بھارتی صدر پرناب مکھر جی نے15 ویں لوک سبھا تحلیل
کردی ہے اور الیکشن کمیشن نے انتخابی نتائج صدر کو پیش کردئیے ہیں۔بھارتی
پارلیمان کے انتخابات میں بھارتیہ جنتا پارٹی نے 543 کے ایوان میں 282
نشستیں حاصل کر کے حکومت سازی کے لیے درکار سادہ اکثریت حاصل کر لی جبکہ
کانگریس نے صرف 44 نشستیں حاصل کی۔ بی جے پی کے وزیراعظم کیلئے نامزد
امیدوار نریندر مودی21 مئی کو اپنے عہدے کا حلف اٹھائیں گے۔بھارت میں ہونے
والے لوک سبھا انتخابات کو تاریخ کے مہنگے ترین انتخابات قرار دیا جا رہا
ہے حکومت کو انتخابی عمل پر 1114 کروڑ بھارتی روپے خرچ کرنا پڑے۔ ایک رپورٹ
کے مطابق امیدواروں ، سیاسی جماعتوں اور حکومت کے مجموعی اخراجات 30 ہزار
کروڑ روپے بنتے ہیں۔ بھارت میں 1999 کے عام انتخابات کے مقابلہ میں پولنگ
سٹیشنز کی تعداد 11.26 فیصد کمی ہوئی لیکن اخراجات میں 17.5فیصد کا اضافہ
ہوا۔ بھارت میں انتخابی اخراجات مرکز میں حکومت کی ذمہ داری ہے تاہم امن و
امان کے اخراجات متعلقہ ریاستیں برداشت کرتی ہیں سیاسی جماعتوں اور
امیدواروں کی طرف سے کئے جانے والے اخراجات اس کے علاوہ ہیں بھارت میں ایک
امیدوار کو 76 لاکھ روپے تک خرچ کرنے کی اجازت ہے ایک اندازے کے مطابق 9
مرحلوں پر محیط بھارتی انتخابات پر حکومت ، سیاسی جماعتوں اور امیدواروں کی
طرف سے مجموعی طور پر 30 ہزار کروڑ بھارتی روپے خرچ کئے گئے۔ کروڑ پتی
امیدواروں کارپوریٹ سیکٹر اور ٹھیکیداروں کی طرف سے بھی انتخابات پر بہت
زیادہ پیسہ لگایا گیا جس کا کوئی ریکارڈ نہیں ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے
اہم لیڈر نریندرا مودی کی جانب سے انتخابات میں کئے گئے شفافیت اور کرپشن
سے پاک کرنے کے وعدوں کے باوجود بھارت کی اگلی کابینہ میں اس بار اراکین کی
ریکارڈ تعداد ایسے افراد پر مشتمل ہوگی جن پر سنگین جرائم کے الزامات
ہیں،مودی نے وعدہ کیا تھا کہ وہ ایک شفاف اور مثر حکومت قائم کرکے سست
معیشت کو بہتر کریں گے۔ انہوں نے اکثریت حاصل کرلی ہے اور اب وہ جلد اپنی
حکومت بنائیں گے۔ لیکن انتخابات جیتنے کے بعد ہندو قوم پرست بی جے پی پارٹی
کی نئی کابینہ کے لوگوں پر کئی اہم جرائم کے الزامات ہیں جن میں قتل، اغوا،
رہزنی اور فرقہ وارانہ یا نسلی فسادات پھیلانے کا جرائم شامل ہیں۔
میڈیارپورٹس کے مطابق 158افراد پر مشتمل پچھلی کابینہ کے مقابلے میں ایوانِ
زیریں کے 34 فیصد اراکین پر جرم کے الزامات ہیں۔ یہ تنظیم گڈ گورننس اور
صاف حکومت کی وکالت کرتی ہے اور اسی کیلئے تحقیقی کرتی ہے۔ 543 اراکین پر
مشتمل کابینہ کے کئی اراکین پر سنگین جرائم کے الزامات ہیں۔ بی جے پی کے نو
میں سے چار اراکین پر قتل کے مقدمات ہیں، جبکہ سترہ میں سے دس پارلیمانی
اراکین پر اقدامِ قتل کے الزامات ہیں۔ روایتی طور پر ووٹروں کو مجرمانہ
سرگرمیوں والے اراکین سے کوئی خاص مطلب نہیں دوسری جانب ملک میں کروڑوں
افراد نے مذہبی اور ذات پات کی بنیاد پر ووٹ ڈالے ہیں۔نریندر مودی کے دور
میں 2002ء میں گجرات میں مسلم کش فسادات کے دوران 26 ہزار کے لگ بھگ
مسلمانوں بشمول خواتین بچوں کی شہادت کے بعد ان کے وزیراعظم بننے سے لاکھوں
مسلمانوں کی نسل کشی، ہجرت اور بے سروساماں ہونے کا خطرہ پیدا ہو گیا ہے یہ
سانحہ گجرات سے بھی بڑا المیہ ہو سکتا ہے۔ بی جے پی مسلم دشمنی اور مسلم
نسل کشی کے باعث پوری دنیا میں بدنام ہے۔ بی جے پی کی لوک سبھا انتخابات
میں تاریخی جیت پر سوال اٹھنے لگے ہیں کہ آیا اس بار کیا 26ہزار نہیں
26لاکھ بھارتی مسلمانوں کی شہادت کا منصوبہ تیار ہو چکا ہے، آیا نریندری
مودی اپنے قول کے مطابق دنیا بھر سے (خصوصاً پاکستانی اور بنگالی) ہندوؤں
کو بھارت ماتا میں بسائیں گے اور مسلمانوں کی چھٹی کرا دینگے۔اگر بی جے پی
کے بھارتی سیاست میں کردار کا جائزہ لیا جائے تو پتہ چلتا ہے کہ لوک سبھا
کے 1991ء کے انتخابات میں بی جے پی کل 545سیٹوں میں سے 120سیٹیں جیتنے میں
کامیاب رہی، 1992میں بابری مسجد شہادت کا واقعہ پیش آیا۔ جس کے بعد بی جے
پی کٹر ہندو جماعت کے طور پر دنیا بھر میں مشہور ہو گئی۔بھارت میں عام
انتخابات کے نتیجے میں وجود میں آنے والی نئی ’’لوک سبھا‘‘ میں مسلمانوں کی
نمائندگی تاریخ میں سب سے کم ہے جبکہ بھاری ووٹوں سے سب سے زیادہ نشستیں
جیتنے والی بھارتیہ جنتا پارٹی کے 282 کامیاب امیدواروں میں سے کوئی ایک
بھی مسلمان نہیں ہے۔ بھارت کی 16ویں منتخب پارلیمنٹ میں مسلمانوں کی تعداد
تاریخ میں سب سے کم ہے اور حالیہ انتخابات میں 543 نشستوں میں سے صرف 20
مسلمان کامیابی حاصل کرپائے، ریاست اترپردیش کی 80 نشستوں میں سے کوئی بھی
مسلمان امیدوار کامیابی حاصل نہ کرسکا، مغربی بنگال سے کانگریس کے ٹکٹ پر
2، کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے 2 اور ترینامول کانگریس کے 3 جبکہ ریاست بہار
سے راشٹریہ جنتا دل، نیشنلسٹ کانگریس پارٹی، لوک جنشکتی پارٹی اور کانگریس
کے ایک، ایک مسلمان امیدوار کامیاب ہوئے۔اسی طرح مقبوضہ جموں کشمیر سے
پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی کے ٹکٹ پر 3، آسام سے آل انڈیا یونائٹد ڈیموکریٹک
فرنٹ کے 2، لکشدویپ سے نیشنلسٹ کانگریس پارٹی کے ایک ، ریاست تامل ناڈو کے
شہر رماناتھاپورم سے ’’اے آئی اے ڈی ایم کے‘‘ کے ایک اور حیدر آباد دکن سے
مجلس اتحاد المسلمین کے رہنما لوک سبھا میں جگہ بنانے میں کامیاب ہوئے تاہم
30 سال بعد ایوان میں تنہا حکومت بنانے والی بھارتیہ جنتا پارٹی کے 282
کامیاب امیدواروں میں سے کوئی ایک بھی مسلمان نہیں جس سے انتہا پسند جماعت
کی مسلمانوں سے نفرت کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے۔ اپنی معیاد پوری کرنے والی
15ویں لوک سبھا میں مسلمان ارکان کی تعداد 25 تھی۔۔ امریکی صدر باراک
اوباما کی جانب سے نریندر مودی کو دورہ امریکہ کی دعوت کے بعد بھارت کے
متوقع وزیراعظم کو امریکی ویزہ دئے جانے پر عائد پابندی ختم ہوتی دکھائی دے
رہی ہے، باراک اوباما نے بھارتی انتخابات میں اکثریت حاصل کرنے والی
بھارتیہ جنتا پارٹی کے وزارت عظمیٰ کے امیدوار نریندر مودی کو فون کر کے نہ
صرف مبارکباد دی تھی بلکہ انھیں عہدہ سنبھالنے کے بعد امریکہ کی دورہ کرنے
کی دعوت بھی دی تھی، امریکی حکام 2002ء میں بھارتی ریاست گجرات میں نریندر
مودی کی وزارتِ اعلیٰ کے دوران مسلم کش فسادات میں ہزاروں افراد کی ہلاکت
کے بعد سے انہیں امریکہ کا ویزا دینے سے انکار کرتے آئے ہیں، 2005ء میں
امریکہ نے نریندر مودی کو سفارتی ویزا دینے سے انکار کیا تھا اور بعد ازاں
ان کا سیاحتی اور کاروباری ویزا بھی رد کردیا گیا تھا۔ |