17 اپریل 2014 کو میں اپنے معمول
کے مطابق یونیورسٹی جا رہا تھا ، مجھے اسائنمنٹ جمع کروانا تھا اس لیے میں
نے سوچا آج گھر سے جلدی نکلا جاۓ تو بہتر ھے کم از کم نئے ٹیچر کے سامنے
عزت بچی رھے، یہ سوچتے سوچتے گھر سے بس اسٹاپ تک آ پہنچا، خیریت سے اس دن
بس جلدی سے مل گئی، اس وقت میں دل ہی دل میں خوش ہو رہا تھا اور سوچ رہا
تھا کہ آج یونیورسٹی کلاس شروع ہونے سے پہلے پہنچ جاؤں گا۔
جب گاڑی اپنے روٹ کے مطابق کینٹ سے ہوتی ہوئی پی آئی ڈی سی روڈ پر پہنچی تو
بس والے نے اچانک سے بریک لگادی اس وقت میرے دل میں خیال آیا کہ شاید کوئی
حادثہ ہو گیا ہے مگر میرے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھے ہوے ایک بزرگ شخص نے کہا
کہ آگے راستہ بند ہے۔ میں نے جب راستہ بند ہونے کی وجہ معلوم کی تو پتا چلا
کہ آج یہاں سے امریکی سفیر اور سندھ حکومت کے ایک سینئر وزیر جانے ہیں مطلب
ان دونوں صاحبان کی حفاظت کے لیے رستے میں رکاوٹیں پیدا کی گئی ہیں تا کہ
وہ دونوں صاحب اپنی منزل کو آرام سے پہنچ جائیں باقی جو عوام کا حشر ہونا
ہے سو ہو جائے ان کو اس بات کی کوئی فکر کوئی غرض نہیں، اتنی دیر میں، میرے
ساتھ بس میں سوار لوگوں کی باتیں سن سن کر میرے کان پک گئے تھے لیکن اس وقت
وہ شخص جس نے مجھے لکھنے کے لئے یہ موضوع فراہم کیا اس نے ایک طنزیہ جملا
کہا کہ یہ تو کوئی سازش لگ رہی ہے اس لئے آج روڈ بند کیا ہوا ہے۔ ایسا جملہ
بولے بھی کیوں نہ؟ جبکہ ہمارے ہاں قومی دستور بن گیا ہے کہ جب کوئی قومی
سانحہ ظہور پذیر ھو تھر میں قحط ہو خودکش دھماکے ہوں مہنگائی ہو، گندم کی
پیداوار کم ہو جائے ، سیلاب آ جائے، کرکٹ ٹیم ہار جائے، کسی بڑی شخصیت پر
حملہ ہو جائے تو فوراً کہا جاتا ہے کہ صاحب یہ تو ایک سازش ہے اور اس میں
ہمارا کوئی قصور نہیں، اکثر اوقات صرف سازش کا نعرہ بلند کرنے پر ہی اکتفا
کیا جاتا ہے اور کبھی کبھار اس میں غیر ممالک کو بھی ملوث کیا جاتا ہے ،
یعنی یہ تو امریکہ اور انڈیا کی سازش ہے، اس میں روس اور اسرائیل کا ہاتھ
ہے، اس کے پردے میں فرانس ہے، اور یہ انگریزوں اور ایرانیوں کی کارستانی ہے۔
میں بہت معذرت کے ساتھ عرض کرنا چاہتا ہوں کہ میں ان سازشوں پر یقین نہیں
رکھتا تھا، میں ہمیشہ اپنے دوستوں سے بھی یہی کہتا تھا کہ یہ سب اپنی
نالائقیوں کی پردہ پوشی کرنے کا ایک طریقہ ہے ایک فن ہے جس میں ہم سب ماہر
ہیں مطلب جب بھی کوئی سانحہ ہو جائے تو اپنے مفاد کی خاطر سازش کا نعرہ
لگادو ،کسی سیانے نے، کیا خوب کہا ہے کہ جس تن لاگے سو تن جانے اب جناب جب
راستہ بند تھا تو یہ خیال آرہے تھے کہ ایسا ہوتا تو کیا ہوتا ویسا ہوتا تو
کیا ہوتا اب مجھ تن لاگا ہے تو جانا ہے اور اتنا کچھ سازش کے خلاف لکھ ڈالا
ہے۔اور اب مینے جانا ہے کہ یہ تو سازشیں ہی ہوتی ہیں، کیوں کہ میرے ساتھ
بھی ایک سازش ہو گئی ہے یا کی گئی ہے ۔ جی ہاں میں بلکل درست عرض کر رہا
ہوں میرے خلاف امریکہ نے سازش کی ہے مجھے تباہ و برباد کرنے کی ناپاک کوشش
کی ہے میرے پاس اس کے بہت سارے زندہ گواہ موجود ہیں جو میرے ساتھ بس میں
سفر کر رہے تھے مجھے بھی انہوں نے بتا یا کہ یہ تو امریکہ کی سازش ہے اس
لیے آج پچھلے ایک گھنٹے سے روڈ بند کیا ہوا ہے ۔
پچھلے ایک گھنٹے سے روڈ بند تھا مگر جو میں پچھلے ایک گھنٹے سے دیکھ رہا
تھا شاید وہ لوگوں کا شدید غصہ اور نفرت کا اظہار ہو یا پھر اپنی منزل کو
پہنچنے کی تڑپ، شاید اس لیے لوگ بار بار کوشش کر رہے تھے کہ کیسے ان
رکاوٹوں کو توڑ کر اپنی منزل تک وقت سے پہلے پہنچ جائیں اس دوران کچھ لوگوں
نے ایک ٹریفک وارڈن کو زخمی کیا دوسرے کی خوب پٹائی کی جب کہ تیسرے نے بھاگ
کر اپنی جان بچائی اور بعض حضرات نے گالیاں دینے سے بھی اکتفا نہیں کی اور
گالیاں ایسے دے رہے تھے جیسے کوئی شاعر غالب اور اقبال کا کلام پڑھ رہا ہو،
مطلب اس ایک گھنٹے کے دوران جو ممکن تھا وہ لوگوں نے کیا اور اس موقع پر
کچھ بیوقوفوں نے انھے خوب داد دی ۔
اور یہ بھی ثابت کیا کہ ایسی قوم کے لیے ایسے حکمران صحیح ہیں جو ہمیں
سہانے خواب دکھائیں، تبدیلی کے نعرے لگوائیں اسلام کے نام پر ہم کو آپس میں
لڑائیں ، صوبائیت اور قومیت کے نام پر ہم سے ووٹ لیں ،اور بغیر کسی تکلف کے
ہماری بوریاں ہمارے گھروں تک آرام سے پہنچائیں وہ بھی مفت میں ، خیر یہ تو
کچھ تلخ حقیقتیں تھی جو مینے بیان کی ہیں،اب مجھے احسا س ہونے لگا کہ ہمارے
ملک میں کرپشن، بدامنی، مہنگائی، غربت اور جہالت کیوں ہے ؟ جب ہم لوگ خود
ایک دوسرے کا خیال نہیں رکھیں گے تو پھر حکمرانوں سے کیا گلا کرنا تھوڑی
دیر تک میرے ذہن میں یہ سوالات تھے کہ ایسے لوگ ہم پر حکمرانی کیوں کرتے
ہیں؟ لیکن اب مجھے یقین ہو گیا تھا کہ ایسے حکمران صرف ہماری غلطیوں کی وجہ
سے برسوں سے ہم پر حکمرانی کرتے آرہے ہیں، اگر ہم ووٹ دیتے وقت اپنی ذات
اپنی برادری اور پیری مریدی چھوڑ کر اگر ہم ملک کا سوچتے تو بہتر تھا مطلب
کسی ایماندار امید وار کو ووٹ دیتے تو اچھا ہوتا لیکن آج ہم ووٹ لسانی،
فرقہ وارانہ اور صوبوں کی بنیا د پر دیتے ہیں اس لیے ہمارے حکمران بھی صرف
انھی لوگوں کا خیال رکھتے ہیں جو انہیں منظور نظر ہوتے ہیں اگر لوگ چاہتے
ہیں کہ ہمارے ملک سے (Vip Culture ) ختم ہوجائے تو پھر آج سے عزم کر لیں کہ
اپنے حلقے کے منتخب نمائندے کو ہر چیز کا زمہ دار ٹہرائو اگر اچھا کام کیا
ہے تو اس کو داد دو اور اس کی تعریف کرو اگر برا کام کیا ہے یا پھر اپنے
حلقے میں ترقیا تی کام وغیرہ نہیں کروا یا تو اسی کو جوابدہ ٹہرائو اور ہر
حلقے سے ایک ایسی کمیٹی بنائیں جو پڑھے لکھے نوجوانوں پر مشتمل ہو جنہیں
سیاست کی سمج بوجھ ہو جو لوگوں کو educate کریں انہیں اپنے حقوق کے بارے
میں معلومات فراہم کریں اور اپنے حلقے کے منتخب نمائندوں کا احتساب کریں۔
ظاہرن تو یہ کام مشکل لگ رہا ہے اور کسی دیوانے کا خواب لگ رہا ہے اس میں
وقت لگے گا مشکل ضرور ہے مگر ناممکن نہیں اگر آج ہم کچھ کام کریں گے تو کل
آئندہ کی نسلیں آرام سے رہ سکیں گی۔
نہیں نا امید اقبال اپنی کشت ویراں سے،
ذرا نم ہو تو یہ مٹی بہت زرخیز ہے ساقی۔
|