علاوہ کوئی بات نہیں کرتا پھر دو رکعت (اشراق کی نماز) پڑھتا ہے اس کے (چھوٹے) گناہ معاف ہوجاتے ہیں چاہے وہ سمندر کے جھاگ سے زیادہ ہی کیوں نہ ہوں۔ (ابوداؤد) حضرت ابو درداء رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں: آدم کے بیٹے! دن کے شروع میں چار رکعت پڑھنے سے عاجز نہ بن، میں تمہارے دن بھر کے کام بنادوں گا۔ (مسند احمد، صحیح ابن حبان)

مغرب اور عشاء کے درمیان نوافل (نماز اوابین):
مغرب اور عشاء کے درمیان کا وقت بہت قیمتی وقت ہے، اسکو غنیمت سمجھ کر اس میں کچھ نوافل پڑھنا یقینا اجروثواب کا باعث ہے۔ اﷲ تعالیٰ فرماتا ہے: ان کے پہلو سونے کی جگہ سے جدا رہتے ہیں، اپنے رب کو خوف اور امید کے ساتھ پکارتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے اسمیں سے خیرات کیا کرتے ہیں۔ (سورۂ السجدہ ۱۶) جمہور علماء کی رائے میں اس آیت سے مراد نماز تہجد ہے لیکن حضرت انس رضی اﷲ عنہ، حضرت قتادۃ ؒاور حضرت عکرمۃ ؒ فرماتے ہیں کہ اس سے مراد مغرب اور عشاء کے درمیان نفل نماز ادا کرنا ہے۔ (تفسیر ابن کثیر، تفسیر فتح القدیر) اسی طرح علامہ ابن جوزی اپنی کتاب زاد المسیر ج ۶ صفحہ ۳۳۹ میں لکھتے ہیں: حضرت انس رضی اﷲ عنہ فرماتے ہیں کہ یہ آیت ان صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کی تعریف میں نازل ہوئی جو مغرب اور عشاء کے درمیان نفل نماز پڑھتے تھے۔ شیخ محمد بن نصر المروزی (المتوفی ۲۹۴ھ) نے قیام اللیل صفحہ ۵۶ پر بہت سے صحابہ کرام کا عمل نقل کیا ہے کہ وہ اس وقت میں نوافل پڑھتے تھے۔ حضرت ابو معمر فرماتے ہیں کہ صحابہ کرام مغرب کے بعد چار رکعت پڑھنے کو مستحب سمجھتے تھے۔ (قیام اللیل صفحہ ۵۸ ) حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اﷲ ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص مغرب کی نماز کے بعد چھ رکعتیں اس طرح پڑھتا ہے کہ انکے درمیان کوئی فضول بات نہیں کرتا تو اسے بارہ سال کی عبادت کے برابر ثواب ملتا ہے۔ (ترمذی ۔ فضل التطوع) حضرت عمار بن یاسر رضی اﷲ عنہ کے صاحبزادے حضرت محمد بن عمار ؒ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت عمار بن یاسر ؓ کو مغرب کے بعد چھ رکعت پڑھتے دیکھا اور انھوں نے فرمایا کہ میں نے اپنے حبیب حضرت محمد مصطفی ﷺ کو مغرب کے بعد چھ رکعت ادا کرتے ہوئے دیکھا تھا ، اور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جو شخص مغرب کے بعد چھ رکعت پڑھ لے تو اسکے تمام (چھوٹے) گناہ معاف کردئے جاتے ہیں خواہ وہ سمندر کے جھاگ کے برابر ہی کیوں نہ ہوں۔ (الترغیب والترھیب ۔ الترغیب فی الصلاۃ بین المغرب والعشاء)
﴿وضاحت﴾ مغرب کے بعد دو رکعت سنت مؤکدہ کے علاوہ چار رکعت نوافل اور پڑھی جائیں تو چھ ہوجائیں گی۔ بعض علماء کے نزدیک یہ چھ رکعت‘ مغرب کی دو رکعت سنت مؤکدہ کے علاوہ ہیں۔

تحیۃ الوضوء:
حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے ایک روز نمازِ فجر کے بعد حضرت بلال رضی اﷲ عنہ سے پوچھا: اے بلال! اسلام لانے کے بعداپنا وہ عمل بتاؤ جس سے تمہیں ثواب کی سب سے زیادہ امید ہو کیونکہ میں نے جنت میں اپنے آگے آگے تمہارے جوتوں کی آہٹ سنی ہے۔ حضرت بلال رضی اﷲ عنہ نے عرض کیاکہ مجھے اپنے اعمال میں سب سے زیادہ امید جس عمل سے ہے وہ یہ ہے کہ میں نے رات یا دن میں جب کسی وقت وضو کیا ہے تو اُس وضو سے اتنی نماز (تحیۃ الوضو) ضرور پڑھی ہے جتنی مجھے اﷲ تعالیٰ کی طرف سے اس وقت توفیق ملی ہے۔ (بخاری، مسلم)

تحیۃ المسجد:
حضرت ابو قتادہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جب کوئی آدمی مسجد میں داخل ہو تو بیٹھنے سے پہلے دو رکعت نماز ادا کرے۔ (بخاری،مسلم)
﴿وضاحت﴾ اگر کوئی شخص ایسے وقت میں مسجد میں داخل ہوا کہ جس میں حضور اکرم ﷺ نے نماز پڑھنے کو صراحتاً منع کیا ہے (طلوع آفتاب، زوال آفتاب اور غروب آفتاب کا وقت) تو اسے چاہئے کہ وہ تحیۃ المسجد نہ پڑھے۔ اگر کسی شخص نے مسجد میں داخل ہوکر بیٹھنے سے پہلے فرض نماز یا سنت یا کوئی دوسری نماز شروع کردی تو پھر تحیۃ المسجد ادا کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

سنن نماز جمعہ:
حضرت سلمان فارسی رضی اﷲ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص جمعہ کے دن غسل کرتا ہے، جتنا ہوسکے پاکی کا اہتمام کرتا ہے اور تیل لگاتا ہے یا اپنے گھر سے خوشبو استعمال کرتا ہے پھر مسجد جاتا ہے۔ مسجد پہنچ کر جو دو آدمی پہلے سے بیٹھے ہوں ان کے درمیان میں نہیں بیٹھتا اور جتنی توفیق ہو جمعہ سے پہلے نماز پڑھتا ہے، پھر جب امام خطبہ دیتا ہے اس کو توجـہ اور خاموشی سے سنتا ہے تو اِس جمعہ سے گزشتہ جمعہ تک کے گناہوں کو معاف کردیا جاتا ہے۔ (بخاری) حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جس نے جمعہ کے دن غسل کیا، پھر مسجد میں آیا اور جتنی نماز اس کے مقدر میں تھی ادا کی، پھرخطبہ ہونے تک خاموش رہا اور امام کے ساتھ فرض نماز ادا کی، اس کے جمعہ سے جمعہ تک اور مزید تین دن کے گناہ بخش دئے جاتے ہیں۔ (مسلم)

بخاری ومسلم میں وارد مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوا کہ جمعہ کی نماز سے قبل بابرکت گھڑیوں میں جتنی زیادہ سے زیادہ نماز پڑھ سکیں ٗ پڑھیں۔ کم از کم خطبہ شروع ہونے سے پہلے چار رکعتیں تو پڑھ ہی لیں جیسا (مصنف ابن ابی شیبہ ج ۲ صفحہ ۱۳۱) میں مذکور ہے کہ حضرت ابراہیم ؒ فرماتے ہیں کہ حضراتِ صحابہ کرام نمازِ جمعہ سے پہلے چار رکعتیں پڑھا کرتے تھے۔

نمازِ جمعہ کے بعد دو رکعتیں یا چار رکعتیں یا چھ رکعتیں پڑھیں، یہ تینوں عمل نبی اکرم ﷺ اور صحابہ کرام سے ثابت ہیں۔ بہتر یہ ہے کے چھ رکعت پڑھ لیں تاکہ تمام احادیث پر عمل ہوجائے اور چھ رکعتوں کا ثواب بھی مل جائے۔ حضرت سالم ؒاپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ جمعہ کے بعد دو رکعتیں پڑھتے تھے۔ (مسلم) حضرت ابو ہریرہ رضی اﷲ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اﷲ ﷺ نے فرمایا: جب تم سے کوئی جمعہ پڑھ لے تو اس کے بعد چار رکعتیں پڑھے۔ (مسلم)

حضرت عطاء فرماتے ہیں کہ انھوں نے حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما کو جمعہ کے بعد نماز پڑھتے دیکھا کہ جس مصلّی پر آپ نے جمعہ پڑھا اس سے تھوڑا سا ہٹ جاتے تھے، پھر دو رکعتیں پڑھتے، پھر چار رکعتیں پڑھتے تھے۔ میں نے حضرت عطاء سے پوچھا کہ آپ نے حضرت عبد اﷲ بن عمر رضی اﷲ عنہما کو کتنی مرتبہ ایسا کرتے دیکھا؟ انھوں نے فرمایا کہ بہت مرتبہ۔ (ابوداؤد) اسی لئے علامہ ابن تیمیہ ؒ فرماتے ہیں کہ نبی اکرم ﷺ سے ثابت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا ہے جمعہ کے بعد چار رکعات پڑھنی چاہئیں اور صحابہ کرام سے چھ رکعات بھی منقول ہیں۔ (مختصر فتاوی ابن تیمیہ، صفحہ ۷۹)

﴿وضاحت﴾: نماز وتر کے وجوب اور اسکے اہتمام کے متعلق دلائل شرعیہ کی روشنی میں تفصیل سے ایک مضمون تحریرکیا ہے، اس کا مطالعہ کریں۔

﴿نوٹ﴾: مضمون میں وارد تمام احادیث کے تفصیلی حوالوں کے لئے میری کتاب (حی علی الصلاۃ) کا مطالعہ کریں جو مختلف ویب سائٹ پر Free Downlaod کرنے کے لئے موجود ہے۔

اﷲ تبارک وتعالیٰ ہم سب کو فرائض کے ساتھ سنن ونوافل کا بھی اہتمام کرنے والا بنائے۔ آمین، ثم آمین۔
Muhammad Najeeb Qasmi
About the Author: Muhammad Najeeb Qasmi Read More Articles by Muhammad Najeeb Qasmi: 133 Articles with 169829 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.