جب سے الیکشن کمیشن نے پنجاب میں ضمنی
الیکشن کے انعقاد کا اعلان کیا ہے، پنجاب بلکہ پورے ملک کے عوام ایک عجیب و
غریب مخمصے کا شکار ہیں، خصوصاً پنجاب حکومت کی جانب سے لاہور ہائی کورٹ
میں ضمنی الیکشن ملتوی کرانے کے لئے رٹ درخواست دائر ہونے کے بعد! عوام کو
یہ سمجھ نہیں آرہی کہ مسلم لیگ (ن) پنجاب میں اپنا ایک اثر رکھتی ہے، ماضی
قریب میں جتنے بھی سروے ہوئے ان میں نواز شریف سب سے زیادہ مقبول شخصیت کے
طور پر ابھرے ہیں اور پھر جن حلقوں میں ضمنی الیکشن کا انعقاد ہونا ہے ان
میں قومی اسمبلی کے دونوں حلقے مسلم لیگ کا گڑھ سمجھے جاتے ہیں تو آخر
پنجاب حکومت اور مسلم لیگ (ن) کو مسئلہ کیا ہے، وہ کیوں الیکشن ملتوی
کروانے کے لئے عدالت تک بھی پہنچ گئے۔
وزیر اعظم گیلانی ایک طرف تو شریف برادران کی ہاں میں ہاں ملا رہے ہیں،
خبریں ”بریک“ کررہے ہیں کہ نواز شریف، شہباز شریف اور خود ان کی اپنی جان
کو خطرہ ہے جبکہ دوسری طرف پیپلز پارٹی کے راہنما بشمول گورنر پنجاب دوبارہ
پنجاب حکومت اور شریف برادران کے الیکشن ملتوی کرنے کے معاملہ پر کوسنے لے
رہے ہیں اور بڑھکیں مارتے نہیں تھکتے۔ ”ذرائع“ کی تازہ ترین اطلاعات کے
مطابق میاں نواز شریف دسمبر 2010ء تک الیکشن میں حصہ نہ لینے کے پابند ہیں
کیونکہ انہوں نے جلا وطنی کے وقت جو معاہدہ کیا تھا اس میں یہ بات درج تھی
کہ وہ دس سال تک سیاست سے باہر رہیں گے اور یہ کہ شاہ عبداللہ نے انہیں
ضمنی الیکشن سے دور رہنے کی تلقین بھی کی ہے اور مشرف کے پیچھے پڑنے سے بھی
روک دیا ہے۔ مسلم لیگ (ن) کے راہنما اسے ماننے کے لئے ہرگز تیار نہیں لیکن
جس طرح نواز شریف کے بیانات عمرہ پر جانے اور شاہ عبداللہ سے ملاقات سے
پہلے آرہے تھے اور جس تواتر سے مشرف مخالف بیانات ”داغے“ جارہے تھے، ملاقات
کے بعد یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان توپوں سے ”گولے“ نکال لئے گئے ہیں، اور
راوی نے چین لکھنا شروع کردیا ہے۔ سارے معاملہ میں سعودی عرب کا کردار بھی
سامنے آرہا ہے، اگر شریف برادران اپنی جان بچانے کے لئے سعودی عرب سے مدد
لے سکتے ہیں اور اتنا عرصہ وہاں رہائش رکھ سکتے ہیں تو کوئی بھی ان سے مدد
لے سکتا ہے لیکن سعودی عرب کے حکمرانوں کو بھی اس امر کا خیال رکھنا چاہئے
کہ وہ ایک آمر کی حمایت میں اگر ایسا کردار ادا کریں گے تو پاکستانی عوام
اسے ہرگز قابل ستائش نہیں گردانیں گے بلکہ وہ سمجھنے پر مجبور ہوجائیں گے
کہ سعودی عرب ایسا صرف اور صرف امریکہ کے اشارے پر کررہا ہے۔
مسلم لیگ (ن) نے اگر سیاست میں زندہ رہنا ہے تو ضروری ہے کہ پہلے ہی سوچ
سمجھ کر بیان بازی کا سلسلہ شروع کیا جائے، جو کام وہ کر نہیں سکتے اس کا
شور مچا کر جگ ہنسائی کے علاوہ اور کیا حاصل ہوسکتا ہے! پہلے قوم کو بتایا
گیا کہ مشرف کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں ہوا تھا لیکن پھر وہ معاہدہ بھی نکل
آیا۔ اسمبلی میں مشرف کے ٹرائل کے حوالے سے قرارداد لانے کا دعویٰ کیا گیا
لیکن کسی قسم کی کوئی قرارداد ندارد! اب سعودی کردار سے انکار کیا جا رہا
ہے لیکن عوام سمجھتے ہیں کہ دال میں کچھ نہ کچھ کالا ہے ضرور! امن و امان
کو بہانہ بنا کر آخر کب تک ضمنی الیکشن کو ٹالا جائے گا؟ اگر پنجاب حکومت
چار حلقوں پر مشتمل بالکل تھوڑے سے علاقہ میں امن و امان قائم نہیں رکھ
سکتی تو پورے صوبہ میں کیسے یہ کام کرسکے گی؟ اگر میاں نواز شریف کسی
”مجبوری“ کے تحت الیکشن میں حصہ نہیں بھی لے سکتے تو کیا ہوا، ڈیڑھ برس گزر
چکا ہے باقی وقت بھی گزر جائے گا، پھر تو الیکشن ہوں گے ہی، اس وقت اسمبلی
میں چلے جائیں لیکن یہ کہاں کی دانشمندی ہے کہ ان علاقوں کے باسیوں کو ان
کے جائز و قانونی حق سے بھی روکا جائے اور خود کو بھی تماشہ بنا لیا جائے!
ایسا لگتا ہے جیسے مرکزی حکومت جیسے ”باتدبیر“ مشیران پنجاب حکومت اور مسلم
لیگ (ن) کو بھی حاصل ہوگئے ہیں جو انہیں غلط سلط مشوروں سے ”سرفراز“ کرتے
رہتے ہیں۔ اگر دسمبر 2007 ء میں محترمہ کے قتل اور اس کے مابعد اثرات کے
باوجود ایک آمر الیکشن کا انعقاد کر سکتا ہے تو ایک عوامی حکومت صرف چار
حلقوں میں ایسا کیوں نہیں کرسکتی؟ کیا آج حالات فروری 2008 ء سے زیادہ خراب
ہیں؟ کیا آج خود کش حملوں کے زیادہ امکانات ہیں جبکہ مرکزی حکومت کے مطابق
آپریشن ”راہ راست“ نوے فیصد تک کامیاب ہوچکا ہے اور دہشت گردوں کی کمر ہی
نہیں بلکہ ہاتھ، پاﺅں اور سر بھی توڑ دیا گیا ہے۔ کیا پاکستان میں امن و
امان کی صورتحال افغانستان اور فلسطین سے بھی زیادہ خراب ہے؟ کیا شیخ رشید
راتوں رات ایک ”ولن“ سے ”ہیرو“ کے درجہ پر آگیا ہے؟ اگر اب میاں صاحب
الیکشن لڑنا ہی نہیں چاہتے تو حلقہ 123 میں جنرل الیکشن میں کیوں پولنگ نہ
ہونے دی گئی تھی؟ اتنے سارے سوالات عوام کے ذہنوں میں ہیں لیکن کوئی تشفی
بخش جواب انہیں کسی جانب سے موصول نہیں ہورہا! اگر شاہ عبداللہ کی جانب سے
الیکشن سے روکے جانے کی خبروں میں کوئی صداقت نہیں اور میاں صاحب الیکشن
میں حصہ لینا چاہتے ہیں تو بھی اور اگر متذکرہ بالا خبریں سچی ہیں اور میاں
صاحب الیکشن میں حصہ نہیں لے سکتے تب بھی الیکشن کو ملتوی کرنے کا کوئی
اخلاقی، آئینی اور قانونی جواز پنجاب حکومت اور مسلم لیگ (ن) کے پاس ہرگز
موجود نہیں!
تازہ ترین اطلاعات کے مطابق لاہور ہائی کورٹ نے پنجاب حکومت کی درخواست پر
فریقین کے دلائل سن کر فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔ عدالت کا فیصلہ کچھ بھی ہو
لیکن اب وقت آگیا ہے سیاستدان بہادری کا ثبوت دیں، منافقت چھوڑ دیں، سچ کو
جھوٹ اور جھوٹ کو سچ ثابت کرنے کی کوششیں ترک کردیں۔ جب ہم سب مسلمان ہیں
اور ہمارا ایمان ہے کہ جو رات قبر میں ہے وہ باہر نہیں، تو ”سکہ بند لیڈر
“ایسی حرکتیں کیوں کرتے ہیں جن سے ان کی عزت پر حرف آتا ہو، عوام کو آخر کب
تک بیوقوف بنانے کی کوششیں کی جائیں گی، آخر کوئی حد تو ہونی چاہئے! |