مادر وطن کی سیا سی تاریخ میں بعض سیاسی و مذہبی جماعتوں
اور سیاستدانوں کا کردار مضائقہ خیز ہی نہیں بلکہ اکثر اوقات شرمناک بھی
رہا ہے ۔تاریخ کے اس سفر میں پیپلزپارٹی ایسی جماعت ہے جس نے عوامی سیاست
کی طرح ڈالی اور عوامی خواہشات و مطالبات کو اپنی سیاسست کا محور بنایا
،پیپلزپارٹی کو اس سفر میں بڑی قربانیاں دینا پڑی، پارٹی سربراہ ذولفقار
علی بھٹو اور بینظیر بھٹو جیسے لیڈر عوامی حقوق پر شہید ہوئے ذولفقار بھٹو
کے بیٹوں کامریڈ شاہنواز ،میر مرتضےٰ بھٹو سمیت لاکھوں کارکن عوامی حقوق کی
اس تحریک میں کام آئے۔عہد رواں کی پیپلز پارٹی تمام تر خرابیوں کے ساتھ
جمہوریت کے ساتھ کھڑی ہے ۔ پیپلز پارٹی کی سیاسی حریف اور پاکستان کی دوسری
بڑی حکمران پارٹی مسلم لیگ ن کا ماضی اور نظریاتی اساس کی تفصیل میں جانے
کے بجائے مسلم لیگ ن کا نیا کردار مناسب موضوع ہے ۔ آج کی مسلم لیگ ن میں
خواجگان سعد رفیق اور خواجہ آصف کی لب کشائی اہمیت کی حامل ہے اور جماعت کے
اندر ایک نئے رجحان کی عکاسی ہے ۔لیگی قائد میاں نواز شریف کی نئی حکمت
عملی اور سیاسی انداز سے بھی اس امر کی گواہی ملتی ہے کہ مسلم لیگ ن سے ایک
نئی جماعت کا جنم ہونے جارہا ہے جو اینٹی اسٹبلشمنٹ، عوامی جڑت اورلبرل
خیالات کی حامل ہو گی ،ملک و قوم کیلئے یہ خوشی کی خبر ہوگی ۔استادلوگ کہتے
ہیں کہ مسلم لیگ ن پر پیپلز پارٹی کے اثرات مرتب ہو رہے ہیں ۔ میثاق
جمہوریت کے ثمرات ہیں اور یہ سارا کمال آصف علی زرداری کا ہے جس نے مفاہمت
کی سیاست کو رواج دیا ۔ آصف زرداری کی مفاہمتی سیاست سے لیگی لوگ متاثر
ہوئے ہیں ،تبھی لیگی قیادت مفاہمتی سیاست کو ملکی مفاد میں بہتر خیال کر
رہی ہے۔دوسری جانب مسلم لیگ ن پر جو مذہبی ا ور غیرجمہوری رویوں کے اثرات
تھے زائل ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں ۔ اس امر کا مظاہرہ معروف صحافی حامد میر
پر قاتلانہ حملے کے بعد پیدا ہونے والی صوتحال میں نظر آتا ہے۔اس موقع پر
غیر جمہوری قوتوں کا طوفان بپا کرنا ، عساکر کو بھڑکانے کی مذموم کوشش اور
مذہب کو ہتھیار بناکر اپنی خواہشیات کی تسکین کے لئے قوم کے جذبات سے
کھیلنے کی حرکات پر لیگی حکومت کا تحمل اور حکمت سے دیکھنے کا انداز ایک
جمہوری فکر کا نتیجہ ہے۔ٹکے ٹکے پر بکنے والے جس طرح اپنے ریٹس بڑھانے کے
لئے برائے فروخت کے بورڈ اٹھا کر نکلے اور دھماچوکڑی مچائی اور شرمناک
طریقے سے عسکری اداروں کی قصیدہ گوئی کے ڈھول بجاے ،اس سارے کھیل تماشے میں
حکمرانوں نے بالغ نظری سے کام لیتے ہوئے کوئی ایسا قدم نہیں اٹھایا کہ جس
سے جمہوریت پر حرف آتا ، ورنہ تو ڈھول بجانے والوں کے پچھے مٹھائیاں تقسیم
کرنے والے تیار کھڑے تھے جو بگل بجتے ہوئے ہی لڈو بانٹنے شروع کر دیتے۔لڈو
کے لالچ میں طاہرلقادری کنیڈا سے ہی میدان میں اترے اور عمران خان نہ نہ
کرتے ہوئے بھی لڈو کے چکر میں ہے ۔ چودھری برادران تو پرانے لڈو خور ہیں ان
کا پنڈال میں آنا اچنبے والی بات نہیں ہے۔باخبر حلقے کہتے ہیں کہ بولی موخر
ہے ۔سٹال سجانے والوں کا سودا بکنے والا نہیں ہے انہیں خجل خواری کے سوا
کچھ حاصل نہیں ہوگا فی الحال ان کو جمہوریت ہی براشت کرنا پڑے گی ویسے بھی
لڈو کھانے کا دور گزر چکا ہے ۔جس طرح آصف زرداری نے ڈھول بجانے والوں لڈو
سے محروم رکھا اسی طرح میاں نواز شریف بھی لڈو کھانے کی نوبت نہیں آنے دیں
گے۔کہنے والوں کا کہنا ہے کہ میاں نوازشریف بھی آصف زرداری کے مماثل کردار
ادا کرنے کی ٹھان چکے ہیں ۔ وہ ڈھول بجانے والوں کی نہیں سنتے صرف ڈھول کی
سنتے ہیں اور لطف اندوز ہوتے ہیں۔ آصف زرداری کو بھی زیر کرنے کے لئے
ڈھولچی بے چین تھے ۔ اس وقت تو میاں صاحب خود مموگیٹ لیکر عدالت عظمیٰ پہنچ
گئے تھے تاہم سمجھ آنے پر واپسی اختیار کرلی تھی۔آج جب کہ پارلیمان سمیت
صوبائی اسمبلیوں کو ایک خاص سیاست کے اکھاڑے میں لانے کیلئے بعض ابن الوقت
سیاسی مہرے میدان سجائے ہوئے ہیں جو ایک نجی ٹی وی چینل کی خبر اور پروگرام
کے کچھ حصوں کو بنیاد بنا کر اپنے مذموم مقاسد کی تکمیل چاہتے ہیں اور چند
نام نہاد صحافیوں کے ہاتھوں میں کھلونا بنے ہوئے ہیں۔
انہیں جو سبق پڑھایا جاتا ہے وہ طوطے کی طرح پڑھتے جاتے ہیں ، مذہب کا
ہتھیار بنا کر معاملہ کو طول دیکر جمہوری قوتوں کا راستہ روکنے کی شرمناک
کوشش ہے ۔حکمران جماعت کا جمہوریت کے ساتھ کھڑنے ہونے عزم اور آزادی صحافت
پر واضح پوزیشن مسلم لیگ ن کی روایت سے ہٹ کر ایک نئی اٹھان ہے جو کہ ملک و
قوم کیلئے خوش ائند امر ہے۔مادر وطن میں جمہوری رویوں کے فروغ اور جمہوریت
کی آبیاری کے لئے سنگ میل ہے۔ مسلم لیگ ن اپنے نئے جنم اور کردار پر خراج
تحسین کی مستحق ہے ۔ |