امریکیوں کے خدشات

اسلام آباد کے قلب میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک کے دفتر میں خود کش حملے کے بعد ملک بھر میں اقوام متحدہ کے تمام دفاتر کو عارضی طور پر بند کر دیا گیا ہے۔ تحریک طالبان پاکستان کے مرکزی ترجمان اعظم طارق نے اس واقعے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ ادارے عوامی فلاح کے لیے نہیں بلکہ امریکی مفادات کے تحفظ کا کام کر رہے ہیں۔ انھوں نے حکومت کو تنبیہ کی ہے کہ وزیرستان میں تازہ کارروائی کے بارے میں سوچنا چھوڑ دے جو کہ بقول ان کے ’خالہ جی کا گھر نہیں ہوگا‘۔ اعظم طارق کا کہنا تھا ’امریکی خوشنودی حاصل کرنے میں مصروف ناعاقبت اندیش حکمران کئی برسوں سے قبائلی علاقوں پر ہیلی کاپٹروں اور ٹینکوں سے گولہ باری کر رہے ہیں۔ مسجدیں اڑائی جا رہی ہیں، مدرسے تباہ کر رہے ہیں اور ہنستے بستے گھر تباہ کر رہے ہیں۔ لیکن حصول ڈالر میں بدمست حکمران اسے کامیابی تصور کر رہے ہیں۔ ان کا الزام تھا کہ اقوام متحدہ نہ کسی کی داد رسی کرسکتا ہے نہ اس کا سلیقہ اور صلاحیت رکھتا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ملک کو متنازعہ امریکی کمپنی بلیک واٹر کے رحم و کرم پر نہیں چھوڑ سکتے ہیں۔ ’ہم پاکستانی قوم، فوج اور سرزمین کے دشمن نہیں ہیں۔

وزیر داخلہ رحمان ملک نے کہا ہے کہ پاکستان میں ایسے مزید حملے ہوں گے، کیونکہ جنوبی وزیرستان میں فوجی آپریشن کی تیاریاں مکمل ہیں۔ سوات آپریشن کی کامیابی کو شور اور غلغلہ ابھی تھما بھی نہیں تھا کہ ایک نئے معرکے کی تیاریاں ہوچکی ہیں۔ بے سہارا اور پریشان حال عوام ایک بار پھر نقل مکانی کررہے ہیں۔ گو امریکی حکام بظاہر صدر زرداری، پاکستانی فوج اور سول حکومت کی شدت پسندی کے خلاف لڑائی کی وجہ سے تعریف کر رہے ہیں لیکن امریکی ذرائع ابلاغ وہ باتیں منظر عام پر لارہے ہیں جو سیاستدان مصلحتاً نہیں کر سکتے۔ واشنگٹن پوسٹ نے پاکستان پر اپنے ایک اداریے میں لکھا ہے کہ صدر اوباما پاکستان میں جو کم سے کم سیاسی اور فوجی مقاصد ہیں وہ بھی حاصل نہیں کر سکے۔ اخبار کے مطابق گو پاکستانی فوج نے طالبان کو وادی سوات سے مار بھگایا ہے کیونکہ ان کی سوات میں موجودگی پاکستان کی اپنی بقا کے لیے خطرناک تھی۔ لیکن وہ ابھی وزیرستان میں طالبان کے خلاف لڑائی نہیں لڑنا چاہتی جو کہ اصل علاقہ ہے جہاں طالبان کا گڑھ ہے اور وہ وہیں سے افغانستان کے خلاف حملے منظم کر رہے ہیں۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق ایسے لسانی پنجابی اسلامی شدت پسند گروپ بھی متحرک ہیں جنہوں نے ہندوستان کے خلاف، ممکنہ طور پر خفیہ اداروں کی مدد سے، حملے منظم کیے تھے، جبکہ صدر آصف زرداری کی حکومت اہلیت کی کمی کا شکار ہے اور غیر مقبول ہے اور حکومت کے مخالفین کے دعوے ہیں کہ اس نے انیس سو نوے کے طور طریقے اپنائے ہوئے ہیں جب مسٹر زرداری کو مسٹر ٹین پرسنٹ کا لقب ملا تھا۔ واشنگٹن پوسٹ کے مطابق ایسے لسانی پنجابی اسلامی شدت پسند گروپ پاکستان میں متحرک ہیں جنہوں نے ہندوستان کے خلاف، ممکنہ طور پر خفیہ اداروں کی مدد سے، حملے منظم کیے تھے، جبکہ صدر آصف زرداری کی حکومت اہلیت کی کمی کا شکار ہے اور غیر مقبول ہے اور حکومت کے مخالفین کے دعوے ہیں کہ اس نے انیس سو نوے کے طور طریقے اپنائے ہوئے ہیں جب انھیں مسٹر ٹین پرسنٹ کا لقب ملا تھا۔ اخبار نے تجویز کیا ہے کہ اوباما انتظامیہ نے پاکستان کی ترقی، تعلیم اور توانائی کے لیے جو ڈیڑھ ارب ڈالر سالانہ کی امداد کا کیری لوگر پروگرام بنایا ہے اس کو جلد کانگریس سے منظور کرایا جائے اور کوشش کی جائے کہ یہ رقم براہ راست صرف حکومت کو تھما دینے کے بجائے مخصوص پراجیکٹس کو دی جائے۔ امریکہ کے ایک اور بڑے اخبار نیو یارک ٹائمز کو یہ فکر لاحق ہے کہ امریکہ پاکستان کو امداد تو دے رہا ہے لیکن اس بات کی کیا ضمانت ہے کہ رہ رقم ترقی، تعلیم اور توانائی پر خرچ ہوگی اور رشوت اور بدعنوانی کی نظر نہیں ہوجائے گی؟اخبار کے مطابق امریکی اقتصادی ماہرین کی ٹیموں نے حال میں اسلام آباد کے دورے کیے ہیں اور اس بات کا جائزہ لیا ہے کہ رقم کن منصوبوں پر خرچ ہو اور کیا اقدامات کیے جائیں کہ یہ پیسہ اسی مقصد پر خرچ ہو جس کے لیے مختص کیا جارہا ہے۔

امریکہ چاہتا ہے کہ وہ جو رقم پاکستان کو دے رہا ہے اس کا استعمال اس طرح ہو پاکستانی عوام کو امریکہ اپنا دوست لگے اور امریکہ مخالف احساسات کچھ کم ہوں۔ لیکن ایک امریکی اہلکار کے مطابق ضروری نہیں کہ پاکستانی حکومت کو دی جانے والی رقم سے ملک میں ترقی، تعلیم یا توانائی کچھ بھی حاصل ہوسکے۔ امریکہ کا ایجنڈا اب کسی سے مخفی نہیں رہا وہ اسلام مسلمانوں اور پاکستان کے دشمنوں بھارت اور اسرائیل کا آزمودہ دوست اور خیرخواہ ہے۔ پاکستان کی ایٹمی تنصیبات تک رسائی، چین اور ایران کا گھیراؤ کرنے کیلئے پاکستان میں سفارت خانے کی توسیع کی آڑھ میں فوجیوں اور جاسوسوں کی چھاؤنیاں بنائی جا رہی ہیں اور دنیا میں یہ تاثر پختہ ہو رہا ہے کہ پاکستان امریکہ کی کالونی ہے جس کا وائسرائے ہالبروک اسلام آباد میں بیٹھ کر سیاسی اور اقتصادی معاملات پر احکامات جاری کرتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اب امداد مانگنے کے بجائے اس ”پرائی جنگ“ سے نکلنے کی حکمت عملی وضع کی جائے جس پر اپنے پاس سے36 ارب ڈالر خرچ کر کے ہم نے رسوائی و عدم استحکام کی جو خریداری کی ہے سراسر خسارے کا سودا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بھارت کے ممکنہ ایٹمی تجربات کا بھرپور جواب دینے کی تدبیر اور امریکی مداخلت کو روکنے کیلئے فوری اقدامات کئے جانے چاہئیں تاکہ ملک کا دفاع اور سلامتی کسی قسم کے خطرے سے دوچار نہ ہو۔

دہشت گردی کیخلاف نام نہاد جنگ میں شمولیت کے بعد سے پاکستان 36ارب ڈالر کا نقصان اٹھا چکا ہے جبکہ امریکہ سے اب تک پاکستان کو بمشکل 10 ارب ڈالر ملے ہیں۔ اگلے 5 سال کے دوران مزید ساڑھے7 ارب ڈالر ملنے کی امید ہے لیکن اس امداد کا جھانسہ دے کر فنڈز خرچ کرنے کے نظام کی نگرانی کے نام پر امریکہ نے اسلام آباد میں اپنی خفیہ ایجنسیوں، فوج اور دیگر اداروں کا وسیع و عریض نیٹ ورک قائم کرلیا ہے۔ امریکی سفیر این پیٹرسن نے اعتراف کیا کہ امریکہ اسلام آباد میں 200 مکان کرائے پر لے چکا ہے سفارت خانے میں توسیع کر کے میرینز کی تعداد میں اضافہ کیا جا رہا ہے۔ اگرچہ امریکی سفیر نے انکی تعداد کم بتائی مگر دفتر خارجہ کے ترجمان عبدالباسط انکی تعداد ایک ہزار ظاہر کر چکے ہیں۔ بدنام زمانہ تنظیم ”بلیک واٹر“ کے اہلکاروں کی اسلام آباد اور پشاور میں موجودگی اور ان کے لئے 3سو بلٹ پروف گاڑیوں کی پورٹ قاسم پر پہنچنے کی اطلاعات منظر عام پر آچکی ہیں یہ پراجیکٹ سی آئی اے کا ہے جس کا مقصد القاعدہ اور طالبان کے اہم لیڈروں تک رسائی حاصل کرنے اور ہمارے ایٹمی اثاثوں پر نظر بد رکھنا ہے۔ اس سے نہ صرف پاکستان کی خودمختاری ختم ہو کر رہ گئی ہے بلکہ سلامتی کو درپیش خطرات میں روز بروز اضافہ ہو رہا ہے۔ پاکستان میں ڈرون حملوں اور دیگر اقدامات کی وجہ سے امریکہ کیخلاف نفرت کا اعتراف امریکی سفیر کے علاوہ رچرڈ ہالبروک اور مائیک مولن بھی کر چکے ہیں اس لئے اتنی بڑی تعداد میں امریکیوں کی وفاقی دارالحکومت میں موجودگی بذات خود سیکورٹی مسائل کا باعث بنی رہے گی اور عام شہریوں کی زندگی کو بھی خطرات لاحق رہیں گے۔ تازہ ترین یہ کہ امریکی صدر بارک اوبامہ نے کہا ہے کہ پاکستان سمیت جہاں بھی القاعدہ کے ٹھکانے ہیں انھیں نشانہ بنایا جائے گا۔ اس صورتحال میں امریکی امداد اور کیری لوگر بل کے پاس ہونے پر اظہار مسرت کرنے والوں کو سوچنا چاہئے کہ ملک کیسی خطرناک صورتحال سے دوچار ہے۔
Ata Muhammed Tabussum
About the Author: Ata Muhammed Tabussum Read More Articles by Ata Muhammed Tabussum: 376 Articles with 390446 views Ata Muhammed Tabussum ,is currently Head of Censor Aaj TV, and Coloumn Writer of Daily Jang. having a rich experience of print and electronic media,he.. View More