پاکستانی پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا خوش فہمی نامی حسینہ
کی زلفوں کا آسیر ہے ۔کہ بھارتی الیکشن میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے اقتدار
میں آنے سے پاکستان بھارت کے درمیان برسوں پر محیط تناز عات پلک جھپتے ہیں
حل ہوجائیں گے……دونوں ممالک کی سیاسی و عسکری قیادت اپنے تمام تر غصے کو
تھوک دیں گے اور اختلافات کی خلیج لمحوں میں ’’پر ‘‘ ہو جائیگی…… اس خوش
فہمی کا شکار عناصر شائد اس حقیقت سے نا آشنا ہیں۔کہ بیرونی فنڈنگ سے چلائی
جانے والی ’’امن کی آشائیں‘‘ کبھی بھی اپنی منزل مقصود پر نہیں پہنچ پائیں
گی۔ کیونکہ دونوں ممالک میں ایسے عناصر قابل ذکر تعداد میں موجود ہیں ۔جو
کبھی بھی یہ نہیں چاہیں گے کہ بھارت اور پاکستان ایک صفحہ پر آ جائیں۔دونوں
ممالک کے لیے یہ آسان نہیں ہے کہ وہ مسلہ کشمیر کو پس پشت ڈال کر باقی
تعلقات کو آگے بڑھائیں۔
ہاں یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مسلم لیگ نواز اور بھارتیہ جنتا پارٹی نظریات
اور سوچ کے حوالے سے ایک جیسے ہی ہیں۔ان میں کوئی زیادہ اختلافات نہیں پائے
جاتے…… اس امر کا جائزہ لینے کے لیے بھارتیہ جنتا پارٹی اور پاکستان کے
حکمرانوں کے باہمی تعلقات پر غور کرنا ہوگا۔ پاکستان کے تمام حکمرانوں کی
نفرت کا مرکز و محور کانگرس چلی آ رہی ہے۔ پاکستانی حکمران چاہے سول تھے یا
فوجی سب کانگریس کو ہی پاکستان کے تمام تر مسائل کا موجب اور زمہ دار
سمجھتے ہیں۔یہ درست ہے کہ بھارت کی سب سے بڑی جماعت کانگریس کی قیادت نے ہی
پاکستان کو دو لخت کرنے کی منصوبہ بندی اور سازش تیار کی اور اسے تکمیل تک
پہنچایا۔
یہاں اس حقیقت کو نظر انداز کرنا درست نہیں ہوگا کہ کانگریس بھارت کی سب سے
بڑی سیاسی جماعت شمار ہوتی ہے۔ اور اسکے اتحاد میں دارڑیں ڈالنے والوں کو
منہ کی کھانی پڑی ہے۔ چاہے کانگریس کو توڑنے کا خواب سابق بھارتی وزیر
خارجہ سورن سنگھ نے دیکھا ہو یا کسی اور نے لیکن بھارتی عوام نے سب کی
امیدوں پر پانی پھیر دیا……آج بھارت میں سورن سنگھ کو کوئی نہیں جانتا لیکن
’’ نہرو خاندان آج بھی بھارتی سیاست کے افق پر چھایا نطر آتا ہے۔بھارت کو
موجودہ پوزیشن میں کھڑا کرنے کا سارا کریڈٹ کانگریس کا جاتا ہے۔ کسی اور کو
نہیں میں ہمیشہ سے اس بات کا قائل رہا ہوں کہ مضبوط ملک، ترقی یافتہ معاشرے
کی تشکیل اور جمہوریت کے استحکام کے لیے مضبوط سیاسی جماعتوں کا وجود
انتہائی ناگزیر ہے۔ دنیا بھر میں نظر دوڑا کر دیکھا لیا جائے تو معلوم ہوگا
کہ جن جنممالک میں جمہوری نظام کا تسلسل سے جاری رہا ہے ۔اور سیاسی جماعتیں
مضبوط سے مضبوط تر رہی ہیں ۔ان ممالک میں جمہوریت کو استحکام نصیب ہوا ہے،
ان ممالک میں ترقی کی رفتار تیز تر رہی ہے۔ کیونکہ میرا خیال ہے کہ مضبوط
سیاسی جماعتیں مضبوط نظام کی ضامن ہوتی ہیں۔
ماضی میں ہم نے مرار جی ڈیسائی کی حکومت ہو یا چرن سنگھ، آئی کے گجرال ،
ایچ ڈی دیو گوڈا،چندرشیکھر آزاد ،یا پھر اٹل بہاری واچپائی ہی کیوں نہ
بھارت کی وزارت عظمی پر تشریف فرما ہو پاکستان کے رجعت پسندوں کی آنکھوں کا
تارا سمجھے جاتے ہیں۔ ایک وقت وہ بھی تھا کہ پوری دنیا ذوالفقار علی بھٹو
کو پھانسی نہ دینے کی فوجی آمر سے اپیلیں کر رہی تھی مگر پاکستان کے پڑوسی
بھارت کے حکمران مرار جی ڈیسائی نے محض یہ کہہ کر بھٹو کی جان بخشی کی اپیل
کرنے سے انکار کر دیا تھا کہ ’’ یہ پاکستان کا اندرونی معاملہ ہے‘‘ اور
ہمارے خالصتا مذہبی نظریات کے حامل جنرل ضیا الحق نے مرار جی ڈیسائی کے اس
ذوالفقار علی بھٹو کی دشمن موقف سے خوش ہو کر اسے پاکستان کے اعلی اعزاز ’’
نشان پاکستان ‘‘سے نوازا……اس کے باوجود کہ مرارجی ڈیسائی خود اپنا پیشاب
نوش فرماتا تھا اور یہ کوئی اخباری خبر نہیں بلکہ اسکا ڈیسائی نے کود
اعتراف کیا تھا۔
مرارجی ڈیسائی 24 مارچ 1977 سے 28 جولائی 1979تک بھارت کی وزارت عظمی پر
فائز رہے ،اسے اتفاق کہیے یا کوئی سازش سمجھیں مرار جی ڈیسائی کا دور حکومت
وہیں ہے جو ذوالفقار علی بھٹو کے لیے ابتلا اور آزمائش کا دور تھا۔ مارچ
1977 میں پاکستان میں انتخابات کا انعقاد ہوتا ہے اور پھر بھٹو کے خلاف
احتجاجی تحریک کا آغاز ہوجاتا ہے۔ اس مرحلے میں مرارجی ڈیسائی نے ایک لمحے
کے لیے بھی نہیں سوچا کہ کہیں انکے طرز عمل سے غیر مستحکم پاکستان خود
بھارت کے لیے خطرے کا باعث نہ بن جائے۔
اب بھارت انتخابی عمل سے گذر رہا ہے۔اس بار کانگریس کی جانب سے وزارت عظمی
کے لیے اندرا گاندھی کا پوتا راہول گاندھی امیدوار ہے اور اسکے مد مقابل
بھارتیہ جنتا پارٹی نے نریند مودی کو اپنا وزیر اعطم نامزد کیا ہے……اب کی
بار…… مودی سرکار ……کے نعرے کے ساتھ مودی فرنٹ لائن پر آکر کھیل رہا ہے
۔اور وہ بھارتی اور عالمی رائے عامہ کو یہ باور کرنے میں کامیاب ہوتا
دکھائی دیتا ہے کہ ’’اب کی بار ……مودی سرکار‘‘ برسراقتدار آ رہی ہے ……مودی
پاکستان اور مسلمانوں کا کس قدر دوست اور خیر خواہ ہے اس بات کا اندازہ
بھارت میں بسنے والے مسلمانوں کو بخوبی ہو چکا ہے۔ اپنی وزارت اعلی کے دور
میں اس نے پوری ٹرین جلا کے راکھ کا ڈھیر بنا دی تھی۔اور بابری مسجد کی جگہ
رام مندر کی تعمیر کی المناک کہانی سے بھی ہندوستانی اور پاکستانی مسلمان
اچھی طرح آگاہ ہیں، نرنیدر مودی کے برسراقتدار آنے کو پاکستان کے لیے اچھا
شگون تصور کرنے والے اس بات سے ناواقف دکھائی دیتے ہیں کہ مودی’’ بنیا‘‘ ہے
اور اقتدار کا اعلی درجے کا خواہشمند بھی ہے۔ اگر اسے بھارت میں حکومت
بنانے کا موقعہ میسر آ گیا تو وہ یقیننا ایسے اقدامات کرے گا جن کے باعث وہ
اپنے اقتدار کو برسوں پر محیط کر سکے۔ جیسے ہمارے پیارے دیس میں بھارتیہ
جنتا پارٹی کی فکری اور نظریاتی حلیف جماعتیں ویسے تو بہت ساری ہیں ۔اگر
میں یوں کہوں کہ ماسوائے پیپلز پارٹی کے باقی سب جماعتیں بشمول تمام تر
مسلم لیگیوں کے دھڑے موجود ہیں۔ اس وقت یہ سب بھارتی جنتا پارٹی کی جیت کی
متمنی اور آرزو مند ہیں۔ ماضی میں جب اٹل بہاری واچپائی بھارت کے وزیر اعظم
تھے تو پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف مسلہ کشمیر کے حل کے قریب پہنچ چکے
تھے۔ لیکن جنرل مشرف نے کارگل کرکے اسے ناکام بنا دیا تھا۔پاکستان کے تمام
تر سیاسی دھڑے یا گروپ اور عسکری قیادت کانگریس کی نسبت باقی بھارتی
جماعتوں سے بات کرنے میں خود کو ’’ ایزی ‘‘ خیال کرتے ہیں۔
کانگریس کی قیادت کو مطعون کرنے والے پاکستانی دوست اس بات کو بھی اپنے ذہن
میں جگہ دیں کہ بھارت کے تمام بڑے مسلمان راہنماوں بشمول دلی کی شاہی مسجد
کے خطیب امام بخاری بھارتیہ جنتا پارٹی کی جیت کو مسلمانوں کے لیے ایک
بیانک ڈراونا خواب بنا کر پیش کر رہے ہیں۔ لیکن پاکستان کے کچھ عناصر مودی
سرکار کے لیے واری صدقے ہوتے جا رہے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق مودی
اگر حکومت بنانے مٰن کامیاب ہو بھی گیا تو اسکی حکومت اس قدر پائیدار نہیں
ہوگی۔اور اسبات کے قوی امکانات موجود ہیں کہ بھارت میں مڈٹرم انتخابات
ناگزیر ہو جائیں گے-
مودی ہندو اور وہ بھی پکا ہندو ہے ۔ اسلیے اس کی جیت کی صورت میں اس سے کچھ
زیادہ ہی توقعات باندھ لینا کہیں کی عقل مندی نہیں ہے۔مودی جیتا تو دہشت
گردی کی لہر مذید تیز ہو جائے گی اور اسکا دائرہ کار میں بھی وسیع
ہوجائیگا- |