بسم اﷲ الرحمن الرحیم
بھارت میں حالیہ لوک سبھا انتخابات میں واضح اکثریت سے جیتنے والے بی جے پی
لیڈر نریندر مودی کی حلف برداری تقریب آج 26مئی کو نئی دہلی میں ہو گی جس
میں نو منتخب بھارتی وزیر اعظم کی طرف سے میاں محمد نوازشریف سمیت تمام
سارک ممالک کو سربراہان کو شرکت کی دعوت دی گئی ہے اور پاکستان، افغانستان،
سری لنکا، نیپال اور دیگر کئی ممالک کے سربراہان مودی کی حلف برداری تقریب
میں شریک ہوں گے۔ ساری دنیا کی نظریں اس وقت نئی دہلی میں ہونے والی اس
تقریب کی جانب لگی ہوئی ہیں ۔ اس بات کا شدید انتظار کیاجارہا تھا کہ
پاکستانی وزیراعظم نواز شریف مودی کی دعوت کا کیاجواب دیتے ہیں؟ تاہم یہ
معمہ بھی حل ہو چکا اورمیاں صاحب نے بھارت سرکار کی دعوت باضابطہ قبول کرتے
ہوئے انڈیا جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ وہ پیر کو مشیر خارجہ سرتاج عزیز،
سیکریٹری خارجہ اور دیگر اعلیٰ سیاسی شخصیات و سرکاری حکام کے ہمراہ نئی
دہلی پہنچیں گے۔ اس دوران وہ حلف برداری تقریب میں شرکت کے علاوہ اپنے
بھارتی ہم منصب نریندر مودی اور بھارتی صدر پرناب مکھرجی سے الگ الگ
ملاقاتیں کریں گے جس میں پاکستان اور بھار ت کے مابین دوطرفہ امور، خطہ کی
تازہ ترین صورتحال اور جامع مذاکراتی عمل دوبارہ بحال کرنے پر تقصیل سے بات
چیت کی جائے گی۔تقسیم ہند کے بعد سے یہ پہلا موقع ہے کہ کسی بھارتی وزیر
اعظم کی تقریب حلف برداری میں کوئی پاکستانی وزیر اعظم شرکت کر رہا ہے۔
وزیر اعظم نواز شریف مودی سے ون آن ون ملاقات کے علاوہ دیگر کئی ممالک کے
حکام اورپاکستانی ہائی کمشن میں کشمیری رہنماؤں سے بھی ملاقاتیں کریں گے۔
میاں صاحب کے دورہ بھارت کا اعلان ہوتے ہی وہی بھارتی میڈیا جو اس بات پر
سیخ پا تھا کہ پاکستان کی طرف سے ابھی تک نواز شریف کے تقریب میں شرکت کا
جواب نہیں دیا گیا ہے اب اس پر سخت غضب میں ہے کہ مودی نے انہیں دعوت کیوں
دی تھی؟ نہ وہ دعوت نامہ بھجواتے اور نہ پاکستانی وزیر اعظم بھارت آنے کا
اعلان کرتے۔اس سے متعصب ہندو میڈیا کی سوچ کا بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا
ہے۔وزیر اطلاعات پرویز رشید کا کہنا ہے کہ بھارتی عوام نے نریندر مودی کو
اپنا وزیر اعظم منتخب کیا ہے اس لئے ہم ان کی رائے کا احترام کریں گے۔ قوم
سوال کرتی ہے کہ کشمیر جسے قائداعظم نے پاکستان کی شہ رگ قرار دیا تھا وہاں
کے مسلمانوں نے حال ہی میں لوک سبھا انتخابات کاتاریخی بائیکاٹ کر کے بھارت
سرکار سے جن نفرت بھرے جذبات کا اظہا رکیا ہے ‘کیا ان کی آپ کے ہاں کوئی
قدروقیمت نہیں ہے؟۔ مقبوضہ کشمیر میں ایک حریت دھڑے کو چھوڑ کر سبھی حریت
پسند کشمیری تنظیموں نے نوازشریف کے دورہ بھارت کی سخت مخالف کی ہے۔ ان کے
اس دورہ کے اعلان پر پوری کشمیری قوم اور بھارت کے 30کروڑ مسلمانوں میں سخت
بے چینی پائی جاتی ہے۔ آپ ان کے جذبات کو مجروح کرکے ہندو انتہا پسندوں کے
ووٹوں کے ذریعہ برسراقتدار آنے والے قاتل مودی اور ان کی جماعت کو خوش کرنا
چاہتے ہیں مگر ایساممکن نہیں ہے۔بی جے پی اور اس کے لیڈروں کی اسلام و
پاکستان دشمنی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے۔ ابھی مودی وزیر اعظم منتخب نہیں
ہوئے تھے کہ پورے بھارت میں جگہ جگہ مسلم فسادات کا سلسلہ شروع ہو گیا
تھا۔بھارت کے کونے کونے میں اس وقت ہندو انتہا پسندوں کی لگائی آگ کے شعلے
بھڑک رہے ہیں۔ اترپردیش خاص طور پر بھگوا دہشت گردی کی سب سے بڑی آماجگاہ
بن چکا ہے۔ مظفر نگر فسادات کے دوران مسلمانوں پر جس قدر مظالم ڈھائے گئے
اورپوری دنیامیں بھارت سرکار کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا اس کے بعد سوچا
جارہا تھا کہ شاید انتظامیہ کی جانب سے کچھ سختی کی جائے گی اور مجرموں کو
گرفتار کر کے جیلوں میں ڈالا جائے گا مگر نہ صرف یہ کہ انہیں گرفتار نہیں
کیا گیا بلکہ بی جے پی کی طرف سے کھلے عام انہیں جلسوں میں اسٹیج پر بلا کر
پھولوں کی پتیاں نچھاور کی جاتی رہیں جس سے ان کے حوصلے بلند ہوئے اور یہ
چنگاریاں بجھنے کی بجائے جگہ جگہ مزید بھڑکنا شرو ع ہو گئیں۔ہندو
انتہاپسندوں کی جانب سے میرٹھ ، حیدر آباد دکن اور دیوبند میں فسادات کی آگ
بھڑکائی گئی جس میں بیسیوں مسلمان شہید، کئی خواتین بیوہ اور کئی بچے یتیم
ہو گئے۔قوم نواز شریف اور ان کے ارد گرد بھارتی لابی کیلئے کام کرنے والوں
سے سوال کرتی ہے کہ کیا یہ بات ریکارڈ پر نہیں ہے کہ جس دن بی جے پی کی فتح
کا اعلان ہوامینگلور میں اسی دن بی جے پی اہلکاروں نے مختلف علاقوں میں
مساجد پر حملے کر کے اپنی فتح کی خوشی منائی تھی؟۔ مینگلورکے رہائشی مسلمان
ابھی تک وہ دن نہیں بھولے ہیں جب بی جے پی امیدوار نکن کمار کی مسلسل دوسری
مرتبہ جیت کی خوشی میں ہندو انتہا پسند ’’ہر ہر مودی‘‘ کے نعرے لگاتے ہوئے
موٹر سائیکلوں اور گاڑیوں پر آئے اور جامع مسجد محیی الدین، جامع مسجد
ابراہیم خلیل اﷲ اور ایک اور مقامی مسجد میں گھس کر وہاں زبردست توڑ پھوڑ
کی ، لوگوں کوماراپیٹااور مسجد کی بے حرمتی کرتے ہوئے غلیظ نعرے بازی کرتے
رہے۔ابھی تک ان علاقوں میں صورتحال معمول پر نہیں آسکی اور مسلمان شدید خو
ف وہراس میں مبتلا ہیں‘یہی کیفیت دوسرے علاقوں کی ہے۔ بھارتی یونیورسٹیوں
میں کشمیریوں کے ساتھ جو کچھ ہو رہا ہے وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ انہیں محض
پاکستان مخالف نعرے نہ لگانے کے جرم میں یونیورسٹیوں سے بے دخل کیا جارہا
ہے ۔ہزاروں مسلمانوں کے قتل میں ملوث وہ شخص جو علی الاعلان گائے کے ذبیحہ
پر پابندی لگانے ، مسلمانوں کو پاکستان بھجوانے اور بابری مسجد کی جگہ رام
مندر کی تعمیر کی باتیں کرتا رہا ہے اس سے آپ کیا خیر کی توقع کر سکتے
ہیں؟۔آپ ان مظلوم مسلمانوں کو چھوڑ کر مودی کی وکالت کرتے پھرتے ہیں۔ آ پ
بھارت جاکر پاکستان میں موجود لاکھوں شہداء کے ورثاء اور اپنے مظلوم کشمیری
بھائیوں کو کیا جواب دیں گے ۔ انتہائی عجلت میں اور بغیر مشاورت کئے گئے
فیصلوں کو عوامی سطح پر پسند نہیں کیاجارہا۔مودی کے برسراقتدار آنے کے بعد
سے وہاں کے مسلمان ڈرے سہمے ہوئے ہیں۔ وہ اس بات پر پریشان ہیں کہ مودی
گجرات کے وزیر اعلیٰ تھے تو سرکاری سرپرستی میں ہزاروں مسلمانوں کا قتل عام
کیا گیا جس کی روح فرسا داستانیں آج بھی زبان زدعام ہیں اور ان حالات میں
کہ جب وہ پورے بھارت کے حکمران بننے والے ہیں تو پھر مسلمانوں کے ساتھ کیا
سلوک کریں گے۔ حالیہ الیکشن میں بی جے پی جن ممبران اسمبلی کے ساتھ اقتدار
میں آئی ہے ان میں سے اسی فیصد قتل، ڈکیتی، فراڈ اور اجتماعی عصمت دری کے
مجرم ہیں جن پر عدالتوں میں باقاعدہ مقدمات چل رہے ہیں۔ دوسری طرح بھارت کی
بری فوج کے متنازعہ آرمی چیف جنرل وی کے سنگھ سمیت فوج، آئی بی اور دیگر
ایجنسیوں کے ریٹائرڈ جرنیل اور آفیسرز بی جے پی کا حصہ بن چکے ہیں جس سے
آنے والے دنوں میں ہندو انتہا پسندوں کے عسکری طور پر مزید مضبوط ہونے اور
مسلم کش فسادات پھیلنے کا خطرہ بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ پہلے بھی بھارت میں
جہاں کہیں فسادات کی آگ بھڑکتی ہے پولیس، انٹیلی جنس بیورو اور دیگر حساس
ادارے جنہوں نے حالا ت کو کنٹرول کرنا ہوتا ہے مسلمانوں کا سب سے زیادہ
نقصان انہی کے ہاتھوں ہوتا ہے۔ وہ ہندو انتہا پسندوں کے ساتھ مل کر نہ صرف
لوٹ مار کرتے ہیں بلکہ ان کی عزتوں اور جان و مال سے بھی کھیلتے ہیں اور اب
جبکہ انہی ہندو انتہا پسند تنظیموں میں اتنی کثیر تعداد میں فوج اور خفیہ
اداروں میں کام کرنے والے ریٹائرڈ افسران شامل ہوں گے تو آنے والے دنوں میں
بھارتی مسلمانوں کی زندگیوں کو اور زیادہ خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔بھارت میں
مسلم کش فسادات میں ملوث ہندو انتہا پسندوں کو عدالتوں سے بھی سزائیں نہیں
مل رہیں۔کبھی ایف آئی آر درج ہوتی ہے تو صرف دکھاوے کیلئے اور کبھی جیل میں
بھیج دیا جائے تو وہاں بھی انہیں وی آئی پی پروٹوکول ملتا ہے اور جلد رہائی
بھی نصیب ہو جاتی ہے۔ بہرحال چاہیے تو یہ تھا کہ وزیر اعظم نواز شریف ہندو
انتہاپسندوں کی دہشت گردی کو پوری دنیا کے سامنے بے نقاب کرتے مگر افسوس کہ
وہ انہی قاتلوں اور غاصبوں کی جانب یکطرفہ دوستی کا ہاتھ آگے بڑھا رہے ہیں۔
نواز شریف صاحب! آپ کو یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ بھارت میں جس کسی کی بھی
حکومت ہو ان کی پالیسیوں کی بنیاد پاکستان دشمنی ہوتی ہے۔ بی جے پی اور
مودی سے پیا ر محبت کی پینگیں بڑھانے کا انہیں کوئی فائدہ حاصل ہونیوالا
نہیں ہے۔ اس لئے وہ اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کریں اور قومی وقار اور غیور
پاکستانی قوم کے جذبات کو مدنظر رکھ کر پالیسیاں ترتیب دیں۔ |