سولہویں لوک سبھا انتخابات کے
نتائج نے یہ ثابت کردیا ہے کہ ہندوستان میں آر ایس ایس کی طرح پالیسی سازی،
حکمت عملی وضع کرنے اور اس پر عمل کرنے میں اس کا کوئی ثانی نہیں ہے اور
تمام حکمت عملی وضع کرنے اور منصوبہ بندی کرنے والے اس کے سامنے طفل مکتب
ہیں۔ سولہویں لوک سبھا کے غیرمتوقع نتائج سے سب حیران ضرور ہیں لیکن اس کی
توقع ضرور تھی جیسا کہ اس سے قبل کئی کالموں میں اشارہ کیا گیا تھا۔
ہندوستانی عوام پوری طرح ہندوتو کے رنگ میں رنگ چکے تھے ۔ جو خواب انہیں
دکھایاگیا تھا وہ اس خواب کی تعبیر دیکھنے کے لئے اس قدر بے چین تھے ا نہوں
نے سامنے والے امیدوار کو بھی نہیں دیکھا کہ وہ چور ہے ، بدعنوان ہے، نفرت
کا سوداگر ہے یا انسانیت کا قاتل ہے۔ صرف یہ دکھائی دیا کہ اس کے ہاتھ میں
کمل ہے ۔ اس الیکشن میں ہندوستانی عوام نے نہ ترقی کے نام پر ووٹ دیا اور
نہ صاف ستھری امیج کے نام پر۔ صرف ان کے سامنے یہ نظریہ تھا کہ وہ مودی
کوووٹ دے کر ’ہندو ہردے سمراٹ‘کے توسط سے آر ایس ایس کے ہندو راشٹر کے خواب
کو شرمند ہ تعبیر کریں۔ یہ الیکشن دوسروں کیلئے عبرت اور سبق بھی ہے کہ کس
طرح محنت کی جاتی ہے۔ زمینی سطح پر کس طرح کام کیا جاتا ہے۔ کس طرح رائے
عامہ کو اپنے حق میں ہموار کیا جاتا ہے، کس طرح جھوٹ کو سچ میں تبدیل کیا
جاتا ہے۔ کس طرح کسی کی کارکردگی کوصفر بناکر پیش کیا جاتاہے اس کا نظاہرہ
پوری طرح نظر آیا۔ آر ایس ایس کے ورکروں نے بوتھ لیول تک بہت محنت کی، نو
مرحلے میں کرائے گئے الیکشن کی وجہ سے بھی ان کو تمام جگہوں پر اچھی طرح
کام کرنے اور ذہن سازی کا موقع ملا۔ آر یس ایس کے کارکنوں نے گھر گھر جاکر
اور لوگوں سے فرداً فرداً ملاقات کرکے لوگوں کا ’برین واش‘ کیا اور یہ ذہن
میں یہ ڈالنے کی کامیاب کوشش کی کہ اگر انہوں نے مودی کو ووٹ دیا تو وہ
ترقی کی جمنا اور گنگا بہا دیں گے، سب کے دن پھر جائیں گے، جو لوگ سائیکل
چلانے کی اوقات نہیں رکھتے ہیں وہ ہوائی جہاز سے سفر کریں گے ۔پل جھپکتے ہی
مہنگائی اور بدعنوانی کا خاتمہ ہوجائے گا۔ کسا نوں کی زمینیں فصل سے لہلا
اٹھیں گی، ہر گھر میں پانی پہنچادیا جائے گا، سارے بچے تعلیم یافتہ ہوجائیں
گے ، لوگوں کو علاج کے لئے مفت سہولتیں حاصل ہوں گی۔وغیرہ وغیرہ یہ نعرہ
انتخاب کے پہلے اور دوسرے مرحلے تک رہا لیکن اس میں کامیابی کے امکان کم
ہونے کی وجہ سے وہ فطرت پر اتر آئے اور انہوں نے گالی گلوج، نفرت اور
اشتعال انگیز تقریر کا سلسلہ شروع کردیا۔ ایک طرف بھارتیہ جنتا پارٹی کے
رہنما اشتعال انگیز بیانات دے رہے تو دوسری طرف آر ایس ایس کے کارکنان
ہندؤوں کو مسلمانوں کا خوف دلاکرانہیں کو متحد کر رہے تھے ۔ یہ سلسلہ
الیکشن کے آخری مرحلے تک زبردست طریقے سے جاری رہا۔ میڈیا میں آنے والی
خبروں میں بھی یہ بتایا گیا تھا کہ آر ایس ایس نے تمام کارکنوں کو بستی
بستی قریہ قریہ پھیل جانے کا حکم دیا ہے ۔ وہ اپنے کام تئیں انتہائی ذمہ
دار ہوتے ہیں وہ اپنے کام کو مشن کی طرح کرتے ہیں اور زندگی موت کا سوال
بنالیتے ہیں۔ جس کا جلوہ ہندوستان کے ہر کونے میں نظر آیا۔بہار میں جس طرح
کا نظارہ تھا وہ پوری طرح لالو پرساد یادو کے حق میں تھا بڑے شہر کو چھوڑ
دیں تو دیہی علاقوں کے اندر مودی کا نام و نشان نہیں تھا لیکن ووٹ کا وقت
آیا تو منظر بدلا ہوا تھا۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے ان لوگوں نے کس طرح خاموشی
سے کام کیا۔ نہ کوئی بیان بازی ، نہ کوئی شور شرابہ اور نہ ہی کوئی شو
بازی۔اس کے برعکس مسلمانوں نے اپنی حکمت عملی صرف بیان بازی، شو بازی اور
شور و غوغا تک محدود رکھی۔اس شو بازی نے آر ایس ایس کارکنوں کو ووٹوں کی صف
بندی کرنے کا سنہری موقع فراہم کیا۔ انہوں نے مسلمانوں کے اتحاد کا نعرہ کا
دکھاکر ہندوؤں کو راغب کیا کہ وہ بھی متحد ہوکر مودی کو ووٹ دیں۔ وہ ہندوؤں
کو یہ باور کرانے میں کامیاب ہوگئے کہ مسلمان مودی کو ہرانے میں جی جان سے
لگے ہوئے ہیں اب ہندوؤں کی ذمہ داری ہے کہ وہ مودی کو بھرپور طریقے سے
کامیاب بنائیں ۔
سولہویں لوک سبھا کے عام انتخابات میں 282 سیٹوں پر فتح حاصل کرنے والی
بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی )کو اکیلے اپنے دم پر اکثریت مل چکی
ہے۔اتحادکے ساتھ 335 سے سیٹیں ملی ہیں۔ آخر بی جے پی کی اس بے مثال کامیابی
کے پیچھے وجہ کیا تھی ۔اس جیت کی پہلی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ کانگریس نے
بی جے پی کے لئے کھلا مکمل میدان خالی چھوڑ دیا اور کانگریس نے عملاً
ہتھیار ڈال دیا تھا۔ اس نے زمینی سطح پر کوئی کوشش نہیں کی اور نہ اس نے
نوشتہ دیوار پڑھنے کی کوشش کی۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ کارکنوں کو تو دور
کانگریسی لیڈروں کو اپنی حکومت کی دس سالہ کارکردگی کے بارے میں کوئی علم
نہیں تھا اور انہوں نے بی جے پی کی غلط تشہیری مہم کا کوئی جواب نہیں دیا
سارے لیڈران صرف ہوا میں باتیں کرتے رہے۔اس کے علاوہ کانگریس کے تئیں لوگوں
میں مہنگائی بدعنوانی کی وجہ سے بہت غصہ تھا۔ اس کی وجہ سے بہت سارے ووٹرجو
پہلے کانگریس اور اس کے اتحادیوں کوووٹ دیا کرتے تھے اس بار انہوں نے بی جے
پی کو ووٹ دیا۔عام طور پر یہ سمجھا جاتا تھا کہ بی جے پی شہری پڑھے لکھے
متوسط طبقے کی پارٹی ہے۔اس کو جس طرح ووٹ ملا ہے اور اس کی پہنچ گاؤں تک
ہوئی ہے یہ کانگریس کے لئے زبردست خطرے کی گھنٹی ہے ۔ اگر اس پارٹی نے بہتر
کام کئے، مہنگائی کو کنٹرول کرنے میں کامیاب رہی اور مسلمانوں کا اعتماد
حاصل کرلیا تو اس پارٹی کے اقتدار کا وقفہ طویل ہوسکتا ہے کیوں کہ پہلی بار
گاؤں میں بڑے پیمانے پر لوگوں بی جے پی کو ووٹ دیا ہے۔ اس بار یوپی بہار
میں یادو سمیت پسماندہ طبقات اور اعلی ذاتوں نے یک طرفہ طور پر بی جے پی کو
ووٹ دیا۔ ایسا بہار میں کبھی نہیں ہوا تھا کہ یکطرفہ طور پر بی جے پی کو اس
طرح ووٹ پڑے۔ پاسوان ذات نے بڑی تعداد میں بی جے پی اور لوک جن شکتی پارٹی
کے لئے ووٹ دیا ہے۔ اس کی خاص وجہ ہے کہ بی جے پی نے رام ولاس پاسوان کے
ساتھ اتحاد کیا تھا۔اس کے علاوہ بی جے پی پر الیکشن کمیشن کی بھی یکطرف
مہربانی رہی۔اس نے کسی شکایت پر اس کے خلاف کوئی سخت قدم نہیں اٹھایا۔ اس
الیکشن میں سب سے زیادہ جس بات پر تشویش کا اظہار کیا جارہا تھا کہ وہ ا ی
وی ایم میں گڑبڑی کی تھی۔ تشویش ظاہر کرنے والوں کا خدشہ بے جا نہیں تھا۔
اس بار الیکشن میں آسام میں ’موک الیکشن ‘کے دوران جب ای وی ایم کی
کارکردگی دیکھی گئی اور جس بٹن کو دبایا جاتا ووٹ بی جے پی کو پڑ رہا
تھا۔الیکشن کمیشن سے اروناچل پردیش ، گجرات کے سابرمتی آشرم، پادرہ اسمبلی
حلقے، راجستھان میں ہونے والے اسمبلی انتخابات میں الیکٹرونک ووٹنگ مشینوں
کی گڑبڑی کی شکایت کی گئی تھی(گجرات کے دو حلقے سابرمتی آشرم اور پادرہ میں
بھی یہی ہورہا تھا بٹن کسی پر دبایا جائے ووٹ بی جے پی کو پڑ رہا
تھا)۔الیکشن کمیشن سے 2012میں بھی شکایت کی گئی تھی لیکن کمیشن نے اس
پرکوئی توجہ نہیں دی۔ بہ مشکل اس نے مارچ 2013میں میں اس کا جواب دیا لیکن
ٹمپرنگ پر خاموشی اختیار کی۔ حالانکہ این جی او جس میں انہد بھی شامل ہے
الیکشن کمیشن سے ثبوت کے ساتھ شکایت کی تھی۔ لیکن کوئی توجہ نہیں دی
گئی۔اسی سمت میں آگے بڑھتے ہوئے بھارت مکتی مورچہ، بہوجن مکتی مورچہ اور
بام سیف نے زبردست دھانندلی اورگڑبڑی کا الزام لگاکرالیکشن کے موجودہ نتائج
کو مسترد کرتے ہوئے حلف ناموں کے ساتھ سپریم کورٹ جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس
کے مطابق کہیں کہیں تو الیکشن میں پڑنے والے ووٹ سے کہیں زیادہ ای وی ایم
مشین سے ووٹ نکلے ۔اس کے علاوہ میڈیامیں آنے والوں خبروں میں انتظامی افسر
کے حوالے سے یہ بات کہی گئی کہ 60سیٹوں پر بی جے پی کے امیدوار ہار رہے تھے
لیکن ای وی ایم میں گڑبڑی کے ذریعہ اسے ہرایا گیا۔ سوشل میڈیا کی بات مانیں
تو ای وی ایم ٹمپرنگ کیلئے ملک و بیرون ممالک سے انجینئر بلائے گئے تھے۔ اس
کے ثبوت کے لئے سوشل میڈیا میں تصاویرپوسٹ کی گئی ہیں۔
یہ انتخابات ہندوستان کی تاریخ کا سب سے مہنگا انتخاب ہے۔ اس سے ملک کے
خزانے پر 34 ارب سے زائد کا بوجھ پڑا ہے جو 2009 کے انتخابات میں خرچ ہونے
والے تقریباً 14.75 ارب روپے کے مقابلے 131 فیصد زیادہ ہے۔ اگر آپ حکومت،
سیاسی جماعتوں اور امیدواروں سب کے خرچ کو جوڑ دیں توہندوستان نے موجودہ
انتخابات میں تقریبا 3.14 کھرب روپے خرچ کئے لیکن تمام اور حقیقی اخراجات
کو شمار کریں یہ خرچ کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔خرچ بڑھنے کی ایک اور وجہ یہ ہے
کہ اس بار حکومت نے امیدوار کے انتخابات پر کئے جانے والے اخراجات کی حد کو
40 لاکھ سے بڑھا کر 70 لاکھ روپے کر دیا۔ یہ رقم 2012 کے امریکی انتخابات
میں امیدواروں اور پارٹیوں کی طرف سے خرچ کئے گئے تقریبا 4.14 ٹریلین روپے
سے تھوڑی ہی کم ہے۔ بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ مہم کے دوران اور بھی بہت
زیادہ پیسہ خرچ کیا گیا تھا، جس سے پیسے کے بڑھتے اثرات کے سلسلے تشویش بڑھ
گئی ہے۔سولہویں لوک سبھا کے انتخابات میں تقریباً 54 کروڑ یا 66.4 فیصد
ووٹروں نے اپنے ووٹ کا استعمال کیا ۔ 36 دن اور نو مراحل میں ہونے والے
انتخابات میں اب تک تاریخ میں سب سے زیادہ ووٹ پڑے ہیں۔ اس سے پہلے 1984
میں سابق وزیر اعظم اندرا گاندھی کے قتل کے بعد ہو نے والے انتخابات میں 64
فیصد ووٹ پڑے تھے۔ اس بار 35 ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں سے
15 میں اب تک سب سے زیادہ پولنگ ہوئی جبکہ 32 ریاستوں اور مرکز کے زیر
انتظام علاقوں میں 2009 کے انتخابات کے مقابلے زیادہ ووٹنگ ہوئی ہے اور 35
ریاستوں اور مرکز کے زیر انتظام علاقوں میں سے 16 میں خواتین نے مردوں کے
مقابلے زیادہ ووٹ ڈالے ہیں۔
ہندوستان میں پہلی بار سیاسی جماعتوں نے ووٹروں کو لبھانے کے لئے سوشل
میڈیا کا بڑے پیمانے پر استعمال کیا۔ اپریل 2013 میں شائع ایٹرنیٹ اور
موبائل ایسوسی ایشن آف انڈیا (آئی اے ایم اے آئی ) کی ایک رپورٹ اور ممبئی
کے آئرس نالج فاؤنڈیشن کے مطابق فیس بک استعمال کرنے والوں کا 543 میں سے
160 سیٹوں کے انتخابات میں ’’ انتہائی زبردست طریقہ سے متاثر رہا‘‘۔ یہ ایک
ایسی معلوماتہے جس پر اہم سیاسی جماعتوں نے توجہ دی ہے ۔آئی اے ایم اے آئی
اور ممبئی کے بازارکے محقق آئی ایم آر بی انٹرنیشنل کے اکتوبر ، 2013 میں
کئے گئے ایک مطالعہ کے مطابق حکمراں کانگریس اور حزب اختلاف کی جماعت
بھارتیہ جنتا پارٹی اپنے انتخابی خرچ کا 2۔5 فیصد سوشل میڈیا کے لئے مقرر
کیا تھا۔2009 کے گزشتہ عام انتخابات کے وقت ہندوستان میں سوشل میڈیا کا
میدان بہت چھوٹا تھا ۔ لیکن آج 9.30 کروڑ فیس بک کے صارفین ہیں اور ٹوئٹر
کے قریب 3.3 کروڑ اکاونٹس ہیں۔ اس کے نتیجے میں بہت سی سیاسی پارٹیوں نے
اپنی آن لائن موجودگی بڑھا دی ہے ۔ مودی اور بی جے پی اس میڈیا کو استعمال
کرنے میں سب سے زیادہ کامیاب رہی ۔ مثال کے طور ٹوئٹر کے اعداد و شمار کو
دیکھیں، نریندر مودی نے انتخابات سے متعلق 5.60 کروڑ ٹویٹس میں سے 20 فیصد
کئے ہیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ عام آدمی پارٹی انتخابات سے متعلق 15 فیصد
ٹویٹس کے ساتھ دوسرے مقام پر ہے ۔جب کہ کانگریس پارٹی تیسری پوزیشن میں ہے
، جس کے انتخابات سے متعلق پانچ فیصد ٹویٹ ہیں۔گزشتہ سال ستمبر میں جب بی
جے پی نے اعلان کیا کہ مودی پارٹی کے وزیر اعظم کے امیدوار ہوں گے ، وہ
قریب 400 نیوز چینلوں کے ذریعہ ایرویو پر چھا گئے تھے۔ ان کے حامیوں نے
مکھوٹے ، ٹوپیاں ، کاغذ کے دھوپ کے چشمے اور ان کی تصویر والے رومال پہنے
مودی فلیش ڈرائیو فوٹو بک بھی آ گئی ۔گجرات میں مودی کے حامیوں کے ایک کلب
کی بنائی گئی ایک فلم میں مودی کو سپرمین جیسا دکھایا گیا ہے جو’’ پاورٹی
بورڈ ‘‘پر ڈارٹ پھینک رہے ہیں اور دہشت گردوں کو پکڑنے کے لئے لپکتے ہیں۔جس
سے ہندؤں کو مسلمانوں کے خلاف پولرائز کیا گیا۔ان کے اور ان کے کام پر کئی
فلمیں بنائی گئیں اور ان کے بارے میں 120 سے زیادہ کتابیں لکھی گئیں ۔ ان
میں سے کئی میں انہیں جدید ملک کا معمار اور’’مین آف دی مومینٹ ‘‘ جیسے نام
دیے گئے ۔گزشتہ کچھ سالوں سے ان کا چہرہ اشتہارات اور بلبورڈس پر ظاہر ہو
رہا تھا۔ کھانے کے پیکیٹوں میں نظر آرہا تھا ، بچوں کے لئے سستے کھانے کے
پیکیٹو ں کے علاوہ ایڈز مخالف مہم کے لئے حکومت کی طرف سے تقسیم کئے جا نے
والے کنڈوم کے پیکیٹوں تک میں بھی نظر آرہا تھا۔
مودی کو کامیاب بنانے میں صرف آر ایس ایس کا ہی ہاتھ نہیں تھا بلکہ
ہندوستان کی تمام مشنری کامیاب بنانے میں لگی ہوئی تھی۔ یہاں تک کے کمپنی
اشتہارات بھی مودی کی حمایت میں مہم چلارہے تھے۔ ایک کمپنی کا اشتہار تھا
’سرکاری بھی صحیح چننا‘ آئیڈیا کا مشہور اشتہار الو بناوین، میں جس طرح
موجودہ حکومت سے نفرت اور لیڈروں کے خلاف تبصرے کئے گئے اس نے بھی رائے
عامہ بی جے پی کے حق میں ہموار کرنے میں کافی مدد کی۔ ایک بنیان کا اشتہار،
تم فٹ نہیں ہو اس لئے تمہیں ووٹ نہیں اور یہ کہکر ایک بزرگ لیڈر پر اپنی شٹ
ڈال دیتا ہے،اسی طرح بائیک کا اشتہار اور ایک موبائل کمپنی کا اشتہار اب کی
بار .... وغیرہ اشتہارات تھے جنہوں نے مودی کے تئیں لوگوں کی ذہن کی سازی
میں نمایاں کردار اداکیا تھا۔ ہندوستانی عدلیہ کو معلوم ہو یا نہ ہو لیکن
یہ بات پوری دنیا جانتی ہے سمجھتی اور سچ تسلیم کرتی ہے کہ گجرات قتل عام
میں نریندر مودی کا مکمل ہاتھ تھااب خواہ سی بی آئی یا ایس آئی ٹی سے کلین
چٹ مل جائے یہ بہت معنی نہیں رکھتا۔ کیوں کہ یہ تمام ایجنسیاں کسی نہ کسی
طرح مودی کی ہم نوا ہیں۔کبھی کبھار اپنی معتبریت دکھانے کے لئے اس طرح کا
بیان دیتی رہی ہیں کہ مودی کے خلاف کارروائی کی جائے گی، ثبوت ہے وغیرہ
وغیرہ لیکن چارج شیٹ کا وقت آتا ہے تو سارے ثبوت ضائع ہوچکے ہوتے ہیں۔ اس
الیکشن میں کارپوریٹ گھرانے نے جس طرح مودی پر پیسہ بہایا، اپنے خزانے کے
دہانے کھول دئے، ہوائی جہاز کو مودی کے حوالے کردیااور اپنے اشتہارات کے
ذریعہ مودی کو کامیاب کرانے کی جس طرح مہم چلائی وہ ہندوستانی جمہوریت کے
نیک فال ہرگز نہیں ہیں۔ اس انتخاب میں صرف اور صرف پیسہ کا کھیل رہا ہے
اوراس میں الیکشن کمیشن کا رویہ بہت مودی کی راہ آسان کرنے میں بہت معاون
رہا ہے۔ انہوں نے اشتعال اور نفرت انگیز تقریر کرنے والے بی جے پی لیڈروں
پر کوئی کارروائی نہیں کی۔ صرف تنبیہ سے کام چلایا۔اس کے علاوہ مودی کی
کامیابی کے رتھ کو آگے بڑھانے میں عدلیہ کا بھی سہارا بی جے پی کو ملا ہے۔
پے درپے اتنے سنگین اور اشتعال بیان کے باوجود گری راج کی گرفتاری نہ ہو
نااور عدالت عالیہ کا ان کی ضمانت منظور کرنایہ اشارہ دیتا ہے کہ ہندوتو کے
علمبردار وں اور ہندو راشٹر کے خواب سجانے والوں کے تئیں عدلیہ کا رویہ کیا
ہونے والا ہے۔ اس سے ایسے لیڈروں کو ہندو ووٹوں کی صف بندی کرنے کافی مدد
ملی۔مسلمانوں کو صورت حال کا بہت باریکی سے جائزہ لینا چاہئے اور آر ایس
ایس (حکومت کی ) حکمت عملی پر نظر رکھتے ہوئے اپنے مسائل کے حل کے لئے
حکومت پر دباؤ بنانے کے لئے کمربستہ ہوجانا چاہئے۔کیوں ملک کی ترقی اور ملک
کے خزانے میں ہمارا بھی اتنا ہی حصہ ہے جتنا کہ کسی اورکا تو پھر ہم اس سے
فائدہ اٹھانے میں کیوں پیچھے رہیں۔حکومت کسی کی بھی ہو اپنا حق لینا ہمیں
آنا چاہئے اور اس کے لئے ہمیں جدوجہد کرنے پر کمربستہ ہوجانا چاہئے۔ |