علامہ محمد اقبال اور عصرحاضر کے دانشور

علامہ اقبال کی زندگی پر بہت کچھ لکھا گیا لیکن دور حاضر میں کچھ دانشور پیدا ہوگئے ہیں جو علامہ اقبال پر تنقید کے تند و تیز تیر چلاتے ہوے نظر آتے ہیں۔ تعمیری تنقید کرنا کوئی بری بات نہیں لیکن ایک قومی ہیرو کو ڈی گریڈ کرنا ایک گھناؤنی حرکت ہے۔ آج کا آرٹیکل لکھنے کی وجہ انھی دانشوروں کی تحریریں ہیں جو میری نظر سے گذریں۔ ایک دانشور کے آرٹیکل سے چند سطریں من و عن نقل کرکے اپنی گذارشات عرض کرتا ہوں ، نیشاپوری صاحب لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ مکہ کےایک “بدو” نے مجھ سے کہا کہ” آپکا قومی شاعر، قومی ہیروعلامہ اقبال ایک انتہائ بیوقوف شخص تھا جس نے اپنی قوم کوشاھین اور عقاب جیسے پرندہ سے تشبیہ دی ہے”میں ایک عربی بدو سے کم ازکم اس بات کی توقع نہں کرسکتا تھا کہ وہ برصغیر پاک و ھند کی اتنی بڑی شخصیت کے بارے میں اس طرح کی رائے رکھے- میں نے پوچھا وہ کیسے ؟ اس نے مسکراتے ہوئے جواب دیا کہ” ھم بدولوگ بچپن سے ہی شاھین پرندہ کو پالنا شروع کرتے ہیں اس لئے ہم یہ جانتے ہیں کہ اس پرندہ سے زیادہ پیوقوف اور غلامی پسند پرندہ شاید ہی کوئ اور پرندہ یا جانور ہوگا جو آزاد کردئے جانے کے بعد بھی اپنے مالک کی ایک گندی باسی گوشت کی بوٹی یا ٹکڑے کی خاطرواپس آکر اپنی غلامی کی زنجیر پہنتا ہے۔ آخر میں موصوف اقبال کو مذید لتاڑتے ہیں اور بدو کی ذہانت کی داد دیتے ہیں۔ موصوف کی تحریر پڑھ کر اقبال کا قد میری نظر میں اور بھی بڑھ گیا ہے۔ موصوف کی خدمت میں گذارش ہے کہ غلامی شاہین کی فطرت میں نہیں وہ ایک آذاد منش پرندہ ہے لیکن جب ایک بچہ کو پکڑ کر آپ قید کرکے سدھائیں گے تو یہ غلامی حالات کا جبر ہوگا، وہ پھر آذادی بھول کر مالک سے وفا کرتا ہے، شاہین نمک حرام نہیں نمک حلال ہے ، اگر مالک کا نمک کھا کر شاہین اڑ جائے تو اسکی وفا پر حرف آتا ، یہ اسکی غیرت کے منافی ہے ، شاہین مر تو سکتا ہے پر اپنی غیرت و وفا پر دھبہ برداشت نہیں کرسکتا۔ اقبال نے جو تشبیہ دی اس میں بھی یہی درس پنہاں تھا کہ اے دنیا کو آذادی کی نوید سنانے والے پیغمبر کی امت غلامی تیری فطرت میں نہیں، انگریز نے اگر مکاری سے تجھے غلام بنا لیا ہے تو غم نہ کر ، تو شاہین ہے، اور شاہین جسکا کھاتا ہے اس سے وفا کرتا ہے اور ہم سرکار مدینہ کا صدقہ کھاتے ہیں ان سے وفا کرو غلامی کی زنجیریں ٹوٹ جائیں گی۔ کی محمد سے وفا تونے تو ہم تیرے ہیں ۔۔ یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں ۔۔

سیکنڈلی جو لوگ تشبیہات کو نہیں سمجھتے وہ دانشور بن بیٹھے ہیں۔ جب کسی چیز سے تشبیہ دی جاتی ہے تو اسکی خوبیوں کو مدنظر رکھ کر تشبیہ دی جاتی ہے مثال کے طور پر میں کہوں کہ نیشاپوری شیر ہے اسکا مطلب ہوگا کہ جو شیر میں خوبی ہے بہادری کی وہ نیشاپوری میں ہے حالانکہ شیر کی خامیوں میں سے ایک یہ ہے کہ وہ ہڈ حرام ہوتا ہے، شیرنی شکار کرتی ہے اور شیر بیٹھ کر کھاتا ہے۔ اب اگر نیشاپوری شیر ہے کا مطلب میں یہ نکالوں کہ جناب ہڈ حرام ہیں اور ٹانگ پہ ٹانگ رکھ کر بیوی کی کمائی کھاتے ہیں، تو یہ زیادتی ہوگی، ہمیشہ خوبیوں کو مد نظر رکھنا چاہئیے امید کرتا ہوں کہ سمجھ گئے ہوں گے اور بھی بیشمار مثالیں ہیں مگر آپکی دانشوری کا جنازہ نکل جائے گا، جنھیں عقل و دانش کی ہوا تک نہیں لگی وہ دانشور بنے بیٹھے ہیں۔ اقبال نے اپنی قوم کو جو شاہین سے تشبیہ دی ہے وہ اسکی خوبیوں کو مدنظر رکھ کر دی ہے۔ چند خوبیاں بیان کر دیتا ہوں یونیورسٹی آف کیلگری کی شاہین پر ریسرچ سے، شاہین کنگڈم آف اینیمل کا برق رفتار پرندہ ہے، اسکی رفتار ٣٢٠ کلو میٹر فی گھنٹہ ہے اور یہ اس کرہ ارضی کا تیز ترین جاندار ہے، شارپ نگاہ رکھتا ہے، پہاڑوں کی چوٹی پر آشیانہ بناتا ہے، کھلی آذاد فضا کا دلدادہ ہے، باہمت و غیرت مند ہوتا ہے، اسے ہجرت بھی پسند ہے جسکی وجہ سے اسے ٹریولر پرندہ بھی کہتے ہیں، خوف اسکی فطرت میں نہیں۔
غالب سے لیکر دور حاضر کے شاعر وصی شاہ تک سب کو پڑھا ہے انکی شاعری صنف نازک کا طواف کرتی دکھائی دیتی ہے کسی نے محبوب کی زلف کی بات کی ہے تو کسی نے رخسار، لب ، پیشانی کے تل کی بات کی ہے، کسی نے محبوب کی چال کی، اور کسی نے محبوب کی کمر کی ، کوئی محبوب کی جھیل سی آنکھوں میں ڈواب دکھائی دیا، کوئی زلف یار کے سائے میں آرام فرما ، کوئی محبوب کے ہاتھ کا کنگن بنا کوئی گلے کا ہار او پاؤں کی پازیب، میں کسی کو برا نہیں ثابت کر رہا ، سب نے اپنی سوچ کے مطابق لکھا اور ٹھیک ہی لکھا ہو گا مگر اقبال، اقبال ہے، اقبال سا کوئی نہیں کیونکہ اقبال کی شاعری کی پرکار کا مرکزی نقطہ و محور عشق مصطفی صلی الله علیہ وسلم ہے اور یہی جذبہ اقبال کو دوسروں سے ممتاز کرتا ہے، اقبال نے فرمایا دل با محبوب حجازی بستائم یعنی کائنات میں دل لگانے کی ایک ہی جگہ ہے اور وہ حضور صلی الله علیہ وسلم کی ذات ہے۔ انوکھی وضع ہے ، سارے زمانے سے نرالے ہیں، یہ عاشق کون سی بستی کے یا رب رہنے والے ہیں۔ ایسے عظیم شاعر و مفکر صدیوں بعد پیدا ہوتے ہیں جیسا کہ آپ خود فرما گئے،، ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی رہی ، بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا، عصر حاضر کے بونے عقل خرد سے عاری دانشور جو مرضی کہتے اور لکھتے رہیں اقبال کے خلاف ۔۔ مگر میں ۔۔
اونھاں ماواں دے پیراں دی میں خاک چماں ،، جنھاں ماواں نے ایہو جئے لال جمے ۔۔ لیکن ایک عظیم شاعر اور مفکر کے طور پرقوم ہمیشہ ان کی احسان مند رہے گی۔
 
Usman Ahsan
About the Author: Usman Ahsan Read More Articles by Usman Ahsan: 140 Articles with 172173 views System analyst, writer. .. View More