ہندوستان کی تاریخ کا طویل مدتی انتخاب اختتام پذیر ہوگیا
۔۷ اپبریل سے شروع ہونے والا یہ انتخاب آج ۲ ۱ مئی کو اپنی منزل پہ پہچ گیا
۔ ۸۱ کروڑ ووٹروں کے حق رائے دہی استعمال کرنے کے اعتبار سے دنیا کے سب بڑے
جمہوری ملک میں انڈیا کا نام شامل ہوگیا۔
اس الیکشن پہ ہندوستان سمیت پوری دنیا کی نگاہیں تھی ۔عالمی میڈیامیں پہلی
مرتبہ ہندوستان کے اس انتخاب کی اتنی اہمیت ملی ہے ۔کئی بین الاقوامی
میگزین اپنے کور اسٹوری کا ایشو اسی الیکشن 2014 کو بنایا ہے ۔اپنی زندگی
کے آخری پراؤ پہ پہنچے ہوئے لوگوں نے یہ بھی کہا کہ اتنا دلچسپ الیکشن اس
سے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔دانشورں کے درمیان یہ مسلسل موضوع بحث رہا کہ دنیا
کے سب سے بڑے جمہوری ملک میں یہ الیکشن دو قومی نظریہ کا حامل ہوگیا
ہے۔یہاں عوام کے پیش نظر سیکولر کی بقا رہ گئی ہے کیوں کہ مد مقابل پارٹی
اگر حکومت سازی میں کامیا ب ہو جاتی ہے تو پھر اقلیتوں کو شدید خطرہ ہے
۔ملک کی تقسیم کا اندیشہ ہے۔مسلمانوں کے شعائر اور جان و مال کے تحفظ کا
مسئلہ ہے۔
اس دوران ہزاروں طرح کی باتیں ہوتی رہیں ۔الیکشن کمیشن پہ مسلسل دہری
پالیسی کا الزام لگتا رہا۔سیاسی پارٹیوں کی آپسی رقابت انتہا کو پہنچ گئیں
۔ گالیاں گلوچ خوب جم کر ہوتی رہیں۔دوران الیکشن ملک انتخابی منظر نامہ بھی
بدل گیا ۔حکومت سازی کا دعوی کرنے والی بی جے پی ۳ مرحلہ کے بعد ہی یہ
تسلیم کرلی کہ حکومت سازی کا معاملہ آسان نہیں ہے ۔مودی لہر ہمیں اقتدار تک
نہیں پہنچاسکتی ہے۔کانگریس پہلے سے ہی میدان چھوڑ چکی تھی ۔دوران الیکشن اس
نے اعتراف بھی کرلیا کہ کانگریس اس مرتبہ مقابلے سے باہر ۔تاہم مودی کو
روکنے کے لئے وہ تیسرے محاذ کا سپورٹ کریگی۔نریندر مودی کو آسمان پر پہچانے
والے اور مودی لہر کا واویلا مچانے والے میڈیا نے یہ بھی اعتراف کیا کہ
پرینکا گاندھی کے آنے کے بعد مودی لہر پرینکا لہر میں تبدیل ہوگئی ہے۔اس
انتحاب میں صحافت بھی بری طرح داغدارہوئی ۔این ڈی ٹی وی کے مقبول پروگرام
آپ کی عدالت کے فکس انٹر ویونے ہندوستانی میڈیا کی عالمی پیمانے پر بدنامی
کرائی ۔نیوز چیلنوں نے بھی مودی لہر کو فروغ دنے کے لئے خوب پیسے
بٹورے۔اردو اخبارات نے بھی موقع نہیں گنوایا ۔کسی نے مسلسل بی جے پی کا
اشتہار شائع کیا ۔کسی نریند مودی کے انٹر ویو کو چھاپا ۔کسی نے انہیں کلین
چٹ دی کو کوشش کی۔توکسی نے مودی کو ان تصویروں کو اپنے اخبارات میں جگہ دی
جس سے پتہ چلے کہ مودی مسلمانوں سے بہت قریب ہیں۔
آزاد ہندوستان کا یہ پہلا الیکشن ہے جس میں مسلم ووٹو کو حاصل کرنے کی کوشش
تو تقریبا سبھی پارٹیوں نے کی ۔لیکن مسلمانوں کے مسائل کو کسی نے بھی اپنے
ایجنڈے اور منی فیسٹومیں جگہ نہیں دی۔مسلمانوں کے ان گنت مسائل ہیں۔مسلم
نوجوانوں کی گرفتاری اور جان ومال کا تحفظ مسلم مسائل میں سرفہرست ہے۔مسلم
ریزویشن کا مسئلہ اب تک حل نہیں ہوسکا ہے۔سچرکمیٹی رپوٹ ،رنگا ناتھ مشرا
کمیشن رپوٹ ،لبراہن کمیشن رپوٹ اور اس طرح کی کئی رپوٹ ہیں جو برسوں سے
پینڈنگ میں پڑی ہوئی ہیں۔ یہ مسلمانوں کے سنگین مسائل ہیں جو بالکل ہی
الیکشن کا ایشو نہیں بنا ۔کسی بھی پارٹی نے اس پر کوئی توجہ نہیں دی۔خود
مسلم رہنما ؤں نے ان مسائل کی طر ف کسی بھی پارٹی کی توجہ مبذول نہیں کرائی
۔بی جے پی نے مسلم نسل کشی کے مجرم نریند مودی کو کچھ اس طرح ہیرو بنا کر
پیش کیا ۔ پھر میڈیا نے جس طرح اس کو ہوا دی اور ہر طرف مودی لہر کی فضا
بنائی کہ مسلمان بھی اپنے اصل مسائل بھول گئے ۔ مسلم قائدین نے بھی یہی
ضروری سمجھاکہ نریند مودی کو ہرانا اصل مقصد بنایا جائے۔ انہوں قوم کے نام
اپنا پیغام بھی یہی جاری کیا کہ کہ بی جے پی کو اقتدار تک پہچنے سے روکنا
ہے ۔ خواہ کانگریس جیتے ،تھرڈفرنٹ کی حکومت بنے،عاپ کوآگے بڑھنے کا موقع
ملے یا کچھ اور ہو بہر صورت مودی پارلیمنٹ تک بحیثیت وزیر اعظم نہ
پہنچے۔سیاسی پارٹیوں نے بھی اسی کو ایشو بنایا ۔عوام کے سامنے صرف بی جے پی
کے خطرنا ک عزائم کا ذکر کیا۔نہ انہوں ترقی کے ایشو پہ بات کی اور نہ ہی
مسلم مسائل سے کوئی بجث کی۔
۱۶ مئی کو اس کا فیصلہ ہو جائے گا ۔کس کی بنے گی حکومت اور کو ن ہوگا وزیر
اعظم ۔ فرقہ پرستی کی جیت ہوگی یا لر کھڑاتی جمہوریت اور برائے نام سیکولز
م کابھرم باقی رہے گا۔ دنیا یہ بھی جان لے گی انڈین میڈیا کا یہ سروے کتنے
فی صد جھوٹ پر مبنی ہے جو ماضی کی طرح اس مرتبہ بھی اپنے پوسٹ پول میں یہ
دعوی کررہی ہے کہ بی جے پی کو۲۵۰ سے زائد سیٹیں ملیں گی۔اور این ڈی اے
حکومت بنائے گی ۔میڈیا نے ۲۰۰۹ میں بھی یہی کہا تھا کہ بی جے پی واضح
اکثریت سے کامیاب ہوگی لیکن نتیجہ کیا تھا وہ دنیا کے سامنے ہے ۔اس مرتبہ
بھی حالا ت یہی بتارہے ہیں کہ بی جے پی کو ۱۵۰ سے زائدسیٹیں نہیں ملے گی۔نہ
ہی کانگریس واضح اکثریت لا پائے گی ۔ہاں تھرڈ فرنٹ نمایاں رول ادا کرے
گا۔اور اس طرح بی جے پی کا خواب شرمندۂ تعبیرنہیں ہوگا۔
ہاں سوال رہ جاتا ہے مسلمانوں کے مستقبل کا کہ ان کا کیا ہوگا ۔جس طر ح
گذشتہ ساٹھ سالوں میں مسلمانوں کا برا حال ہواہے آنے والے دنوں میں اس سے
بھی برا حال ہوگا۔بی جے پی کی بفر ض محال اگر حکومت بن جاتی ہے ۃتو پھر
مسلمانوں کا کیا حال ہوگا۔مسلم کمیونٹی کی کیا حکمت عملی ہوگی ۔اور مسلمان
کن پریشان کن عالم میں پانچ سال کا عرصہ گزار یں گے اس کا کچھ پتہ نہیں ہے
لیکن اگر دوسری پارٹیوں کی بھی حکومت بنتی ہے تو مسلمانوں کو ان سے زیادہ
بھلائی کی امید نہیں ہے ۔کیوں کہ کسی کے ایجنڈے میں کوئی مسلم ایشو شامل
نہیں ہے او رنہ ہی کسی نے مسلمانوں کے مسائل پہ بات کی ہے۔کانگریس اگرحکومت
بنانے میں کامیاب ہو جاتی ہے اس مرتبہ ماضی سے زیادہ مار آستین بن کر
مسلمانوں کو ڈسے گی ۔تھرڈ فرنٹ حکومت سازی میں اگر کامیاب ہوجاتا ہے تویہاں
بھی مسلمانوں کاکوئی فائدہ نظر نہیں آرہا ہے ۔تاہم اس وقت سیکولزم کا بھر م
باقی رہ جائے ۔مودی کو آنے کا موقع نہ ملے یہی ضروری ہے ۔فرقہ پرستوں کا
ہاتھ اقتدار تک نہ پہنجے ہم اسی کے خواہش مند ہیں اور فرقہ پرست طاقتوں سے
پاک ہندوستان کے لئے دعا گو ہیں ۔ |