دل ڈھونڈتا ہے ؟
(Muhammad Jawaid Iqbal Siddiqui, Karachi)
نریندر دامو در مودی کی تقریبِ
حلف برادری ہوگئی ، جس میں سارک ممالک کے سارے ہی سربراہان نے شرکت کی
سوائے بنگلہ دیش کے وزیراعظم کی جنہوں نے اپنا نمائندہ وفد ہی بھیجنے کو
ترجیح دیا۔ میں آج جو موضوع لکھنے جا رہا ہوں اس کی طرف شاید کسی نے ابھی
تک نہیں سوچا ہوگا۔ویسے تو یہ کوئی اتنی بڑی بات نہیں مگر غور و فکر کیا
جائے تو بات بڑی بھی ہے اور بات رسوائی کی بھی ہے، گو کہ یہ بہت چھوٹی
چھوٹی باتیں ہیں جسے میں نے محسوس کیا ہے شاید کہ اوروں نے بھی محسوس کی
ہو۔اس لئے ناچیز نے اسے قلم بند کرنے کا فیصلہ کیا۔ ہند کے وزیراعظم نریندر
دامو در مودی کی تقریب حلف برداری میں موصوف سمیت تمام ہی سربراہان نے اپنا
قومی لباس زیبِ تن کیا ہوا تھا مگر ہمارے محترم وزیراعظم صاحب نے انگریزی
لباس زیب تن کیا ہوا تھا۔ قومی لباس کسی بھی قوم کا ورثہ ہوتا ہے۔ ہمارا
بھی قومی لباس بابائے قوم نے دے رکھا ہے، شیروانی، شلوار اورجناح کیپ، مگر
ہند کی سرزمین راشٹر پتی بھون میں ہمارا قومی لباس کہیں نظر نہیں آ رہا تھا۔
یہ ہمارے قوم کے لئے تو لمحۂ فکریہ ہے ہی ساتھ ہی نوجوان نسل میں بھی قومی
لباس کو بھولی بسری یادیں بنانے کے لئے کافی تھا۔خدارا ہمارے ملکی قومی
لباس کو قصۂ پارینہ بننے سے بچایا جائے۔بلاشبہ ہمارے وزیراعظم وہاں شریک
تمام سربراہانِ مملکت میں سب سے زیادہ ہینڈ سم اور ڈیشنگ نظر آ رہے تھے
کیونکہ وہ اُن تمام میں تھے ہی ہینڈسم! مگر کیا ہی اچھا ہوتا کہ کم از کم
حلف برداری کی تقریب میں وہ قومی لباس پہنتے توخود ان کے اور ملک کے حسن پر
چار چاند لگ جاتے۔قومی لباس کے ساتھ ہمارا یہ سلوک درست نہیں اس لئے ضروری
ہے کہ قومی لباس کو سرکاری سطح پر زیب تن کیا جائے تاکہ اس سے ہمارے مستقبل
کے معمار بھی روشناش رہیں۔
میری ناقص معلومات کے مطابق (کسی غلطی کی پہلے سے معذرت)۱۹۴۰ء میں قرار دادِ
پاکستان کی منظوری کے بعد کلکتہ میں ابو الہاشم خاں نے قائد اعظم ؒ سے سوال
کیا کہ آپ کے ذہن میں مملکت پاکستان کا کیا تصور ہے؟ یعنی پاکستان کو کیسا
ہونا چاہیئے؟ بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح ؒ نے اس اہم سوال کا
جواب صرف دو لفظوں میں دیا۔ ’’مملکت پاکستان کی شکل و صورت کا انحصار
پاکستان کے مستقبل کے معماروں پر ہے‘‘۔ کیا ہم اپنے معماروں ، نوجوانوں کو
اس طرف راغب کر رہے ہیں۔ شاید نہیں اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سب
اپنی کھوئی ہوئی ساکھ، بشمول قومی لباس کو اُجاگر کریں، تاکہ مستقبل کے
معماروں کو بھی یاد رہے کہ ہماری ثقافت، ہمارا قومی لباس کیا ہے۔ جناح کیپ
کی شان کیا ہے۔شیروانی کی آن بان کیا ہے۔اس ترقی یافتہ دور میں جس طرح
خواتین کا ڈوپٹہ اور برقعہ (عبایہ) ان کی زندگیوں سے ناپید ہو چکا ہے ٹھیک
اُسی طرح ہمارے سربراہوں نے بھی اس لباس سے ترکِ تعلق کر لیا ہے۔جس طرح
والدین کی اوّلین ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ اپنے اولادوں کو اچھی اور نیک
تربیت دیں اسی طرح ملک کے اعلیٰ عہدوں پر فائز رہبروں کے لئے بھی ضروری
ہوتا ہے کہ وہ اپنی قوم کی صحیح اور درست ترجمانی کریں۔
اس مضمون کے لکھنے سے مجھے بے انتہا مسرت ہو رہی ہے کہ ایک غائب شدہ چیز کو
اُجاگر کیا جا رہا ہے۔ اور یہ مضمون وقت کی اہم ترین ضرورت بھی ہے۔میں اس
مضمون میں خدانخواستہ کسی کی دل آزاری نہیں کر رہا بلکہ مسئلہ پر اپنی رائے
لکھ رہا ہوں۔ اور بھی کالم نویس ساتھی ہیں جن کے یہاں زیادہ تر جذباتیت
پائی جاتی ہے۔ کسی بھی مسئلہ پر اپنی رائے رکھتے ہیں بلکہ ہوا کے بہاؤ میں
اپنی ضرورت کو سامنے رکھ کر کالم لکھتے ہیں اس سے اردو اخبار کا وقار مجروح
ہوتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اپنی رائے پیش کی جائے، جس میں اپنی سوچ
اور فکر ہو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہماری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خود کشی
کرنے لگے۔شعرائے کرام سے بے حد معذرت کے ساتھ:
ذرا ظلِّ الہٰی اپنی آنکھیں کھولیئے ورنہ
حویلی لڑکھڑاتی ہے دَر و دیوار جاتے ہیں
ہر زندہ قوم اپنے نظام پر، اپنے ورثے پر، اپنی ثقافت پر، اپنے قومی لباس
اور قومی ترانے پر فخر کرتی ہے اور ان تمام کو اپنے عقیدے، وژن کے مطابق
ڈھالتی ہے، اپنی تعلیمی روایات کو اپنی زبان میں اپنی اگلی نسل تک منتقل
کرتی ہے، غیر زبان میں اپنا سبق رٹنے سے بچوں کی تخلیقی و فکری کاوشیں
بالکل کند نہ ہو جائیں اس لئے ضروری ہے کہ اپنی زبان ’’اردو‘‘ پر انحصار
کیا جائے۔ گو کہ ہمارے ملک میں اردو ہی بولی اور سمجھی جاتی ہے مگر
غالباًتاحال اسے سرکاری زبان کا درجہ نہیں دیا گیا جبکہ قائد اعظم ؒ نے
قیامِ پاکستان کے فوراً بعد۲۱؍مارچ ۱۹۴۸ء کو ڈھاکہ میں ایک جلسہ عام میں
خطاب کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ: ’’ جہاں تک آپ کی بنگالی زبان کا تعلق ہے،
اس افواہ میں کوئی صداقت نہیں کہ آپ کے بارے میں کوئی پریشان کن فیصلہ ہونے
والا ہے۔ بالآخر اس صوبے کے لوگوں کو ہی یہ حق پہنچتا ہے کہ وہ فیصلہ کریں
کہ اس صوبہ کی زبان کیا ہوگی؟ مگر میں یہ بات آپ کو واضح طور پر بتا دینا
چاہتا ہوں کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو اور صرف اردو ہوگی۔ اردو کے سوا
اور کوئی زبان نہیں ہو سکتی۔ کوئی قوم واحد سرکاری زبان کے بغیر متحد نہیں
ہو سکتی اور نہ ہی سرکاری فرائض بحسن و خوبی انجام دیئے جا سکتے ہیں۔ ‘‘ اب
بھلا بتایئے کہ کیا ہم نے بابائے قوم کی خواہش کو نظر انداز نہیں کر دیا؟
پاکستان اس وقت یوں تو کئی مسائل سے دو چار ہے لیکن ایک اور مسئلہ انتہائی
خاموش طریقے سے بھی ہماری جڑوں کو کھوکھلا کر رہا ہے اور اس جنگ کو بڑی
کامیابی سے ہم خود اپنے خلاف لڑ رہے ہیں اور یہ جنگ ہے ثقافتی جنگ۔ ہماری
اقدار، ثقافت اور روایات کو ہم خود اس طرح پامال کر رہے ہیں کہ ہمارے لئے
کسی دشمن کی ضرورت ہی نہیں اور سچ پوچھیئے تو یہ اپنی اقدار سے دوری ہمارے
بہت سارے مصائب کا باعث بن رہی ہے اور حد درجہ دُکھ کی بات یہ ہے کہ سب کچھ
کو جانتے ہوئے بھی نہ ہم نے اس کی پیش بندی کی اور نہ اب کسی قسم کی کوشش
کر رہے ہیں۔ مانا کہ دنیا اب ایک گلوبل ویلج بن چکی ہے اس لیئے تہذیبوں کو
ایک دوسرے میں مدغم ہونے سے کیسے روکا جا سکتا ہے۔ یہ بے معنی حجت ہوگی۔
ایک بہت ہی سادہ سا سوال ہے کہ کیا مغرب نے اہلِ مشرق کا لباس اپنا لیا ہے؟
تو یقینا اس کا جواب ہوگا نہیں! وہاں تو آج بھی مسلمانوں کو اسکارف پہننے
کی اجازت نہیں ہے۔ لباس کسی معاشرے کی پہلی پہچان ہوتی ہے آپ کسی بھی
انجانے معاشرے میں جائیں وہاں کے معاشرتی عادات و اطوار کا سب سے پہلا
اندازہ وہاں کے لباس سے لگائیں گے۔ اس کے بعد زبان اور دیگر روایات تک بات
پہنچے گی۔ لیکن ہماری بد قسمتی کہہ لیں کہ ہم نے اپنی اس پہچان پر بہت
آسانی کے ساتھ سمجھوتہ کر لیا ہے۔آخر ایسا کیوں ہے؟ یہ سوال ہے سوچنے کے
لئے جو میں آپ سب کے سپرد کر رہا ہوں۔
ہم اربابِ بست و کشاد سے اور خصوصاً وزیراعظم پاکستان سے گزارش کرتے ہیں کہ
وہ ایسا نو ٹیفیکیشن فی الفور جاری کرائیں کہ ہماری زبان، ثقافت اور دیگر
چیزیں جو ناپید ہو رہی ہیں وہ بچ جائیں تاکہ نسلِ نو اور پاکستان کے مستقبل
کے معماروں کے لئے سود مند و مفید ہو ں۔ |
|