بے نظیربھٹو……قاتل بچ نکلا……ایک مطالعہ،ایک تجزیہ

کسی عام شخص کی تو بات ہی کیا ہے پاکستان میں وزیر اعظم یا صدر کا قتل ہو یا خود پورے ملک کے دو لخت ہونے کا سانحہ تمام معاملات افواہوں، قیاس آرائیوں اور شکوک وشبہات کے پردوں میں لپٹے رہتے ہیں۔ کسی کو سزا تو درکنار مجرموں کا تعین ہی نہیں ہوپاتا۔کمیشن بنتے ہیں ، عدالتی کارروائیاں چلتی ہیں لیکن کبھی حتمی نتیجہ سامنے نہیں آتابالآخرکوئی ایک معاملہ کسی ایسے ہی دوسرے بڑے سانحے کی دھول میں نظروں سے اوجھل ہوجاتاہے۔ پھرایک نئی کہانی چھڑ جاتی ہے۔ تب پہلی کہانی بطورتمہیداورکبھی بطورنظیراستعمال ہوتی ہے۔ لیاقت علی خان سے بے نظیرتک یہ کہانی ہمارے سامنے ہے۔

بے نظیرکے قتل پر یہ تازہ کتاب"Getting away wtih Murder"اقوام متحدہ انکوائری کمیشن کے سربراہ ہیرالڈومیونوزنے لکھی ہے۔ یاسرجواد نے ’’بے نظیربھٹو……قاتل بچ نکلا‘‘کے نام سے اس کا ترجمہ کیااور نگارشات پبلشرلاہورنے اسے زیور طباعت سے آراستہ کیاہے۔ مصنف اقوام متحدہ میں اسسٹنٹ سیکرٹری جنرل اور اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کے لیے لاطینی امریکا وکیریبیئن کے انچارج ہیں۔ وہ اقوام متحدہ میں چلی کے سابق سفیراور حال ہی میں (۲۰۱۴ء)چلی کے وزیرخارجہ بنے۔ وہ اس سے پہلے A Solitary WarاورThe dictator Shadowنامی دوکتابوں کے مصنف ہیں۔ مصنف جنوری ۲۰۱۰ء میں اقوام متحدہ کی طرف سے بے نظیر قتل کیس کے تحقیقاتی کمیشن کے سربراہ مقررہوئے۔ ایک سال تک یہ معاملہ چلتارہا۔ اگلے دوسال میں اس نے یہ کتاب لکھی۔ پیش لفظ میں لکھتے ہیں:’’یہ کتاب سال بھرطویل انکوائری کے دوران ملنے والے پس پردہ شواہدوتجربات پر مبنی ہے………… درحقیقت یہ کتاب جتنی بے نظیربھٹوکے بارے میں ہے اتنی ہی جدیدپاکستان اور پاک امریکا تعلقات کے وسیع ترتناظرکے متعلق بھی ہے۔ بے نظیر کی المناک موت ایک زیادہ بڑی کہانی میں داخلے کا دروازہ ہے: آزادی کے بعدپاکستان کا ارتقااور یوایس سمیت اہم بیرونی کرداروں کااثرورسوخ۔‘‘ آگے لکھتے ہیں:’’یہ کتاب پاکستان میں سیاسی زندگی و مو ت کاتجزیہ ہے۔ نہ کہ ایک محدودموضوع کا جائزہ یاسیاسی کرداروں کے بیانات پر تبصرہ۔ یہ بے نظیربھٹوکے قتل اور ان کے متعلق میرا ذاتی نقطۂ نظر ہے اور اقوام متحدہ یا تفتیشی کمیشن کے دیگر ارکان کے خیالات کا لازمی طور پر عکاس نہیں۔ یہ ایک اہم سیاسی راہنما کے قتل، ان کے ملک اور حالات کا تنقیدی جائزہ ہے۔‘‘

8ابواب، مابعدتحقیق، حاصل بحث اور آخر میں حوالوں پر مشتمل یہ تحقیقی کتاب دل چسپی میں ناول اور افسانے سے کسی طرح بھی کم نہیں۔ 2007ء میں بے نظیر بھٹوکی واپسی کے پروگرام سے لے کر اس کے قتل اور مابعد قتل ان کی تفتیش اور اس تفتیش کے اثرات تک کے احوال پرمبنی یہ کتاب مختلف رنگوں پر مشتمل ہے۔ اس میں بے نظیر کے عروج کی کہانی بھی ہے اور پاکستان میں سیاسی قتل کی تاریخ بھی۔ لبرل اور اسلامسٹوں کی کش مکش بھی ہے اور پاک امریکاتعلقات، وفا وبے وفائی کے قصے بھی ۔ مشرف اور بیت اﷲ محسود کے تذکرے بھی ہیں،آئی ایس آئی، سی آئی اے تعلقات کے اتار چڑھاؤ بھی۔

اس کتاب میں جہاں تفتیش پر مبنی مشاہدات اورتحقیق کا دعویٰ پایا جاتاہے وہاں تاریخ سے بے خبری ، تعصب اور اسلام اور بالخصوص اسلامسٹوں سے نفرت بھی کہیں کہیں بالکل نمایاں ہوکرسامنے آگئی ہے۔اگرچہ مصنف نے اس کتاب کے لوازمے کو اپنا نقطہ نظر قرار دیا ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس نے مغرب ہی کی نظر سے دیکھاہے۔

پیش لفظ ہی میں لکھتے ہیں: مغرب نے انھیں(بے نظیرکو) ایک ترقی پسند شخصیت خیال کیا جواپنے وطن میں جمہوریت اور انسداددہشت گردی کے نصب العین کوفروغ دے سکتی تھی۔ پاکستان میں بہت سے لوگ بے نظیرسے نفرت کرتے اور خوف زدہ بھی تھے بالخصوص نام نہاد اسٹیبلشمنٹ۔ فوج اور سکیورٹی سروسز کے اندر مخصوص دھڑے مخصوص کاروباری افراداور اسلامی انتہاپسند۔ وہ ان کی مقبولیت اور مغرب کے ساتھ تعلقات اور جدت پسندسیاسی ایجنڈے کو ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتے تھے۔ سیاسی مخالفین نے بے نظیر اور ان کے اہل خانہ (بالخصوص شوہرآصف علی زرداری) کے خلاف کرپشن کے الزامات عائد کیے جبکہ میڈیااوردیگر شبہات پسندوں نے ان کی شاہانہ تعیشات کو تنقیدکانشانہ بنایا۔‘‘تاہم ان سب کچھ کے باوجودانکشافات سے بھرپوراس کتاب کی دل چسپی میں کوئی شک نہیں۔

کہانی کا آغازہوتاہے’’پیش گوئی کردہ قتل‘‘ کے عنوان سے ۔
پاکستان آمدسے پہلے 15اگست2007ء کوبے نظیربھٹونیویارک کونسل برائے فارن ریلیشنز کی ایک غیرمعمولی اجلاس میں شریک ہوئیں۔ کونسل کے صدر، دانش وراور سابق امریکی سفیر رچرڈHaassنے شرکا سے پرجوش ذاتی تاثرات کے ساتھ ان کا تعارف کرایا۔ پھربھٹونے 1958ء سے لے کر اب تک نصف صدی کے حالات پر روشنی ڈالی۔’’وہ چاہتی تھیں کہ سامعین پاکستان کو درپیش چیلنجوں سے اچھی طرح آگاہ ہوجائیں: غیرمستحکم جمہوریت ، فریب کاریاں، کرپشن ، سیاسی قتل، سماجی اقتصادی ناانصافی، بیرونی اثرات اور بڑھتی ہوئی مذہبی انتہاپسندی۔‘‘

بھٹونے اس اجلاس میں پاکستان جانے اور عسکریت پسندی اور انتہاپسندی کی قوتوں سے دودوہاتھ کرنے کا عزم ظاہرکیا۔ مصنف لکھتاہے: ’’بھٹونے منہمک امریکی سامعین کے لیے تمام درست سُر بڑی مہارت سے چھیڑدیے تھے۔‘‘ بھٹوکو مشرف سے شکایات بھی تھیں اور امیدیں بھی۔ مشرف نہیں چاہتاتھا کہ بے نظیرانتخابات سے پہلے پاکستان آجائیں لیکن بے نظیر انتخابی مہم کے لیے اپنی آمدضروری سمجھ رہی تھیں۔

انھوں نے اس کے بعدواشنگٹن پوسٹ کے ایک مضمون میں لکھا: ’’جب میری فلائیٹ پاکستا ن میں لینڈکرے گی تومیں جانتی ہوں کہ عوام خوشی سے جھوم اُٹھیں گے۔ ایئرپورٹ سے روانگی کے بعدمیں اچھے حالات کے لیے دعاگو جب کہ بُرے کے لیے تیار رہوں گی۔‘‘تاہم اس معاملے میں بے نظیر پر مایوسی کا غلبہ تھا۔مصنف لکھتاہے کہ بے نظیر اکتوبر2007ء میں کولوراڈو کی طرف ایک نجی طیارے میں سفرکررہی تھیں، ان کے ساتھ امریکی سفیرزلمے خلیل زاداور ان کی بیوی بھی تھیں۔ فلائیٹ کے ایک اہل کار نے جب بے نظیر کو کچھ تازہ بسکٹ پیش کیے توانھوں نے یہ کہتے ہوئے انکارکیاکہ وہ اپنا وزن کم کرنا چاہتی ہیں پھرانھوں نے اہل کار کو واپس بلاتے ہوئے کہا:’’اوہ! کوئی فرق نہیں پڑتا‘ ویسے بھی میں چندماہ میں مرجاؤں گی۔‘‘

ایسے ہی حالات میں بے نظیرنے واپسی کا اعلان کیا۔ مشرف نے بے نظیرکے اس اقدام کو ان کے مابین معاہدے کی قطعی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے غصے اور برہمی کا اظہارکیا۔ 18اکتوبر 2007ء کو بھٹودوبئی سے کراچی کے لیے روانہ ہوئیں۔ ان کا بڑا شان دار اور پُرتپاک استقبال ہوا۔ اسی دوران کارساز سانحہ رونما ہواجس میں 149افرادجاں بحق اور 402زخمی ہوئے اور بے نظیر کے کان کے پردے پھٹ گئے اور وہ قوت سماعت عارضی طور پر کھوبیٹھیں۔ 16اکتوبر2007ء کوبے نظیرنے مشرف کے نام خط میں چندلوگوں کانام ظاہرکیاتھا جن سے وہ خطرہ محسوس کررہی تھیں۔ ان میں جنرل(ر) حمیدگل، بریگیڈیر(ر) اعجازشاہ اور اس وقت پنجاب کے وزیراعلیٰ چودھری پرویز الہٰی کے نام شامل تھے۔

بے نظیرکی طرف سے غیر جانبدارانہ تحقیقات اور مناسب سکیورٹی کے انتظام کا مطالبہ ہوتارہا۔ 3نومبر2007ء کوایمرجنسی کے نفاذ سے حالات گھمبیرترہوگئے۔ بے نظیراپنے گھرمیں نظربندہوگئیں اُنھیں ایک دفعہ پھر خطرات اور خدشات کا سامنا تھا لیکن انھوں نے اسے درخور اعتنا نہ سمجھا کیوں کہ وہ اس سے پہلے 1986ء میں بھی ایسی ہی خطرات ، خدشات اور دھمکیوں کے تجربے سے گزری تھی ۔مصنف کا خیال ہے کہ 20سال بعدخصوصاََ نائن الیون کے بعد حالات نے خاصا پلٹا کھایاتھالیکن بے نظیراس کا ادراک نہ کرسکی۔

27دسمبر2007ء کو بے نظیر لیاقت باغ میں ایک انتخابی جلسے سے خطاب کے بعد پارک سے باہرجانے لگی۔ گاڑی میں بیٹھنے کے بعدوہ لوگوں کوہاتھ ہلانے کے لیے گاڑی کی بالائی ونڈو کھول کر باہر نکلیں۔ اس دوران گولی چلنے کی آواز آئی اور اس کے فوراً بعد مبینہ طور پر خودکش حملہ آورنے خوفناک دھماکا کردیا جس کے نتیجے میں بے نظیربھٹو جان کی بازی ہارگئی۔

مختلف بیانات سامنے آنے لگے: مثلاً’’ گولی ان کی گردن یاسرمیں لگی‘‘۔ ’’حملہ القاعدہ والی طرز کا تھا‘‘۔ عینی شاہدنے’’ ایک قریبی عمارت سے نشانہ باز کو فائرکرتے ہوئے بھی بتایا‘‘۔ ’’ان کی موت دھماکے سے ہوئی‘‘۔ گن مین کے خودکش دھماکے سے پہلے مس بھٹو کی گردن اور چھاتی میں گولیاں لگیں۔ ’’انھیں دوگولیاں لگیں ایک پیٹ اور دوسری سر میں۔‘‘

ویڈیوکلپس منظرعام پر آئیں: دھوپ کے چشمے لگائے ہوئے ایک مسلح قاتل کے دھندلے مناظر نظرآئے۔ قاتل نے گاڑی سی ایک دومیٹرکے فاصلے پر ’’کمال خوداعتمادی کے ساتھ‘‘ فائرکیا۔ اسی کو پروفیشنل نشانہ باز قرار دیاگیا۔ تاہم کچھ دیگرعینی شاہدین نے حملہ آور دوبتائے:’’ ایک گن مین اور دوسرا خودکش بمبار‘‘ العرض جتنے عینی شاہدین اتنے ہی مختلف بیانات۔

RTTنیوزنے بتایا کہ قاتلوں کو شناخت کرلیاگیاتھا۔ خالد شہنشاہ کا نام بھی لیا گیاجو بے نظیر کے سکیورٹی گارڈز میں سے ایک تھااور بعدازاں انڈرگراؤنڈ چلاگیا۔ فوٹیج میں اسے(دوران جلسہ) ڈائس پر بے نظیرکے ساتھ کھڑے ہوکرمشکوک اشارے کرتے ہوئے دیکھا گیا۔ خالدشہنشاہ بے نظیرکے سکیورٹی ایڈوائزر عبدالرحمن ملک نے رکھوایا تھا۔

حملے کے بعد مقامی فائرکمپنی کے ذریعے بم دھماکے کی جگہ کو فوراً پانی کے تیز پریشر سے دھلوادیاگیا۔ اس کے ساتھ اہم بات یہ کہ ایک دن بعد وزارت داخلہ کے ترجمان بریگیڈیرجاویدچیمہ نے ایک پریس کانفرنس میں بتایا کہ بے نظیرکی موت بلٹ پروف گاڑی کے سن روف میں لگا لیور لگنے کی وجہ سے ہوئی۔ اس نے یہ بھی بتایا کہ (پکڑی گئی فون کالز کی بنیادپر) طالبان کمانڈربیت اﷲ محسودنے القاعدہ نیٹ ورک کی مدد سے قتل کرنے کا حکم دیاتھا۔

پی پی پی نے قتل کی تحقیقات اقوام متحدہ سے کروانے کا فیصلہ کیا۔ جنوری 2008ء کے اوائل میں آصف علی زرداری نے ’’واشنگٹن پوسٹ‘‘ میں لکھا: میں اقوام متحدہ سے درخواست کرتاہوں کہ میری بیوی کے قتل کے بارے میں حقائق معلوم کرنے کی غرض سے مفصل تفتیش شروع کریں۔ جب وہ 6ستمبرکو صدربناتویہ مطالبہ ایک ریاست کی طرف سے سرکاری درخواست بن گئی۔
…… …… ……
’’عدم استحکام کی ابتدائی تاریخ‘‘ کے عنوان سے لیاقت علی خان سے بے نظیرکی موت تک سیاسی اور فوجی قوتوں کی کش مکش کی کہانی بڑی خوب صورتی سے بیان کی گئی ہے۔ اس باب میں زمانی لحاظ سے انتہائی فاصلے پرواقع واقعات کو بڑی مہارت کے ساتھ جوڑا گیاہے۔ مثلاً لیاقت علی خاں کے قاتل کے بارے میں وہ لکھتے ہیں: ’’29سالہ افغانی سید اکبر نامی قاتل خوست افغانستان کے سردارکا بیٹا تھا۔ اکبر ایبٹ آبادمیں رہتا تھا۔ وہی شہرجہاں کئی عشرے بعد اسامہ بن لادن کے خلاف حتمی کارروائی ہوئی‘‘ ’’جس پارک میں وزیراعظم لیاقت علی خان کا قتل ہوا‘ آج لیاقت باغ کہلاتا ہے…… وہی جگہ جہاں پر ساٹھ برس بعدوزیراعظم بے نظیربھٹوکو قتل کیاگیا۔جس ڈاکٹر نے لیاقت علی خاں کا معائنہ کیاتھاآج اُن کے بیٹے ڈاکٹر مصدق نے 60برس بعد اپنے باپ کی طرح بے نظیربھٹوکی زندگی بحال کرنے کی کوشش کی۔‘‘ آخر میں لکھتے ہیں’’ ذوالفقار علی بھٹو کو راولپنڈی جیل میں پھانسی دے دی گئی۔ اس شہرمیں پاکستان کے پہلے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو قتل کیاگیاتھا اور یہیں پر ذوالفقارعلی بھٹوکی بیٹی بے نظیر کو قتل ہوناتھا۔‘‘

میر مرتضیٰ بھٹو کے قتل کے ضمن میں اُس کی بیٹی فاطمہ بھٹوکی کتاب "Songs of Sword" کا حوالہ بھی موجودہے: ’’پاپاکے پوسٹ مارٹم سے پتا چلا کہ آخری گولی بالکل قریب سے ان کے جبڑے میں ماری گئی…… ہمارے گھرکے باہروالی گلی کو پانی سے دھودیاگیا؛ سارا خون اور شیشے بہادیے گئے۔ کوئی پندرہ منٹ بعد 8:45کے قریب میں ممی گھرسے نکلے توپولیس تمام شواہدمٹاچکی تھی۔‘‘ (ص ۴۶۔۴۷)۔بے نظیر کے قتل کے بعد بھی جائے واردات کو دھودیا گیا تھا۔

’’خاندان اور قوم میں خون ریزی‘‘ کے عنوان سے تیسرا باب بھٹوخاندان کے اتارچڑھاؤپرمبنی کہانی پر مشتمل ہے۔ اتنی تحقیق کے باوجودمصنف بعض باتیں بڑی’’آسانی‘‘ سے بغیر تحقیق کے بلکہ تعصب کی بنیاد پر لکھ گیا ہے مثلاً ایک جگہ لکھتے ہیں: ’’ مودودی بانیِ پاکستان محمدعلی جناح کو کافر سمجھتا تھا اور اس نے ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر کو بھی کافر قراردیا۔ مودودی نے آئی ایس آئی اور فوج کے ساتھ مل کر ضیائی آمریت کو سہارا فراہم کیا۔‘‘

تاریخ کی تھوڑی سی سوجھ بوجھ رکھنے والاکوئی بھی شخص یہ ثابت نہیں کرسکتا تھا۔ کہ مولانا مودودی نے کسی شخص کو کافر قراردیاہو۔ قائداعظم تو دُور کی بات ہے وہ توان لوگوں کے معاملے کو بھی اﷲ پر چھوڑ دیتے تھے جنھوں نے خود اُن پر کُفر کے فتوے لگائے تھے ۔اسی طرح مولانامودودی پرفوج یا ضیا ئی آمریت کے ساتھ ملنے کی بات بھی صریحاـ بد دیانتی پر مبنی ایساالزام ہے جس کی کوئی حقیقت نہیں کیونکہ مولانا ضیا دور کے آغاز سے بہت پہلے عملی سیاست سے ریٹائر ہوچکے تھے ۔1979ء میں ان کا انتقال ہوگیا تھا۔

اسی طرح ریمنڈ ڈیوس کے تذکرے میں بھی مصنف نے ڈنڈی مارتے ہوئے لکھا ہے کہ’ریمنڈ ڈیوس نے ڈاکا زنی کی کوشش کرنے والے دوآدمیوں کو مار ڈالا۔‘}ص { 148

مصنف نے تحقیقاتی کمیشن کی پاکستان آمد کی کہانی ’’اسلام آباد جانے والی شاہ راہ پر‘‘ کے عنوان سے لکھی ہے۔ لکھتے ہیں کہ اسلام آباد پہنچنے پر پاکستانی حکومت نے ہمارے سیف ہاؤس میں ایک پرتپاک استقبالیہ تیارکیااورسکیورٹی انتظامات کا مفصل منصوبہ بتایا۔ ابتدائی چند گھنٹے کے دوران مجھے یہ جان کر دھچکا لگاکہ سندھ ہاؤس میں ہمارا انگلش نہ بولنے والا کُک ہمارے ایجنڈے کی تمام تفصیلات جانتا تھا۔‘‘ جب ہم نے وضاحت مانگی تو بتایا گیا کہ کُک کو معلوم ہونا چاہیے کہ ہم روزانہ کھانا کھانے کے لیے کس وقت آئیں گے۔

مصنف سابق وزیر داخلہ عبدالرحمٰن ملک سے اپنی ایک ملاقات کے احوال سناتے ہوئے لکھتاہے کہ وزیر داخلہ نے مجھے ایک رپورٹ پکڑاتے ہوئے کہا’’میراخیال ہے کہ یہ ڈاکومنٹ پڑھنے کے بعد آپ کاکام آسان ہوجائے گا۔……یہ بالکل مکمل ہے۔ آپ اس رپورٹ کو اپنی طرف سے جاری کرسکتے ہیں، اپنی نظر میں موزوں تبدیلیاں اور اضافے کرکے۔‘‘ اس کا پیغام تھا کہ ہماری تفتیش بیٹھے بیٹھے بخوبی انجام کو پہنچ سکتی تھی۔ ……’’یہ آنے والے حالات کاایک واضح اشارہ تھا۔‘‘’’ اس نے بے نظیربھٹو کے قتل ہونے کے وقت اپنے کردار اور اقدامات کے متعلق ہمارے سوالات کا کوئی تسلی بخش جواب نہ دیا۔‘‘

’’وزیرداخلہ ہمیشہ گرمجوشی اورانکسارسے پیش آتا، ہر ملاقات کے بعد تحائف دیتا۔‘‘ ہم نے اُن کو بتایا کہ اقوام متحدہ کے ضابطہ اخلاق کی وجہ سے ہم تحائف قبول کرنے سے عاجز ہیں لیکن وہ پھربھی اصرارکرتا…… پولیس کے رویے کے بارے میں لکھتے ہیں: جب ہم نے زیادہ مفصل سوالات بار بار پوچھے تو راولپنڈی کے پولیس اہل کاروں کا رویہ ابتدائی تکبراور خود اعتمادی سے تبدیل ہوکر دفاعی پریشانی والا ہوگیا۔ پولیس چیف سعودعزیزنے جب بار بار اپنی گواہی کے حصے تبدیل کیے…………توایک سابق آئرش پولیس اہل کار نے صاف صاف کہہ دیا کہ ’’یہ شخص جھوٹ بول رہاہے۔‘‘

پانچویں باب’’ پاکستانی معاملات میں امریکی سنجیدگی‘‘ کے زیر عنوان کچھ ایسے حقائق سامنے آئے ہیں جن کو پڑھ کرسر شرم سے خود بخود جھک جاتا ہے مثلاً جنرل ایوب خان نے ستمبر1953ء میں واشنگٹن ڈی سی کے دورے کے دوران سٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کے ایک اعلیٰ افسرسے کہا:’’ اگر آپ چاہیں توہماری فوج آپ کی فوج بن سکتی ہے۔‘‘ ’’اندراگاندھی کے برعکس نکسن یحیٰ خان کو قابل اعتبار سپاہی سمجھتے تھے۔‘‘

بے نظیر کے دوراقتدار کے بارے میں رقم طراز ہیں کہ ’’بے نظیر امریکی مشیروں میں گھِر گئیں، مثلاً ان کے کالج کے دوست پیٹر گلبریتھ، سینیٹرCaliborne pallکاسابقہ Stafferاور بعد ازاں کروشیاکاسفیر‘ واشنگٹن میں لابنگ کرنے والے مارک سیگل‘ سینیٹرڈینیل پیٹرک موئنہان۔ امریکا میں پاکستان کے سفیرکے مطابق وزیراعظم تک ان کی رسائی بہت آسان ،یا بہت زیادہ ۔ ۔۔تھی، جس نے لکھا ہے کہ میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ امریکیوں کو اس حد تک رسائی حاصل تھی کہ وہ وزیراعظم آفس میں ہونے والی میٹنگز میں شرکت کرتے اور بریفنگ کی تیاری میں حصہ لیتے………… حتیٰ کہ نیوکلیرمسئلے جیسے حساس اموربھی زیربحث آتے۔‘‘(ص۷۱)

اسی طرح ’’1995ء کے اوائل میں رمزی یوسف کی گرفتاری اور امریکا کے حوالے کرنے کی وجہ سے بے نظیر بھٹوکواپنے اپریل 1995ء کے دورہ واشنگٹن کے دوران ایک مرتبہ پھر میڈیا اور سیاسی اشرافیہ کی جانب سے پذیرائی ملی۔ اس طرح جون 1997ء میں نواز شریف نے ایمل کاسی کو پکڑنے کے مشترکہ پاک امریکا اپریشن کی جازت دی۔ مصنف نے لکھا ہے کہ ’’حوالگی کے قواعدوضوابط پورے کیے بغیر کاسی کو یوایس بھیجوادیاگیا۔‘‘ (ص۷۴)

اقتدارکے کھلاڑی باہمی گٹھ جوڑ کس طرح کرتے ہیں۔ لکھتے ہیں:24جنوری2007ء کو ابوظہبی میں پرویزمشرف اوربے نظیر میں شیخ زیدبن سلطان النہیان کے محل کے سرسبزباغ میں ایک طویل گفتگو ہوئی۔’’بے نظیرکے مطابق مشرف نے قومی انتخابات سے قبل فوج سے ریٹائرہونے پر اتفاق کیا اور اعتماد سازی کی خاطر ان کے اور آصف علی زرداری کے خلاف مقدما ت ختم کرنے کی پیش کش کی۔ جواب میں بھٹونے 31دسمبر2007ء سے پہلے پاکستان واپس نہ جانے پر رضا مندی ظاہرکی۔‘‘ (ص۸۵)

اسی دوران پرویز مشرف کی طرف سے ایک’’ معمولی سی ‘‘تجویزیہ بھی آئی:’’ اگربے نظیرانتخابات کے دوران پاکستان سے دور رہے تو’’ مشرف ووٹ میں کمی بیشی کرکے‘‘ پی پی کو اصل حاصل کردہ تعدادسے زیادہ نشستیں دلادیں گے۔‘‘(ص۸۶)

ایک موقع پر مشرف نے کہاکہ’’ان کے اور آصف علی زرداری کے مقدمات ختم نہیں کیے جاسکتے۔ تب بے نظیر نے مشرف سے کہا کہ کم ازکم تیسری مرتبہ وزیراعظم بننے پر عائد پابندی توختم کردی جائے۔‘‘(۸۷)
یہ کس نے کیا؟

سب سے سنسنی خیز انکشافات اس باب میں ہیں۔ لکھتے ہیں بے نظیر کے قتل کے اگلے روزیعنی28دسمبرکی شام کوترجمان وزارت داخلہ بریگیڈیر(ر) جاویداقبال چیمہ نے ایک پریس کانفرنس میں ان کی موت کی وجہ اور حملے کے ذمہ دارکانام بھی بتادیا…… یہ کہ بیت اﷲ محسود اور القاعدہ اس حملے کے ذمہ دارتھے۔ بطور ثبوت اس نے محسود اورایک مولوی صاحب کے درمیان ٹیلیفونک پشتوگفتگوپیش کی جس میں محسود مولوی کو ’’زبردست کام‘‘ کرنے پر مبارک باددے رہاتھا۔(۱۰۸)

اتنی جلدی ٹیلیفونک گفتگوپکڑنا ، تجزیہ کرنا اور مجرموں کاتعین کرنا ایک ایسا عجوبہ تھا جس سے شکوک وشبہات کاپیداہونا لازمی امرتھا۔ مصنف لکھتے ہیں کہ تحقیقات کے دوران ایک سینیئرپولیس افسر نے انٹرویو دیتے ہوئے بتایا کہ ’’میں نے اپنی 24سالہ ملازمت میں کبھی ثبوت کو اس طرح خود بخود ظاہرہوتے نہیں دیکھا۔‘‘

ڈی سی اومحمدعرفان الٰہی نے بے نظیربھٹوکی موت کا اعلان کرنے والے ڈاکٹروں کاایک اجلاس بلایا۔ اس نے ڈاکٹروں سے کہا کہ’’ اصل میڈیکل رپورٹ میرے پاس لائیں اور یہ بھی ہدایت کی کہ رپورٹ کی ہارڈ یا سوفٹ اپنے پاس نہ رکھیں۔ اس حادثے سے قبل اس قسم کی رپورٹ کی درخواست کبھی نہیں کی گئی نہ اس کے بعد کی گئی۔‘‘

وقوعہ کے فوراً بعد جائنٹ انوسٹی گیشن ٹیم کا قیام عمل میں آیا۔ 28دسمبرکی شام کو JITکے اراکین کو پولیس چیف سعودعزیزنے جائے وقوعہ پر لے جانا تھالیکن انھوں نے ٹیم کوبراہ راست جائے وقوعہ پر جانے کے بجائے کانفرنس روم میں چائے پیش کی۔ پھر لیت ولعل سے کام لیتا رہا۔ جب JITاراکین نے جائے وقوعہ کے دورہ کرنے پر زوردیاتوکہنے لگا: اس وقت اندھیرا ہوچکاہے۔ اگلی صبح جانے کا انتظام کیا جائے گا۔ اگلے روز جائے وقوعہ سے پہلے بے نظیر کی گاڑی کا معائنہ کرایا ،پھرجائے وقوعہ کے بجائے لنچ پر لے گیا۔ بالآخر شام 5بجے بڑی مشکل سے تفتیش کاروں کو لیاقت باغ لے جایا گیا۔

دھماکے کے ایک گھنٹا چالیس منٹ بعد جائے واردات کو دھودیاگیاتھا۔اور اس کی توجیہ مجمعے کو کنٹرول کرنا بتایاگیا۔

وہ لکھتے ہیں کہ بے نظیربھٹوکے قتل کے پیچھے بیت اﷲ محسود کا ہاتھ ہونے کا دعویٰ بہرحال قبل از وقت تھا۔ میڈیا نے رپورٹ دی کہ بیت اﷲ محسود نے قتل کی ذمہ داری لینے سے انکار کیا۔

آگے جاکے لکھتے ہیں: بے نظیر بھٹوجانتی تھیں کہ ممکنہ کرائے کے قاتل ان کا انتظارکررہے ہیں۔……وہ پوری طرح قائل تھیں کہ یہ دہشت گرداکیلے عمل نہیں کریں گے۔ نھیں خدشہ تھاکہ عسکریت پسندوں کے اصل محرک انھیں کام میں لائیں گے جو پاکستان کے نظام اقتدارمیں کافی اوپربیٹھے ہیں…… بالخصوص مشرف حکومت میں عسکریت پسندوں کے ہمدرد‘‘ (ص۱۱۷)

آئی ایس آئی کے متعلق لکھتے ہیں: پاکستان کی انٹیلی جنس ایجنسی شکوک کاایک مرکزی ماخذتھی…… آئی ایس آئی نے پاکستان کی ساری تاریخ کے دوران سیاسی جماعتیں تشکیل دیں، سیاسی مہموں کے لیے رقوم دیں، انتخابات میں دھاندلی کروائی اور قومی سیاست میں متواتر مداخلت کرکے جمہوری حکومتوں کی برطرفی میں کرداراداکیا…………بہت سے پروفیشنل فوجی افسران بھی آئی ایس آئی میں خدمات انجام دینے کے بجائے افواج کی قیادت کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔‘‘ آئی ایس آئی کے سابق ڈائریکٹر جنرل درانی نے بھی تسلیم کیا کہ اس کی مرکزی ’’بیماریوں‘‘ میں سے ایک اس کا ’’غالب طور پر عسکری ادارہ ہوناہے، کیونکہ پاکستانی سیاست میں فوج کا کردارغیرمعمولی ہے۔‘‘ (ص۱۲۱)

’’پاکستانی معاشرے کے علاوہ بین الاقوامی برادری میں بھی اس شک کو تقویت حاصل ہے کہ آئی ایس آئی کسی نہ کسی صورت میں بے نظیر بھٹو کے قتل میں ملوث ہوسکتی ہے۔‘‘

’’شایدہمیں قطعی طور پر کبھی معلوم نہیں ہوسکے گا کہ بے نظیربھٹوکوکس نے قتل کیا۔ قتل کی منصوبہ سازی کے پیچھے کون تھا؟ …… فہرست بہت طویل ہے۔ معمائے قتل کے کچھ ٹکڑے موجودہیں لیکن تکلیف دہ طور پر انھیں آپس میں ملانے والے عناصر بہت قلیل ہیں‘‘(ص۱۲۶)

اگرچہ بے نظیرنے مشرف کے نام مؤرخہ 16اکتوبر2007ء کے خط میں نشان دہی کردی تھی کہ وہ اپنی سکیورٹی کے لیے کن افراد کو خطرہ سمجھتی ہیں………… لیکن اقوام متحدہ کے کمیشن کو ایسے شواہدنہ مل سکے جوانھیں دوٹوک طور پرقتل سے منسلک کرتے ہوں۔‘‘(ص۱۲۷)

بے نظیربھٹونے اپنے دوست مارک سیگل کے ذریعے صحافی وولف بلیئرزکوایک ای میل بھیجی تھی۔ اس ای میل میں کہاگیا تھا کہ وہ اپنی ممکنہ قتل کے لیے مشرف کو ذمہ دار سمجھتی ہیں۔ کیونکہ مشرف کے کارندوں نے انھیں غیر محفوظ ہونے کا احساس دلایاتھا۔

حسین حقانی کے مطابق مبینہ طور پر مشرف نے بھٹوکی وطن واپسی سے قبل انھیں کہاتھا:’’میں آپ کو تحفظ صرف اس صورت میں دوں گا جب آپ میرے ساتھ اچھی رہیں گی۔‘‘ جب بے نظیرنے مشرف سے پوچھا کہ کیایو ایس حکام نے سکیورٹی کے معاملے پر بات کی ہے تو اس نے جواب دیا کہ امریکی اس مسئلے پر جو کچھ چاہیں کہہ سکتے ہیں، آپ کو ایک بات سمجھنی چاہیے کہ آپ کی سلامتی کی بنیاد ہمارے تعلق کی صورت حال پر ہے۔‘‘ (ص۱۲۹)

مصنف نے آخر میں ایک خوب صورت تمثیل پیش کی ہے لکھتے ہیں:’’اس کیس پر سیاسی چھاپ ایک جملے کی یاد دلاتی ہے: ’’کیاکوئی مجھے اس تکلیف دہ پادری سے نجات نہیں دلائے گا؟‘‘ یہ جملہ انگلینڈکے بادشاہ ہنری دوم نے کنٹربری کے آرچ بشپ بیکٹ کے رویے سے تنگ آکر بولا تھا۔ بعدازاں بیکٹ کو چارشہسواروں نے مارڈالاجنھوں نے اپنے بادشاہ کی بات سُن لی تھی اورسمجھے کہ وہ بیکٹ کو ہلاک کرنا چاہتا ہے۔ بے نظیر کے معاملے میں ایک سے زائدمقتدرقوتیں اس ’’تکلیف دہ‘‘ عورت سے نجات پانا چاہتی تھیں۔‘‘(ص۱۲۹)

گوکہ مصنف نے واضح طور پر کسی ایک فرد کا نام نہیں لیا اور اپنی تحقیق کی روشنی میں فوج اور آئی ایس آئی اوراپنے پس منظرکے لحاظ سے مذہبی انتہا پسندوں کے علاوہ اُ ن تمام لوگوں کو بری الذمہ قرار دیا جن پر خود بے نظیربھٹو یا کسی بھی طرف سے شک کیاگیا۔کتاب میں شروع سے لے کر آخر تک فوج اور آئی ایس آئی کی طرف اشارے بڑے واضح ہیں۔ اپنے ’وقار ‘ کا تحفظ جاننے والے اس کا کیا جواب دیتے ہیں اس کا انتظارر ہے گا۔

بے نظیرکے ممکنہ قاتلوں میں سے ایک نام آصف علی زرداری کا بھی لیا جانے لگا تھا۔پوری کتاب میں آصف علی زرداری کے ساتھ انتہائی نرم گوشہ اور آخر میں اُن کی بے گناہی کے واضح اعلان نے اس شک کو جنم دیا کہ اس پورے عمل کا مقصد زرداری کو نیٹ اینڈ کلین قرار دیناتھا۔ ایک طرف اگرتفتیش کی بُنیا د زرداری کے مطالبے پر رکھی گئی تھی دوسری طرف اپنے دور اقتدار کے پانچ برس اس معاملے میں زرداری کی پُر اسرار خاموشی ایسے شک کو مزید تقویت بخشتی ہے۔واﷲ اعلم۔
Hamid ullah khattak
About the Author: Hamid ullah khattak Read More Articles by Hamid ullah khattak: 17 Articles with 17863 views Editor,urdu at AFAQ.. View More