بنائے سلسلہ اویسیہ

آپ کا سالانہ عرس مبارک آستانہ عالیہ اویسیہ علی پو ر چٹھہ شریف میں 15رجب المرجب کو منایا جا رہا ہے
بنائے سلسلہ اویسیہ اور حضور بدرالمشائخ رحمۃ اﷲ علیہ

بنائے سلسلہ اویسیہ

معزز قارئین!میں آپ کے سامنے نظر بنائے سلسلہ اویسیہ کے پسِ منظر میں سیرتِ بدرالمشائخ کے پہلو عیاں کرتا ہوں۔حضرت شیخ عبد الحق رحمۃ اﷲ علیہ سیرنامہ میں تحریر فرماتے ہیں ۔ کہ حضرت شاہ عبد اﷲ معشوق رحمۃ اﷲ علیہ سے لوگوں نے سوال کیا۔ کہ آپ کے طریقہ سلسلہ ٔ اُویسیہ کی بنیاد کِس پر ہے ۔فرمایا کہ سلسلۂ اویسیہ کی بنیاد سات چیزوں پر ہے ۔فرمایا وہ سات اصول یہ ہیں:1) اطاعتِ رسول ﷺ:جیسا کہ اﷲ تبارک و تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا ہے :کہ قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْ کُمُ اللّٰہ ُط:شیخ عبد الحق دہلوی رحمۃ اﷲ علیہ شرح فتوح الغیب میں اسی آیت کے تحت یوں تفسیر فرماتے ہیں :کہ ’’کہہ دیجئے ! اے میرے محبوبﷺ ! اگر تم لوگ خدا کو دوست رکھتے ہو اور تم چاہتے ہو کہ واصل باﷲ ہوجاؤ اور اﷲ کے خاص بندوں سے ہو جاؤاور اﷲ تعالیٰ تمہارا محبوب اور مطلوب اور مقصود ہو ۔تو تم کو چاہئے کہ پیروی کرو میری۔تاکہ تم خدا کے دوست ہو جاؤ ۔‘‘اس کا مطلب یہ ہے کہ رسول اﷲ ﷺ کی پیروی کرنے سے بندہ خدا کا محبوب ہو جاتاہے۔

سلسلہ اویسیہ کے پہلے اصول پیروی رسول خدا ﷺ پر میرے حضور بدرالمشائخ پیر سائیں محمد اسلم اویسی رحمۃ اﷲ علیہ اس انداز سے کار بند تھے کہ آپ کی صورت سنتِ رسول ﷺ کے مطابق ، سیر ت سنت رسول ﷺ کے مطابق ،گفتگو اور مزاح سنت رسول ﷺ کے مطابق ،اصلاح و تربیت کا انداز سنتِ رسول ﷺ کے مطابق ، تبدیلی ٔ لباس کے ایام سنتِ رسول ﷺ کے مطابق ۔حضرت بدرالمشائخ رحمۃ اﷲ علیہ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ شریعت ِ محمد ﷺپر عمل کیے بغیر ولایت کا حصول ممکن نہیں ۔ ایک سفر میں بندۂ حقیر بھی اپنے مرشد کامل حضور بدرالمشائخ رحمۃ اﷲ علیہ کے ہمراہ تھا۔ دوران سفر گاڑی میں قوالی لگائی گئی جس کا شعر کچھ اس طرح تھا۔
پن تسبیح تے پھوکدے مصلیٰ
اینویں نئیں تینوں یار لبھنا

حضرت بدرالمشائخ رحمۃ اﷲ علیہ نے یہ قوالی بند کرواتے ہوئے فرمایا کہ رب کے یار ،امت کے غمخوار ساری کائنات کے دلدار حضرت محمد مصطفےٰﷺ کا ملنا اور خدا کے ملنے کا ذریعہ اسی تسبیح پر ذکر اور مصلّے پر سجد وں سے ہی ممکن ہے ۔تارک سنتِ مصطفےٰ ﷺ،معرفت و حقیقت سے نا آشنارہتا ہے ۔ حضرت بدرالمشائخ رحمۃ اﷲ علیہ نے ساری زندگی جمعہ کا خطبہ اور نماز کی امامت کروائی جبکہ بچپن سے لے کر وصال مبارک تک آپ کی فرض نماز تو درکنار نمازِ تہجد بھی کبھی قضا نہ ہوئی تھی ۔فرض روزوں کے علاوہ نفلی روزے کثرت سے رکھتے ۔نماز اشراق۔ چاشت۔اوابین پر دوام تھا۔تلاوت قرآن حکیم اورادو وظائف میں ہمیشگی مگر سنتِ رسول ﷺ و پیرویٔ رسول خدا ﷺمیں ۔

خلوت در انجمن:اس سے مراد ہے کہ بظاہر مخلوق کے ساتھ رہے اور باطن میں سب سے دور اور علیحدہ رہے۔’یعنی تن جلوت میں ہو اور دل خلوت میں ہو۔‘‘’’حضرت خواجہ اویس قرنی رضی اﷲ عنہ کا بھی اسی قول کی طرف اشارہ ہے ۔آپ فرماتے ہیں: کہ اَسَّلَامَۃُ فِی الْوَحْدَۃِ ط۔’’یعنی سلامتی تنہائی ہی میں ہے ۔دوسرے اصول کے مطابق حضرت بدرالمشائخ پیر سائیں محمد اسلم اویسی رحمۃ اﷲ علیہ کے سیرت کے پہلوؤں پر نظر دوڑائیے ۔ آپ نے نہ افرادِ دنیا سے دل لگایا نہ مال دنیا سے ۔ افراد آئے تو رجوع الی اﷲ میں لگا دئیے اور مال آیا تو سبیل اﷲ میں خرچ کر دیا ۔ دل کو یادِ الہٰی کا حجرہ بنائے رکھا۔
بقول سلطان باہو:؂اے تن رب سچے دا حجرہ وچ پا فقیرا جھاتی ہو

بدرالمشائخ رحمۃ اﷲ علیہ مخلوق خدا اور افراد سے دوری و تنہائی کو راہبانہ طریقہ خیال فرماتے تھے ۔آپ نے اسلامی طرز ِعمل کے مطابق خلوت در انجمن پر ایسا دوام پایا کہ آپ کو کوئی تعلق دنیا رشتہ ، برادری یا معاملاتِ دنیا یادِ الہٰی سے ایک پل بھی غافل نہ کر سکے ۔آپ بقولِ سلطان باہو رحمۃ اﷲ علیہ اسی نظریہ پر قائم رہے کہ ؂ جو دم غافل سو دم کافر سانوں مرشد اے پڑھایا ہو

حضرت بدرالمشائخ پیر سائیں محمد اسلم اویسی رحمۃ اﷲ علیہ نے زندگی بھر ہر جمعرات بعد نماز عشاء محفل ذکر کا اہتمام کیا ۔ خلوت درانجمن کی بین دلیل پیش کرتے ہوئے قبلہ بدرالمشائخ ایسا وجدانی ذکر کرتے کہ ما سوائے اﷲ تمام کا خیال جاتا رہتا ۔ آپ اکثر فرماتے کہ اﷲ تعالیٰ کے ملنے کا کوئی ایک خاص راستہ متعین نہیں ۔مگر جسے اور جیسے وہ اپنی معرفت اپنے بندے کو عطا کرے تو اُس کا اﷲ کی ذات کے علاوہ جملہ مخلوق سے ظاہری و باطنی تعلق منقطع ہو نا یقینی ہو جاتا ہے۔حضرت بایزید بسطامی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے تھے کہ اﷲ اپنی قدرتوں سے نظر آتا ہے مگر اہل اﷲ ہمارے اندر ہی رہتے ہیں چلتے پھرتے ہیں ۔معاملات زندگی چلاتے ہیں مگر اہل نظر پر ہی ان کی ذات آشکار ہوتی ہے ۔بظاہر مخلوق میں ہوتے ہیں حقیقت میں خالق ہی سے تعلق رکھتے ہیں ۔

خاموشی در سخن:اس کا مطلب یہ ہے کہ سالک اپنی زبان کو فضول گوئی سے بند رکھے اور دل کو بادشاہ دوجہان کی یاد میں رکھے ۔ خاموشی در سخن میں بدرالمشائخ حضرت سائیں محمد اسلم اویسی رحمۃ اﷲ علیہ کی ذات ایک ضرب المثل کی حیثیت رکھتی تھی ۔ آپ فضول گوئی سے کوسوں دور تھے ۔مجلس ہو تو زبان سے سیرتِ رسول ﷺ کے تذکر ے جاری رہتے اور تنہائی ہوتی تو زبان ذکر اﷲ سے تر رہتی ۔گفتگو بھی موقعہ محل کے مطابق حضور بدرالمشائخ رحمۃ اﷲ علیہ کی گفتار میں بھی حسن تھا اور خاموشی میں بھی وقار ۔یقینا جو زبان قرآن و حدیث کے بیان ، تلاوت و ذکر کی حلاوت اور تبلیغ و تقریر کی چاشنی سے لبریز ہو پر اثر ہوتی ہے ۔ اسی لئے میرے حضور بدرالمشائخ جب کوئی جملہ زبان سے نکالتے دلوں میں اتر تا جاتا اور جب خاموشی کی چادر اوڑھالیتے تو افرادِ محفل کے دلوں کی دھڑکن تھم جاتی ۔آپ اکثر فرماتے یہ زبان فضولیات کے لئے نہیں ذکر خدا و مصطفےٰ ﷺکے لئے عطا کی گئی ہے ۔جملہ مخلوقات اپنی زبانیں اُسی خالق کی تسبیح سے تر رکھتی ہیں مگر انسان غفلت میں زبان سے یاوہ گوئی کرتا رہتا ہے ۔اگر ذکر نہیں تو زبان کو خاموش رکھ کر آخرت کا فکر مند رہ یہ بھی نجات کا سامان بن جائے گا۔

نظر بر قدم:نظر بر قدم کے معنی یہ ہیں کہ :’’خدا کو ہر جگہ ، ہر حال اور باطن میں حاضر و ناطر جانے اس کی دید سے آنکھ اُٹھانے میں خسارے ہیں اُس کی رضا سے پھرنے میں نقصان ہے ۔بندہ حق کے مشاہدہ میں اس طرح مستغرق رہے ۔کہ اُس کی نظر یں متواضع اور با اَدب شخص کی طرح اپنے پاؤں کی طرف جھکی رہیں۔ اِدھر اُدھر دائیں بائیں نہ دیکھے اور غیروں کی طرف التفات نہ کرے۔‘‘

یہاں قدم سے مراد قدم ظاہر کے ہیں ۔لیکن طریقت کے راستہ میں باطن کے قدم کی نگہداشت اور حفاظت کرنے کو کہتے ہیں اسلئے سالک کا معاملہ اور اُس کے سلوک کا قدم ’’صراط مستقیم‘‘ کی حد سے لڑکھڑا کر باہر نہ آجائے ۔

حضور بدرالمشائخ حضرت پیر سائیں محمد اسلم اویسی رحمۃ اﷲ علیہ نے نظر بر قدم کے اصول کو اپنی زندگی کا مشن بنایا ۔ جب چلتے تو تیز چلتے مگر نظر ہمیشہ قدم پر ہوتی ۔غرور ،تکبر نام کی کوئی چیز آپ کی چال ڈھال سے نظر نہ آتی ۔پر وقار قدم اُٹھاتے ۔اصطلاح صوفیاء کے مطابق نظر بر قدم کا معنیٰ جو اپنے شیخ کے نقش قدم پر چلنا ہے اس پر بھی حضور بدرالمشائخ رحمۃ اﷲ علیہ زبر دست عامل تھے ۔جہاں آپ کے پیر و مرشد حضرت سائیں فقیر اﷲ اویسی رحمۃ اﷲ علیہ بیٹھتے وہاں ہی آپ بیٹھتے ۔ جیسے شیخ کا چلنا ویسا مرید کا چلنا ،پیرکامل ترجمہ و تفسیر پڑھاتے دنیا سے رخصت ہو گئے تو حضرت بدرالمشائخ بھی اسی عمل پر زندگی بسر کر گئے ۔جمعۃ المبارک کے خطبات میں جو موضوعات شیخ کامل کے ہوتے وہی موضوعات سخن مرید صادق کے رہے ۔گویا حضور بدرالمشائخ نے نظر بر قدم کے ظاہری و باطنی حق کو کمال بخشا۔

ہوش دَر دم:عمل ہفت گانہ بنائے سلسلہ اویسیہ میں پانچواں عمل ہوش در دم ہے ۔اس کے معنی یہ ہیں کہ کوئی دم یادِ خدا سے غافل نہ ہو۔دم (سانس) کی حفاظت کرنے کا نام ہوش در دم ہے ۔ سالک کو چاہئیے کہ ہر گھڑی اُٹھتے بیٹھتے ،چلتے پھرتے،کھاتے پیتے، سنتے بولتے اور سوتے جاگتے ذکر الہٰی میں مشغول رہے اور اس سے کسی حال میں غافل نہ ہوتا کہ وقت بیکار نہ جائے اور نفس پر پورا پورا قابو ہو جائے ۔

حضرت پیر سائیں محمد اسلم اویسی رحمۃ اﷲ علیہ نے اپنے ایک ایک سانس کو یاد الہٰی سے صیقل فرمایا ۔ایک مرتبہ بندۂ ناچیز نے عرض کیا حضور یہ قلب کا جاری ہونا کیا ہے ۔فرمایا آج جو بظاہر قلب کے جاری کرنے پر زور دیا جاتا ہے محض دکھاوا ہے۔ اصل تویہ ہے کہ بندے کا رَوم رَوم ذکر میں مشغول ہو اور یہ اس طرح ممکن ہے کہ کوئی لمحہ یا دالہٰی سے غافل نہ ہو۔بندہ دنیا میں اگر ذکر کی عادت بنالے گا اور جسم کو ذکر کی حلاوت سے مسخر کر لے گا تو بعد از موت بھی جسم زندہ ہو گا۔ اس بات کی سمجھ ہمیں اُس وقت آئی جب حضور بدرالمشائخ پیر سائیں محمد اسلم اویسی رحمۃ اﷲ علیہ کا وصال مبارک ہوا ۔ڈاکٹر نے کہہ دیا کہ حضرت بدرالمشائخ کا انتقال ہو گیا ہے مگر آپ کے لب ، دل اور جسم کے بال حرکت میں تھے ۔یوں محسوس ہو رہا تھا کہ اﷲ کے ذاکر نے ذکر الہٰی سے اپنے جسم کو دنیا میں مسخر کیا آج بعد از وصال بھی جاری ہو رہا ہے ۔

حضرت بدرالمشائخ کو قبل از وصال جب احباب مدہوشی میں تلقین کلمہ کرنے کی غرض سے بآواز بلند کلمہ طیبہ کا ورد کرنے لگے تو آپ چار پائی سے اُٹھ کر بیٹھ گئے اور جلالی نظر سے دیکھتے ہوئے فرمایا مجھے تلقین کلمہ اور ذکر سناتے ہو ۔دیکھو میرا بال بال ذکر کر رہا ہے ۔میں نے دنیاوی زندگی میں فقط ذکرِ الہٰی ہی سے محبت و شغف رکھا جس نے آج میری لجپالی فرمائی ہے ۔میں نے دنیا میں غفلت سے کام نہیں لیا بلکہ ہوش در دم سے زندگی سجائی ہے ۔آپ کا یہ فرمانا تھا کہ حاضرین پر کیفیت گزر گئی اور وجد طاری ہو گیا۔

زہر نوشی:مصیبتوں اور دشواریوں میں صبر کرنا بلا جفاء کو سہنا اور راضی برضاء الہٰی رہنے کا نام زہر نوشی ہے ۔

امام غزالی رحمۃ اﷲ علیہ منہاج العابدین میں تحریر فرماتے ہیں ۔کہ صبر ایک تلخ دوائی ہے ۔جو نفس کے لئے مکروہ شربت ہے ۔ اہل دانشِ اس کو پینے سے پرہیز نہیں کرتے ۔ کیونکہ اس کے بہت ہی فائدے ہیں اور اس سے مضر تیں دور ہو جاتی ہیں ۔آپ نے صبر کی چار اقسام بیان فرمائی ہیں : (1)اطاعت پر صبر(2)دنیا کی فضولیات سے صبر۔(3)محنت کے کاموں پر صبر۔(4)مصیبتوں پر صبر۔

حضور بدرالمشائخ پیر سائیں محمد اسلم اویسی رحمۃ اﷲ علیہ صبر و رضا میں اسلاف کی یاد گار تھے ۔کبھی مصائب میں دلبر داشتہ نہ ہوئے۔ حصول نعمت پر شکر اور نزول بلا پر صبر آپ کی زندگی کا حسین پہلو ہے ۔آپ نے بچپن سے مشکلات و مشقت کو اپنا ساتھی بنالیا ۔ اسائش کو چھوڑ کر فقر و فاقہ اور درویشی کو اختیار فرمایا اور پھر زندگی بھر اسی پر شکر کے کلمات ادا کرتے رہے ۔دنیاوی زندگی کے آخری سالوں میں جب آپ کا ایکسیڈنٹ میں دایاں بازو شہید ہو گیا تو حضور بدرالمشائخ اپنے اور غیروں بلکہ صوفی ازم کے حامیوں اور مخالفوں کے لئے بلند مثال اور متاثر کن صبر کی تصویر بن گئے ۔ہسپتال میں آپریشن بے ہوشی کے بغیر کروایا ۔ڈاکٹر کو فرمایا تم آپریشن کرو اور میں ذکر اﷲ کرتا ہوں۔ ڈاکٹر اور ہسپتال کا سارا عملہ حیران تھے کہ ہڈی کا کاٹنا ۔ گوشت کا ٹانکنا اور مختلف سخت سے سخت ادویات کا استعمال کرتے ہوئے حضرت بدرالمشائخ کے چہرہ مبارک پر ایک مرتبہ بھی تکلیف کا اثر نمودار نہ ہوا۔ایک اولیاء مخالف مولوی صاحب نے تمام معاملہ دیکھ کر اور صبر و رضا کے پیکر سے متاثر ہو کر کہا کہ آج میں مان گیا ہوں کہ روحانی طاقت بھی ہوتی ہے اورروحانیت کا تعلق حقیقت سے ہے ۔حضرت بدرالمشائخ جب یرقان جیسے مہلک مرض میں مبتلا ہو گئے ۔یاد رہے کہ بیماریاں اولیاء اﷲ کے درجات کی بلندی اور صبر و رضا کے امتحان کے لئے آتی ہیں ۔دوران بیماری جس کسی نے بھی حضور بدرالمشائخ سے حال پوچھا شدت ِ بیماری میں بھی فرمایا اﷲ تعالیٰ کا شکر ہے اور صبر و رضا کا مظاہرہ کرتے ہوئے اکثر یہ شعر زبان پر جاری رہتا ۔
میں گڈی ہتھ ڈور سجن دے اوہ جیویں رکھے اویں رہنا
واجب نئیں وچہ شریعت مندا خصم نوں کہنا

پردہ پوشی :پردہ پوشی اس کو کہتے ہیں ۔کہ لوگوں کے عیوب سے آنکھ بچا ئے گناہگاروں کو ظاہرنہ کرے بلکہ اُن کے عیبوں کی پردہ پوشی کرے ۔پردہ پوشی کی تین اقسام ہیں : (1)کسی کی عیب جوئی نہ کرنا۔(2)کسی کے عیب کو جانتے ہوئے اس کو ظاہر نہ کرنا۔(3)کسی کا عیب ظاہر ہوجانے پر اس کو ڈھانپنا اور کوشش کرنا کہ یہ عیب اس سے جاتا رہے اور لوگ اس کو اس عیب سے پاک سمجھیں اور یہ قسم پہلی دونوں اقسام سے افضل ہے۔ اولیاء اﷲ کا ہمیشہ یہی وطیرہ رہا ہے کہ خود تکلیفیں اُٹھا کر بھی لوگوں کے عیب و قصور ظاہر نہ کئے۔پردہ پوشی کی خصلت ایسی عمدہ ہے کہ اﷲ تعالیٰ قرآن مجید میں فرمایا ہے :ترجمہ ’’اﷲ تعالیٰ کے بندے ایسے ہوتے ہیں کہ جب کسی برے اور ناپسند یدہ راستہ سے گزرتے ہیں تو نہایت ہی بردباری سے گزرجاتے ہیں اور جو شخص لوگوں کی خطاؤں اور قصوروں پر درگزر کرتا ہے اور ان کے عیب وخطا سے چشم پوشی کرتا ہے تو وہ شخص صفات ستاری ،غفاری،رحیمی اور غفوری سے متصف ہوجاتا ہے۔پردہ پوشی بنائے سلسلہ اویسیہ میں ساتواں اور آخری درجہ رکھتی ہے ۔حضور بدرالمشائخ حضرت پیر سائیں محمد اسلم اویسی رحمۃ اﷲ علیہ نے اس اصول کو مضبوطی سے اپنائے رکھا ۔آپ نہ خود کسی کی عیب جوئی فرماتے اور نہ کسی کو عیب گوئی کرنے دیتے بلکہ فرماتے بندے کو اﷲ تعالیٰ کی صفت ستار کا مظہر ہونا چاہیے ۔ آپ اگر کسی کا عیب دیکھتے تو اُس کی بغیر نام لئے اصلاح کی کوشش فرماتے ۔

ایک مرتبہ دربار شریف حاضری کے موقعہ پر بندہ ناچیز نے رات قیام کیا ۔رات تاخیر سے سونے کے سبب نماز فجر کی جماعت رہ گئی۔ حضور بدرالمشائخ رحمۃ اﷲ علیہ کا معمول شریف تھا کہ روزانہ بعد نماز فجر درود شریف شماروں پر پڑھتے اور احباب بھی شامل ہوتے ۔ شماروں پر درود شریف پڑھا جا رہا تھا کہ میں نے نماز ادا کی اور ساتھ شامل ہو گیا ۔دعائے خیر کے بعد فرمانے لگے ۔بیٹا علماء کو عابد بھی ہونا چاہیے جو عالم ہونے کے ساتھ ساتھ عابد بھی ہو اُس جیسا ولی کوئی نہیں ہوتا۔یہ ہے پردہ پوشی اور اصلاح و تربیت کا طریقۂ جس میں سنتِ مصطفےٰ ﷺ کی جھلک نمایاں ہے ۔

حضرت بدرالمشائخ نے کبھی خادمین و عقیدت مندوں کو غلطی پر ڈانٹ ڈپٹ نہ فرمائی بلکہ پیکر شفقت و محبت بن کر اُن کی غلطی کی اصلاح فرماتے رہے۔ کسی کے عیب کا پتہ چلنا یا آپ کے سامنے کسی شخص نے دوسرے کی عیب جوئی کرنی تو آپ نے اُس شخص کی خوبیوں کا تذکرہ فرمانا شروع کر دنیا جس سے موجود افراد نے حضرت بدرالمشائخ کی صفت پردہ پوشی سے متاثر ہو کر آئندہ عیب جوئی سے توبہ کرلینی ۔آپ فرمایا کرتے کہ اپنے مسلمان بھائی کی نیکیوں کو یاد کرو تاکہ فرشتے اُسے نیک شمار کریں ۔

سلسلہ اویسیہ کے اعمال ہفت گانہ مختصر طور پر درج کئے ہیں مولا کریم اپنے حبیب علیہ السلام کے صدقہ سے ان پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے ۔ سب مخلصان و معتقدین سلسلہ اویسیہ کو چاہئیے کہ ان اعمال ہفت گانہ پر مکمل طور پر عمل کریں۔تاکہ صحیح معنوں میں اُویسی کہلانے کے مستحق ہوں۔جبکہ انہیں اعمال ہفت گانہ یعنی سبعہ بنائے سلسلہ اویسیہ کے پس منظر میں بندۂ حقیر نے ماہتاب ولایت حضرت بدرالمشائخ پیر سائیں محمد اسلم اویسی رحمۃ اﷲ علیہ کی زندگی کے چند پہلو آپ کے سامنے پیش کئے جبکہ حضرت بدرالمشائخ پیر سائیں محمد اسلم اویسی رحمۃ اﷲ علیہ نے احیائے تصوف اور غلبۂ اسلام اور تعلیمات نبوی کی ترویج و اشاعت کے لئے بنائے سلسلہ اویسیہ پر عمل پیرا ہوتے ہوئے گرانقدر خدمات سر انجام دیں بلکہ آپ نے اپنی زندگی ترویج و اشاعت دین کے لئے وقف کر رکھی تھی ۔پاکستان کے مختلف شہروں اور دیہات میں مساجد کی تعمیر کروائی ۔علم دین و قرآن و حدیث کی تعلیمات کے فروغ کے لئے بڑے بڑے دینی مدارس کھلوائے۔ نارووال میں جامعہ اویسیہ کنز الایمان محلہ رسول نگر کے قیام کے لئے ایک خطیر رقم بندہ کو عنایت فرمائی اور فرمایا اس سے کام شروع کرو اﷲ تعالیٰ تکمیل کے لئے خود اسباب بنادے گا ۔والٹن قادری کالونی لاہور میں جامعہ اویسیہ ،کامونکی میں جامعہ اویسیہ سیرانیہ ،ٹوبہ ٹیک سنگھ کوہاڑکا میں جامعہ اویسیہ اسلم العلوم ،منڈی بہاؤ الدین میں جامعہ اویسیہ ، کلاس گورایہ میں اویسیہ پبلک سکول اور آستانہ عالیہ اویسیہ علی پو ر چٹھہ شریف میں مرکز ی دارالعلوم جامعہ اویسیہ آج بھی حضور بدرالمشائخ رحمۃ اﷲ علیہ کی علم دوستی کا ثبوت فراہم کر رہے ہیں۔آپ کو ذاتی مکانات کی تزئین و آرائش کے مقابلہ میں مساجد و مدارس کی خوبصورتی پر زیادہ یقین تھا ۔

حضرت بدرالمشائخ پیر سائیں محمد اسلم اویسی رحمۃ اﷲ علیہ جہاں ایک عالمِ با عمل صوفیٔ باصفا ،مرید با وفا ،عاشق مصطفےٰ اور مہر سلسلہ اویسیہ تھے وہاں منجھے ہوئے مدبر و مفکر اور صاحب بصیرت و روشن ضمیر راہنما بھی تھے ۔ملکی سیاست پر گہری نظر رکھتے، اکثر مسلم لیگ کی اور قائد اہلسنت مولانا الشاہ احمد نورانی رحمۃ اﷲ علیہ سے سیاست میں متاثر ہونے کی باتیں ارشاد فرماتے۔اتحاد اہلسنت کے زبر دست علمبردار اور فرقہ واریت کے پرُزور مخالف تھے ۔وہ اکثر عشق رسول ﷺ کے نقطۂ عظیمہ پر ملت اسلامیہ کو اتحاد کا پیغام دیتے تھے۔ حضرت بدرالمشائخ پیر سائیں محمد اسلم اویسی رحمۃ اﷲ علیہ نے خانقاہ کو مرکز تجارت و نفع بخش کاروبار نہ بنایا بلکہ خانقاہ کو دکھی انسانیت کے لئے پناہ گاہ بنایا۔اصلاح و تربیت کا مرکز گردانا ۔ آپ روایتی پیری و مریدی کو مناسب خیال نہ فرماتے تھے بلکہ قرآن و سنت کے احیاء کے لئے پیری مریدی کا عمل فرماتے رہے ۔لیکن انسان لاکھوں کام کرے۔اصلاح نفس کے ساتھ ساتھ اصلاح و فلاح انسانیت کا فریضہ بھی سر انجام دے ،تصوف و راہبانیت میں فرق اور ولایت کی درست تصویر بھی عوام کے سامنے لائے مگرپھر بھی اُسے ایک دن اس دنیا سے جانا ہے ۔جس سے کسی کو انکار نہیں ۔بڑے بڑے نامور افراد دنیا میں آئے لیکن ایک دن انہیں بھی کوچ کرنا پڑا۔روز مرہ کے روحانی ،مذہبی ،سماجی اور فکر و اصلاحی فرائض سر انجام دیتے ہوئے آخر کُلُّ نَفْسٍ ذَآئِقَۃُ الْمَوْتْ کے تحت ہمارے پیر و مرشد مرکز محبتاں ،سلسلہ اویسیہ کے نیر تاباں رہبر عاشقاں ،اولیاء جن پر قرباں ،صوفیاء جن پہ نازاں ،طریقہ اصلاح و تربیت جن سے درخشاں حضرت بدرالمشائخ پیر سائیں محمد اسلم اویسی رحمۃ اﷲ علیہ یکم رمضان المبارک 1421ھ بمطابق28نومبر 2000ء کو شہر خاموشاں کی طرف رختِ سفر باندھ گئے ۔آپ کا جنازہ علی پور چٹھہ کی تاریخ میں ایک بڑا جنازہ تھا ۔ نماز جنازہ میں ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والوں نے شرکت کر کے اس مرد حق شناس کو خراج تحسین پیش کیا۔ آپ کو اپنے شیخ کامل کے پہلو میں دفن کیا گیا۔آپ کا سالانہ عرس مبارک 15رجب المرجب کو ہر سال دربار عالیہ اویسیہ علی پور چٹھہ شریف ضلع گوجرانوالہ میں عالمی مبلغ اسلام علامہ پیر غلام رسول اویسی سجادہ نشین دربار عالیہ اویسیہ علی پور چٹھہ شریف کی زیر صدارت انتہائی ادب و احترام سے منایا جاتا ہے ۔

Peer Owaisi Tabasum
About the Author: Peer Owaisi Tabasum Read More Articles by Peer Owaisi Tabasum: 85 Articles with 168066 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.