جنگ جیو اور معافی

معروف اینکر اور کالم نگار حامد میر پر حملے کے بعد جنگ گروپ نے جس طرح ایک قومی ادارے اور اس کے سربراہ کے خلاف مہم جوئی کی۔جس طرح نام لے لے بین کئے۔اسے پاکستان میں نہ صرف صحافی برادری نے ناپسندیدہ قرار دیا بلکہ پاکستانی عوام نے بھی کھل کر اس کی مذمت کی اور ملک بھر میں جیو اور جنگ گروپ کے خلاف مظاہرے کئے گئے اور ریلیاں نکالی گئیں۔اس صورت حال میں حکومت کا فرض تھا کہ وہ قومی اداروں کے تحفظ کے لئے آگے بڑھتی لیکن وزیر اعظم اور ان کے وزیروں نے ہسپتال جا کے حامد میر کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کیا اور ساتھ ہی یہ بھی فرمایا کہ دنیا دیکھ لے کہ ہم کس کے ساتھ کھڑے ہیں۔ کسی زخمی یا بیمار کی عیادت قطعاََ کوئی برا کام نہیں لیکن ریاست مان کے جیسی ہوتی ہے اور اس کے ادارے اس کے دست و بازو۔ اگر کوئی کلہاڑی سے آپ کے بازو کاٹ رہا ہو توآپ اس کا حال نہیں پوچھتے بلکہ اس سے کلہاڑی چھین کے اپنے آپ کو بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔

جیو کی مذموم مہم کو دیکھتے ہوئے حکومتی بزرجمہروں کا یہ خیال تھا کہ اس کے بعد فوج دباؤ کا شکار ہو گی یوں ان کے لئے اس ادارے کو قابو کرنا آسان ہو جائے گا۔ عوام یہ سب صورت حال دیکھ رہے تھے۔ حکومتی بے حسی اور بے اعتنائی ان کی نظر میں تھی۔آئی ایس آئی اور فوج کا مدبرانہ رویہ بھی ان کے سامنے تھا۔فوجی ترجمان نے بہت نپے تلے انداز میں حامد میر پر حملے کی مذمت کی اور اس کی تحقیقات میں تعاون کا یقین دلایا اور ساتھ ہی آئی ایس آئی اور اس کے چیف کے خلاف بغیر کسی ثبوت کے الزام تراشی پر افسوس کا اظہار بھی کیا۔جیو جنگ گروپ کی مسلسل آٹھ گھنٹے تک چلنے والی اس ٹرانسمیشن میں جو جس کے منہ میں آیا اس نے کہہ ڈالا۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے آئی ایس آئی نے پیمرا سے چینل کو بند کرنے کی درخواست کی ۔درخواست میں کہا گیا تھا کہ مذکورہ چینل ملک دشمن سرگرمیوں میں ملوث ہے اس پر پابندی لگائی جائے۔پیمرا آزاد ادارہ نہیں۔اگر آزاد ہوتا تو جیو کبھی اس طرح کی مذموم مہم جوئی کے بارے کبھی نہ سوچتا۔پیمرا وہ ہیجڑہ ہے جس سے قوم کو تو کسی بچے کی توقع نہیں لیکن آئی ایس آئی نے پھر بھی زنجیر ہلا دی ہے۔یہ شکایت صرف آئی ایس آئی ہی نے نہیں کی بلکہ پیمرا کی ویب سائیٹ پہ لاکھوں لوگوں نے جیو کے خلاف شکایت کی ہے۔

حکومت کے خلاف کوئی بات ہو تو پیمرا ایک یا دو دن کا نوٹس دیتا ہے لیکن جیو کو اپنی صفائی پیش کرنے کے لئے چودہ دن کا وقت دیا گیا۔ اس سے حکومتی نیت بھی پوری طرح واضح ہوتی ہے لیکن اس خباثت کا ایک دوسرا پہلو بھی ہے اور وہ یہ کہ جیو کو اپنی صفائی دینے کا پورا وقت مل جائے گا۔یہ کہنے کی گنجائش نہیں رہے گی کہ انصاف نہیں ہوا۔جیسا کہ میں نے پہلے لکھا کہ عوام کی بڑی واضح اکثریت نے حکومتی رد عمل اور جیو کی مذموم مہم دونوں پہ ناپسندیدگی کا اظہار کیا بلکہ جلسے جلوس اور ریلیاں بھی منعقد کیں۔ یہ وہ سپورٹ تھی جو کبھی افتخار چوہدری کی بحالی کے لئے پاکستانی عوام نے سڑکوں پہ آکے ظاہر کی تھی۔ اس سے ایک بات یہ بھی کھل کے سامنے آئی کہ پاکستان کے لوگ اب بھیڑ بکریاں نہیں رہے کہ آپ انہیں ہانک کے جہاں مرضی لے جائیں۔ ان میں ہر طرح کے ظلم اور نا انصافی کے خلاف اٹھ کھڑے ہونے کا نہ صرف شعور ہے بلکہ جذبہ بھی ہے۔ وہ اس طرح کی حرکتوں پہ اب گھروں میں بیٹھ کے نہیں کڑھتے بلکہ میدان میں اتر کر اپنے دکھ رنج اور ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہیں۔یہی تبدیلی اور یہی انقلاب ہے۔اب وہ وزیر اپنی خیر منائیں جو قوم کو آئے دن قربانی کے لئے تیار ہونے کا مشورہ دیتے ہیں۔ اب بجلی نہ ہو گی گیس نہ ہو گی پانی نہ ہو گا تو عوام ان وزیروں مشیروں کو ان کی کرسیوں سے کھینچ کے میدان میں لائیں گے۔وزیر دفاع و پانی و بجلی جب فوج کے خلاف ہرزہ سرائی کے بعد سیالکوٹ گئے تو ان کے اپنے حلقے کے عوام نے جوتوں سے ان کا استقبال کیا۔ حکومتی کارندوں کو تھوڑے کئے کو بہت سمجھنا چاہئیے اور اپنی ترجیحات کو دوبارہ ترتیب دینا چاہئیے۔ سڑکوں ہسپتالوں اور سکولوں کے منصوبے اچھے ہیں لیکن سب سے پہلے بجلی کی لوڈ شیڈنگ کا مسئلہ حل ہونا چاہئیے۔یہ وہ جن ہے جو حکومت کو کھا جائے گا۔

جہاں تک جیو اور جنگ گروپ کا تعلق ہے تو اس معاملے میں پورا پورا انصاف ہونا چاہئیے۔غیر جانب دار ذریعے سے اس کی تحقیق ہونی چاہئیے۔اگر جیو مجرم ثابت ہو تو پھر قانون کو اپنی راہ لینی چاہئیے۔جنگ گروپ کی یہ تاریخ ہے کہ وہ حکومت اور اس کے اداروں کو بلیک میل کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔بات بن جائے تو ٹھیک اور اگر الٹ جائے تو اپنے بزرگوں کی روایات کو قائم رکھتے ہوئے فوراََ معافی تلافی پہ اتر آتے ہیں۔مشرف کے خلاف قانونی کاروائی کی ملک کا ہر شخص حمایت کرتا ہے تو پھر جیو کو معافی کیوں؟سزا کا لیکن رواج ہی اب اپنے ملک میں نہیں رہا۔ سینکڑوں لوگ جیلوں میں پھانسی کے منتظر ہیں لیکن حکومت اتنی ڈرپوک اور بے حس ہے کہ وہ کسی کو سزا دینے کے بارے میں سر ے سے سوچتی ہی نہیں۔طالبان پاکستان میں شریعت نافذ کروانا چاہتے ہیں لیکن باغیوں کے لئے موت کی سزا کے خلاف ہیں ۔یورپین یونین قاتلوں کی پھانسی میں کیوں رکاوٹ ہے اس پہ بھی حکومت اور عوام کو غور کرنا چاہئیے۔سزا یا معافی کے لئے ملک میں عدالتیں موجود ہیں۔یہ اختیار اب بندوں سے واپس لے کر انہی عدالتوں کے سپرد ہونا چاہئیے لیکن افتخار چوہدری کی آزاد عدلیہ نے جس طرح جانے مانے دہشت گردوں کو باعزت بری کیا ہے،اس کے بعد عدلیہ سے پورے انصاف کی بس دعا ہی کی جا سکتی ہے۔

Malik Abdul Rahman jami
About the Author: Malik Abdul Rahman jami Read More Articles by Malik Abdul Rahman jami: 283 Articles with 291956 views I am from Abbottabad presently living at Wah.I retired as Lt Col from Pak Army. I have done masters in International Relation and Political Science. F.. View More