صحافی کل بھی زندہ تھا آج بھی زندہ ہے

تین مئی کو آزادی صحافت کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ عالمی یوم آزادیِ صحافت کا آغاز1991سے نمیبیا سے شروع ہوا جبکہ 1993 میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے3 مئی کو ہر سال اس دن کو منانے کا اعلان کیا۔ اب یہ دن ہر سال ہر ملک میں منایا جاتا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد جہاں آزادیِ صحافت کی اہمیت، افادیت، صحافتی ذمہ داریوں پر روشنی ڈالنا ہے وہی اس عزم کو یقینی بنانا ہے کہ آزادی صحافت کی راہ میں کوئی رکاوٹ قبول نہیں کی جائے گی۔ پاکستان میں صحافت ہمیشہ ہی پابند سلاسل رہی اور یہ سلسلہ آج بھی کسی نہ کسی طریقے سے جاری ہے۔پاکستان میں بھی اگرچہ صحافت کو ریاست کا چوتھا ستون تسلیم کیا جاتا ہے لیکن اہل صحافت نے پابندیوں ، کالے قوانین اور اسیری کے مختلف ادوار دیکھے۔ آمرانہ دور اقتدار میں ہمیشہ ہی قلم اور کیمرے کے مزدور ناروا سلوک کا نشانہ بنے۔ آمریت کے سیاہ دور میں اہل صحافت سے جو کچھ ہوتا رہا اس کی تو مثال نہیں ملتی لیکن سینئر صحافیوں کا ماننا ہے کہ جمہوری ادوار بھی کچھ زیادہ قابل رشک نہیں رہے۔ آج بھی حکمران یہی کہتے ہیں کہ میڈیا کو آزادی حاصل ہے لیکن صحافت بے لگام نہیں ہونی چاہئے جبکہ سینئر صحافیوں کا تجربہ ہے کہ ہر سیاسی جماعت اپوزیشن میں بیٹھ کر تو ضرور آزادی اظہار رائے کی بات کرتی ہے لیکن اقتدار ملتے ہی آزاد صحافت ایک آنکھ نہیں بھاتی کیونکہ اس آئینے میں ہر چہرہ صاف دکھائی دیتا ہے۔ پابندیوں کی طویل تاریخ کے باوجود تین مئی پاکستان کے اہل صحافت کے لئے اپنے پیشے سے اس عہد کی تجدید کا دن ہے کہ ہم پرورش لوح و قلم کرتے رہیں گے۔صحافت بجا طور پر ریاست کا اہم ستون ہے جو باقی ستونوں کو بھی طاقت مہیا کرتا ہے۔ جس سے ریاست کی امارت مضبوط بنیادوں پر استوار ہوتی ہے۔ پاکستان کی صحافت جانتی ہے کہ صحافی قوم کا چہرہ ہوتے ہیں۔ انہوں نے خون جگر سے آزادی صحافت کا چراغ جلایا ہے۔ آج بھی نظریاتی صحافتی ادارے سنجیدہ فکر صحافی آزادی اظہار اور حرمت قلم کیلئے سر بکف ہیں۔ صحافت بلا شبہ ایک عظیم اور سچی طاقت ہے اور قائد اعظم محمد علی جناح بھی صحافت کو عظیم منصب سمجھتے تھے۔ میڈیا اور صحافت ایک دوسرے کیلئے لازم و ملزوم ہیں اور دونوں کا مقصد حقیقت بیان کرنا ہے۔ میڈیا اور صحافیوں کو آج کے جدید دور میں بھی حقیقت اور سچ لکھنے پر کتنی مشکلات کا سامنا ہے۔ اگر کوئی صحافی سچ اور حق کیلئے قلم اٹھاتا ہے اس کا شمار مجاہدوں کی صفوں میں ہوتا ہے۔ آج کے دور میں دیکھا جائے تو ہر شخص سیاسی، معاشی اور مذہبی صورتحال کے بارے میں جانتا ہے یہ شعور عوام الناس کو میڈیا اور صحافیوں نے دیا۔ آج کسی بازار یا دیہات میں کوئی اہم واقعہ رونما ہوتا ہے تو میڈیا کے نمائندے اور صحافی بروقت وہاں پہنچتے ہیں اور تمام تر صورتحال کو براہ راست نشر کر کے پاکستان کے عوام کو موجودہ صورتحال سے آگاہ کرتے ہیں۔بانی پاکستان قائد اعظم بھی صحافیوں سے پیار کرتے تھے۔ قوم کی ترقی اور بہبود کیلئے صحافت ایک اہم ضرورت ہے کیونکہ صحافت ہی وہ ذریعہ ہے جو زندگی کے تمام شعبوں میں سرگرمیوں کو فروغ دیتا ہے جو قوم کی راہنمائی کرتا ہے اور رائے عامہ کی تشکیل کر تاہے صحافت ایک عظیم قوت ہے یہ فائدہ بھی پہنچاتی ہے اور نقصان بھی۔ اگر یہ صحیح طرح چلائی جائے تو رائے عامہ کی راہنمائی اور ہدایت کا فرض سر انجام دے سکتی ہے۔صحافت بلا شبہ ایک عظیم اور سچی طاقت ہے اور قائد اعظم محمد علی جناح جیسا شخص بھی صحافت کو عظیم منصب سمجھتا تھا۔ قیام پاکستان میں بھی صحافیوں کا ایک نمایاں کردار ہے۔ سرسید احمد خان، مولانا محمد علی جوہر اور مولانا ظفر علی خان جیسے نامور صحافیوں نے اپنے اخباروں کے اداریوں سے سوئی ہوئی قوم کو بیدار کیا ان کا ذہن کھولا اور آسمان کی بلندیوں تک پہنچایا۔ آج ہم سب اس بات پر متفق ہیں کہ پاکستان کی تخلیق میں ان صحافیوں کے قلم کا مثبت ہاتھ ہے۔پاکستان میں اگرچہ صحافت کو ریاست کا چوتھا ستون تسلیم کیا جاتا ہے لیکن اہل صحافت نے پابندیوں، کالے قوانین اور اسیری کے مختلف ادوار دیکھے۔ صحافت کا ایک پہلو چھپی چیزوں کو منظرعام پر لانا بھی ہے اس لئے بہت دشمن پیدا ہو جاتے ہیں۔پاکستان میں صحافیوں کے ساتھ حکومتی اور سیاسی جماعتوں کی سطح پر پْرتشدد واقعات آمرانہ دور میں بھی رونما ہوتے رہے جبکہ جمہوری ادوار میں بھی ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ جنرل ضیاء الحق کے مارشل لاء دور میں نامور صحافیوں کو جیلوں کی سلاحوں کے پیچھے جانے کا مزہ چکھنا پڑا جبکہ یہ سلسلہ جمہوری حکومتوں میں بھی جاری رہا۔جنرل(ر) پرویز مشرف کے دور میں جب جمہوریت پر قدغن لگائی گئی تو تمام چینلز پر پابندیاں لگا دی گئیں اس وقت ملک بھر کے صحافیوں نے تحریک چلائی ،گرفتاریاں بھی دیں،لاٹھی چارج بھی برداشت کئے مگر آزادی صحافت پر کوئی آنچ نہیں آنے دی۔بدقسمتی سے پاکستان میں صحافی اور صھافتی ادارے غیر محفوظ ہیں آئے روز کسی ادارے یا صحافی پر دہشت گردوں کی طرف سے حملے ہوتے ہیں ۔آزادی صحافت کے لئے ایبٹ آباد کے ابرار تنولی،کراچی کے ولی بابر سمیت سینکڑوں صحافی اپنی جانیں نچھاور کر چکے ہیں۔پاکستان کی تاریخ میں یوم آزادی صحافت کے موقع پر پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کے تحت لاہور پریس کلب میں ملک گیر کنونشن کا انعقاد کیا گیا۔ ملکی تاریخ میں پہلی بار ستر سے زائد پریس کلبز کے صدور کسی پلیٹ فارم میں اکٹھے ہوئے ،کنونشن سے کونسل آف آل پاکستان پریس کلبز کے کنوینئر اور لاہور پریس کلب کے صدر ارشد انصاری نے کہا کہ حکومت وقت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ دیگر ریاستی اداروں کے تحفظ کے ساتھ ملک کے چوتھے ریاستی ستون آزادمیڈیا اور آزاد صحافت کے تحفظ کے لئے اقدامات کرے، آج ملک بھر کے صحافی اپنے حقوق کے تحفظ کے لئے متحدہیں اور کسی بھی ریاستی ادارے کو اپنی آزادی چھیننے نہیں دیں گے۔کنونشن سے پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر افضل بٹ ،سی پی پی سی کے سابق کنونیئرفاروق فیصل خان ، نیشنل پریس کلب اسلام آباد کے صدر شہریارخان، کراچی پریس کلب کے صدر امتیارفاران، پشاور پریس کلب کے صدرناصر خان ناصر، کوئٹہ پریس کلب کے صدر رضا رحمن، سکردوپریس کلب کے صدر نثارعباس اور آزاد جموں وکشمیر پریس کلب کے سیکرٹری طاہر عمر فاروقی،سابق سیکرٹری لاہور پریس کلب شفیق اعوان سمیت ملک بھر سے 70ضلعی پریس کلب کے صدور نے بھی خطاب کیا۔کنونشن کے آغاز میں سیکرٹری لاہور پریس کلب محمد شہبازمیاں نے مہمانوں کوخوش آمدید کہتے ہوئے کہا صحافیوں کا یہ اتحاد ملک میں آزادی صحافت اور جمہوریت کی بقاء کا ضامن ثابت ہوگا، اس کنونشن میں شریک صحافی ملک کے کسی ایک صحافی اور کسی صحافتی ادارے پر حملے کو پورے پاکستان کی آزاد صحافت اور ریاست کے چوتھے ستون پر حملہ تصور کرتے ہیں۔پی ایف یو جے کے صدر افضل بٹ نے کہاکہ پی ایف یو جے کی طرح کونسل آف پاکستان پریس کلبز کے پلیٹ فارم پر صحافیوں کا اتحاد، ملک میں آزادی صحافت کے تحفظ اور فروغ کا باعث بنے گا۔ علاقائی صحافیوں کو لاتعداد مسائل کا سامناہے ،میڈیا مالکان صحافیوں کو نمائندگی کا کارڈ جاری کرنے کے بعد فارغ ہوجاتے ہیں ،انھیں نہ تو تنخواہ دی جاتی ہے نہ دفتر کا کرایہ اور دیگر اخراجات دیئے جاتے ہیں اورنہ ہی حکومت ان صحافیوں کو تحفظ فراہم کرتی ہے۔ پاکستان کی آزاد صحافت کا یہ فخر رہاہے کہ اس نے ہر آمرانہ دورمیں جمہوریت کی بحالی اوراس کے تحفظ کی جنگ لڑی ہے، اس کے لئے قیدو بند اور کوڑوں کی سزائیں بھی برداشت کی ہیں، ہم یہ چاہتے ہیں کہ آج جب کہ پاکستان دنیا میں ایک جمہوری ملک کی حیثیت سے اپنی پہچان کرارہاہے ،ایسے میں پاکستان میں ایک ایسا ماحول پیداکیا جائے جس میں ہر ریاستی ادارہ اپنی حدود کے اندر رہ کرخدمات انجام دے۔صحافت کی آزادی پر قدغن لگانے والے ہر دور میں موجود رہے ہیں۔ بہت سے ظالموں نے شعبہ صحافت سے وابستہ کارکنوں پربدترین تشدد، ظلم، جبر اور انکی جانیں تک لینے سے گریز نہیں کیا۔ ہم خراج تحسین پیش کرتے ہیں صحافت سے وابستہ ایسی تمام شخصیات کو جنہوں نے اپنی ثابت قدمی سے جابر حکمرانوں کے تمام مکروہ عزائم کو ناکام بنایا اور آج تک کوئی جابر، ظالم حکمران حق کی آواز کو دبانے میں کامیاب نہیں سکا۔ میڈیا وہ آئینہ ہے جس میں کرپٹ عناصر اپنا اصل چہرہ دیکھ کر خوفزدہ ہو جاتے ہیں اور پھر اپنا عمل اور کردار درست کرنے کی بجائے آئینہ توڑنے کے درپے ہو جاتے ہیں۔ مگر اب ایسا ممکن نہیں ہے۔
Mumtaz Awan
About the Author: Mumtaz Awan Read More Articles by Mumtaz Awan: 267 Articles with 176658 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.