حضرت جی رابع: ایک ہمہ جہت شخصیت
مولانا محمد جہان یعقوب
الحمدللہ !تبلیغی جماعت” اپنی صلاح اوردوسروں کی اطلاع“ کے امتیازی نشان کے
ساتھ اپنے قیام کے روزاول سے دعوت دین کے میدان میں” اپنی جان،اپنامال
اوراپناوقت“ کے اصول کے تحت مصروف کارہے۔یہ اخلاص وللہیت سے بھرپورجماعت
ہرقسم کی موافقت ومخالفت اورتنقیدوتحسین سے بالاترہوکراپناکام کررہی
ہے۔دعوت دین علیٰ منہاج السنہ اس کاطرہ امتیازہے۔کسی قسم کے تشہیری ذرائع
کااستعمال اس جماعت نے کبھی بھی نہیں کیا۔یہاں دعوت واطلاع کاسلسلہ سینہ نہ
سینہ چلتاہے۔یہ اخلاص ہی کی برکت ہے کہ اس کے اجتماعات میں لوگوں کاٹھاٹھیں
مارتاسمندرامڈآتاہے ،جس میں آقاوغلام،امیروفقیر،شاہ وگدا،اصحاب جاہ ومنصب
اورفاقہ مست گدڑی پوشوں تک ہرقسم کے مردوزن موجودہوتے ہیں،مگرکسی کے لیے
کوئی امتیازی شان وشوکت اورانتظام واہتمام نہیں کیاجاتا،بلکہ سب کی ایک ہی
قدرمشترک کوملحوظ رکھاجاتاہے کہ سبھی شاہ دوجہاں ﷺ کے امتی،ان کے سونپے
ہوئے کارتبلیغ کے امین اوراپنی اصلاح کے طالب ہیں۔دنیااس جماعت کودیکھ
کرحیران وانگشت بدنداں رہ جاتی ہے کہ ان کواپنے گردوپیش کی مطلق کوئی
خبرنہیں بلکہ گرمی وسردی،بہاروخزاں،سازگاروناسازحالات میں یہ لوگ
ہرشہراورقریہ ،گاؤں اوردیہات میں ایک ہی صدالگاتے نظرآتے ہیں کہ ہماری
اورآپ کی بلکہ سارے عالم کے انسانوں کی دونوں جہانوں کی کامیابی اللہ
تعالیٰ نے اپنے دین اوررحمت للعالمین ﷺ کے نورانی طریقوں میں رکھی ہے۔وقت
کے ساتھ ساتھ ہرجماعت اورتنظیم اپنے طریق کاراوراغراض ومقاصدمیں تبدیلی
لاتی ہے مگریہ جماعت روزاول سے جس ترتیب پرچل رہی تھی اب بھی اسی ترتیب
پرگامزن ہے اوررہے گی(ان شاءاللہ)
حضرت اقدس شیخ الحدیث پیرطریقت رہبرشریعت مولانامحمدزبیرالحسن اسی جماعت کے
امیرتھے۔آپ نے باوجودایک عبقری شخصیت اورعلم وعمل کاپہاڑہونے کے اس جماعت
کوانہی اصولوں پرچلائے رکھا،جن پران کے والدگرامی حضرت جی مولانامحمدانعام
الحسن رحمہ اللہ تعالیٰ چھوڑکرگئے تھے۔آپ کوفیاض ازل نے عظیم نسبتیں ہی
عطانہیں فرمائی تھیں،بلکہ آپ میں ان تمام نسبتوں کاعکس بھی صاف
نظرآتاتھا۔آپ کی تعلیم وتربیت کے آغازمیں جورائے پوری جمال کارفرماتھا،آپ
نے تاحیات اس کی لاج رکھی۔حضرت مولاناشیخ عبدالقادررائے پوری رحمہ اللہ
تعالیٰ نے آپ کوصرف حفظ قرآن کی الف باکراکے چھوڑنہیں دیاتھا،بلکہ ان کی آپ
پرخصوصی شفقتیں ہمیشہ سایہ فگن رہیں اوران کی روحانی توجہ نیزشفقت ورافت نے
اس جوہرآب دارمیں وہ چمک دھمک،اورحسن وجمال پیدا فرمالیاتھا جوکسی رائے
پوری نسبت کے امین میں ہونی چاہیے۔شیخ الحدیث حضرت مولانامحمدزکریارحمہ
اللہ تعالیٰ کسی کوبیعت یوں ہی نہیں کردیاکرتے تھے،اس معاملے میں وہ
اکابرمیں سب سے بڑھ کرمحتاط تھے،ان کاآپ ؒ کوبیعت کرنااس بات کی غمازی
کرتاتھاکہ انہوں نے اس فردفریدمیں کچھ دیکھاہے، آپ ؒ نے ا س بیعت کے تقاضوں
کواپنے تقویٰ وطہارت اورریاضت وانابت الی اللہ کے ذریعے یوں نبھاکردکھایاکہ
حضرت شیخ الحدیث ؒ نے بہت ہی کم عرصے میں آپ کوخرقہ خلافت واجازت سے
نوازا،اور وہ بھی چھوٹی سی عمرمیں اوروہ بھی بعجلت تمام کہ جب چارروزبعدآپ
حرمین کی مقدس فضاؤں کوچھوڑکراپنے وطن مالوف کی طرف عازم سفرہونے والے
ہیں....
حضرت شیخ ؒ نے آپ کوخلافت کی عظیم ذمے داری سونپتے ہوئے اپنے حسن ظن کاہی
اظہارنہیں فرمایابلکہ ان کے والدگرامی حضرت مولانامحمدانعام الحسن ؒ کویہ
بھی لکھاکہ ہونہارکی تربیت فرماتے رہیں،گویاخلافت دے کرغافل نہیں ہوگئے۔اب
ایک طرف سے حضرت شیخ الحدیث ؒ کی روحانی توجہات اوردعائیں اوردوسری طرف سے
والدبزرگورکی تربیت کافیضان،جس نے آپ کواسلاف کاحقیقی جانشین بناکرہمہ جہت
کمالات عطاکیے۔یہ حضرت شیخ الحدیث ؒ ہی کی صحبت وتربیت کاہی اثرتھاکہ
باوجودتبلیغی مصروفیات کے آپ ؒ نے تدریس کاسلسلہ نہ صرف جاری رکھا،بلکہ
تقریبا25سال تک برابر بخاری شریف پڑھانے کاشرف حاصل کیا۔آپ کے درس بخاری
میں اپنے اساتذہ بالخصوص حضرت شیخ الحدیث ؒ کارنگ جھلکتاتھا۔آپ ایک کامیاب
ترین مدرس تھے اوردوران درس کتاب کے لب لباب کویوں طلبہ کے سامنے رکھ
دیاکرتے تھے جیسے تیارکھاناپلیٹ میں رکھاہو۔آپ درس بھی اسی خوش الحانی سے
دیاکرتے تھے،جوخوش الحانی آپ کی خطابت وتلاوت میں صاف نظرآیاکرتی۔آپ کواللہ
تعالیٰ نے حسن ظاہری وباطنی اورخوش الحانی کی نعمتوں سے خوب خوب
نوازرکھاتھا،آپ کامترنم بیان اورلحن داؤدی آپ کودوسرے اکابرتبلیغ سے ایک
ممتازشان عطاکرتاہے۔
امربالمعروف اورنہی عن المنکرکاجوش وولولہ ،جذبہ واخلاص آپ ؒ کواپنے
خاندانی بزرگوں سے وراثت میں عطاہواتھا۔آپ کواپنے والدبزرگوارحضرت
مولانامحمدانعام الحسن ؒ کے دعوتی اسفار،تبلیغی اشغال اور روز و شب دیکھنے
کاموقع ملا،جس سے آپ میں یہ تمام صفات بدرجہ اتم منتقل بھی ہوئیں ،بلکہ آپ
نے والدگرامی قدرکی سرپرستی میں عملی طورپربھی اس عظیم فریضے
کواداکیااورانھوں نے آپ کی تربیت بھی کمال درجے کی فرمائی کہ کسی دم اس سے
غافل نہ ہوئے اورجب جب اورجہاںجہاں مناسب جانااصلاح بھی فرمائی۔آپ کے
والدبزرگوارنے آپ کی ایک استاداورشیخ کی طرح ہمہ جہت تربیت فرمائی اوراپنے
بزرگوں حضرت مولانامحمدالیاس،حضرت مولانامحمداکرام الحق ؒ وحضرت
مولانامحمدیوسف ؒ کی نسبت آپ کی جانب منتقل بھی فرمائی۔چنانچہ جب والدمحترم
کی رحلت کے بعددعوتی وتبلیغی امورکی گراں بارذمے داریاں آپ کے کندھے پرپڑیں
توآپ نے ان کاحق اداکیااوربلامبالغہ اپنے بزرگوں بالخصوص والدمرحوم کاعکس
جمیل ثابت ہوئے۔آپ کے دورامارت میں بحمداللہ تبلیغی کام ساتوں براعظموں تک
پھیلااوراس عالمگیریت کے پیش نظراہم فیصلوں کے لیے پاک وہندکے علمائے کرام
واکابرتبلیغ پرمشتمل ایک مرکزی شوریٰ بھی عمل میں آئی جس کے سربراہ آپ
تھے۔اس نظام کے تحت بڑے منظم اندازسے نبوی دعوت عالم بھرمیں پہنچی۔
فجزاہم اللہ تعالیٰ احسن الجزاءفی الدارین ابدا!! آپ کومدرسہ مظاہرالعلوم
سہارنپورسے جنون کی حدتک وابستگی تھی۔کیوں نہ ہوتی کہ آپ کاخمیرہی یہاں سے
اٹھاتھا۔یہ مدرسہ صرف آپ کی مادرعملی نہیں تھا،بلکہ آپ نے اپنے والدگرامی
اورحضرت شیخ الحدیث رحمہماللہ کی موجودگی وسرپرستی میں عملی تبلیغی
سرگرمیوں کاآغازبھی نہیں سے فرمایا،جس مجمعے میں آپ نے چھے نمبروں
پراپناپہلاتبلیغی بیان فرمایااس میں یہ دونوں بزرگ بنفس نفیس تشریف
فرماتھے۔یہ 9اگست4 197جمعة المبارک کادن تھا۔ مادرعلمی سے یہ تعلق ہرآئے دن
کے ساتھ ترقی کرتارہااورساری زندگی آپ کے اس تعلق میں کسی قسم کی مشغولیات
ومصروفیات اوراسفاررکاوٹ نہ بن سکے،آپ جہاں بھی ہوتے مادرعلمی ضرورتشریف لے
جاتے تھے ۔
اپنی تبلیغی وتدریسی مصروفیات کی وجہ سے آپ کاپاکستان کم کم آناہوا،آپ صرف
سالانہ تبلیغی اجتماع پرتشریف لایاکرتے تھے اورعوامی مجمعے کے ساتھ ساتھ
نوجوانوں اورطلبہ میں بھی خصوصی بیان فرمایاکرتے تھے۔جن خوش قسمت جوروں کے
نکاح اس بابرکت اجتماع میں ہوتے تھے ،وہ بھی آپ ہی پڑھایاکرتے تھے
اورمختصرنصیحتیں بھی ارشادفرمایاکرتے تھے،جومستقبل میں ازدواجی وخانگی
معاملات میں مشعل راہ کاکام دیتی تھیں۔اللہ تعالیٰ نے آپ کوتقریروبیان
کاخاص ملکہ عطافرمارکھاتھا۔دھیمے مگرمترنم اندازمیں قرآن وحدیث اورعربی
اشعارسے مزین بیان فرماتے تھے،جس میں سازوسوزاورلے وترنم کی مالاکسی موقعے
پربھی ٹوٹنے نہ پاتی تھی اورمجمعہ کسی بڑے خطیب کی تقریرکی طرح اول تاآخردم
سادھے ہمہ تن گوش ہوکراس مردولی وولی زادہ کابیان سنتااوراس فکروکڑھن سے
اپنے نصیبے کے مطابق حصہ پاتاتھا،جوآپ کی دعوت وتقریرکامرکزومحورہوتی تھی۔
آپ علمائے کرام سے خاص تعلق رکھتے تھے اوربڑی شگفتہ مزاجی وخندہ پیشانی سے
ملتے تھے،انہیں تحائف دیتے اوران کے تحفے قبول فرمایاکرتے تھے۔انہیں اس
عظیم ذمے داری کی طرف متوجہ کرتے اوراس کی نزاکتوں سے آگاہ کیاکرتے
تھے۔عوام سے آپ کابرتاؤمشفقابہ ومربیانہ ہوتاتھا۔انہیں علمائے کرام کی عزت
کرنے اوران سے تعلق رکھنے نیزان سے پوچھ پوچھ کرچلنے کی نصیحت فرمایاکرتے
تھے۔اللہ تعالیٰ نے آپ کوعجزوانکساری وبے نفسی وفروتنی کاخاص حصہ ودیعت
فرمارکھاتھا،اصاغرسے بھی یوںپیش آتے تھے کہ جیسے کسی بڑے سے مل رہے ہوں۔
تبلیغی جماعت کے اکابر کاایک خاص مزاج ہے اوریہ حضرات کتاب وکیسٹ کی بجائے
بالمشافہہ افادے واستفادے کے قائل رہے ہیں۔ناگزیرحالات وضروریات کے علاوہ
ان ذرائع کااستعمال کرنے کے قائل نہیں،یہی وجہ ہے کہ ان حضرات کی زندگی
اورشب وروزکے معمولات نیزکمالات وکرمات سے بھی وہی لوگ مستفیدہوسکتے ہیں
جنہیں خروج کی سعادت نصیب ہوئی ہو۔حضرت مولانامحمدزبیرالحسن ؒ بھی اسی ذوق
کے حامل تھے،جس کی وجہ سے اہل پاکستان تک ان کی پوری شخصیت وکمالات نہ پہنچ
سکے یامخصوص حلقے تک ہی پہنچ پائے،بایں ہمہ وہ ایک عبقری شخصیت،پیکرعلم
وعمل،نمونہ اسلاف،صاحب کشف وکرامات اورامت اجابت کی استقامت علی الدین
نیزامت دعوت کی ہدایت کے حریص اوراس مقصدکی خاطراپناسب کچھ نچھاورکرنے والی
شخصیت کے روپ میں ہمیں نظرآتے ہیں۔اس کے ساتھ ساتھ ہمیں ان میں یہ وصف بھی
نمایاں طورپرنظرآتاہے کہ وہ ہندوستان کے معروضی حالات ،ان میں مسلمانوں کے
کردارومقام اورمشکلات ومصائب کابھی خوب ادراک رکھتے تھے اوراس حوالے سے
بروقت راہ نمائی اورسرپرستی بھی فرماتے رہے۔ |