سائنسی تحقیقات کے مطابق کائنات
و زمین تین ارب سال سے قدیم ہے اور اس دوران زمین کئی انتہائی ادوار سے
گزری ' کبھی گرم ترین کہ زندگی ناپید ' کبھی سرد ترین کہ زندگی ناپید 'درمیان
میں مختلف ادوار میں مختلف جانور بسے اور ناپید ہوئے پھر آدمی کی کہانی
شروع ہوئی جسے انسان بنانے کی سعی جاری ہے جو کبھی رائیگاں ہوجاتی ہے تو
کبھی مختصر سے وقفہ کیلئے ہی سہی کوشش کامیاب ہوتی رہی ہے ۔
رسول کریم ۖ نے فرمایا کہ '' میرے اور عیسیٰ کے درمیان سب سے کم فاصلہ ہے''
۔انبیاء کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار بتائی جاتی ہے جسے فرمان رسول ۖ کے
مطابق ضرف دی جائے تو آدمی کا زمانہ ایک سے سوا کروڑ سال کے لگ بھگ بنتا ہے
۔اب قصص کا جائزہ لیا جائے یا تاریخ کا سائنسی جائزہ…تویہ بات معلوم ہوتی
ہے کہ زمین پر متعدد تہذیبوں کا ارتقاء ہو ااور وہ مٹ بھی گئیں اور ایسی
مٹیں کہ جیسے حرف غلط ہوں ۔میتھالوجی کی طرف توجہ دیں تو بھی بدی اور نیکی
کی قوتوں کی کشمکش جاری نظر آتی ہے ۔بعض اوقات مکر ' جبر ' رعونت اس انتہا
پر نظر آتے ہیں کہ شاید اب کبھی سویرا نہیں ہوگا مگر پھر کوئی نرم سی کرن
اس گھنگور اماوس کی رات کا سینہ چاک کردیتی ہے اور جب کبھی ایسا نہیں ہوتا
تو …''قدرت حرکت میں آتی ہے''
تاریخ پر غور کریں تو یہ حقیقت کھلتی ہے کہ تمام چھی باتیں کہی جاچکیں '
تمام برے اعمال کئے جاچکے ' دھرتی ماں مئی مرتبہ کانپی ' لرزی ' ڈھے گئی
اور بروں ' اچھوں سب کو ڈھانپ لیا ۔
نبی کریم محمد مصطفی احمد مجتبیٰ ۖ نے فرمایا کہ '' اعتدال اختیار کرو ''۔
قائد محمد علی جناح نے پاکستان بنانے کیلئے اعتدال پسند سیاسی جدوجہد کا
راستہ اختیار کیا اور کامیابی پائی مگر ذمہ داران قوم اور قوم کو تمام
اقوام عالم مشتبہ نظروں سے کیوں دیکھتے ہیں یقینا کوئی نہ کوئی تو کوتاہی
ہے ۔ ہم'' مکر ''کا مقابلہ فکر کی بجائے مکر سے تو نہیں کررہے ' کہیں ہم
مکر اور لالچ کی دو دھاری تلوار پر تو گردن رکھے ہوئے نہیں ہیں ۔ غیروں کی
تو بات ہی چھوڑیئے !
ہم سے ہمارا گھر بھی سیدھا کیوں نہیں چل رہا ؟
ہم یہ تو بھولے ہوئے نہیں ہیں کہ کوئی ہے جو رات کے پیٹ میں دن کو چھپاتا
ہے اور رات کی پشت سے دن کو پیدا کرتا ہے اور ہمارے مکر کو ہمارے منہ پر دے
مارتا ہے -
ریاستی ڈھانچہ اور ڈھچر صاف بتاتا ہے کہ داخلی اور خارجی سطح پر ہم توازن
فکرو عمل سے دور ہیں اور زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھنے کی بجائے چند ''عیاروں
'' کو '' دانا '' سمجھنے کی غلطی کررہے ہیں ' منہ زوروں ' بد کلاموں اور
ہتھ چھٹوں سے تن بچاتے ہیں اور کمزوروں کا مال کھاتے ہیں ۔
یہ فیصہ کون سا مشکل ہے کہ فیصلہ کریں '' ہمیں تاریخ کے ماتھے کا جھومر بعد
از وفات بن کر زندہ رہنا ہے یا تاریخ کے کوڑے دان کا بدبو دار مردہ جسم
بننا ہے ''۔ |