بڑے درخت اپنی جڑیں بوڑھی ہونے کے بعد چھوڑ کر گرتے ہیں
تو زمین دہل جاتی ہے، پڑوسی ملک میں بھی کانگریس کا حشر بالکل ایسا ہی ہوا
ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے ایک چائے بیچنے والے نریندر مودی نے ہندوستان کی
سیاست میں تہلکہ مچا دیا ہے۔ گو کہ مودی صاحب کی شخصیت مسلمانوں کے لحاظ سے
درست سمت میں نہیں ہے کیونکہ میڈیا کے ذریعے جو رپورٹنگ سامنے آتی رہی ہے
اس پر تجزیاتی نظر ڈالا جائے تو لگتا ہے کہ وہ ایک تعصب زدہ انسان ہے۔
ہندوستانی مسلمانوں کے خونِ ناحق بہانے میں گاہے بگاہے اور کہیں نہ کہیں ان
کا ہاتھ ضرور رہا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ وہ ہند کے وزیراعظم بننے کے بعد
کس طرح کی پالیسی اختیار کرتے ہیں۔ کہا تو یہی جاتا ہے کہ سیاست کے پرانے
مکین ہیں اور اپنے تجربے کی بنیاد پر اچھی حکمرانی سر انجام دیں گے مگر یہ
سب بات قبل از وقت ہے۔ پڑوسی ملک کے ساتھ ان کا رویہ کیسا رہتا ہے یہ وقت
اور حالات فیصلہ کرے گا۔ ہمارے وزیراعظم صاحب نے تو قبل از حلف برداری ہی
انہیں مبارک باد اور نیک خواہشات کے پیغام دے دیا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ
مودی موصوف کیا گل کھلاتے ہیں۔ ویسے یہ بات قابلِ داد ہے کہ نریندر مودی نے
بغیر رتھ دوڑائے ملک فتح کر لیا ہے ، موصوف اگر صاف شفاف ایجنڈے پر قائم
رہے تو دنیا بھر میں ان کی واہ واہ ہو سکتی ہے مگر صورتحال جو ابھی تک واضح
ہوئی ہے اس میں ابہام پایا جاتا ہے۔
ہندی میں کہتے ہیں کہ ہمت کی بلہاری کا پیکر بن کر نریندر مودی نے انتخابات
میں چمتکار دکھا دیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں، مگر صاحبان! ماضی میں نفرت
کا رتھ چلا کر اور بابری مسجد کو توڑ کر لال کرشن ایڈوانی نے بی جے پی کو
عام انتخابات میں کامیابی سے ہمکنار کیا تھا لیکن تب بھی بی جے پی کو
اتحادیوں کی بیساکھی کا سہارا لینا پڑا تھا۔ مگر اس الیکشن میں مودی نے
پارٹی کو اس قسم کے کسی باہری سہارے سے بے نیاز کر دیا ہے۔ تیس سال کی
سیاست کے بعد نریندر مودی ایک ایسے اژدہے کی شکل میں ظاہر ہوئے ہیں جنہوں
نے ذات پات کی سیاست کرنے والوں کو نگل لیا ہے۔ اب دیکھئے کہ وہ پاکستان سے
بھی زیادہ تعداد میں وہاں بسنے والے مسلمانوں کے ساتھ کیا سلوک کرتے
ہیں۔کامیابی اور خوشی کی ترنگ میں نریندر مودی کو بہرحال یہ یاد رکھنا ہوگا
کہ وہ گجرات سے نکل کر سیدھے ۷؍ریس کورس روڈ میں بُرا جمان ہو رہے ہیں۔
مودی اگر کسی کے فریب میں نہیں آئے تو شاید اچھی حکمرانی کر سکیں۔ ہند کے
مسلمان وہاں کی تقدیر ہیں ان آبگینوں کو ٹھیس نہیں لگنا چاہیئے۔ ویسے تو
میڈیا کے ذریعے یہ معلوم ہو گیا ہے کہ وہ اپنے وعدوں پر قائم رہیں گے تب ہی
جا کر ان پر کسی آفت کے نہ آنے کی سعی کی جا سکتی ہے۔
ویسے بھی اکیسویں صدی کی سیاست حقیقت پسندی کے دور میں داخل ہو چکی ہے، اب
وہ زمانہ لد گیا کہ جب لوگ جھوٹی تسلیوں کے سہارے اقتدار کی کرسیوں سے ایک
لمبی مدت تک چپکے رہتے تھے، اور سادہ لوح عوام کے حقوق غصب کرکے ذاتی مفاد
کا قلعہ تعمیر کرنے میں پُر جوش دکھائی دیتے تھے، آج کی سیاست میں کام
بولتا ہے نام نہیں۔کیا شہر کیا دیہات ہر جگہ اب لوگوں کا شعور بالیدہ ہوتا
جا رہا ہے جو سرکار وعدہ وفا نہیں کرتی اسے بہت جلد منہ کی کھانی پڑتی ہے ۔
ایسی ہی کہانی ہمارے ملک کی بھی ہے ، یہاں بھی شعور اُجاگر ہو چکا ہے اور
یہاں بھی یہی بات پروان چڑھ رہی ہے کہ سیاست میں زندہ رہنا ہے تو کام کرکے
دکھانا ہوگا۔ ہمارے عوام بھی انتظار کر رہے ہیں کہ کب حکمران کروٹ لیں اور
ملک ترقی کرے تو ہند کے عوام بھی اسی کے سہارے اپنے ووٹ کا استعمال کر چکے
ہیں۔ حکمران چاہے کہیں کے بھی ہوں ، چاہے ہند کے ہوں یا پاکستان کے! اگر
اپنی قوم کی فلاح وبہبو د کے لئے عملی اقدام نہیں کریں گے تو انہیں مستقبل
کے حسین سپنے دیکھنے کا کوئی حق حاصل نہیں ہے۔ حکمرانوں کا یہ اولین فریضہ
ہے کہ وہ اپنے فکر وخیال میں تبدیلی پیدا کریں، زمانے کے مزاج، حالات کی
کرواہٹ اور اسلام دشمن عناصر کی سیسہ کاریوں پہ باریک بینی سے نظر رکھیں،
قومی و ملی جذبے کے تحت سیاست کریں ۔ اگر کسی سیاسی پارٹی جیت کر آئے تو
فوری طور پر عملی اقدامات کریں تاکہ عوام نے جس بھروسے سے انہیں چُنا ہے تو
انہیں نظر بھی آئے کہ ان کا ووٹ رائیگاں نہیں گیا۔چونکہ ہمارے وطنِ عزیز کے
رہبران میں وہ اضطراب نہیں کہ جلد ترقی کی جائے ۔ شاعر کیا خوب کہتا ہے۔
خدا تجھے کسی طوفاں سے آشنا کر دے
کہ تیرے بحر کی موجوں میں اضطراب نہیں
بات ہو رہی تھی مودی اینڈ کمپنی کی کہ وہ اب بدلے کا جذبہ ٹھنڈا کر دیں تو
ہی ان کے مستقبل کے لئے بہتر ہوگا ورنہ یہ جذبہ کہیں ان کے ہی ملک کو تباہ
نہ کر دے۔ اس لئے ان کے حق میں صاف شفاف سیاست ہی بہتر ہوگا۔ الیکشن سے
پہلے ہی وہاں کے میڈیا نے مودی کے وزیراعظم بننے کی خوشبو سونگھ لی تھی اور
ہر وقت مودی مودی کا جاپ کر تے نہیں تھکتے تھے۔ بہرکیف مودی کی طرف سے ایسے
اشارے ملے ہیں کہ وہاں کا میڈیا ان کے خلاف پروپیگنڈہ کر رہا ہے ۔ جو کچھ
بھی ہو عام انتخابات میں مودی نے میدان مار لیا ہے لیکن ہند کے مقدر کے
فیصلہ وہاں بسنے والے مسلمانوں کی شرکت کے بغیر پورا نہیں ہو سکتا۔
برسرِاقتدار آنے کے بعد عوام جن اندیشوں کا شکار ہیں مودی کی ذمہ داری ہے
کہ وہ اپنی کارکردگی کے ذریعہ ان کا ازالہ کریں۔ صرف اکثریت کا حاصل کرنا
مضبوط اور مستحکم حکومت کی ضمانت نہیں ہو سکتی۔ اگر تمام طبقات کو اعتماد
میں نہ لیا جائے تو اکثریت کے تبدیل ہونے میں وقت نہیں لگتا۔ اب دیکھنا یہ
ہے کہ نریندر مودی کی حکومت ترقی کی راہ پر کس طرح گامزن ہوتی ہے۔ خمار
بارہ بنکوی نے کا ایک شعر مجھے اس وقت شدت سے یاد آ رہا ہے ۔ اور اس موضوع
کے حوالے سے تو خوب ہے۔ آپ بھی پڑھیئے:
اب جاکے آہ کرنے کے آداب آئے ہیں
دنیا سمجھ رہی ہے کہ وہ مسکرائے ہیں
مودی کو اب اس بات پر دھیان دینا چاہیئے ۔ صحیح وقت کا استعمال اور کچھ بڑے
فیصلے جو بغیر کسی رکاوٹ کے لاگو ہو جائے یعنی پڑوسیوں سے بہتر تعلقات،
وہاں بسنے والے مسلمانوں اور ہندوؤں کے ساتھ یکساں رویہ، تبھی جا کر ایک
مستحکم اور طاقتور سرکار کو بول بالا ہوگا۔ ایک صحیح سرکار کا کوئی نجی
ایجنڈا نہیں ہونا چاہیئے، کوئی منقسم خیال اور نظریہ نہیں ہونا چاہیئے، نہ
ہی سرمایہ دارانہ مفاد بھی نہیں ہونا چاہیئے۔ ان ہی اصولوں پر مودی موصوف
چلیں گے تو ان کی کامیابی ہے ورنہ؟ ورنہ کا مطلب وہ خوب سمجھتے ہیں کہ وہاں
بھی انتخابات بار بار ہوا کرتے ہیں۔ پھر کوئی اور تخت نشین بھی ہو سکتا ہے
اس لئے ضروری ہے کہ وہ مثبت حکمرانی قائم کریں۔ |