مدتوں رویاکریں گے جام وپیمانہ تجھے

(مولانااحسان اللہ فاروقی کی یادمیں خصوصی تحریر)

آج مولانااحسان اللہ فاروقی شہید رحمةاللہ علیہ کوہم سے جداہوئے ایک سال کاعرصہ ہونے کوآیاہے،لیکن وہ دل کی محفل میں اسی طرح زندہ وجاویدہیں،جس طرح پہلے تھے۔شہیدمرانہیں کرتا،پھرشہیدبھی میرے احسان بھائی جیسا…ہردم متحرک وسراپاجدوجہد،جس کااوڑھنابچھوناہی جماعت کاکام اورجماعت سے تعلق رکھنے والے ساتھی تھے۔بھلاایسے شہیدنازکوکبھی جماعت اورجماعتی ساتھی فراموش کرسکتے ہیں!
آتی ہی رہے گی ترے انفاس کی خوشبو
گلشن تیری یادوں کامہکتاہی رہے گا

میرا،احسان بھائی سے پہلاتعارف اس وقت ہوا،جب میں نے جامعہ بنوریہ عالمیہ عالمیہ میں درس نظامی کے حصول کے لیے داخلہ لیا۔اگرچہ یہ 1997ء کی بات ہے ،مگریوں لگتاہے جیسے کل کی بات ہو۔میں بزم کااسٹیج سیکریٹری تھا،بزم آخری مراحل میں تھی کہ دوطلبہ آکربیٹھ گئے،جوکسی اوردرجے کے تھے،میں ان سے متعارف نہ تھا۔مجھے اختتامی دعاکے لیے کسی کی تلاش تھی۔نظران دومیں سے دبلے پتلے طالب علم پرٹھہری،جس کی ناک پررکھاموٹے فریم کاچشمہ اس کی ذہانت کی چغلی کھارہاتھا۔میں نے اپنے ساتھی خاوراقبال سے اس کانام پوچھااوراسے اختتامی دعاکے لیے دعوت دی۔خیال تھاکہ فوراہاتھ دعاکے لیے اٹھیں گے اورچندمنٹ بعدبزم اپنے اختتام کوپہنچے گی،مگرشایدوہ پہلے سے تیاراوراسی لمحے کے لیے منتظربیٹھاتھا۔اس نے اسٹیج سنبھالتے ہی حمدوثناسے تقریرشروع کی اورپھرمطالب ومعانی کے دریابہادیے،کبھی جذبات کی روانی اورکہیں احساسات کی جولانی،گویاا س نے محفل ہی لوٹ لی۔بزم کے آخرمیں علیک سلیک ہوئی اورہراگلادن اس تعلق کومضبوط سے مضبوط ترہی کرتارہا۔

احسان بھائی ہم سے دو سال سینئرتھے۔ان کی فراغت کے بعد بھی یہ سلسلہ اسی طرح جاری وساری رہا۔انہوں نے تخصص کیا،جامعہ کراچی سے ماسٹرڈگری حاصل کی ،طلبہ تنظیم کے بعدبالائی جماعت کی کراچی کی باڑی میں شامل ہوئے،غرض ان کی سرگرمیوں اورمصروفیا ت کادائرہ بڑھتارہا،اس دوران ہم نے بھی عملی زندگی کاآغازکردیا…مگربایں ہمہ اس تعلق میں کوئی تعطل نہ آیا۔ کبھی دفتر میں توکبھی مسجدمیں احسان بھائی تشریف لاتے رہے۔جہاںجس وقت پہنچنے کاوعدہ کیابروقت پہنچے۔بارہاایسابھی ہواکہ طے شدہ وقت میں وہ دفتر میں میرے منتظراورمیں گھرپر،مگرکبھی برامنایااورنہ ہی گلہ شکوہ کیا۔شایدہی کوئی دن جاتاہو،جب احسان بھائی کراچی میں موجودہوں اورجامعہ تشریف نہ لائیں ،یافون یاایس ایم ایس کے ذریعے بات نہ کریں ۔

یہ میری فراغت والے سال کاقصہ ہے ۔کہنے لگے :''اب آپ عالم بن گئے ہیں ،موبائل رکھ لیاکریں''۔ہم جامعہ بنوریہ عالمیہ کے قریب حضرت ہوٹل میں چائے پی رہے تھے۔میں نے کہا:''شیخ !موبائل تومیں نے لے لیاہے،بس کوئی اچھاسانمبرمل جائے،تواستعمال شروع کردوں گا''۔یہ سنتے ہی انہوں نے جیب میں ہاتھ ڈالااورایک سم نکال کردی،کہ جب تک آپ اپنانمبرنہیں لے لیتے،یہ نمبراستعمال کرلیں۔میں نے شکریے کے ساتھ ان سے وہ سم لے لی،یہ نمبرتقریباًایک سال تک میرے استعمال میں رہا۔

ایک دن کچھ تحریری کام کے سلسلے میں تشریف لائے۔جب کام کی بات ہوگئی تواستفسارکرنے لگے:''آپ نے اپنانیاکمپیوٹرائزڈشناختی کارڈبنوایاہے؟''دراصل انہیں میری گوشہ نشینی کی طرف مائل طبیعت کاعلم تھا،اس لیے وہ مجھے ''اپ ڈیٹ''رکھنے کے لیے اس قسم کے معاملات کی طرف توجہ دلاتے رہتے تھے۔میں نے بتایاکہ فارم وغیرہ جمع کرائے ہوئے تقریباًتین ماہ کاعرصہ ہوچکاہے،مگراب تک کارڈملانہیں۔کہنے لگے:''آپ نے رسیدپردیے ہوئے نمبرپررابطہ نہیں کیا؟''میں نے بتایا:''ایک ڈیڑھ ماہ قبل رابطہ کیاتھا، وہاں سے جواب ملا کہ آپ کاکارڈگلگت کے حالات کی کشیدگی کی وجہ سے اب تک ویری فائی نہیں ہوسکاہے''۔کہنے لگے:''آپ بھی اللہ والے ہو،لالوکھیت ڈاک خانے سے معلوم کرناتھا،اب تک کارڈآگیاہوگا''۔پھرکہا:''اگرآپ فارغ ہوتوچلو،ابھی چلتے ہیں''۔چنانچہ ہم وہاں گئے،انہوں نے خودہی رسیدجمع کرائی، کارڈوصول کیااورمجھے واپس جامعہ چھوڑدیا۔ایسے ایک دونہیں کئی واقعات ہیں،جواس وقت ،جب کہ''ذکرحبیب''چھڑاہے،ذہن کی اسکرین پرنمودارہوہوکے بے چین کیے دے رہے ہیں۔دل چاہتاہے کہ تمام واقعات کوقرطاس کی زینت بناکے دل کابوجھ ہلکاکروں…مگرکالم کی طوالت کاخوف دامن گیرہے،اس لیے اسی پراکتفاکرتے ہیں۔

احسان بھائی واقعی اللہ تعالیٰ کااحسان تھے۔اللہ تعالیٰ نے انہیں بڑی خوبیاں عطافرمارکھی تھیں۔احساس ذمہ داری کاوہ عالم کہ ایک کام کے لیے بھی دن میں کئی کئی باریاددہانی کراتے تھے ،ہمدردی کاوہ عالم کہ جس کام کے لیے کہوزبان پرحرف انکارنہیں ،خلوص کاوہ عالم کہ قائدہوکربھی ہرچھوٹے سے چھوٹے کام کے لیے ہردم آمادہ وتیار،زبان میںوہ مٹھاس کہ جوایک باران کی بات سن لے وہ ان کا گرویدہ ہوجائے،دلائل میںوہ قوت کہ مدمقابل کوقائل ہوتے ہی بن پڑے،حالات حاضرہ پرایسی نظرکہ کوئی بات اورکوئی گوشہ ان سے مخفی نہ تھا ،چستی وپھرتی کاوہ عالم کہ اکیلے ایک جماعت کے برابر کام کریں ،سادگی ایسی کہ ایک بڑی مسجدکی امامت وخطابت اورایک بڑی جماعت کاقائدہونے کے باوجودہرقسم کے تکلفات وحجابات سے کوسوں دور،اپنی بائک پرتمام خطرات سے بے خبرکبھی اکیلے،اوراکثرکسی ساتھی کوساتھ بٹھائے شہرکی سڑکوں پررواں دواں…احسان بھائی !تیری کس کس خوبی کاذکرکروں ،تیری ہرخوبی دوسری سے بڑھ کراورہرادانرالی تھی!' 'رفتیدولے نہ از دل ِ ما''۔

جمادی الثانی میں ''الایثارنیوز''کے شمارے کے تکمیلی مراحل کے سلسلے میں ان کی بھاگ دوڑدیکھنے سے تعلق رکھتی تھی۔جوکام ان کے ذمے تھا،وہ توباحسن وجوہ انجام دیاہی،دوسرے کاموں کے لیے بھی کوشش کرتے رہے،آج الحمدللہ ان کے ساتھی اس کام کوشبانہ روزمحنت اور اسی جوش،جذبے ،ولولے اورکامل خلوص سے انجام دے رہے ہیں۔اللہ تعالیٰ قبول فرمائے۔ رجب المرجب میں اکثرآتے رہے۔کاتب وحی، صحابی رسول،خلیفةالمسلمین ،جرنیل اسلام، فاتح عرب وعجم، امام تدبیر وسیاست، محسن اسلام امیرالمؤمنین حضر ت سیدنامعاویہ رضی اللہ تعالی عنہ کی سیرت وسوانح کے حوالے سے کتابچے کی تالیف ،ترتیب وتسویدکے حوالے سے اس موضوع پردرکارتمام کتب ورسائل اوراب تک ہونے والاتمام تحریری ذخیرہ اور ہرقسم کاتعاون حتی المقدورفراہم کیا۔بس ان کوفون پرکسی کتاب یارسالے کانام لکھوانے کی دیرہوتی تھی اوروہ لے کرپہنچ جاتے تھے،خواہ جہاں سے اورجیسے بھی حاصل کریں۔یہ ان کے اسی اخلاص کی برکت تھی کہ اللہ تعالیٰ نے قلیل وقت میںبڑے اچھے اندازمیں اس کام کوپایہ تکمیل تک پہنچایا۔شعبان میںوہ اپنی تحریری صلاحیتوں کوجلابخشنے اورصحافت کے ''گر''سیکھنے کی غرض سے اسلام آبادمحترم مولاناعبدالقدوس محمدی حفظہ اللہ تعالیٰ کے ہاں صحافت ورکشاپ میں شریک ہوئے۔وہاں اخبارکے ساتھ قلمی تعاون کے حوالے سے بھی اہل ِ قلم سے رابطوں میں رہے،کیوں کہ ان کاجاناجس غرض سے بھی ہو،وہ اپنے ہردورے میں جماعت کے کازکوضرورسامنے رکھتے اوراس کے لیے لازمی کوشاں رہاکرتے تھے۔وہاں سے واپسی پرپھرجماعتی تگ وتازمیں مصروف ہوگئے،پھراوپرسے جامع مسجدمیں امامت وخطابت کی ذمے داریاں…بایں ہمہ میسیج کے ذریعے رابطے میں رہے،اپنی مسجدمیں ختم ِ قرآن کی تقریب میں شرکت کی دعوت بھی دی،مگرشایدملاقات مقدرمیں نہیں تھی،جس کی کسک اب بھی دل میں باقی ہے۔
مدتوں رویاکریں گے جام وپیمانہ تجھے

کسے خبرتھی کہ وہ اتنی جلدی رخصت ہونے والے ہیں۔ابھی توان کی اٹھان تھی۔ابھی توانہیں بہت سے سنگ ِ میل عبورکرنے تھے۔مگرشایدخلاق ِ عالم اس ان تھک نوجوان عالم ِ دین کومزیدتھکا نانہیں چاہتے تھے۔تکوینی طورپران سے جتناکام لیناطے تھا،شایدوہ اس کومکمل کرچکے تھے،اب کام کا نہیں،بلکہ انعام کامرحلہ تھا…انعام بھی کیسا…انبیاء وصدیقین کاپڑوس،حیات ابدی وجاودانی ،خون کاپہلاقطرہ زمین پرگرتے ہی تمام گناہوں کی معافی،اعلیٰ علیین میں مقام،سینکڑوں حوروں اورموٹی موٹی آنکھوں والی حورعین سے شادی،عین شہادت کے وقت جنت میں اپنے لیے تیارمحلات اورمقام رفیع کی زیارت،ایمان کاجوڑاپہنایاجانا،عذاب قبرکی سختیوں ،تکلیفوں،ہولناکیوں اورکلفتوں سے نجات ،قیامت کے روح فرسادن میں جنابِ باری سے امن دیاجانا،سرپروقارکاایساتاج رکھاجاناکہ جس کے ایک یاقوت کی قیمت بھی دنیاومافیہاسے بڑھ کرہے ،اپنے متعلقین میں سے ستر(70)افرادکی، جن کے لیے جہنم واجب ہوچکی شفاعت کااعزاز…اورسب سے بڑھ کرحضرات ِ صحابہ کرام اورقائدین سے ملاقاتیں…امی عائشہ صدیقہ نے اس شہیدِناز کویقینا ''میرابیٹا''کہہ کربلایاہوگا…شہدائے ناموس ِ صحابہ نے اپنے اس نئے مہمان کاضروراستقبال کیاہوگا…شہیداورشہادت کے مقام رفیع کامقابلہ بھلاکوئی اورنعمت کرسکتی ہے؟ہرگزنہیں ۔شہیداپنی جان جان آفریں کے سپردکرکے اللہ تعالیٰ سے کبھی نہ فناہونے والی زندگی کاپروانہ حاصل کرلیتاہے…ایسی زندگی کہ اللہ تعالیٰ خودشہیدکومردہ کہنے سے منع فرماتے ہیں ،مردہ کہناتودورکی بات ،مردہ سمجھنے اورخیال کرنے کی بھی اجازت نہیں …اللہ کے نبی آخرالزماں ۖ ،جواصدق الصادقین ہیں اس زندگی کاثمرہ یوں بیان فرماتے ہیں کہ موت کے بعدہرشخص کانامہ اعمال بندہوجاتاہے سوائے شہیدکے عمل کے،کہ وہ قیامت کی صبح تک بڑھتاہی رہتاہے۔ایک اورحدیث میں ارشادنبوی ۖ ہے کہ شہداکوجنت میں من چاہی زندگی عطاکردی جاتی ہے،ان کی روحیں سبزپرندوں کے پوٹوں میں رکھ دی جاتی ہیں کہ وہ جنت میں اڑتی پھرتی ہیں ،جنت کی نعمتوں سے لطف اندوزہوتی ہیں اورقندیل ہائے عرش کے اندرمحواستراحت ہوجاتی ہیں ۔یہی انعامات واحسانات اورالطاف باری ہی توہیں ،کہ جنہیں دیکھ کرشہیدیہ تمناکرتاہے کہ مجھے دنیامیں بھیج دیاجائے تاکہ ایک مرتبہ پھراللہ کی راہ میں قتل کردیاجاؤں۔

آمدم برسرمطلب،میں شہیدکے مقام ومرتبے اورشہادت کی عظمت سے واقف ہوں …مگرایک پیارے بھائی کی جدائی کاغم…کوئی معمولی چیزنہیں ہوتی،آج ایک سال کاعرصہ ہوچکاہے،مگریوںلگتاہے جیسے احسان بھائی یہیں کہیں آس پاس میں موجودہیں اورابھی مسکراتے ہوئے اپنی بائک دوڑاتے ہوئے پہنچ جائیں گے۔یہ صرف میری کیفیت نہیں ،بلکہ احسان بھائی سے متعارف ہرشخص کایہی حال ہے،سب کی یہی کیفیت ہے۔
مگر تیری مرگ ِ ناگہاں کامجھے ابھی تک یقیں نہیں ہے

مجھے خوشی ہے کہاوہ جن مقدس ہستیوں کے تقدس کی بات کرتے تھے، ان پرفداہوکرہمیشہ ہمیشہ کے لیے امرہوگئے۔احسان بھائی کوشہادت بھی بڑی البیلی ملی،جواسی کامقدرتھی…وہ خودبھی البیلاتھا،رب نے اسے شہادت بھی البیلی عطافرمائی۔انہوں نے گولی لگتے ہی جوانگشت ِ شہادت بلندکی،وہ تدفین تک اسی طرح بلندتھی اورگواہی دے رہی تھی کہ یہ سچاشہیدہے۔جب حوریں اس کے استقبال کے لیے آئی ہوں گی،توحوروں کے اس دولہاکے لبوں پرجومسکراہٹ کھیل گئی تھی وہ بھی آخردم تک اسی طرح تھی۔اس کے چہرے کااطمینان صاف بتارہاتھاکہ وہ کامیاب ہے۔جوں ہی ایدھی سردخانے سے ان کے جسدخاکی کوایمبولینس میں منتقل کیاگیا،آسمان بھی روپڑا،باران ِ رحمت نے تادم ِ تدفین اس البیلے شہیدکااستقبال کیا۔اللہ تعالیٰ مولانا احسان اللہ فاروقی کی شہادت کوقبول فرمائے اوراسے مشن کی آبیاری کاذریعہ بنائے۔ایں دعاازمن وازجملہ جہاں آمین باد

M Jehan Yaqoob
About the Author: M Jehan Yaqoob Read More Articles by M Jehan Yaqoob: 251 Articles with 308007 views Researrch scholar
Author Of Logic Books
Column Writer Of Daily,Weekly News Papers and Karachiupdates,Pakistanupdates Etc
.. View More