786
ایک بیوی نے اپنے شوہر سے شکوہ کیا کہ ڈارلنگ! میں اتنی حسین و جمیل ہوں پر
آپ میری تعریف کبھی نہیں کرتے۔ آج دو لائنوں میں میری تعریف کریں۔ شوہر
بولا: واﷲ تم اتنی خوبصورت ہو کہ تمہارے جیسی دو ہونی چاہئیں اور یہ کہ: تم
اتنی خوبصورت اور کمینے دل کی مالک ہوکہ اﷲ تعالی میرے دشمنوں کو ایسی چار
بیویاں دیوے! بہرحال، یہ تو ایک لطیفہ تھا اب بات ہے حسن اور حسن نکھارنے
کی تو،اسکے زیادہ تر طور طریقے ویسے تو بیسیکلی خواتین ہی استعمال کرتی
ہیں، پر آجکل کے مرد بھی خواتین سے کسی طور پیچھے نہیں اور میک اپ شیک اپ،
فیشل ویشل ِ ، تھر یڈنگ مریڈنگ وغیرہ تو معمول کی بات ہے۔زندگی کے مختلف
طبقے کے لوگ اپنا حسن سنوارنے کے لیے کیا کچھ کرتے ہیں، آئیں دیکھیں۔
سیاستدان اپنا حسن کیسے نکھاریں گے:
ہمارے ملک کی سیاست ہمیشہ ہی طوائفوں میں ہی گھری رہتی ہے اور اس میں مختلف
قسم کے سیاستدان پائے جاتے ہیں مثلا: وگ والے سیاستدان، گنجے سیاستدان،
بالوں والے سیاستدان، چشمے والے سیاستدان، بغیر چشمے والے سیاستدان، مولوی
سیاستدان، غیر مولوی سیاستدان، بوڑھی، شادی شدہ اور کنواری سیاستدان وغیرہ
وغیرہ۔۔۔ خواتین کے حسن نکھارنے کے طریقے تو سبھی جانتے ہیں، لیکن یہاں
ہمارا موضوع صرف مرد حضرات ہیں۔ مثلا: اچھا میک ا پ کرنے کے لیے سیاستدانوں
کے لیے ضروری ہے کہ وہ عوا م کے خون سے ایک ہموار بیس بنا کر مہنگائی کی
فاؤنڈیشن لگائیں ٰٓٓٗ پھر بیروزگاری کا موئسچرا ئزر لگا کر آگے بڑ ھیں۔
فاؤنڈیشن کے شیڈ چوز کرنے کے لیے عوام کو نت نئے قسم کے بیان دیکر ولا
دیں۔فاؤنڈیشن میں عوام کے خون پسینے کی حلال کی کمائی ملا کر اسے اپنے چہرے
پر لیپ کریں۔ اگر نکھار نہ آئے تو مزید ٹیکس لگا کر مزید نچوڑیں اور پھر مر
گئے، لٹ گئے کا فاؤنڈیشن ملا کر اپلائی کریں۔اگر یہ جلد میں جذب ہو کر رنگت
سے میچ کر جائے یعنی ٹارگیٹ اچیو ہو جائے تو سمجھیں کہ آپکا تجربہ کامیاب
رہا۔غلط اور بازاری قسم کے فاؤنڈیشن استعال کرنے سے چہرے کی حقیت سامنے
آجاتی ہے لہذا ٹیکس لگاتے وقت اس چیز کا خاص خیال رکھیں۔فاؤنڈیشن لگاتے وقت
خیال رہے کہ وہ عوام کے پیسٹ کی شکل میں ہو۔ اصلی حالت میں نہ ہو۔ اسے چہرے
کے تھوڑے تھوڑے فاصلے پر لگائیں اور گردن اور کاندھوں پر بھی لگائیں اسکے
بعد بجلی کی لوڈشیڈنگ سے اسے آہستہ آہستہ جذب ایسے کریں جیسے عوام مہنگائی
کو جذب کرتے ہیں ۔اسکے لیے عوام کا ہی کا سمیٹک اسفنج استعمال کریں اور یہ
بھی دھیان رہے کہ چہرے پر فاؤنڈیشن لگاتے وقت عوام کا خیال ذہن میں بلکل نہ
رکھیں ورنہ اصلیت بھی کھل سکتی ہے۔عوام کے پیور خون سے کلینزنگ کرتے وقت
بار بار پانی یا خون اپنے ہاتھوں پر بھی لگائیں۔ سکربنگ عوام کی گردن سے
شروع کریں اور پاؤں تک لے جائیں تاکہ پورا جسم مستفید ہو۔ یہ اسکربنگ والا
فارمولا تقریبا ہر حکومت ہی آزماتی ہے اور کامیاب رہتی ہے۔ اسکے بعد دوبارہ
کسی غریب کو اسفنچ بنا کر ہاتھوں میں اوگی کارٹون کی طرح اچھی طرح بھینچ کر
اس سے صاف کرلیں۔ اسکے بعد دہشت گردی کے ٹونر سے اسکن کی ٹوننگ کریں۔ اسکے
بعد عوامی وعدوں کی کریم سے چہرے کا خوب اچھی طرح مساج کریں اور جب تک نہ
اتاریں جب تک ان (عوام) کی چیخیں نہ نکل جائیں۔ آ خر میں غنڈہ گردی ، جھوٹ
، مکاری، فریب کاری کا ماسک لگائیں۔ ماسک میں عوام کا معجون اور اسی کے
نچوڑ سے بنا دودھ لیکر اچھی طرح مکس کر کے چہرے پر لگائیں، خشک ہو جائے تو
اتار لیں اور آخر میں عوام کے پسینے کے عرق سے اسے دھو ڈالیں۔ میک اپ کرتے
وقت گردن کا خاص خیا ل رہے کہ عوام کی گردن اور چھری میں زیادہ فاصلہ نہ ہو
اور چہرے اور گردن کی رنگت ایک جیسی ہو ۔ اگر کلر کا مسئلہ درپیش ہو تو کسی
عوام دشمن قانون کو منظور کرا کر اسکا عرق شامل کر کے چہرے اور گردن کا
مساج کریں تو مزید نکھار آ جائیگا۔ پرابلم کی صورت میں کسی بھی قریبی پارلر
فون کریں یا تشریف لے جائیں۔
مزید یہ کہ چہرے کے کالے دھبے چھپا نے کے لیے رشوت کے لیبل اور پھر ہیروئن
کا فیس پاؤڈر لگا کر فاؤنڈیشن زیادہ ٹائم لگی رہنے دیں۔ عوام کو باتوں کے
فیشل کے بعد انکے بال کنڈلے کر کے بیانوں اور باتوں اور اجلاسوں کے کنڈلوں
میں الجھا کر مہینوں بٹھائے رکھیں۔ویسے یار! مو لوی سیاستدانوں کے لیے
مسئلہ ہے کہ فیشل یا میک اپ کو ن کریگا؟ مرد یا عورت؟ اگر عورت بھیج دی تو
انکے لیے محرم اور نامحرم کا اشو کھڑا ہو جائیگا ، اگر مرد بھیج دیا تو
کہیں گے کہ لو اب ہم میک اپ کیا مردوں سے کرائیں! ۔ ویسے بھی تحفظات والے
مولوی صاحب آجکل حکومت سے کچھ نالاں نالاں سے ہیں، مزید نالاں ہوگے تو کیا
ہوگا ؟ کئی ایک سیاستدانوں نے حرام کا مال کھا کھا کر اور عوام پر ظلم کے
پہاڑ توڑ توڑ کر اپنے چہروں پر اتنی کچھ منحوست سجائی ہوتے ہے کہ انکے
منحوس چہرے تیزاب سے بھی دھوو تو بھی صاف نہ ہونگے اور نہ نکھریں گے۔ اسی
طرح اور بہت سے زانی ، شرابی کبابی سیاستدان بھی پائے جاتے ہیں کہ جن کے
مکروہ چہروں پر کوئی فیشل میشل اثر نہیں کرتا۔ویسے اگر سچی مچی میں کوئی
لیڈی کسی مولوی کا میک اپ کر رہی ہو تو وہ سین پاٹ دیکھنے ولا ہوگا اور یو
ٹیوب پر نمبر ون بن جائیگا!۔
بزنس مین کا حسن
بزنس مینوں نے حرام کا مال اکٹھا کر کے اور ذخیرہ اندوزی سے کمایا ہوا مال
کھا کھا کر اپنا حسن اتنا بگاڑا ہوا ہوتا ہے کہ ان پربھی کوئی فیشل یا
فاؤنڈیشن کام نہیں کرتی۔ مثلا آلو کو ہی لے لیں کہ پندرہ روپے سے اسی روپے
کلو پر پہنچا دیا۔ تاہم پھر بھی کچھ بزنس مین ابھی ایسے ہیں کہ جن پر فیشل
کا اثر اچھا ہوتا ہے اور وہ عوام کے کچومر کا ماسک اکثر اپنے چہرے پر لگا
کر حسن نکھارتے رہتے ہیں۔تاہم کچھ شریف بزنس مین یہ حسن گاجر اور کھیرے کے
ماسک سے بھی سنوار لیتے ہیں۔آ ج کا بزنس مین بہت اڈوانس ہو چکا ہے اور چن
چن کر ایسے لونڈے کاروبار میں رکھتا ہے جو دکھنے میں چکنے اور فیشل وغیرہ
کراتے رہتے ہوں۔
سرکاری ملازم کا حسن ۔
سرکاری ملازم دو طرح کے ہوتے ہیں۔ ایک رشوت خور، ایک بغیر رشوت خور۔رشوت
خور پر تو کوئی میک اپ ، شیک اپ یا فیشل کام ہی نہیں کرتا کہ اسکے منہ پر
ویسے ہی حرام کھانے کی وجہ سے بہت پھٹکار ہوتی ہے۔ البتہ بغیر رشوت والا
ملازم اس فیشل سے کچھ فائدہ اٹھا سکتا ہے اور فاؤنڈیشن اور بیس کے بغیر بھی
اسکا حسن زیادہ دیر تک قائم رہ سکتا ہے۔کچھ سرکاری ملازم کام پر جاتے ہی
نہیں اور گھر بیٹھے حرام کھاتے ہیں۔ کچھ ایسے ہیں کہ کام پر تو جاتے ہیں پر
ادھر ادھر ٹائم پاس کر کے واپس گھر یا پھر اپنے پارٹ ٹائم کام پر۔ تو میرے
بھائی ان پر بھی کوئی فیشل، فاؤنڈیشن یا فیئر اینڈ لولی کام نہیں کرتی۔
کھلاڑی کا حسن
کھلاڑی کسی بھی کھیل کا ہو کھلاڑی ہی ہوتا ہے۔ کھلاڑی اگر میچ فکسنگ میں
ملوث نہ ہو تو اسکا حسن بغیر کسی مٹیریل کے نکھر سکتا ہے۔ تا ہم اگر میچ
فکسنگ میں ملوث ہوا تو پھر مشکل ہے کہ اسپر میک اپ کا کوئی اسٹیپ کام کرے ۔
کھلاڑی اگراچھا کھیلے تو تو واپسی پر سری لنکا کی کرکٹ ٹیم اور سٹریٹ چائلذ
فٹ بال ٹیم طرح انپر ڈالروں اور روپوں کی بارش، ورنہ انڈوں اور ٹماٹروں کی
۔ تو ایسے میں حسن نہیں کچھ اور ہی نکھر جائیگا۔کیا خیال ہے آپکا؟
اناڑی کا حسن
اناڑی بندے نے حسن نکھارنا نہیں بلکہ بگاڑنا ہوتا کہ فاؤنڈیشن، بیس،
کلرمیچنگ، سکربنگ، لیپ ، نکھار، رنگت، پیسٹ، جذب، کلینزنگ، مساج، اسفنچ،
ٹوننگ،کاسمیٹک، ماسک، عرق، وغیر ہ جیسے الفاظ اور کاموں کا اسنے براحشر
کرکے اپنا بھی برا حال کرلینا ہے، تے اینوں جان دیو!
ایک عام آدمی کا حسن
اس بیچارے نے کیا حسن نکھارنا ہے کہ ا س کے پاس اتنے فالتو پیسے اور ٹائم
بچے گا تو وہ کچھ ا پنے حسن کو سنوارنے کے بارے میں سوچے گا ۔ ویسے اگر
نکھارنے بھی بیٹھے تو حسن نکھارنے سے پہلے اسکا خرچہ دیکھ کر ہی اسکا سارا
حسن بگڑ جائیگا۔ لہذا اس بیچارے کو تو کپڑے دھونے والے صابن کی ایک چکی یا
پھر دس روپے والے سرف کا ایک پیکٹ ہی کافی ہے، پورا جسم ہی نکھر جائیگا۔
ویسے تو یہ بیچارہ گھر اور دنیا داری کے بکھیڑوں میں اتنا مگن ہوتا ہے کہ
اسے نہیں پتہ کہ میک اپ یا حسن نکھارنا ہوتا کیا ہے؟ویسے پچھلے زمانے میں
میک اپ میں زیادہ جھنجٹ نہیں تھا۔ خواتین ایک تبت سنو کریم اور ایک لپ اسٹک
سے کام چلالیتی تھیں۔ اب بھی اگر صرف یہی فارمولا استعمال کیا جائے تو بہت
سستے میں حسن نکھارنے کا کام ہو سکتا ہے۔
ایک اداکار کا حسن نکھارنا
اسکا تو کام ہی سارا دن حسن نکھار کر جلوے دکھا کر دوسروں کو گھائل کرنا
ہوتا ہے۔انکے حسن نکھارنے کے لیے تو کئی کئی بندے اور بندیاں رکھی گئی ہوتی
ہیں کیونکہ اسکے بغیر وہ اس قابل نہیں ہوتے کہ اسکرین پر آسکیں۔آپ دیکھیں
کہ نانا پا ٹیکر ، رجنی کانت ، نصیرالدین شاہ، شترو گھن سنہا جیسے لوگوں کو
بھی میک اپ کے ذریعے ہیرو کے روپ میں پیش کر د یا جاتا ہے۔ یہ حسن نکھارنے
کا ہی کمال ہے کہ واجبی سی صورت والے یہ اداکار ہیرو ر ہے ہیں۔ اسکے علاوہ
شاہ رخ خان، اکشے کمار، اجے دیوگن وغیرہ بھی کالے کلوٹے حسن نکھرنے کے وجہ
سے ہی آج ہیرو گنے جاتے ہیں۔ پاکستان آئیڈل پروگرام میں بھی کل کے لونڈے
میک اپ سے حسن نکھر نے پر آجکل ہیرو سے دکھتے ہیں۔مزید یہ کہ انگریزی فلموں
کے اداکاروں کے کیا کہنے مثلا: سلوسٹر، آرنلڈ، جان ریمبو، ٹام کروز۔ یہ سب
اداکار معمولی حسن کے ساتھ بھی فلموں میں کام کرتے ہیں۔اسکے علاوہ آپ کبھی
گھانا، نائیجیریا، کیمرون، ویسٹ انڈیز، سری لنکا وغیرہ کے ہیرو دیکھ لیں تو
آپ خود کو ہیرو اور انہیں زیرو تصور کریں گے۔بھلا کیوں؟ یہ آپ خود سوچیں؟
انہی میک اپ زدہ چہروں کو دیکھنے کی لوگ شدید خواہش اور تمنا کرتے ہیں ۔ پر
معروف بیوروکریٹ اور میرے آئیڈیل ذوالفقار چیمہ صاحب اپنے دورہ ہندوستان کے
بارے میں لکھتے ہیں کہ وہاں ان سے پوچھا گیا کہ آپ اگر مشہور اداکاروں سے
ملنا پسند فرمائیں تو انتظام کیا جاسکتا ہے ۔ پر انہوں نے بہت ہی پیارا
جواب دیا کہ اداکاروں سے ملنے کا کیا فائدہ ، بندہ ملے تو کسی رائٹر سے
ملے، شاعر سے ملے، ٹیچر سے ملے تاکہ کچھ سیکھنے کا موقع ملے۔ تو ایسا بھی
ہوتا ہے دنیا میں!
روزگار کے سلسلے میں بیس برس قبل جب ہم دبئی، ابوظہبی میں مقیم تھے تو وہاں
ایک بار ابوظہبی ریڈیو پر استادِ محترم جناب ہارون پاشا صاحب کے ساتھ ایک
ڈرامہ ریکارڈ کرانے گئے تو ہمارے ایک ساتھی ناصر حسین ایک روز کچھ عجیب سے
نکھرے نکھرے نظر آئے۔ معلوم کر نے پر پتہ چلا کہ فیشل اور میک اپ کا کمال
ہے۔ تو تب ہمیں معلو م ہوا کہ مرد حضرات بھی صنفِ نازک میں شامل ہوئے جاتے
ہیں۔یا پھر شاید پہلی بار مردوں کا پارلر ہم نے کراچی کی شاہ فیصل کالونی
میں تیس ، پینتیس برس قبل دیکھا تھا۔پر اب تو یہ بیماری بہت عام ہے۔
تو جناب ! مذکورہ بیان کیے گئے تو صرف ٹوٹکے ہیں۔ جو رونق، نور، بشاشت،
حسن، باوضو رہنے، نماز کی پابندی کرنے، جھوٹ غیبت سے بچنے، دل صاف رکھنے ،
صبح جلد اٹھ کر سیر کرنے اور درود پاک کا ورد رکھنے سے چہرے پرآتی ہے وہ
مذکورہ تما م ٹوٹکوں سے بھی نہیں آسکتی۔آزمائش شرط ہے!پھر وہی آج کی بات کہ
ہمیشہ ہنستے مسکراتے رہیں کہ ہنسنا ہی زندگی ہے۔اس ناچیز کو اپنی دعاؤں میں
یاد رکھیں اور ساتھ ساتھ بلاگ میں اپنے کمینٹس بھی پوسٹ کریں، جوکہ مزید
بہتر لکھنے میں میرے معاون ثابت ہوتے ہیں۔ |