محبوب احمد سبزواری۔سب کے محبوب

ہمارے مورث اعلیٰ حضرت باری بخش رحمتہ اﷲ علیہ ہندوستان کے ایک حکمران خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔یہ خاندان شروع میں ہندوستان کی معروف اور تاریخی ریاست بیکانیر میں آباد تھا۔ قریباً سن گیارہ سو ہجری میں اس خاندان کے جد امجد اعلیٰ حضرت عبدالقدوس رحمتہ اﷲ علیہ (۶۲۷ء۔۶۶۲ء) نے ہندوستان کے ضلع مظفر نگر کے قصبہ ’حسین پور ‘ میں سکونت اختیار کی اس منا سبت سے یہ خاندان ’’حسین پوری‘‘ کہلایا۔ضلع مظفر نگر کے ایک قصبہ ’’بنت‘‘ میں ایک اور خاندان سکونت پذیر تھا جو اپنے نام کے ساتھ ’’سبزواری‘‘ لگا یا کرتا تھا کہا جاتا ہے کہ اس خاندان کے جد امجد مغل شہنشاہ اکبر اعظم کے زمانے میں ایران کے شہر ’’سبزوار‘‘ سے ہجرت کر کے ہندوستان میں آباد ہو ئے۔ سبزوار ایران کے شہر خراسان کا ایک چھوٹا ساقصبہ ہے۔اس خاندان کے لو گوں نے ابتدا میں دہلی کو اپنا مسکن بنا یا اس کے بعد مختلف شہروں جن میں فرید کوٹ، بگرہ، سہارنپور، کوٹکا پور ہ ، بیکانیر ،مالیر کوٹلے، فیروز پور ، امرتسر شا مل ہیں آباد ہوئے لیکن ان کی زیادہ تعدادضلع مظفر نگر کے قصبے ’’بنت ‘‘ میں آباد ہوئی۔

ڈاکٹر غنی الا کرم سبزواری کے مطابق ایران سے ہجرت کرکے دہلی منتقل ہونے والے چار بھائی تھے ۔ ہندوستان میں رہائش اختیار کر لینے کے بعد انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے اپنے ناموں کے ساتھ اپنے آبائی شہر ’’سبزوار‘‘ کی مناسبت سے لفظ ’’ سبزواری ‘‘ لکھا کریں گے جو ان کا خاندانی نام ہوگا ۔چنانچہ یہ رسم اس وقت سے شروع ہوئی اور آج تک ان چاروں بھائیوں کی اولاد اپنے نام کے ساتھ سبزواری تحریر کررہی ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سبزواری خاندان کے ان چاروں بھائیوں کی والدہ کا نام ’’بنتِ‘‘ تھا انہوں نے اس علاقے کا نام اپنی والدہ کے نام کی مناسبت سے ’’بنتِ ‘‘ رکھا جو رفتہ رفتہ یہ بَنت ہو گیا۔یہ آج بھی قائم و دائم ہے اور خاندان کے کئی احباب اس قصبہ میں رہائش پذیر ہیں۔رفتہ رفتہ خاندان کے لوگ بہ سلسلہ روزگار ہندوستان کے دیگر شہروں میں منتقل ہو گئے۔بنت میں رہائش پذیر خاندان کے لوگ ’’محل والے‘‘ کہلایا کر تے تھے۔

مظفر نگرکے قصبے ’بنت ‘ میں سبزواری خاندان اور دوسرے قصبے ’’حسین پور ‘‘میں خاندان باری بخش جو خاندان حسین پوری کے نام سے جا نا جا تا تھا آباد تھا ۔ رفتہ رفتہ دونوں خاندان اس اسقدر شیر و شکر ہوئے کہ آپس میں شادیاں ہو نے لگیں۔ایسا محسوس ہو تا ہے کہ دونوں خاندانوں کے آباؤ اجداد کے مزاج، طور طریقے اور رسم و رواج، رہن سہن میں مطابقت پائی جاتی تھی ۔ باہمی ملاپ کا یہ سلسلہ وقت کے ساتھ ساتھ بڑھتا گیا اور دونوں خاندان مختلف نسل ، قوم ، زبان اور زمین کے با وجود ایک قوم، ایک زبان اور ایک ملک کے ایسے باسی بنے کے ایک دل دو جان ہو گئے اور یہ رشتہ ایسا پختہ ہوا کہ صدیاں گزرجانے کے باوجوددونوں میں تفریق مشکل ہو گئی ہے۔

میں جب اپنے آباؤ اجداد کی ازدواجی زندگی پر نظر ڈالتا ہوں تو معلوم ہوتا ہے کہ میرے پر دادا اعلیٰ حضرت شیخ محمد ابراہیم آزاد ؔ(۱۸۶۸ء۔۱۹۴۷ء) کی والدہ یعنی قبلہ نبی بخش صاحب کی شریک حیات محترمہ بو یعقوماً جناب کرامت علی صاحب کی دختر تھیں جن کاتعلق سبزواری خاندان سے تھاان کا انتقال فرید کوٹ میں ہوا۔ آزادؔصاحب نے دو شادیاں کیں دونوں کا تعلق سبزواری خاندان سے تھا اس خاندان کے دو بھائی جناب سلطان حسن اور حکیم ممتاز علی سبزواری قبلہ آزادؔصاحب کے ماموں تھے آپ کی پہلی شادی جناب سلطان حسن صاحب کی دختر ہما بیگم سے ہوئی ۔ ہما بیگم کے انتقال (۱۹۲۸ء) کے بعد آپ نے حکیم ممتاز علی سبزواری کی صاحبزادی محمودہ خاتون سے عقد ثانی فر ما یا۔ آزادؔ صاحب کے آٹھ بیٹے اور دو بیٹیاں ہوئیں ان میں حقیق احمدمر حوم میرے دا دا ہو ئے ۔ آپ کی شادی جناب محمد زکریاسبزواری صاحب کی صاحبزادی محتر مہ امتہ الباقی سے ہو ئی ۔ میری والدہ محترمہ صفیہ سلطانہ بھی سبزواری خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔آپ جناب امید حسن سبزواری مرحوم کی صاحبزادی ہیں ۔ اس طرح میرے سکڑ دادا(نبی نخش مرحوم) ، پر دادا(شیخ محمد ابراہیم آزادؔ مرحوم)،دادا(حقیق احمد مرحوم) اورقبلہ والدصاحب(انیس احمد مرحوم) صاحب سبزواری خاندان کی خواتین سے رشتہ ازداج میں منسلک ہوئے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ اسی طرح حسین پوری خاندا ن کی بے شمارخواتین کی شادیاں سبزواری خاندان میں ہوئیں اور یہ باہمی رشتے اسقدر بڑے پیمانے پر ہوئے کہ آج سبزواری اور خاندان حسین پور میں تفریق مشکل ہو گئی ہے۔

سبزواری خاندان کی شخصیت جس نے مجھے بہت زیادہ متا ثر کیا قبلہ محبوب احمد سبزواری صاحب کی ہے جو میرے حقیقی ماموں بھی ہیں۔آپ کا حسنِ اخلاق ، عادات واطوار ، شفقت اور محبت مثالی ہے، مجھ پر بہت زیادہ شفقت فرماتے ہیں درحقیقت آپ اپنی تہذیب کے ایک یادگار نمائندے ہیں۔عرصہ دراز سے آپ پر لکھنے کا ارادہ کررہا تھا ،جب بھی قلم اٹھایا کوئی نہ کوئی مصروفیت آڑے آتی رہی اور میں اپنے اس مقصد کی تکمیل نہ کرسکا۔ ستمبر ۱۹۹۷ء میں آپ میرے والد صاحب قبلہ انیس احمد صمدانی (وفات ۵ ستمبر ۱۹۹۷ء) کی وفات کے بعد کراچی تشریف لائے ، باوجود غم و الم کی کیفیت کے میرا ارادہ تازہ ہو گیا ،۲۸ اکتوبر ۱۹۹۷ء کو میں نے آپ سے اپنے ارادہ کا اظہار کیا اور ان سے گفتگو کی درخواست کی ۔ آپ نے ازراہ عنایت میرے چند سوالات کے جوابات دئے جو میں نے اس مقصد کے لیے بنائی گئی اپنی ڈائری میں محفوظ کر لیے تھے۔جب کبھی ڈائری کھولتا یہ انٹر ویو سامنے آتا اور اپنے ارادے کو زندہ کر لیا کرتا۔ وقت گزرتا گیا حتیٰ کہ آپ ۲۰۰۵ء میں دوبارہ کراچی تشریف لائے ۔ کمزوری ، قوت سماعت اوربینائی کا متا ثرہو جانا نیز یادداشت کا کمزور ہو جانا ضعیف العمری کے تحفے ہیں ۔ہر وہ انسان جو عمر کے اس حصے کو پہنچے اور یہ تمام تحفے اسے اﷲ کی طرف سے میسر آئیں توخندہ پیشانی کے ساتھ اﷲ کا انعام و اکرام سمجھ کر قبول کر لینے چاہئیں ۔ان میں بھی زندگی کا مزہ ہے۔آپ نے بتایا کہ آپ اپنی زندگی کی ۹۰ بہاریں دیکھ چکے ہیں یعنی آپ کی عمر ۹۱ برس ہے، صحت بھی اچھی ہے۔بغیر سہارے کے چلنا پھرنا، تمام کام از خود کر نا آپ کا معمول ہے۔

آپ کے والد امید حسن پٹواری تھے اور ہندوستان کے قصبے ’کو ٹ کپورا‘ میں آپ کی پوسٹگ تھی اسی مقام پر آپ ۱۴ جون ۱۹۱۴ء کو پیداہوئے ، بچپن فرید کو ٹ میں گزرا، کیوں کہ آپ کے والد پٹواری کی حیثیت سے فریدکوٹ آگئے تھے۔ آپ کی والدہ(صحیفہ) عنایت اﷲ حسین پوری کی بیٹی تھیں۔آپ ملنسار اور پڑھی لکھی خاتون تھیں ، محلے میں اگر کسی کا خط آجاتا تو اسے پڑھ دیا کرتی تھیں ۔ اپنی اولاد کو پڑھنے کی جانب راغب کیا کرتی تھیں۔ فرید کوٹ میں قائم ’’بر جندر اسکول‘‘ سے آپ نے ۱۹۳۱ء میں میٹرک کیا ۔ آپ نے بتا یا کہ فریدکوٹ میں کالج نہیں تھا اس کے لیے فیروز پور جانا تھا اس وجہ سے تعلیم کا سلسلہ جاری نہ رہ سکا ۔ میٹرک پاس کر نے کے فورًا بعد مئی ۱۹۳۱ء میں آپ کی شادی جناب حکیم محمد ممتاز علی سبزواری کی صاحبزادی ’’زبیدہ خاتون ‘‘ سے ہوئی ۔یہ حضرت شیخ محمد ابراہیم آزادؔ مرحوم (مصنف کے پر دادا) کی دوسری شریک حیات محمودہ خاتون کی ہمشیرہ تھیں۔اس رشتہ سے آپ آزادؔ صاحب کے ہم زُلف تھے آپ نے بتا یا کہ بارات جناب حقیق احمد (مصنف کے دادا ) کی بس میں فرید کوٹ سے بنت گئی تھی۔ اپنی شریک حیات کو منہ دکھائی میں مبلغ دو(۲) روپے دئے تھے۔ آپ کی شریک حیات(زبیدہ خاتون) دراز قد، سفید رنگ، بڑی بڑی آنکھیں اور خوبصورت تھیں ان کے مقابلے میں آپ کا رنگ سیاہ مائل تھا ۔البتہ جوانی میں لہیم شہیم ، کڑیل جوان ضرور تھے ۔ شاید رنگت آپس میں بہت زیادہ خوشگوارازدواجی تعلقات میں حائل رہی ،آپ کی شریک حیات کا بہت جلد انتقال ہو گیا ۔آپ نے باوجود دباؤ اور اصرار کے دوسری شادی اپنے بچوں کی بہتر نگہداشت اور انہیں سوتیلی ماں کے سلوک سے محفوظ رکھنے کی وجہ سے نہیں کی ۔آپ نے اپنے بچوں کی پرورش اور نگہداشت از خود کی اور اپنی خواہشات کو بچوں پر قربان کر دیا۔ یہ بات بھی قابل بیان ہے کہ اپنے بچوں سے قبل آپ نے اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کی پرورش بھی کی تھی جس کی وجہ آپ کی والدہ اور والد کا جلد انتقال ہو جانا تھا۔ پیسے کی ہمیشہ ریل پیل رہی حتیٰ کہ اب بھی اﷲ کا فضل ہے ۔ آپ کے دو بیٹے (شکیل احمد ور وکیل احمد )اور دو بیٹیاں(شکیلہ اور طاہرہ) ہوئیں۔ آپ نے اپنی چھوٹی بیٹی کو اپنے ہمراہ رکھا اور ضعیفی کے ایام سکون اور آرام سے گزار رہے ہیں۔

لمبی قامت ، گول ہنس مکھ چہرہ ، دل میں گہرائی تک اتر جانے والی آنکھیں، گھنی بھنویں، جوانی میں کلین شیو ہوا کرتے تھے اب کالی مگر زیادہ سفید داڑھی، فراخ پیشانی ، کالارنگ مگر دل کے انتہائی شفاف، چھوٹا سر ، مضبوط ارادے ، حوصلے اور قوت فیصلہ کے حامل معلوم ہوتے ہیں۔ انداز میں شائستگی اور وضع داری، شہر اور دیہات کی ملی جلی فضاء کے پروردہ بزرگ بلکہ دیہات کے ماحول کا غلبہ نمایاں ، گفتگو میں سوجھ بوجھ اور علمیت کا امتزاج ، سنجیدگی اور بردباری ، بات میں وزن ، ہر ایک کی بات توجہ سے سننا اور تسلی وتشفی بخش جواب دینا آپ کی عادت ہے۔ اکثر گفتگو میں شعر بھی پڑھتے ہیں۔زبان میں شیرینی اور مٹھاس ، گفتگو میں کسی کی للو پنجو نہیں کر تے بات ایمان کی اور دھڑالے کی کہتے ہیں یہ دیکھے بغیر کہ سامنے والا برا بھی مان سکتا ہے۔اس وقت چہرے مہرے اور انداز سے یہ ہر گز معلو م نہیں ہوتا کہ آپ اپنی عمر کی دسویں دھائی میں ہیں اﷲ آپ کو سلامت رکھے۔

آپ کی والدہ (مصنف کی نانی) کا انتقال ۱۹۳۲ء میں فرید کوٹ کی ’ بلبیربستی ‘ میں ہوا ، ا جب کہ والد جناب امید حسن (مصنف کے نانا) نے ۱۵ سال بعد مارچ ۱۹۴۷ء میں رحلت فرمائی۔ آپ کے والد صاحب شدید بیمار تھے لیکن خواہش یہ تھی کہ ان کی بیٹی صفیہ (مصنف کی والدہ) کی شادی ان کی زندگی ہی میں ہو جائے، کہتے ہیں کہ ایک پل انسان کی دعا کی قبولیت کا بھی ہو تا ہے ، اﷲ تعالیٰ نے آپ کی یہ دعا قبول کر لی تھی چنانچہ رشتہ طے ہو گیا ، دوسری جانب بیماری شدید صورت اختیار کر تی گئی اسی دوران شادی کی تاریخ بھی طے ہو گئی ۔ بارات آئی آپ بستر علالت پر تھے بیٹی کو اسی حالت میں رخصت کر کے اﷲ کا شکر ادا کیا ، حالت بگڑتی گئی اس موقع پر آپ کے چھوٹے بھا ئی وصی احمد سبزواری بھی موجود تھے،انہوں نے کیفیت کو محسوس کر تے ہوئے اپنے بھائی سے کہا کہ ’’بھائی یہ جان ا ﷲکی اما نت ہے اسے خوشی سے ا ﷲ کے سپرد کر دیں‘‘ لیکن آپ نے رات بھر اپنی نوبیاہتا بیٹی کی واپسی کا انتظار کیا ، آنکھیں دروازے پر لگی تھیں ، صبح ہو ئی ، ٹرین نے دوپہر کو آنا تھا ،باغباں کو اپنی اس کلی کا شدت سے انتظار تھا جو عنقریب پھو ل بننے جارہی تھی لیکن دوسری جانب درخت جھک رہا تھا، پتے مر جھا رہے تھے ، ٹہنیاں زرد ہو رہی تھیں ، ہواؤ ں کا رنگ بدل رہا تھا ، وقت کا صیاد اپنا تیر چلانے کو تیار بیٹھا تھا ، مہلت ختم ہو نے کو تھی،یکا یک کلی نمو دار ہو ئی اور منتظر باپ کے سینے سے جالگی ، باغباں کے مہر بان ہا تھوں نے اپنی کلی کو سینے سے لگا یا، منتظر آنکھوں کو ٹھنڈا کیا لیکن وہ ہاتھ وہیں جم کر رہ گئے وہ آنکھیں جو محوِ انتظار تھیں سینے کی ٹھنڈک کو پہچان کر مطمئن سی ہوئیں اور پھر انجان بن گئیں ، دل ہی دل میں اﷲ کا شکر ادا کیا کہ اس نے ان کی اس خوا ہش کی تکمیل بھی کر دی جس کی آرزو انہو ں نے بیماری کی حالت میں کی تھی، کلمہ طیبہ پڑھا اور اسی حالت میں جب کہ آپ کی بیٹی سرخ جو ڑے میں ملبوس اپنے منتظر باب کے سینے سے لگی اپنے سینے کوبھی ٹھنڈا کررہی تھی باغباں نے چپکے سے آنکھ موند لی اور آپ کی روح اس دنیا ئے فانی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پرواز کر گئی۔

قیام پاکستان کے بعد اپنی ہجرت کی داستان بیان کر تے ہو ئے آپ نے بتا یا کہ ۱۸ اگست ۱۹۴۷ء کو ہماری ٹرین انبالہ سے امرتسر ہو تے ہوئے لاہور پہنچی ، رات لاہور ہی میں بسر کی ، ہماری منزل ابھی دور تھی ، اگلے روز مال گاڑی میں منڈگمڑی ہو تے ہوئے بھورے والا آگئے، فرید کوٹ کے بے شمار لوگ بھورے والا آچکے تھے ، رات بھورے والا میں گزاری ، ۲۰ اگست کو وھاڑی آئے یہاں سے ہمیں کرم پور جانا تھا جہاں پر ڈاکٹر انوار پہلے سے موجودتھے ، جب ہم یہاں پہنچے تو معلوم ہوا کہ وہ میلسی منتقل ہو چکے ہیں ، رات کرم پور میں ڈاکٹر انوار کے ڈیرے پر بسرکی اگلے روز ۲۱ اگست کو میلسی پہنچ گئے ، ایک روز بعد بقرعید تھی ، میں اگلے ہی روز میلسی کے تحصیلدا ر سے ملا اور بتا یاکہ میں میٹرک پاس ہوں پٹوار کا امتحان بھی پاس کر چکا ہوں ، ہندوستان کے شہر فرید کوٹ میں پٹواری تھا ، اس نے مجھے فوری کلرک بھرتی کر لیا ، میری ذمہ داریوں میں میلسی پہنچنے والے مہاجرین کی آباد کاری تھی جو مہاجرآتے میں انہیں ہندوؤ ں کے مکان اور دکانیں الاٹ کیا کر تا تھا میلسی میں مجھے بھی ایک مکا ن الاٹ ہو گیا تھا یہ مکان میلسی شہر کے وسط میں ہے (میں اسی مکان میں ۱۵ اگست ۱۹۴۸ء کو عالم وجود میں آیا) آپ کا کہنا تھا کہ کچھ عرصہ بعدانہوں نے سر کاری ملازمت چھوڑ دی اور ایک وکیل شیخ محمود علی کے ساتھ منشی ہوگئے ، ۱۹۵۱ء میں پھر سے پٹواری ہو گئے ،آپ کے چھوٹے بھائی مطلوب بھی پٹواری تھے ۔ آپ پٹوری کی ملازمت تر ک کر کے دوبارہ ایک وکیل کے ساتھ کام کر نے لگے اور ۱۹۷۵ء تک باقاعدہ کام کر تے رہے رہا، آپ نے بتا یا کہ آپ کی پھو پھی(زوجہ جناب خلیق احمد صمدانی مرحوم) نے آپ کو ساڑے پانچ ایکڑ زرعی زمین تحفہ کے طور پر دی تھی جوآج بھی موجود ہے اور ان کی آمدنی کا ذریعہ یہی زمین ہے۔ یہ ہیں سب کے محبوب ’’ محبوب احمد سبزواری‘‘ اﷲ تعالیٰ آپ کو صحت عطا فرمائے ۔آمین۔ (یہ تحریر ۶ نومبر ۲۰۰۵ء کی ہے۔محبوب ماموں نے طویل عمر پائی وہ اب اس دنیا میں نہیں۔ ان کا اچھا اخلاق ہمارے لیے قابل تقلید نمونہ ہے۔ اﷲ تعالیٰ انہیں اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے۔ آمین۔ (مصنف کی کتاب ’’یادوں کی مالا ‘‘شائع شدہ ۲۰۰۹ء میں شامل )
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 850 Articles with 1261206 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More