تیری یاد آئی تیرے جانے کے بعد

ممتاز ادیب ٗ ڈرامہ نگار ناول نگار ٗ فیچر رائٹر ٗ کہانی نویس اے حمید ( خواجہ عبدالحمید) پرائڈ آف پرفارمنس1998 کی تیسری برسی کے موقع لکھی ہوئی ایک پر تاثیر تحریر

تحریر و تحقیق: محمد اسلم لودھی

(اے حمید جن کا اصل نام خواجہ عبدالحمید ہے انہوں نے ادبی دنیامیں اے حمید کے نام سے شہرت پائی۔ ان کا شمار پاکستان کے صف اول کے ادیبوں ٗ افسانہ نگاروں ٗ ڈرامہ نگاروں ٗ ناول نگاروں ٗکہانی نویسوں میں ہوتا ہے ۔اے حمید 1928ء میں امرتسر شہر کے ایک کشمیری گھرانے میں پیدا ہوئے اور82 سال کی عمر پاکر 29 اپریل 2011ء کو اس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ انہوں نے اپنی زندگی میں 200 کے لگ بھگ کتابیں لکھیں جن میں زیادہ تر ان کی اپنی یادداشتوں پر مشتمل ہیں وہ بلا کا حافظہ رکھنے والے انسان تھے جہاں جہاں گئے اور جن جن سے ملے ان کے ذہن میں ایک ایک لمحہ کی کہانی لفظوں کا روپ دھار کر قرطاس ابیض پر منتقل ہوتی چلی گئی ۔ مضامین ٗ فیچر ٗ کہانیاں اور کتابیں تشکیل پاتی رہیں ۔ وہ ممتاز ادیب ٗ ڈرامہ نگار اور فیچر رائٹر ہونے کے ساتھ ساتھ باکردار اور خوبصورت انسان تھے انہوں نے محبت بھی کی تو بے مثال کی اور آخری وقت تک اپنے محبوب کے تصور میں ہی کھوئے رہے ۔ محبوب بھی ایسا کہ موت کے بعد اب بھی یادوں کے چراغ جلائے بیٹھا ہے اورساتھ گزرے ہو ئے ایک ایک لمحے کو زندگی کا بہترین سرمایہ قرار دیتا ہے ۔کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ محبت ایک لافانی جذبہ ہے جو جسمانی محبت سے کہیں بالاتر ہے وہ ہوا میں اڑتے ہوئے پرندوں کی طرح بلندیوں کی طرف ہی محو پرواز رہتا ہے محبت کے اس لافانی جذبوں کی کہانی بیگم ریحانہ حمید نے نہایت خوبصورتی سے اے حمید کی یاد میں کچھ اس طرح تحریر کی ہے کہ اسے پڑھنے والا انسان اپنی محبتوں میں کچھ اس طرح کھو جاتا ہے کہ مدتوں اپنے وجود کی تلاش کھو بیٹھتا ہے ۔دنیا میں بہت کم لوگوں کو اپنے محبوب کا ساتھ ملتا ہے اور بہت ہی کم لوگ اپنے محبوب کے ساتھ گزارے ہوئے لمحات کو لطیف جذبوں کا روپ دے کر لفظوں کی صورت میں اظہار کا ذریعہ بناتے ہیں ۔میں بذات خود اے حمید مرحوم سے نہیں مل سکا اور نہ ہی ان کی تحریریں پڑھنے کا مجھے اتفاق ہوا ہے لیکن وہ ادب کی جن بلندیوں پرمحو پرواز تھے ہم جیسے لوگوں کا ان تک پہنچنا بھی ایک خواب ہی لگتا ہے لیکن ان کے جانے کے بعد یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ حقیقت میں مجسمہ حسن اور مجسمہ محبت تھے حالانکہ وہ خود اس قدر خوبصورت اور پرکشش شخصیت کے مالک تھے کہ درجنوں لڑکیاں ان پر فدا ہوتی ہوں گی لیکن یہ بھی قدرت کا ایک حسین امتزاج ہے کہ وہ کنیئرڈ کالج میں فورتھ ائیر کی ایک لڑکی ( ریحانہ)کا انٹرویو کرنے کے لیے کیا گئے کہ اسی لڑکی کی محبت میں گرفتار ہوکر وہیں کے ہوکر رہ گئے ۔ لازوال محبت کرنے والوں کے دلوں میں میں محبت کی یہ بھڑکتی ہوئی آگ نہ جانے کب تک اپنی تپش سے انہیں جلاتی رہی ٗ نہ جانے کون کونسی رکاوٹیں درمیان میں حائل ہوئیں ٗ نہ جانے ایک دوسرے کو حاصل کرنے کے لیے انہیں کیا کیا پاپڑ بیلنے پڑے ۔تاریخ اس معاملے میں خاموش ہے لیکن ہمیں یہ علم ضرور ہے کہ یہ دو پریمی نہ صرف ایک دوسرے سے ملتے رہے بلکہ ہمیشہ کے لیے یک جان اوریک قالب ہوکر زندگی کی شاہراہ پر گامزن بھی ہوئے۔ یہ واقعی ایک پر اثر اور رومانی کہانی ہے جو بظاہر تو عام سی دکھائی دیتی ہے لیکن اس کہانی کا ایک ایک لفظ اور ایک ایک لمحہ صدیوں پر محیط دکھائی دیتا ہے ۔

قابل ذکر بات تو یہ ہے کہ جس کی محبت میں وہ اوائل جوانی میں گرفتار ہوئے تھے وہ لڑکی اے حمید مرحوم سے بھی زیادہ خوبصورت لکھنے اور سوچنے والی رائٹر ہے ۔ ان کی تحریروں کے ہر ہر لفظ میں اے حمید مرحوم کی جھلک دکھائی دیتی ہے وہ عشق حقیقی کے ساتھ ساتھ عشق مجازی میں اب بھی غرق دکھائی دیتی ہے۔ شوہر کی حیثیت سے اے حمید مرحوم کی یادیں اور ان کے ساتھ گزرے ہوئے لمحات اب ان کی زندگی کا بہترین اثاثہ ہیں ۔اے حمید مرحوم کے ہاتھوں کی لکھی ہوئی ایک تحریر انہوں نے مجھے فراہم کی جو ذیل میں درج کی جارہی ہے آئیے ہم سب اے حمید مرحوم کے بارے میں جاننے کی جستجو کریں کہ وہ حقیقت میں کیا تھے ان کی زندگی کیسے گزری انہوں نے پھولوں ٗ بارش ٗ جنگلوں اور پرندوں سے والہانہ محبت کا اظہارکس کس انداز میں کیا ۔وہ اپنے دوستوں کے ساتھ کیسے تھے اور انہیں اپنے وطن پاکستان کی یاد نے کس قدر نڈھال کیے رکھا تھا کہ امریکہ کو خیرباد کہہ کر واپس لوٹ آئے ۔وہ اپنی جنم بھومی امرتسر کی یادوں کو آخری وقت تک کیوں سینے سے لگائے بیٹھے رہے ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان کا دامن بہت وسیع تھا جس میں انہوں نے اپنی ایک الگ کائنات کو تخلیق کررکھا تھا ۔ درج ذیل تحریر اے حمید مرحوم کے اپنے قلم سے لکھی ہوئی ہے جو انہوں نے 26-9-2004 کو تحریر کی تھی۔

امرتسر کے ایک متوسط کشمیری گھرانے میں پیدا ہوا۔ آباو اجداد کا تعلق وادی کشمیر سے تھا۔ ان کا پیشہ کشمیری شالوں کی چھوٹے پیمانے پر تجارت اور شال بافی تھا۔والد صاحب کو باڈی بلڈنگ یعنی پہلوانی کا شوق تھا ۔انہوں نے مجھے بھی پہلوان بنانے کا فیصلہ کرلیااور صبح صبح مجھے بستر سے جگاکر اپنے ساتھ اکھاڑے میں لے جاتے۔ تیل مالش کرتے ٗ اکھاڑے میں اتار کر مجھ پراور اپنے آپ پر اکھاڑے کی مٹی ڈالتے ٗ زور کراتے۔ اس وقت میری عمر چھ سات برس سے زیادہ نہ تھی ۔ والد صاحب کشمیری شیخ تھے ۔ والدہ صاحبہ کا تعلق بٹ فیملی سے تھا وہ مجھے لکھانا پڑھانا چاہتی تھیں مگر والد صاحب نے کہہ دیا تھا کہ یہ لڑکا پہلوان بنے گا کیکر سنگھ کے بیٹے سے کشتی لڑے گا اور اسے ڈھا کر امرتسری کشمیری مسلمانوں کانام اونچا کرے گا۔ مجھے بھی پہلوانی پسند نہیں تھی اس لیے کہ والد صاحب نے میری ٹنڈ کروا دی تھی جوپہلوانی میں بڑی ضروری ہوتی ہے۔ والدہ صاحبہ کے اصرار پر والد صاحب نے مجھے اسکول میں بھی داخل کروا دیا مگر ساتھ ہی ساتھ پہلوانی بھی کراتے رہے۔ امرتسر میں ایک بہت بڑا تالاب ہوتا تھا اس کا نام رام تلائی تھا۔ والد صاحب نے مجھے اس تالاب میں تیرنا سکھایا ۔ اسکول میں سوائے انگریزی اور اردو کے پیریڈ کے میرا بالکل دل نہیں لگتا تھا ۔ حساب میں بڑی مشکل سے نکل مار کر پاس ہوتا ۔ حساب کے پیریڈ میں اسکول سے اکثر بھاگ کر کمپنی باغ کی سیرکرتا رہتا تھا۔والد صاحب کو پتہ چلا تو انہوں نے میری خوب ٹھکائی کی ۔ یہ سلسلہ چل نکلا ۔ پہلے میں اسکول سے بھاگتا تھا پھر میں نے گھر سے بھاگنا شروع کردیا گھر سے بھاگ کر میں پہلی مرتبہ کلکتے چلاگیا ۔ کلکتے کی زکریا اسٹریٹ میں امرتسری کشمیری مسلمانوں کی کشمیری شالوں کی بڑی دکانیں تھیں۔ ان میں میرے پھوپھا اور چچا کی شالوں کی دکانیں بھی تھیں ۔میں گھر سے بھاگ کر ان کے پاس جاتا تو وہ مجھے پکڑ کر وہیں بٹھالیتے اور والد صاحب کو خط لکھ دیتے کہ لڑکے کو ہم نے قابو کرلیاہے کسی کو بھیج کر منگوالیں ۔چنانچہ پیغام ملتے ہی والد صاحب اپنے کسی پہلوان شاگرد کو کلکتے روانہ کردیتے جو مجھے گردن سے پکڑ کر امرتسر واپس لے آتا۔ واپس پہنچتا تو والد صاحب الگ ٹھکائی کرتے ۔ میں پھر گھر سے بھاگ جاتا۔ اب میں بھاگ کر بمبئی چلاجاتا اور وہاں آوارہ گردی کرتا ۔ جب پیسے ختم ہوجاتے اور فاقے آنا شروع ہوجاتے تو مجبورا گھر واپس آجاتا۔

اس زمانے میں ہی میرے دل میں یہ شوق پیدا ہوگیا تھا کہ برصغیر کی آوارہ گردی کرکے نئے نئے شہر دیکھوں جنوبی اور شمالی ہندوستان کے جنگل اور جنگلوں کی بارشیں دیکھوں ۔ ریل گاڑی میں بیٹھ کر لمبے لمبے سفر کروں ۔ بارش میں بھیگتی اور جنگلوں میں سے سیٹی بجا کر گزرتی ریل گاڑی کی کھڑکی میں بیٹھ کر بارش میں بھیگتے جنگلوں کے مناظر دیکھوں ۔یہ شوق اس قدر زیادہ تھا کہ میں بار بار گھرسے بھاگ کر کبھی بمبئی اور کبھی کلکتہ پہنچ جاتا۔ پیسے ہوتے تو ریل گاڑی کاٹکٹ خرید لیتا ٗ پیسے نہ ہوتے تو بغیر ٹکٹ ہی ٹرین میں بیٹھ جاتا ۔ اگر ٹی ٹی پکڑ لیتا تو میری کم عمری کی وجہ سے وہ مجھے جس ریلوے اسٹیشن پر پکڑتا وہیں ٹرین سے اتار دیتا ۔ میں ٹرین سے اتر کر پلیٹ فارم پر ایک طرف چھپ کر کھڑا ہوجاتا ۔ ٹرین وہاں سے روانہ ہونے لگتی توٹی ٹی کی نظر بچا کر گاڑی میں سوار ہونے کی کوشش کرتا ۔ کبھی سوار ہونے میں کامیاب ہوجاتا کبھی ٹرین نکل جاتی اور میں پلیٹ فارم پر بھاگتا رہ جاتا ۔

ایک بار پھر گھر سے بھاگ کر بمبئی جارہا تھا کہ بھوپال اور جھانسی کے شہروں کے درمیان ہمارے ڈبے میں ٹی ٹی ٹکٹ چیک کرنے آگیا میرے پاس ٹکٹ نہیں تھا۔ میری عمر اس وقت بارہ تیرہ برس کی ہوگی ۔ ٹی ٹی نے مجھے پکڑ کر اگلے اسٹیشن پر ٹرین سے اتار دیا۔ اس ظالم نے یہ بھی نہ سوچا کہ وہ مجھے ایک ایسے ویران اسٹیشن پر اتار رہا ہے جس کے اردگرد ست پڑا بھیانک جنگلوں کا سلسلہ پھیلا ہوا ہے۔ ساری رات میں نے ویران سے خالی خالی سٹیشن پر گزار دی ۔ دوسرے دن سخت بھوک لگی۔ اسٹیشن بالکل ویران تھا ۔ ٹرین آتی اور بغیر وہاں رکے دلی اور بمبئی کی طرف نکل جاتی جس ٹرین پر سے مجھے اتارا گیا تھا وہ پسنجر ٹرین تھی اور رات کے دس بجے آتی تھی۔ بھوک کے مارے میرابرا حال تھا۔ میرے پاس شاید دو تین آنے تھے ۔ ایک آنہ چار پیسوں کا ہوتا تھا۔ بھوک سے بے بس ہوکر میں اسٹیشن سے نکل کر لائنوں لائن بمبئی کی طرف چل پڑا ۔ اس خیال سے کہ آگے کوئی نہ کوئی ایسا اسٹیشن ضرور ہوگا جہاں کچھ کھانے پینے کو مل جائے گا۔ چل چل کر میرا برا حال ہوگیا مگر کوئی اسٹیشن نہ آیا۔ میں ریلوے لائن سے اتر کر جنگل میں داخل ہوگیا کہ شاید وہاں جنگلی پھل وغیرہ کھانے کو مل جائے ۔

بہرحال یہ ایک الگ ایڈونچر سی کہانی ہے کہ جنگل میں میرے ساتھ کیاگزری ۔ یہ سب کچھ بتانے کا میرا مقصد یہ ہے کہ مجھے بچپن اور لڑکپن ہی سے نئے نئے شہروں اور جنگلوں کی آوارہ گردی کا بے حد شوق تھااور میں نے اس زمانے میں بہت آوارہ گردی کی اور اس آوارہ گردی میں مجھے ایسے ایسے تجربے ہوئے اور ایسے ایسے واقعات پیش آئے کہ جن کو بڑے ہوکر جب میں نے اپنی کہانیوں میں بیان کیاتو لوگوں نے انہیں بہت پسند کیا ۔

ان حالات کے باوجود میں نے میٹرک تک تعلیم بھی حاصل کی ۔ امرتسر کے ایم اے او کالج میں داخل بھی ہوگیا مگر اس دوران پاکستان بن گیا اور میں بھی اپنے خاندان کے ساتھ امرتسر سے ہجرت کرکے لاہور آگیا۔ یہ اگست 1947ء کا زمانہ تھا۔لاہور میں آکر میں نے 1948ء میں اپنا پہلا افسانہ "منز ل منزل" لکھا جو ادب لطیف کے سالنامے میں چھپا اور اس پہلے افسانے سے ہی مجھے اردو ادب کے معیاری ادیبوں کی صف اول میں جگہ مل گئی ۔

لاہور میرے لیے کوئی نیا شہر نہیں تھا ۔ میرے دادا جان لاہور میں رہا کرتے تھے ان کا مکان موہنی روڈ پر تھا شادی کے بعد وہ امرتسرمیں واپس آگئے تھے ۔ افسانہ نگار بننے کے بعد میں نے ادب کو ہی ذریعہ معاش بنا لیا ۔ اس لیے کہ مجھے پہلی کہانی سے ہی معاوضہ ملنا شروع ہوگیاتھا۔ اس زمانے میں ایک افسانے کامعاوضہ مجھے پندرہ روپے اور بعد میں 25 روپے ملنے لگے تھے جو اس زمانے میں کافی رقم ہوتی تھی۔ اس سے آپ اندازہ لگالیں کہ اس زمانے میں گوشت جہاں تک مجھے یاد ہے ایک ڈیڑھ روپے کا سیر ملتا تھا ۔

پاکستان بننے کے بعد مشرقی پنجاب ٗ دلی اور یوپی سے کئی دوسرے ادیب اور شاعر بھی ہجرت کرکے لاہور آگئے تھے ۔ یہ سب میرے دوست بن گئے ۔ ان میں نمایاں نام یہ ہیں ۔ احمد راہی ٗ سیف الدین سیف ٗ اشفاق احمد ٗ شوکت صدیقی ٗ ظہیر کاشمیری ٗ ابن انشاء ٗ منیر نیازی ٗ ناصر کاظمی ٗ شہرت بخاری وغیرہ ۔جو ہم سے سنیئر تھے اور پہلے سے جن کا شمار اردو کے نامور اور ادیبوں میں ہوتا تھا مثلا شوکت تھانوی ٗ عبدالحمید عدم ٗ سعادت حسن منٹو ٗ حسن عسکری ٗ ڈاکٹر عبادت بریلوی ٗ وقار عظیم صاحب ۔ یہ ہمارے اساتذہ تھے اور مجھ سے بڑی شفقت کا سلوک کرتے تھے ۔ میں نے اورنٹیئل کالج سے ادیب فاضل کیا اور پرائیویٹ امتحان دے کر بی اے پاس کرلیا ۔

اپنی آوارہ گردیوں کے زمانے میں میں رنگون بھی گیا اور یہ دوسری جنگ عظیم کا زمانہ تھا۔ رنگون پر جاپانیوں نے پہلی زبردست بمباری کی تو میں بھی دوسرے لوگوں کے ساتھ رنگون سے فرار ہونے میں کامیاب ہوگیا۔ کیونکہ جاپانی فوج ایک طوفان کی طرح رنگون کی طرف بڑھتی چلی آرہی تھی۔ خوش قسمتی سے مجھے ایک سمندری جہاز میں جگہ مل گئی ۔ یہ رنگون سے روانہ ہونے والا آخری جہاز تھا جو بھاگے ہوئے مسافروں کو لے کر کلکتے جارہا تھا۔

اس کے بعد میں سیلون ( سری لنکا) کی طرف نکل گیا ۔ وہاں اس زمانے میں ایک امریکی ریڈیو اسٹیشن ہواکرتا تھا جو فوج کے لیے پروگرام نشر کرتا تھا ۔ اس ریڈیو سٹیشن کانام ریڈیو سی ایک SEACسیلون تھا۔ مجھے وہاں گیتوں بھری کہانی لکھنے اور براڈ کاسٹ کرنے کی نوکری مل گئی ۔ اسی زمانے میں پنجاب میں فسادات شروع ہوگئے اور قیام پاکستان کااعلان ہوگیا ۔ میں سری لنکا سے بھاگ کر امرتسر آگیا۔ ہر طرف فسادات کی آگ لگی ہوئی تھی۔ میں بھی اپنے گھروالوں کے ساتھ جلتے ہوئے امرتسر سے نکل کر لاہور پہنچ گیا اور خدا کاشکر ادا کیا کہ پاکستان آگیا ہوں ۔

غالبا 1952ء میں ریڈیو پاکستان لاہور سے بطور سٹاف آرٹسٹ منسلک ہوگیا ۔ میں ایک کلرک کی طرح کرسی کے ساتھ دفتر میں بیٹھ کر نوکر ی نہیں کرسکتا تھا۔ دفتر میں پابند ہوکر نوکری کرنا میرے مزاج کے خلاف تھا۔ ریڈیو کی نوکری میں وقت کی پابندی کی کوئی قید نہیں تھی ۔ ریڈیو کے سٹاف آرٹسٹ کو تین تین مہینے کاکنٹریکٹ ملتا تھا ۔ نوکری کی کوئی ضمانت نہیں تھی ۔ وقت پر آنے جانے اور دفترمیں بیٹھنے کی کوئی قید نہیں تھی ۔ میں یہی چاہتا تھا چنانچہ تیس چالیس برس تک میں ریڈیو پاکستان لاہور سے وابستہ رہا ۔ میرا کام فیچر ٗ ڈرامے اورگیتوں بھری کہانی لکھنا اور انہیں ریکارڈ کرنا ہوتاتھا۔ میں گھر سے فیچر و غیرہ لکھ کر لے جاتا۔ ریڈیو اسٹیشن پر آکر اسے ریکارڈ کراتا اور باقی وقت اپنے دوستوں کے ساتھ ریڈیوسٹیشن کے لان میں بیٹھ کر چائے پینے اور باتیں کرنے میں بسر کرتا۔ ریڈیو سٹیشن کا میرا زمانہ میری زندگی کا یادگار زمانہ تھا۔ وہاں میرے ساتھ ناصر کاظمی بھی بعد میں آکر شریک ہوگیا ۔ اساتذہ میں اخلاق احمد دہلوی اور صوفی غلام مصطفے تبسم صاحب بھی تھے جن سے ہم نے بہت فیض حاصل کیا ۔

پھر ایسا ہوا کہ میں نے وائس آف امریکہ کی براڈ کاسٹنگ سروس کے لیے امتحان دیا اور پاس ہوکر اپنی فیملی کے ساتھ واشنگٹن (امریکہ ) چلاگیا اور وائس آف امریکہ کی اردو سروس میں خبریں ترجمہ کرنے اور خبریں پڑھنے پر ملازم ہوگیا ۔ یہ پانچ سال کا معاہدہ تھا ۔ امریکہ میں وائس آف امریکہ کی سروس کا زمانہ بھی میری زندگی کا یادگار زمانہ تھا ۔ میں نے اپنے قیام امریکہ کے بارے میں ایک کتاب "امریکانو " لکھی جسے سنگ میل پبلی کیشنز نے شائع کیا ۔

دو اڑھائی برس پہلے لاہور کے ادیبوں کے ایک وفد کے ساتھ چین جانے کا بھی اتفاق ہوا ۔ یہ بھی ایک دلچسپ تجربہ تھا چین کا شہر شنگھائی مجھے بہت پسند آیا ۔ وہ آج بھی مجھے یاد آتا ہے لیکن میں جہاں بھی گیا پاکستان مجھے بہت یاد آتا رہا ۔ مجھے پاکستان کے تما م شہروں ٗ تما م میدانوں ٗ اس کے تمام پہاڑوں ٗ اس کی تمام وادیوں ٗ اس کے دریاؤں اور یہاں کے لوگوں سے محبت ہے ۔ میں امریکہ صرف اس لیے سیٹل نہیں ہوا کہ مجھے لاہور اور جہلم اور پوٹھوہار کے دہریک کے درخت اور حسن ابدال کے گلاب کے پھول اور پشاور کا قہوہ اور وادی کوئٹہ کی ہوائیں اور سندھ کے لوگ گیت اور یہاں کے لوگوں کی محبتیں اور پیار بہت یاد آتا تھا۔چنانچہ میں ملا ہوا گرین کارڈ چھوڑ کر امریکہ سے لاہور واپس آگیا اور خوش ہوں کہ اپنے پاک وطن کی ہواؤں میں واپس آگیاہوں ۔ یہاں گردو غبار ہے ٗ شور ہے ٗ ملاوٹ ہے اور نہ جانے کیاکیا کچھ ہے مگر یہاں کے لوگوں نے مجھ سے پیار کیا ہے مجھے عزت بخشی ہے اورمجھے ایک شناخت دی ہے اور مجھے وہ محبت اور پیار دیا ہے جو اگرمیں ایک ہزار برس بھی امریکہ میں رہتا تو مجھے کبھی نہیں مل سکتا تھا ۔

اﷲ رب العزت نے جب حضرت حوا علیہ السلام کو پیدا فرمایا تو حضرت آدم علیہ السلام کو حضرت حوا علیہ السلام کی کشش بے حدمحسوس ہونے لگی ۔حضرت آدم علیہ السلام نے اﷲ تعالی سے التجا بھرے لہجے میں کہا اے پروردگار یہ کونسی مخلوق آپ نے پیدا فرمائی ہے کہ میرا دل اسی کی جانب کھینچا چلا جارہا ہے ہر لمحے اسی کی سوچ مجھے اپنے حصار میں لیے رکھتی ہے ۔اﷲ تعالی نے فرمایا اے آدم ( علیہ السلام )یہ آپ ( علیہ السلام ) کے جسم کا ہی حصہ ہے جس کی کشش آپ اپنے دل میں محسوس کرتے ہیں ۔محبت کی لازوال داستانوں سے تاریخ عالم بھری پڑی ہے مردوں ٗ عورتوں پر جان نچھاور کرتے دیکھے ہیں عورتیں مردوں سے محبت کے اظہار کے لیے سخت سردیوں اور رات کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ٹھاٹھیں مارتے ہوئے دریائے چناب میں کچے گڑے پر پھلانگتی ہوئی بھی نظر آتی ہیں یہ سب داستانیں نہ جانے سچی ہوں یا نہ ہوں لیکن اے حمید اور ریحانہ اے حمید کی لازوال محبتوں کی بے مثال داستان اس قدر سچی اور پاکیزہ ہے کہ آج بھی ادبی حلقوں میں جن بے مثال جوڑوں کا میاں بیوی کی حیثیت سے ذکر کیا جاتا ہے ان میں اے حمید اور ریحانہ حمید کا ذکر اولین صفحات میں ہوتا ہے ۔یہ دونوں پیار ے کرنے والے آ ج بھی ایک دوسرے کے لیے سسکیاں لیتے ہوئے محسوس ہوتے ہیں اے حمید کو قبر میں کہاں سکون میسر آتا ہوگا وہ کھنکھناتے ہوئے گلابوں سے معطر خوبصورت ہاتھوں کی بنی ہوئی کشمیری چائے کو پینے کے لیے وہاں بھی بے تاب ہوتے ہوں گے ۔اس دنیا اور اس دنیا میں فرق ہی کتنا ہے انسان جسمانی طور پر تو جدا ہوجاتا ہے لیکن روح محبت کے وہ تمام تقاضے پورے کرنا نہیں بھولتی جو زندگی میں اس سے انجام پذیر ہوتے رہے ہیں ۔کسی بزرگ نے کیا خوب کہاتھا کہ اگر مچھلی انسانی پیٹ میں جانے کے بعد بھی پانی مانگتی ہے تو انسان وہ باتیں اور کام کیسے بھول سکتا ہے جو وہ دنیا میں انجام دیتا رہا ہے ۔ محبت تو وہ لافانی جذبہ ہے جس کا مرکز و منبع خود اﷲ تعالی کی ذات ہے وہ اپنے بندوں سے ستر ماؤں جتنا پیار کرتا ہے اس محبت کی وجہ سے وہ انسان کی خطائیں لکھنا تو بھول جاتا ہے لیکن نیکیوں کو فراموش نہیں کرتا ۔ اے حمید مرحوم اور ریحانہ حمید محبت کے لازوال رشتوں میں بندھا ہوا ایک ایسا خوبصورت جوڑا ہے جن کی داستانیں آج بھی الفاظ کی بجائے پھولوں سے آراستہ دکھائی دیتی ہیں اور یہ پھول ہر گلشن اور ہر محبت کدے میں ہمیشہ کھلتے رہیں گے ۔کاش ہم سب اے حمید کی طرح پیار کریں کاش ہر عورت اپنے شوہر کی بیگم ریحانہ جیسی پرستش کرے ۔ جن کی زندگی کاایک ایک لمحہ اپنے شوہر اے حمید مرحوم کی یادوں کا غلام بن چکا ہے ۔بہتی ندیوں کی رفتار تو کم ہوسکتی ہے پہاڑوں کی بلندیوں کو زوال آسکتا ہے لیکن دو پیارکرنے والوں کا جذبہ محبت کبھی کم نہیں ہوسکتا ہے کیونکہ سچے جذبے لفظوں اور جذبوں کے اظہار کے محتاج نہیں ہوا کرتے بلکہ یہ پھولوں کی خوشبو کی مانند سانسوں میں ڈھل کے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے امر ہوجایا کرتے ہیں ۔ اب جب اے حمید کو ہم سے جدا ہوئے تین سال ہوچکے ہیں ان کی یادوں کے گلابوں کی خوشبو آج بھی ان کے گھر کے ہر گوشے سے مسلسل آرہی ہے یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان کی کتابوں اور تصویروں کو زبان مل چکی ہے اور یہ ایسی زبان ہے جسے صرف او ر صرف ریحا نہ حمید ہی سمجھ سکتی ہے کیونکہ وہ آج بھی اے حمید کو پہلے سے بھی زیادہ شدت سے چاہتی ہے دو دلوں کا یہ ملاپ اگر جسمانی نہیں ہوسکتا تو روحانی ملاپ کو دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی ۔اﷲ تعالی کو محبت خود بہت پسند ہے اس لیے وہ دو پیار کرنے والوں کے جذبہ محبت کو مزید شعلہ بنا دیتا ہے جس طرح پروانے شمع کے گرد چکرلگاکر جلنے سے نہیں گبھراتے اسی طرح ریحانہ حمید ٗ اے حمید کی یادوں میں کھو کر زندگی کا اختتام کرنا چاہتی ہے ۔سلام ہو اس محبت کرنے والوں پر ۔

Anees Khan
About the Author: Anees Khan Read More Articles by Anees Khan: 124 Articles with 126695 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.