غریب باپ کی دو بیٹیاں جوان ہوچکی تھیں باپ کو دن رات یہی
بات ستاتی تھی کہ وہ اپنی ان جوان بیٹیوں کا نکاح کیسے کرے گا وہ ایک نچلے
درجے کا ریلوے ملازم تھاگو کہ وہ ملازم تو ضرور تھا لیکن محکمہ سے اُسے
قلیل سے تنخواہ ملتی تھی جس سے بڑی مشکل سے وہ ان دو بٹیوں کااور اپنی بیوی
کا پیٹ پالتا تھا ۔ جیسے جیسے وقت گذرتا گیا باپ کی پریشانی دن بدن بڑھتی
گئی۔بیٹیوں کے لئے رشتے پہ رشتے آتے گئے لیکن غریبی اور بے بسی کے آگے
دونوں میاں بیوی بہت لاچار ہوئے تھے،بارگاہِ الہٰی میں ہاتھ اٹھا کر بس یہی
دعائیں کرتے رہتے تھے کہ”اے خدا ہمیں اس لائق بنا دے کہ ہم با عزت اپنی
بیٹوں کا نکاح کروا کر اپنا فرض ادا کر سکیں یہی ہماری پہلی اور آخری خواہش
ہے۔ مجبور باپ نے اپنے دفتر میں مددمانگی، پھر اپنے رشتہ داروں کے پاس مدد
کی اُمید ظاہر کی کہ میری مدد کرو تاکہ میں باعزت اپنی بیٹوں کا نکاح کروا
کر اپنا باپ ہونے کا فرض ادا کر سکوں۔لیکن سب بے سود ثابت ہو اسب لوگ ٹال
مٹول سے کام لیتے رہے حیلے بہانے بناتے رہے کسی نے مہنگائی کی کہانی سنا کر
نفی کر دی تو کسی نے اپنی ہی پریشانی سنا کر بے آس کر کے واپس لوٹا دیا ۔
دن بھر باپ دفتر میں حاضری دے کر ایک فرض تو پورا کرتا تھا لیکن اُس کو اس
بات کا غم پل پل کھائے جا رہا تھا کہ اُس کی زندگی کا اصل مقصد کب پورا ہے
شام کو گھر لوٹ آتا اور اپنی نوجوان بیٹیوں کا معصوم چہرہ دیکھتا اور آنسوں
بہاتا رہتاکہ میری معصوم بیٹیوں کی قسمت میں خدا نے نہ جانے کیا لکھا ہو گا
۔ بیٹیاں کافی سمجھدار تھیں جب وہ اپنے مجبور باپ کی اس تکلیف کو دیکھتی
تھیں تو وہ بھی تنہائی میں جاکر اپنی آنکھیں نم کر لیتی تھیں۔انسان وقت اور
حالات کے سامنے مجبور ہوتا ہے ایک دن جب باپ اپنے دفتر سے لوٹا کچھ وقت
بیٹیوں کے ساتھ بیتایا اور پھر آرام کرنے کے لئے چلا گیا ۔ تو اسی دوران
حالات نے اُس کو اس قدر مجبور کیا کہ اس کے ذہن میں ایک خطر ناک سوچ نے جنم
لیا جب وہ بستر پہ لیٹا تو سوچ میں گم ہو گیا سوچتے سوچتے وہ اس نتیجے پہ
پہنچا کہ میں ایک ریلوے ملازم ہوں اگر میری موت ہوگئی تو میرے مرنے کے بعد
میری بیوی کو پیسے ملیں گے جس سے وہ ان بیٹیوں کی شادی کر سکے گی۔ اس نے
سوچا کہ صبح کام پہ نکلتے ہی میں کسی گاڑی سامنے آجاﺅں گا اور اپنی جان دے
دوں گا کیونکہ میری بیٹوں کی عزت سے بڑھ کر میری جان نہیں۔ لیکن ادھر
بیٹیوں کی سوچ میں بھی ایک دم تبدیلی آگئی وہ ماں باپ کی اس پریشانی کا
شکار ہو کر رہ گئی کہ آخر ہم اپنے ماں باپ پہ بوجھ بن کر رہ گئیں ہیں۔رات
بھر چار افردپہ مشتمل یہ چھوٹا سا کنبہ اپنی اپنی پریشانی میں مبتلا رہا ۔
صبح کا سورج طلوع ہوا لیکن آج کا طلوع ہونے والا سورج اس گھر کے لئے روشنی
لے کر نہیں بلکہ اندھیرا لے کر آیا تھا ۔صبح جب باپ حسب ِ معمول اپنے دفتر
نکلا تو کچھ ہی دیر بعد اُن کے انتقال کی خبر آگئی یہ خبر گاﺅں میں آگ کی
طرح پھیل گئی گاﺅں والے اپنے گھروں سے باہر نکل کر ایک بعد ایک اُن کے گھر
جانے لگے جب بیوی نے سنا تو وہ غم کے مارے اپنا سینہ پیٹنے لگی ،آہیں بھرنے
لگی ، زور زور سے اپنے قسمت پہ رونے لگی اور اپنی جوان بیٹیوں کو آواز دینے
لگی آﺅ دیکھ تمہارے بابا کی کیا حالت ہو گئی ہے اب آپ کے بابا آپ کو ہمیشہ
کے لئے چھوڑ کر چلے گئے ۔لیکن ماں کی لاکھ آوازیں دینے پر بھی بیٹیاں باہر
نہیں آئیں۔ ماں نے اندر جا کر دیکھا تو دونوں بیٹیوں نے خود پھانسی دے اپنی
جانوں کا خاتمہ کیا تھا ۔اور اپنے بابا کے نام ایک خط تحریر کیا تھا جس میں
انھوں نے یہ تحریر کیا تھاکہ””’کفن ہمارا جوڑا ہے اور قبر بنی سسرال“““
اس لئے ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم ایک دوسرے کے دکھ درد کو سمجھیں غریبوں، بے
کسوں ، اور مفلس لوگوں کی مدد کریںبقولِ علامہ اقبال........ہے زندگی کا
مقصد اوروں کے کام آنا““ ہم سب کو ایک دوسرے کی مدد کرنے میں پہل کرنی
چاہیے،کیونکہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے انسان کو دنیا میں اس لئے لایا تاکہ
وہ دل کے درد کو سمجھ سکے یہی انسان کا امتحان ہے لیکن آج کے دور میں آج کا
انسان یہ سب کچھ بھول چکا ہے کہ اس دنیا میں انسان کو کیوں کر لا یا گیا ۔
ہمیں سب سے پہلی اس بات کا شکر بجا لا نا چاہیے کہ اللہ نے ہمیں انسان
بنایا وہ انسان جس کے لئے جنت بنایا گیا ۔ جنت کو سجایا گیا لیکن ان سب
نعمتوں کا حقدار وہی ہو گا جو اس دنیا میں انسانوں کی طرح رہا ہوگا ورنہ آج
کا انسان جس قدر گمراہی میں مبتلا ہے اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ |