پچھتاوے کا ایک دائروی سفر! جو کبھی ختم نہ ہوگا

محمد توقیر بدر القاسمی

ملک کے پندرہویں وزیر اعظم کا انتخاب اور حلف بردار ی تقریب ہو چکی ،سبھی کے ذمے وزارتیں بھی سونپ دی گئیں ،اپنے اپنے کام اورکام کرنے کے طریقے ونظریے سے بذریعہ میڈیا عام ہندوستانی روبرو بھی ہونے لگا ،انہیں جو کرنا ہیں وہ کریں گے مگر جو خاکہ وہ اپنے اپنے عوام کے سامنے رکھ رہے ہیں اس پہ ماہرین طرح طرح کے خدشات اور امکانات واضح کررہے ہیں ۔آئیے ملکی وزارتیں اور ان کے عاملین کی باتوں کو ہم اس دستور کی روشنی میں سمجھیں جس کی حفاظت اور احترام کا سبھی ہندوستانی بالخصوص عوامی نمائیندگان حلف لیتے ہیں ۔

سب سے پہلے ہم دستورِ ہند کے پہلے ورق پہ ثبت اس کے تمہیدی کلمات جو یقینا اس دستور کی پیشانی کا جھومر کہلانے کا مستحق ہے ،سے شروع کرتے ہیں ملاحظہ فرمائیں ! ’’ہم بھارت کے عوام متانت وسنجیدگی سے عزم کرتے ہیں کہ بھارت کو ایک مقتدر سماج وادی غیر مذھبی عوامی جمہوریہ بنائیں ،اور اس کے تمام شہریوں کے لئے حاصل کریں :انصاف ،سماجی ،معاشی ،اور عبادات ؛آزادی خیال ،اظہار ،عقیدہ ،دین اور عبادت۔ مساوات بہ اعتبار حیثیت ومواقع ،اور ان سب میں اخوت کو ترقی دیں جس سے فرد کی عظمت اور قوم کے اتحاد اور سا لمیت کاتیقن ہو ؛اپنی آئین ساز اسمبلی میں آج چھبیس نومبر ۱۹۴۹؁ء کو یہ آئین ذریعہ ہذا اختیار کرتے ہیں ،وضع کرتے ہیں اور اپنے اوپر نافذ کرتے ہیں ‘‘۔(دیکھئے بھارت کا آئین : تمہید )

ہمارے دستور ساز اعلیٰ دماغ حامل افراد نے مذکورہ باتیں بڑے ہی وثوق سے کہی ہیں ۔ چناچہ آج بھی جب کوئی ہندوستانی پنج سالہ دور اقتدار کے نظام کے بعدوزارت عظمی ٰ کے اس عظیم منصب پر فائز ہوتا ہے تو اس دستور کا حلف لینا اس کی پاسداری اور تحفظ کی قسمیں نیز اس کے احترام کو دل وجان سے عزیز جاننا اس کا دھرم سمجھا جاتا ہے ۔ابھی حالیہ وزیر اعظم نے بھی اس دستور کے احترام نیز اسکی پاسدار ی وتحفظ کا حلف لیا جسے ساری دنیا نے اپنی اپنی سطح سے دیکھا اور جانا ۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ ان مذکورہ باتوں میں سے جو بھی نمایاں ہیں ان کا آج عموماًہم عوام اور خصو صاًہمارے عوامی نمائندگان کس حد تک پالن کرتے ہیں؛ اسکاسنجیدہ ہوکرجائزہ لینا از بس ضروری ہیں !سب سے پہلے یہ سوال قیم کیا جائے کہ کیا ہم بحیثیت ہندوستانی’ ’انصاف ومساوات سب کے لئے ‘‘جیسے عزم کواپنے تمام باشندگان کے لئے آسان بناکراس کی فراہمی کا ثبوت دے رہے ہیں؟خواہ اسے سماجی سطح پہ دیکھا جائے، یا معاشی سطح پہ آنکا جائے، یا سیاسی تناظر میں پرکھا جائے !

ہمیں امید ہے کہ ملک اور اس کے حالات نے اس قدرواقعات کی نشاندہی کئے ہیں کہ اس کا اندازہ ہر کوئی آسانی سے لگا سکتا ہے ۔ بشمول حالیہ اقلیتی امور کی اکلوتی مسلم وزیر محترمہ جو کبھی کانگریس سے تعلق رکھتی تھیں اب چڑھتے سورج کے پجاریوں میں ان کا بھی نام آتا ہے ان کا بیان کہ ’’سچر کمیٹی کے تمام شفارشات پہ عمل آوری ضروری نہیں‘‘ کو بھی بطور خاص ملاحظہ کیا جائے!اور ’’مسلمانوں کو ریزرویشن نہیں دیا جاسکتا ‘‘ کو بھی نگاہوں میں رکھا جائے !

پتہ نہیں ان کے اس بیان کو آئین کی روح کے خلاف کہا جائیگا یا موافق؟میرے خیال سے اس کے تئیں ماہرین کا تو کیا کہنا ایک عام سیدھا سادھا پڑھا لکھا انسان بھی اس کی نوعیت وحقیقت بتا سکتا ہے ۔ہاں اسے ’مذہبی‘ کہکر دستور میں ذکر کردہ ’غیر مذہبی ‘ کے حوالے سے رد ضرور کیا جاسکتا ہے ؛مگر حیرت ہے کہ آج تک اس قضیہ نامرضیہ کو سمجھنے سے ہر ہندوستانی قاصر رہاہے؛ کیونکہ ریزرویشن کوئی بھی مسلمان ’ مذہب ‘ کے نام پہ مانگتا ہے ہی کب ہے ؟ اسے تو پسماندگی خواہ وہ سماجی ہو معاشی ہو یا سیاسی ؛اس بنیا د پہ مانگا جاتا ہے جو سرا سر دستوری ہے ؛کیونکہ دستور کے آرٹیکل ۱۵/اور ۱۶ /کی رو سے سماجی ،تعلیمی اور معاشی طور پہ پسماندہ طبقے کو مذکورہ ریزرویشنوں کی سہولت حاصل ہے۔ ہاں اب اگر اسے ہوشیار لوگ ’مذہب‘ کے نام پہ اگر مگر کرکے ٹالیں تو اسے غیر آئینی ضرور کہا جائیگا ۔جس سے آئین کی روح بھی مجروح ہوتی ہے اوراس کی تحفظ نیز احترام والی باتیں اور حلف ان سبھی پہ سوالیہ نشان سا بھی لگ جاتا ہے ۔

دوسری بات ریزرویشن کے حوالے سے یہ بھی قابل دید ہے کہ ایس سی ،ایس ٹی اور دلتوں کو ملنے والے ریزرویشن جو انہیں بہ آسانی مذہب اور سماجی ومعاشی پسماندگی کی بنا پر ہی حاصل ہے ؛سند رہے یہ غیر ہنودووں کو حاصل نہیں ہے ،یہ ابتدا میں دستوری لحاظ سے محض دس سال کے لئے تھی،جسے محترمہ کو آئین کے احترام اور تحفظ کے پیش نظر ختم کرنے کا اعلان کرنا چاہئے ،مگر امید یہی ہے کہ وہ ایسا نہیں کرسکتیں،کیونکہ اس میں اتنی بار توسیع ہوئی کہ اب یہ ریزرویشن ان طبقات کامذکورہ تمام اوصاف کے ساتھ بنیادی حق اور ان پاسدارن دستورکے اغماض کے نتیجے میں آئین کا جزو لا ینفک سا بن گیاہے ؛جو یقیناان کے’سبھوں کا ساتھ سبھوں کا وکاس‘جیسے نعروں پہ ایماندارنہ نہیں بلکہ غیر ذمہ دارانہ اور مفاد پرستانہ جیسے رویے کو ہی واضح کرتاہے ۔

آئیے اس کے بعد دیکھتے ہیں اس شور وغوغا کی حقیقت کو جسے دفعہ ۳۷۰ / کہا جاتا ہے ،جب اسکی حقیقت اور اس کی آئینی حیثیت کو غور سے دیکھتے ہیں تو سوائے اس کے کہ اس کے وقت کے مہاراجہ نے اپنے تحفظات اور عوامی مراعات کے پیش نظر کچھ شرطوں کے ساتھ ہندوستان سے الحاق وانضمام کے لئے پیش کیا تھا؛ جنہیں اس وقت قبو ل بھی کیا گیا اور منظور بھی!یہ اور کچھ نہیں !اسی کا نام ہے دفعہ ۳۷۰:۔اب رہ گئی بات کہ وہ مراعات کیاتھیں ؟ تو آج سبھی جانتے ہیں اس کی کوئی مذہبی نوعیت نہیں ہے ۔بلکہ اگر کوئی مسلم خاتون کسی غیر کشمیری سے شادی کرلے تو وہ اس دفعہ کی رو سے اپنی آبا ئی جائیداد سے بھی محروم ہوجاتی ہے۔اس دفعہ کی رو سے کسی غیر کشمیری خواہ وہ مسلم ہو یا نن مسلم اس کو وہاں زمیں خرید کر مستقل بسنے کا حق دستوری طور پہ حاصل نہیں ہے ۔ غالبا اس کے پیچھے یہ فلسفہ اور جذبہ کار فرما رہا ہوگا کہ اس سے وہاں کی صلاحتیوں اور وسایل سے وہاں کے ہی افراد بھر پور طریقے سے مستفید ہوسکے! واضح رہے کہ اس طرح کے دفعات بشکل مراعات کشمیر کے علاوہ بھی دیگر کئی ریا ستوں مثلاً منی پور ،ناگا لینڈ ،میزوروم ،اور تریپور میں دیکھنے کو ملتا ہے ،ان تمام جگہوں پہ ایک عام ہندوستانیوں کا پر مٹ لئے بغیر داحلہ تک ناممکن ہے ۔ایسا ہی حال انڈمان نکوبار کا بھی ہے ،جسے دفعہ ۳۷۱: کے مختلف شقوں میں دیکھا جاسکتا ہے ۔

اب سوال یہ ہے کہ ان تمام ریاستوں کو چھوڑکرصرف کشمیر کا دفعہ ہی کیوں زیر بحث آتا ہے ،جواب بالکل سادہ ساہے کہ اس پہ پڑوسی ملک پاکستان اپنا حق جتاتا ہے ،اور بقیہ سے اسے کیا مطلب ؟ اس لئے اسے تو سیاستہ ً ہی سہی بحث کا نقطہ بننا ہی چاہئے !تاکہ ترقی کی طرف مرکوزعوامی ذہن کا رخ کسی بیکار بحثوں کی طرف موڑ کر اپنا الوّ سیدھا کیا جاسکے !

رہ گئی بات جہاں تک ’’ اخوت ‘‘ کو ترقی دیکر’’ فرد کی عظمت‘‘ اور’’ قوم کے اتحاد جس سے ملکی سا لمیت کا تیقن ہو سکے‘‘ کی تو اس پہ رواشنی ڈالنے سے قبل اس مضمون کے توسط سے اولاً ایک مومن ہونے کے ناطے تعزیت کرتا ہوں اس محمد مبارک نامی شہید مظلوم طالبعلم وقف دارلعلوم دیوبند کی جس نے سفر تو کیا تھا نماز جمعہ پڑھانے کے لئے مگر درندوں کی گولی نشانہ بن کر راہی ملک بقا ہوا ۔جس نے دعا میں ہاتھ تو یقینااٹھائے ہونگے ملکی سا لمیت کے لئے مگر بھیڑیوں نے ان ہا تھوں کو ہمیشہ کے لئے جھکا دیا ! جس نے تعلیم نبوی کے حصول کے لئے مدرسہ جیسے امن کے گہوارے کو چنا تھا مگر اس کو ابدی نیند سلا کر ظالموں نے ان گہواروں کے امن کا امتحان لیا اور اپنی منھ کی کھاکر خود کو ذلیل ورسواکیا !

کیا یہی سا لمیت اور اتحاد ہے کہ ایک طرف تو حلف لیا جارہا تھا تو دوسری طرف اسی وقت سے ایک دن قبل اسی ملک عزیز اور موجودہ وزیر اعظم کے گجرات شہر احمد آباد گومتی پور علاقے کی سڑکوں پہ تشد د کا کھیل کھیلا جا رہاتھا !اور ٹھیک حلف کے وقت کرناٹک کے شہر بیجا پور میں بی جے پی کے پر جوش حامی اور اقلیتی طبقہ کے سبزی فروش آپس میں ٹکرا رہے تھے جس کے نتیجے میں ۱۵/ افراد شدید زخمی ہوئے !

ان واقعات اور مذکورہ دفعات کے مطالعہ اور تجزیہ سے مقصود نہ تو کسی کو بھڑکانا ہے اور نہ ہی بیجا کسی کو خوش گمانی میں مبتلا کرنا ہے ؛بلکہ رونا اس بات کا ہے کہ دستور سازوں نے جس خون جگر سے اس ملک کو سینچا تھا اور اسے ایک ایسی لڑی جسمیں ہندو ،مسلم سکھ عیسائی جیسے نایاب موتیاں ہیں کو پرویا تھا اور پھر اسے سنبھالے رکھنے کے لئے ایک تحریر کردہ دستور دیا تھا ،آج اسکے مطابق ملک عزیز لہو لہان ہے ؛بلکہ ملک کے مشہور بین الاقوامی صحافی آنجہانی خوش ونت سنگھ کے بقول اگر سب کچھ ایسا ہی چلتا رہا تو ایک دن بھارت کا (نہ کہ صرف اقلیوتوں کا)خاتمہ ہو جایئگا ،جس کے ذمہ دار کوئی غیر ملکی نہیں بلکہ اس کے اپنے ہی سپوت ہونگے !چناچہ اسی احسا س کے پیش نظر ان ہوں نے گجرات دنگے کے بعد ایک دستاویز ی تحریر } {The End Of Indiaنامی کتاب کی شکل میں لکھی جس میں انہوں نے اس طرح کے دنگے پہ آنسو بہاتے ہوئے یہی کہا ہے ،چناچہ اس کے مترجم اس کتاب پہ تبصرہ اور اس کے مندرجات کاتعارف نیز مصنف کے احساسات کی ترجمانی کرتے ہوئے لکھا ہے ’’ ……اگر مسلمان ،عیسائیوں اور سکھوں کے سینوں کی طرف بڑھنے والے ترشولوں کا انسداد نہ کیا گیا تو یہ بھارتی پر چم کے تینوں رنگ چاٹ جائیں گے ! اور صرف چکر باقی رہ جائیگا ……پچھتاوے کا ایک دائروی سفر جو کبھی ختم نہ ہوگا !ــ‘‘
٭ استاذافتا ء وقضا المعہدالعالی امارت شرعیہ پھلواری شریف پٹنہ
Ghufran Sajid Qasmi
About the Author: Ghufran Sajid Qasmi Read More Articles by Ghufran Sajid Qasmi: 61 Articles with 46488 views I am Ghufran Sajid Qasmi from Madhubani Bihar, India and I am freelance Journalist, writing on various topic of Society, Culture and Politics... View More