پاکستان میں لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ
ناممکن دکھائی دیتا ہے جس کی وجہ سے حکومت کے اقتدار میں آنے سے پہلے کیے
جانے والے وعدے اس کے گلے کی ہڈی بن رہے ہیں جو نہ نگلی جا رہی ہے اور نا
اگلی جا رہی ہے اس پر ہمارے وزیر پانی و بجلی کا یہ اعلان کے لوڈ
شیڈنگ2018تک بھی ختم نہیں ہو سکتی عوام کے دلوں پر بجلی بن کے گرا،اگر اس
بیان کے وضاحتی تناظر میں دیکھا جائے تو وزیر موصوف نے بلکل درست فرمایا ہے
مگر وہ یہ بات بھول رہے ہیں کہ ان کی پارٹی کے بعض رہنماؤں نے اس لوڈ شیڈنگ
کو ختم کرنے کے لئے چھ ماہ کا وقت دیا تھا وہ بھی صرف اس بات کی گارنٹی پر
کے عوام اپنا قیمتی ووٹ ان کو دے دیں اب جبکہ عوام نے اپنے قیمتی ووٹ ان کو
دے دیے ہیں اس کے بعد ان لوگوں نے روایتی سیاست دان ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے
یہ خوشخبریاں سنانا شروع کر دی ہیں کہ جناب ہم نے تو وعدے کیے تھے اور وعدے
کون سے قرآن وحدیث ہوتے ہیں جن کو توڑا نہیں جا سکتا آپ کو یاد ہو گا کہ
ماضی میں جب آصف علی زرداری صاحب اور میاں نواز شریف کے درمیان مری میں
معاہدہ ہوا تھا جو کہ بہت ہی کم عرصے میں زرداری صاحب کی وعدہ خلافی کی وجہ
سے تاریخ کا حصہ بن گیا تھااس وقت میڈیا کی طرف سے کیے جانے والے پروگراموں
میں اب کے حکومتی اور اس وقت کے اپوزیشن اراکین باقاعدہ تیاری کے ساتھ آتے
تھے اور قرآن و حدیث کے وہ وہ حصے باقاعدہ یاد کر کے آتے تھے جن میں وعدہ
خلافی کرنے والے کے لئے سخت وعید ہوتی تھیں اس وقت یہ لوگ پیٹ، پیٹ کر کہا
کرتے تھے کہ جی یہ تو بہت بری بات ہے کسی کا وعدہ کر کے مکر جانا مگر اب جب
اپنی باری آئی ہے تو انھوں نے اس وعدہ خلافی کو کس مجبوری کا نام دیا ہے
عوام نہیں جانتے ۔
اب ہماری حکومت کا کہنا ہے کہ لوڈ شیڈنگ کے متعلق یہ حقائق اب کے سامنے آئے
ہیں پہلے ان کو اس بارے میں اتنا پتا نہیں تھا لیکن اب ان کو سمجھ آئی ہے
کہ یہ جن کتنا بڑا اور خطرناک ہے حکومت کا کہنا ہے کہ وہ اس جن کو قابو کر
لیں گے مگر کتنے وقت میں اس کا کوئی ٹائم فریم نہیں دیا جا سکتا یا شاید
اگر ان کو ایک باری اور دے دی جائے تو لیکن یہاں بات اگر مگر کی آ جاتی ہے
اور عوام اگر ،مگر کو خوب جان گئے ہیں ۔
اب جبکہ آئی ایم ایف کے سربراہ کا کہنا ہے کہ پاکستان میں بجلی کی پیداوار
طلب کے مقابلے میں انتہائی کم ہے اور لود شیدنگ کا مکمل خاتمہ ایک دو سال
میں ممکن ہی نہیں بلکہ اس کے لئے کم از کمپانچ سے دس سال درکار ہوں گے اور
وہ بھی اس صورت میں بجلی پوری ہو گی اگر پاکستان نے بجلی کے نئے کارخانے
لگانے کے ساتھ ساتھ نئے ڈیم بھی تعمیر کیے دوسری صورت میں بجلی کا بحران
بیس سال تک ختم نہیں کیاجاسکتا حکمرانوں کو یہ بات یاد دلانے کی ضرورت نہیں
کہ بجلی کی پیداوار کے لئے ڈیزل سے چلنے والے بجلی گھروں کا کوئی خاص فائدہ
نہیں ماسوائے اس کے، کے اس سے عوام کو وقتی ریلیف دیا جا سکتا ہے لیکن
پاکستان کی معیشت کی جو صورت حال ہے اس کو سامنے رکھتے ہوئے کھبی بھی اس کو
سود مند نہیں کہا جا سکتا کیونکہ اس میں بہت سا زرمبادلہ خرچ ہوتا ہے ہاں
اگر صیحح معانوں میں توانائی کی قلت دور کرنی ہے تو نئے دیموں کی تعمیر
ناگزیر ہے ملک میں اگرچہ کچھ نئے نسبتا چھوٹے ڈیم تعمیر ہو رہے ہیں مگر اس
کے ساتھ ساتھ ایک عدد بڑے ڈیم کی اشد ضرورت ہے جیسا کہ کالا باغ ،بھاشا ڈیم
یا ان جیسا کوئی بھی بڑا ڈیم جس سے پاکستان کو بجلی کی خاطر خواہ پیداوار
مل سکے اس حقیقت کا حکمرانوں کو مکمل ادراک ہے کہ بجلی ،گیس اور دیگر
توانائی کے وسائل کی جس تیزی سے قیمتوں میں آضافہ ہورہا ہے توانائی پیدا
کرنے کے یہ محدود وطریقے ہر گز کارگر ثابت نہیں ہوں گے چنانچہ بجلی کے وقتی
ریلیف کے لئے چھوٹے چھوٹ منصوبے ضرور لگائے جائیں اس کے لئے ایل این جی بھی
درآمد کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں مگر حکمران اگر واقعی پاکستان کو ان
بحرانوں سے نجات دلوانا چاہتے ہیں تو ان کو پاکستان میں ان زرائع توانائی
کو فروغ دینا ہو گا جو نسبتا آسان سستے اور ہمیشہ قائم رہنے والے ہیں
کیونکہ اکثر دیکھا گیا ہے اور خاص طور پر پاکستان میں حکومت ان فوائد کو
سامنے رکھتی ہے جو آن دی ٹیبل ہوتے ہوں مثلا بجلی کے کنکشن عوام کو دے دیے
،گیس کے کنکشن عوام کو دے دیے ،دیگر سہولیات کا اعلان کر دیا مگر یہ نہیں
دیکھا جاتا کہ وہ جس سہولت کا اعلان کر رہے ہیں اس کے ذخائر کتنے ہیں اور
یہ سہولت کب تک عوام استعمال کر سکتے ہیں ایسی پالیسیاں نہ بنانے کی وجہ سے
آج ہم کئی طرح کے بحرانوں میں گرے ہوئے ہیں جن کا اگر تذکرہ کیا جائے تو
صفحات اجازت نہیں دیتے اس لئے ضرورت اس امر کی ہے کہ وقتی ریلیف اور فائدے
کے لئے نہیں بلکہ لانگ ٹرم پالیساں بنائی جائیں تاکہ ہماری آنے والی آئندہ
کی نسلیں ملکی ترقی میں اہم کردار ادا کر سکیں ناکہ وہ بھی ہماری طرح پانی
،بجلی اور گیس کے حصول کے لئے اپنی تمام تر توانائیاں صرف کر دیں۔ |