بھارت میں پارلیمانی انتخابات
میں ووٹوں کی گنتی سے دو روز قبل بے جے پی کے ایک سئینر رہنماء گری راج
سنگہ واضح طور پر کہہ چکے تھے کہ "کیا یہ درست نہیں ہے کہ جتنے دہشت گرد
گرفتار کئے جاتے ہیں وہ سبھی مسلمان ہیں، میں یہ نہیں کہہ رہا کہ سبھی
مسلمان دہشت گرد ہیں ،لیکن جو بھی پکڑا جاتا ہے ، اس دہشت گرد کا تعلق مسلم
برادری سے ہوتا ہے "۔ان کا مزید کہنا تھا کہ پاکستان دہشت گردوں کا مکہ
مدینہ ہے۔"انتخابی مہم کے دوران نریندر مودی کے ا نتخابی جلسے میں بم
دہماکے کے الزام میں صرف مسلمانوں کو گرفتار کیا گیا تھا ۔بے جی پی اور
سنگھ رانماؤں نے اپنی انتخابی مہم میں صرف بھارتی مسلمانوں اور پاکستان
کیخلااف زہر آلود موادبھارتی ذہینوں میں اتارا ۔جبکہ بھارتی ہائی کورٹ کو
بعض مسلم نوجوانوں کیخلاف جھوٹے مقدمات واپس لینے کے 8جون 2013ء کو دوسری
بار روکنے کا حکم دیا ۔نریندر مودی بھارت کے "پواسٹربوائے "مانے جاتے ہیں ۔وشو
ہنو پریشد کے رہنما کی پالیسی ہے کہ بھارت میں مسلمانوں کی تعداد بڑھتی جا
رہی ہے لہذا ہر دو ہندو کو کم از کم پانچ بچے پیدا کرنا چاہیں ۔"نریندر
مودی کا اس سلسلے میں تجربہ نہیں کیونکہ وہ جوانی ہی میں اپنی بیوی سے الگ
ہوگئے تھے ، انھیں بچے پیدا کرنے تجربہ یا "صلاحیت" نہیں ہے ۔ جبکہ بھارت
کے کاروباری مرکز میں جب کوئی ہندو اپنی جائیدادفروخت کرتا ہے تو اپنے
اشتہار میں واضح لگتا ہے کہ "فلیٹ فرنشڈ اور روشن ہے لیکن مسلمانوں کیلئے
نہیں" .۔ مسلمانوں سے بھارت میں کھلا تلخ مذاق یہ ہے کہ ایک طرف کانگریس کے
راہل گاندھی کہتے ہیں ہے "کہ جے پی نے ہندومسلم فسادات کو ہوا دی ۔ جبکہ
کانگریس نے اپنے دس سالہ دور حکومت میں ہزاروں بے گناہ معصوم مسلمانوں کو
دہشت گردی کے الزام میں گرفتار کیا ور ان کی کسی نے شنوائی نہیں کی،
سینکڑوں مسلمانوں کے بارے ثابت ہوچکا ہے کہ وہ بے گناہ ہیں لیکن اب بھی
ناکردہ گناہوں کی سزا بھگت رہے ہیں اور کے مقدمات ابھی تک عدالتوں میں
سیاسی دباؤ کے تحت بریت ہونے کے" ڈر" سے رکوائے گئے ہیں۔
یہ انتخابی مہم کا یہ انتہائی معمولی حصہ تھا کہ بی جے پی مسلمانوں کے بارے
میں کیا مستقبل کی پالیسی رکھتی ہے جبکہ خود بھار ت میں بے جی پی اور دیگر
انتہا پسند ہندو دہشت گردی کے حوالے سے دیگر بھارتی سرکار و جماعتوں کا کیا
کہنا ہے یہ بھی دیکھ لیتے ہیں۔"بھارتی مرکزی وزیر داخلہ شنڈے نے تسلیم کیا
کہ ہندوستان میں دہشتگردی کے سازشی عمل میں درپردہ ہاتھ بی جے پی اور آر
ایس ایس کا ہے"۔وزیر داخلہ کا یہ بیان خفیہ رپورٹس کی بنیاد پر ہے۔اس سازشی
اورسیاسی کھیل میں دہشتگردی کے حوالے سے باقاعدہ سرکاری سطح پر پہلی بار
اعتراف کیا گیا کہ بھارت میں دہشت گردی کی تربیت کے کیمپ ہیں جس میں فرقہ
پرستانہ فروغ کیلئے مذموم تربیت فراہم کی جاتی ہے ۔انھوں نے اعتراف کیا کہ
"سمجھوتہ ایکسپریس،مکہ مسجد اور مالیگاؤں میں جو دہشت گردانہ دھماکے میں بے
شمار افراد ہلاک ہوئے ان کاروائیوں میں بی جے پی اور آر ایس ایس ملوث
ہیں"۔سرکاری سطح تو پہلی بار یہ اعتراف سامنے آیا ، اس سے پہلے بھی متعدد
مواقع پر یہ حقیقت سامنے آچکی تھی کہ بی جے پی اور آر ایس ایس بھگوا دہشت
گردی (ہندو دہشتگردی) پھیلا رہی ہیں اور انھوں نے اپنی سازشی سیاست اور عمل
سے بد امنی پھیلائی ہوئی ہے۔بھارتی لیڈر آنجہانی بال ٹھاکرے کا بیان قابل
غور رہا ہے کہ"جب تک ہندو بم ہندوستان میں مسلمانوں کیخلاف استعمال نہیں
کئے جائیں گے اسوقت ہندوستان میں ہندوؤں کیخلاف مسلم بم بنتے رہیں گے اور
استعمال ہوتے رہیں گے۔"بال ٹھاکرے کے اس بیان کے بعد بی جے پی اور آر ایس
ایس کیجانب سے متشدد کاروائیاں بڑھتی چلی گئیں اور دہشت گردی کے تربیت
کیمپوں میں اضافہ ہوا ۔بھارت میں سنجیدہ طبقہ بی جے پی اور آرایس ایس کی اس
قسم کی کاروائیوں پر متفکر نظر آتا ہے اسی لئے پی جے پی اور آر ایس ایس کے
مسلم نمائندوں عباس نقوی اور شاہنواز حسین کیجانب سے صفائی پیش کرنے پر عدم
اطمینان کا اظہار کرتے ہوئینوے فیصدمسلمانوں نے بذریعہ ووٹ ناقابل قبول
قرار دیا ۔
بھارت کے مرکزی معتمد ِ داخلہ آر کے سنگھ نے بھی بھارت کے مختلف علاقوں میں
دہشت پسندانہ حملوں میں ایسے 10دہشتگردوں کی نشاندہی کی جو آر ایس ایس اور
اُس سے ملحقہ تنظیموں سے راوبط رکھتے ہیں۔انھوں نے سمجھوتہ ایکسپریس ، مکہ
مسجد (حیدرآباد) اور اجمیر درگاہ شریف میں دھماکوں کی تحقیقات میں انکشاف
کیا کہ انکے پاس ثبوت موجود ہیں کہ آر ایس ایس ان واقعات میں ملوث ہے۔آر کے
سنگھ کے مطابق سنیل جوشی دیواس(متوفی) اور مہو میں 1990 ء سے2003 ء تک
کارکن رہنے والا سمجھوتہ ایکسپریس واقعے میں ملوث تھا۔سندیپ ڈانگے(مفرور)،
رام جی کلنسگر (مفرور) سمجھوتہ ایکسپریس ،مکہ مسجد اور درگاہ اجمیر شریف کے
دہماکوں میں ملوث ہیں۔ یہ 1990ء سے 2006ء تک مہو ،اندور ،اترکاشی اورساجھا
پور میں آر ایس ایس کے کارکن ہیں۔معتمدداخلہ نے آر ایس ایس کے گرفتار شدہ
کارکنان لوکیش شرما ، سوامی اسیمانند،و مکیش باشانی دیویندر گپتا، شندر
سیکھر لیوے اور کمل چوہان کا بھی ذکر کیا جو ا دہشتگردی کے واقعات میں ملوث
اور حکومتی تحویل میں ہیں۔
قابل ذ کر بات یہ ہے کہ جب معتمدداخلہ آر کے سنگھ نے پہلی بار سرکاری سطح
پر ہندو دہشت گردی کے حوالے سے انکشافات کئے تو آر ایس ایس نے اپنے دس
کارکنان کے تعلق جڑے جانے پر آر کے سنگھ پرشدیدتنقید کی ۔ آر ایس ایس کے
ترجمان رام مادھو کا کہنا تھا کہ بیورو کریسی کے افسر نے اپنے آقاؤں کی
خوشنودی حاصل کرنے کیلئے بڑی عجلت پسندی سے مشتبہ افراد کے نام ظاہر کئے
ہیں ۔ آرایس ایس نے آر کے سنگھ کیخلاف قانونی چارہ جوئی کی دہمکی بھی دی
ہے۔دوسری جانب "ہندو دہشت گردی"کی اصطلاح استعمال کرنے پر وزیرداخلہ سشل
کمار شنڈے کے خلاف ایک گرم محاذ کھل گیا اور عوامی دباؤ سے مجبورر ہوکر
کانگریس نے شنڈے کے بیان سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ "دہشت گردی
کا کوئی مذہب نہیں ہوتا"۔بھارتی جنتا پارٹی نے بھی حکومت کو دہمکی دی تھی
کہ اگر سشیل کمار شنڈے اپنا الزام ثابت نہیں کریں گے یا معافی نہیں مانگیں
تو ان کیخلاف ملک گیر احتجاجی تحریک چلائی جائے گی۔جس سے کانگریس قیادت
خائف ہوگئی اور کانگریس کے جنرل سیکرٹری جناردھن وریدی کو وضاحت پیش کرنا
پڑی کہ"کانگریس نے کبھی بھی "ہندو دہشت گردی "یا "زعفرانی دہشتگردی"کے
الفاظ استعمال نہیں۔جناردھن وریدی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے یہ وضاحت پیش
کی کہ اُن کے نزدیک ایسا محسوس ہوتا ہے کہ" وزیرداخلہ کیجانب سے شائدزبانی
لغزش ہوئی ہے, اس لئے کہ مالیگاؤں اور مکہ مسجد دھماکوں میں جو لوگ ملوث
پائے گئے ہیں ،وہ آر ایس ایس سے جڑے ہیں"۔جنار دھن وریدی کے اس بیان کے بعد
، وزیرداخلہ کو بھی موقع مل گیا کہ وہ اپنے بیان سے منحرف ہوجائیں لہذا
انھوں نے بھی اپنے جنرل سیکرٹری کے بیان کو درست قرار دیا کہ" یہ ان کی
زبان کی لغزش تھی۔اے آئی سی سی نے جو کچھ کہا وہ بالکل درست ہے"۔کانگریس
اوروزیر داخلہ کے بیانات کی یہ تبدیلی ایسے وقت سامنے آئی جب بھارتی وزیر
خارجہ سلمان خورشید بھی سشیل کمار شنڈے کے انکشاف کے حوالے سے تصدیق کرچکے
تھے ۔جناردھن وریدی سے جب یہ پوچھاگیا کہ وزیرداخلہ نے "ہندو دہشتگردی
"کالفظ کیوں استعمال کیا ؟ تو ان کہنا تھا کہ "اُن کا یہ مطلب نہیں تھا
،کوئی بھی کانگریسی لیڈر اس طرح کا بیان نہیں دے سکتا ،بعض مرتبہ ایسا ہوتا
ہے کہ کسی اظہار ِخیال کیلئے مناسب الفاظ نہ ملنے پر زبانی لغزش ہوجاتی
ہے۔اب یہ تنازعہ یہیں پر ختم ہونا چاہیے"۔یہ کہتے ہوئے کانگریس کے جنرل
سیکرٹری اس بات کو بھی نظر انداز کرگئے کہ دہلی صوبہ کے کانگریس صدر اور
شمالی مشرقی دہلی سے ممبر پارلیمنٹ جے پی اگروال بھی وزیرداخلہ کے بیان کی
تصدیق و حمایت کرتے ہوئے کہہ چکے تھے کہ "ملک کا وزیرداخلہ کوئی بھی بات
بنا ثبوت کے نہیں بولتا اور ان کے پاس مکمل ثبوت ہیں جن کی بنیاد پر انھوں
نے ہندو دہشتگردی کی بات کہی ہے"۔اب چاہے بھارتی حکومت اپنے اقرار اور
اعتراف پر مکر جائے لیکن دنیا پر واضح طور پر یہ بات سامنے آچکی ہے کہ
بھارت میں انتہا پسندی کے تربیت کیمپ موجود ہیں۔جو ہندو انتہا پسندی کو
فروغ دے رہے ہیں جس سے خطے میں امن کو خطرات لاحق ہیں۔انتہا پسند ہندو
حکومت آنے سے اب خطے میں تصادم کے شدید خطرات بھی بڑھ چکے ہیں لیکن اس بار
مغرب کا رویہ ، افغانستان کے برعکس ہوگاکیونکہ بھارت سے ان کی مالی مفادات
وابستہ ہیں۔
پاکستان کے وزیر اعظم کو اس نرنیدر مودی نے تقریب حلف برداری میں دعوت دی،
جس پر امن کے خاطر وہ شریک ہوگئے ، جبکہ پاکستان نے جب بھی دعوت دی ، وہاں
سے انکار کردیا گیا ۔ بھارتی سرکار بہار میں بے جے پی کے معروف رہنما ء گری
راج سنگھ کا کہنا تھا کہ ، جو لوگ مودی کے مخالف ہیں انھیں پاکستان چلے
جانا چاہیے،جو لوگ مودی کو روکنا چاہ چاہتے ہیں وہ پاکستان کی راہ دیکھ رہے
ہیں آنے والے دنوں میں ان کے لئے بھارت میں کوئی جگہ نہیں ہوگی، ان کے لئے
صرف پاکستان میں جگہ بچے گی"ان کیا مزید یہ بھی کہنا تھا کہ نریندر مودی کو
پاکستان وزیر اعظم بننے سے روکنا چاہتا تھا اس لئے ہندوستان کا نمبر ون
دشمن پاکستان ہے۔"اب ہماری سرکار پاکستان کو اپنی خارجہ پالیسی میں یہ
دیکھنا ہوگا کہ وہ بھارت سے اچھے تعلقات استوار کس طرح کرے ، ایک طرف ملک
میں خانہ جنگی اور پاکستانی حکومت سنجیدگی کامظاہرہ نہیں کر رہی اور دوسری
طرف دنیا کی سب سے بڑی انتہا پسند ہندو حکومت قائم ہوچکی ہے ۔ بھارت سے
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا اعزاز چھین چکا ہے اس لئے مودی سرکار کی ہر
وقت اشتعال انگیزی کاروائیوں سے پہلے مناسب یہی ہے کہ پاکستان اندرونی خانہ
معاملات ، امن و امان اور افغانستان ، ایران سمیت تمام معاملات کو ایک پیچ
پر لے آئے ۔ پاکستانی عوام اپنے عسکری اداروں پر اعتماد کرتی ہے لیکن سیاسی
حکومت پر نہیں کرتی ، اور دونوں اداروں کے ساتھ ریا ست کے چوتھے ستون میں
بھی دراڑیں پڑ چکیں ہیں اس لئے جو فیصلہ کرنا ہے سوچ سمجھ کر کیجئے اور
جذبات کے بجائے ہوش مندی کا مظاہرہ کرنا ہی عقل مندی ہے۔ |