بھارت دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت اور آبادی کے لحاظ سے
دوسرا بڑا ملک ہونے کی وجہ سے دنیا بھر کے لئے اہمیت رکھتا ہے۔ اس لحاظ سے
پوری دنیا میں بھارت میں منعقد ہونے والے انتخابات کو دلچسپی سے دیکھا جا
رہا تھا۔ یہ انتخابات 9 مرحلوں میں 6 ہفتے کی طویل مدت میں 14 مئی کو مکمل
ہوئے تھے۔بی جے پی نے ابتدائی نتائج میں جس طرح کامیابی حاصل کی ہے اس نے
تمام اندازوں کو غلط ثابت کر دیا ہے۔بھارت میں دائیں بازو کی جماعت بھارتیہ
جنتا پارٹی(بی جے پی)نے عام انتخابات میں غیر معمولی اکثریت سے کامیابی
حاصل کی ہے۔ اس تاریخی کامیابی کا سہرا وزارت عظمیٰ کے امیدوار نریندر مودی
کے سر باندھا جا رہا ہے۔ انہوں نے کامیابی کے بعد ایک تقریر میں قرار دیا
ہے کہ بھارت میں ایک نئے عہد کا آغاز ہو رہا ہے۔
انتخابی نتائج کی آمد کے ساتھ ہی یہ تاثر قائم ہو گیا تھا کہ بھارتیہ جنتا
پارٹی زبردست کامیابی حاصل کر رہی ہے۔ ابھی نصف نتائج بھی سامنے نہیں آئے
تھے کہ کانگریس پارٹی کی طرف سے شکست تسلیم کر لی گئی اور جیتنے والی پارٹی
اور وزارت عظمیٰ کے امیدوار نریندر مودی کو مبارکباد پیش کی۔ نریندر مودی
نے گجرات میں وڈورا اور بنارس میں وارنسی کے حلقے سے زبردست کامیابی حاصل
کی ہے۔ انہوں نے اس کامیابی کو بھارتی عوام کے لئے صبح نو کا آغاز قرار
دیتے ہوئے کہا ہے کہ اب بھارت ترقی کی نئی منزلیں طے کرے گا۔ انہوں نے کہا
کہ تاریخ میں پہلی بار بھارت میں سیاسی لیڈروں کی ایک ایسی نسل برسر اقتدار
آ رہی ہے جنہوں نے آزادی کے بعد آنکھ کھولی ہے۔ اس لحاظ سے اب ملک کا
انتظام و انصرام نئی نسل کو منتقل ہو رہا ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق کانگریس پارٹی کے ترجمان راجیو شکلا نے نئی دہلی میں
شکست قبول کرنے کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ پارٹی تسلیم کرتی ہے کہ انتخابات
میں عوام نے بی جے پی پر اعتماد کا اظہار کیا ہے۔ کانگریس پارٹی ناکام ہوئی
ہے۔ ہم اپوزیشن کا رول ادا کرنے کے لئے تیار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ نریندر
مودی نے عوام کو چاند ستارے حاصل کرنے کا خواب دکھایا ہے اور عوام نے اس
خواب کو خریدا ہے۔اس اعلان شکست کے باوجود یہ ذکر بے جا نہیں ہے کہ تاریخ
کی بدترین شکست کے باوجود کانگریس پارٹی کو ملک میں ڈالے گئے لگ بھگ 55
کروڑ ووٹوں میں 24 فیصد ووٹ حاصل ہوئے ہیں۔ جبکہ بی جے پی کو 40 فیصد کے
قریب ووٹ ملے ہیں۔ البتہ بھارت میں بھی برطانیہ اور پاکستان کی طرح حلقہ
جاتی نمائندگی کا نظام نافذ ہے اس طرح جیتنے والی پارٹی کو شرح ووٹ کے
مقابلے میں غیر ضروری طور پر زیادہ نمائندے پارلیمنٹ میں حاصل ہو جاتے ہیں۔
نریندر مودی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کو دو وجوہ کی بنا پر اس قدر شاندار
کامیابی حاصل ہوئی ہے۔ ان میں ایک نریندر مودی کا یہ نعرہ ہے کہ وہ بھارت
کی اقتصادی حالت کو ڈرامائی لحاظ سے بہتر کر دیں گے۔ پیداوار میں اضافہ ہو
گا اور روزگار کے زیادہ مواقع فراہم ہو سکیں گے۔ وہ سرمایہ داروں کے دوست
ہیں اور بیرونی اور اندرونی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کا ارادہ رکھتے
ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی کامیابی کی خبر سامنے آتے ہی بھارت اسٹاک
ایکسچینج میں قابل ذکر تیزی کا رجحان دیکھنے میں آیا تھا۔ اب وزیراعظم بننے
کے بعد نریندر مودی کو اپنے اس وعدے کو بھی تیزی سے پورا کرنا ہو گا۔ وگرنہ
وہ جس رفتار سے مقبول ہوئے ، اسی سرعت سے ان کی شہرت اور مقبولیت میں کمی
بھی واقع ہو سکتی ہے۔
ایک رپورٹ کے مطابق بھارتیہ جنتا پارٹی کا دوسرا اہم نعرہ قوم پرستی پر
مبنی ہے۔ اگرچہ گجرات میں 2002ء میں ہونے والے مسلم کش فسادات کے سبب
نریندر مودی نے براہ راست متنازعہ بیانات دینے سے گریز کیا ہے لیکن ان کے
اکثر ساتھی اس حوالے سے پوری انتخابی مہم کے دوران بیان بازی کرتے رہے ہیں۔
بہار سے بی جے پی کے لیڈر گری راج سنگھ نے حال ہی میں یہ بیان دے کر تنازعہ
کھڑا کر دیا تھا کہ سب دہشت گردوں کا تعلق ایک ہی طرح کے لوگوں سے ہے۔ اور
بعد میں اس بیان کی وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا کہ وہ سب مسلمانوں کو
دہشت گرد قرار نہیں دیتے لیکن یہ بھی سچ ہے کہ سب دہشت گرد مسلمان ہی نکلتے
ہیں۔ اس طرح ایک دوسرے بیان میں گری راج سنگھ نے مودی پر تنقید کرنے والوں
سے کہا تھا کہ ان کی بھارت میں جگہ نہیں ہے۔ انہیں پاکستان چلے جانا
چاہئے۔نریندر مودی کے دست راست امیت شاہ نے ایک انتخابی مہم کے دوران کہا
تھا کہ 2002ء کے فسادات کا بدلہ لیا جائے گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ
لوگوں کو مسلمان امیدوار سامنے لانے والی پارٹیوں کو ووٹ نہیں دینے چاہئیں۔
ان بیانات پر الیکشن کمیشن نے امیت شاہ پر انتخابی تقریریں کرنے پر پابندی
لگا دی تھی۔ لیکن کافی ثبوت نہ ہونے کی وجہ سے ان کے خلاف مقدمہ نہیں چل
سکا تھا۔ نریندر مودی نے کبھی اس قسم کے بیانات سے لاتعلقی کا اظہار نہیں
کیا ہے۔ اب قومی لیڈر کے طور پر انہیں یہ ثابت کرنا ہے کہ ان کے ساتھیوں کے
انتہا پسندانہ نعرے اور ان کی پارٹی کے منشور میں شامل بعض متنازعہ وعدے
انہیں بھارت میں آباد سب لوگوں کے لئے ترقیاتی کام کرنے سے نہیں روک سکیں
گے۔نریندر مودی 2001ء میں گجرات کے وزیراعلیٰ بننے کے بعد سے متنازعہ رہے
ہیں۔ 2002ء کے فرقہ وارانہ فسادات کو ہوا دینے کا الزام ان کی حکومت پر
عائد رہا ہے لیکن کسی عدالت میں ان پر فرقہ واریت کا الزام ثابت نہیں ہو
سکا۔ وہ اس وقت سے مسلسل گجرات میں انتخابات جیتتے رہے ہیں۔ اس جیت کی وجہ،
وہ خود اور ان کے حامی گجرات کی بے پناہ ترقی کو قرار دیتے ہیں۔ لیکن اکثر
اوقات اعداد و شمار ان کے دعوؤں کی تصدیق نہیں کرتے۔ اسی طرح 2002ء کے فرقہ
وارانہ فسادات کے علاوہ نریندر مودی پر اپنے دور حکومت میں ماورائے عدالت
قتل کروانے کا الزام بھی عائد ہوتا رہا ہے۔ 2004ء میں ایک واقعہ میں گجرات
پولیس نے ایک نوجوان لڑکی سمیت چار مسلمانوں کو جعلی پولیس مقابلہ میں مار
دیا تھا۔ مودی نے فوری طور پر ان مسلمانوں کو پاکستانی ایجنٹ اور دہشت گرد
قرار دیا تھا۔ بعد میں وفاقی تحقیقاتی اداروں نے پولیس کے مجرمانہ فعل کا
پول کھول دیا تھا۔ اس معاملہ میں بھی نریندر مودی پر کوئی الزام ثابت نہیں
ہو سکا تھا۔
مبصرین کا خیال ہے کہ نریندر مودی کو قومی سطح پر قیادت کا تجربہ بھی نہیں
ہے۔ وہ انتخابی مہم کے دوران پاکستان کے خلاف بھی سخت سست باتیں کرتے رہے
ہیں۔ بھارت اور پاکستان میں دائیں بازو کی حکومتیں ہی دونوں ملکوں کے
درمیان کوئی معاہدہ کروانے کی کوشش کرسکتی ہیں۔ اس سلسلہ میں 1999ء کی بس
ڈپلومیسی کا حوالہ دیا جاتا ہے جب بی جے پی کے وزیراعظم اٹل بہاری باجپائی
نے لاہور کا دورہ کیا تھا۔ اس وقت بھی پاکستان میں نواز شریف وزیراعظم
تھے۔میاں نواز شریف نے نریندر مودی کی کامیابی کے بعد ٹیلی فون پر انہیں
کامیابی کی مبارکباد دیتے ہوئے پاکستان کا دورہ کرنے کی دعوت بھی دی ہے۔
ماضی میں دس برس تک بھارت کا وزیراعظم رہنے والے من موہن سنگھ بار بار دعوت
کے باوجود رائے عامہ کے خوف کی وجہ سے پاکستان کا دورہ نہیں کر سکے تھے۔
قیاس کیا جا سکتا ہے کہ مودی جیسا حوصلہ مند لیڈر یہ اقدام کر سکتا
ہے۔نریندر مودی بھارت کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنا چاہتے ہیں۔ وہ عوام کو
خوشحالی کی نوید بھی دیتے ہیں۔ اپنے ملک میں سرمایہ کاری کا فروغ بھی چاہتے
ہیں۔ یہ سارے خواب پورے کرنے کے لئے انہیں جنگ کی بجائے امن اور فرقہ واریت
کی بجائے باہمی احترام کے رویہ کو فروغ دینا ہو گا۔ |