سی آئی اے چیف پر قتل کا مقدمہ .... ڈرون حملوں کے متاثرین کی فتح
(عابد محمود عزام, karachi)
دسمبر 2013ءکے بعد سے پاکستان
میں امریکا کی جانب سے ایک بھی ڈرون حملہ نہیں ہوا، گزشتہ سال کے آخر میں
وزیراعظم نوازشریف نے شدید عوامی دباﺅ پر امریکا سے ڈرون حملوں کو رکوانے
کی کوششیں تیز کیں تو امریکا نے ڈرون حملوں کو روک دیا، جس کے باعث پاکستان
میں امن و امان کی صورتحال کافی حد تک بہتر ہوئی ہے۔ اس سے پہلے 2004ءسے
2013ءتک امریکا کی جانب سے پاکستان میں 354 ڈرون حملے کیے گئے ہیں، جن میں
اڑھائی ہزار سے زاید افراد مارے گئے اور سیکڑوں زخمی ہوئے، جن میں اکثریت
بے گناہ لوگوں کی تھی۔ مختلف اداروں کی جانب سے کی گئی تحقیق کے مطابق
2004ءسے شروع کیے گئے ڈرون حملوں میں صرف 2 فیصد لوگ ہی امریکا کے مطلوب
تھے، باقی بے گناہ لوگ تھے۔ روز اول سے ہی پاکستان میں ڈرون حملوں کی شدت
سے مخالفت کی جاتی رہی ہے، جبکہ پاکستانی حکومت نے بھی متعدد بار امریکی
انتظامیہ سے ان حملوں پر احتجاج کرتے ہوئے موقف اختیار کیا تھا کہ اس قسم
کے حملوں سے پاکستان میں امریکا مخالف جذبات کو تقویت مل رہی ہے۔ اقوام
متحدہ اور انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت متعدد
بین الاقومی تنظیموں نے پاکستان میں امریکی ڈرون حملوں کو غیر قانونی قرار
دےتے ہوئے کہا تھا کہ ڈروں حملے پاکستان کی خود مختاری کی پامالی اور بین
الاقوامی قوانین کی خلاف وزری کے ساتھ ایسے بے گناہ پاکستانی شہریوں کو بھی
قتل کررہے ہیں، جن کا دہشتگردی کے ساتھ دور کا بھی تعلق نہیں ہے۔ امریکی
ڈرون حملوں کا نشانہ بننے والے بے گناہ لوگوں میں وزیرستان کے رہنے والے
کریم خان کا بیٹا ذہین اللہ اور بھائی آصف اقبال بھی تھے، جو 31 دسمبر
2009ءکو شمالی وزیرستان میں ہونے والے ایک ڈرون حملے میں جاں بحق ہوگئے تھے،
جس کے بعد کریم خان نے امریکا کی جانب سے قبائلی علاقوں میں ڈروں حملوں کے
خلاف بھرپور آواز اٹھانا شروع کی اور 2010ءمیںڈرون حملوں کے خلاف ایک
درخواست دائر کی، جس میں سی آئی اے کے چیف جوناتھن بینکس اور لیگل کونسل کو
نامزد کیا تھا، اس درخواست کے دائر ہونے کے بعد سی آئی اے چیف جوناتھن
بینکس دسمبر 2010ءمیں اپنا نام ظاہر ہونے پر پاکستان سے چلے گئے تھے، لیکن
کریم خان نے برطانیہ کی بنیادی انسانی حقوق کی فاﺅنڈیشن کے قانونی تعاون سے
ڈرون حملوں کے خلاف اپنی کوشش جاری رکھی۔
کریم خان کو اپنے مقصد میں کامیاب ہونے کے لیے کئی قسم کی مشکلات کا سامنا
کرنا پڑا ہے، وہ بیرون ممالک احتجاج کرنے کے ساتھ ساتھ جنگی جرائم کی بین
الاقوامی عدالت میں ڈرون حملوں کا معاملہ لے جا چکے، لیکن وہاں پر ان کی
شنوائی نہیں ہوئی۔ کریم خان کی جانب سے سی آئی اے کے چیف اور ممبر سی آئی
اے کے خلاف دائر کی گئی درخواست پر گزشتہ سال وزارت خارجہ کی جانب سے کوئی
جواب موصول نہ ہونے پر ایس ایچ او تھانہ سیکرٹریٹ نے موقف اختیار کیا تھا
کہ ڈرون حملے وزیرستان میں ہو رہے ہیں جو ہماری حدود میں نہیں ہیں، جبکہ
پبلک پراسیکیوٹر چودھری حسیب کا کہنا تھا کہ سی آئی اے کے اسٹیشن چیف اور
ممبر اس وقت اسلام آباد میں مقیم نہیں ہیں، مقدمہ درج کرنے کا حکم عدالت کے
دائرہ اختیار میں نہیں آتا۔ دلائل سننے کے بعد عدالت نے درخواست کو ناقابل
سماعت قرا ر دے کر خارج کردیا تھا۔ اس کے بعد کریم خان کو اپنے اس اقدام سے
روکنے کے لیے رواں سال فروری میں راولپنڈی میں یورپ روانگی سے چند روز پہلے
اغواءبھی کر لیا گیا تھا۔ وہ اپنے اس دورے میں جرمنی، ہالینڈ اور برطانیہ
کے ارکان پارلیمنٹ سے ڈرون حملوں کے بارے میں بات چیت کرنے والے تھے، لیکن
اغواءکے چار روز بعد اغواءکار انہیں آنکھوں پر پٹی باندھ کر اسلام آباد کی
ایک سڑک کنارے پھینک گئے تھے۔ کریم خان کی طویل جدوجہد کی بدولت ہی گزشتہ
سال نومبر کے مہینے میں پاکستان تحریک انصاف نے بھی امریکا کی خفیہ ایجنسی
سی آئی اے کے ڈائریکٹر اور پاکستان میں ایجنسی کے سربراہ کو قبائلی علاقوں
میں ڈرون حملوں میں مرنے والوں کے مبینہ قاتلوں کے طور پر نامزد کیا تھا۔
سال رواں ماہ فروری میں یورپی پارلیمنٹ میں ڈرون حملوں کے خلاف قرارداد
منظور کی گئی، جس کے بارے میں مغربی میڈیا کا کہنا ہے کہ اس کی بڑی وجہ
ڈرون حملوں کے خلاف کریم خان کی درخواست بنی تھی۔ یورپی پارلیمنٹ کے کل 583
ارکان میں سے 534 ارکان نے ڈرون حملوں کے خلاف ووٹ دیاتھا، جبکہ قرارداد کی
مخالفت میں صرف 49 ووٹ آئے تھے۔ قرارداد کے متن میں کہا گیا تھا کہ ڈرون
حملوں سے شہریوں کی ہلاکتوں کی مذمت کرتے ہیں۔ پاکستان اور یمن میں ڈرون
حملوں سے بے گناہ شہری جاں بحق ہوئے۔ یورپی یونین کے رکن ممالک غیرقانونی
ٹارگٹڈ ہلاکتوں کے ارتکاب میں حصہ لیں اور نہ ہی دوسرے ملکوں کو ایسی
ہلاکتوں میں سہولت دیں اور وہ ایسی ماورائے عدالت ہلاکتوں کی مخالفت کریں۔
واضح رہے کہ اطلاعات کے مطابق اقوام متحدہ کے دباﺅ پر امریکا نے ڈرون
پروگرام ختم کردیا ہے۔ گزشتہ ماہ امریکی میڈیا کے دعویٰ کے مطابق سی آئی اے
نے پاکستان میں ڈرون پروگرام ختم کردیا۔ امریکی میڈیا کے مطابق پاکستان میں
ڈرون حملوں کے اختتام کا باقاعدہ اعلان نہیں کیا گیا، تاہم شواہد سے واضح
ہوتا ہے کہ سی آئی اے نے پاکستان میں ڈرون حملے ختم کر دیے۔ رپورٹ میں
امریکی صدر اوباما کی ایک تقریر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا تھاکہ امریکی
صدر نے القاعدہ کے خلاف صومالیہ اور یمن میں ڈرون حملے جاری رکھنے کا اعلان
کیا، تاہم پاکستان میں ڈرون حملوں سے متعلق پالیسی پر کوئی بات نہیں کی
گئی، جس سے ثابت ہوتا ہے کہ پاکستان میں ڈرون پروگرام بند کردیا گیا ہے۔
امریکی صدر کے رویے سے لگتا ہے، پاکستان میں ڈرون مشن مکمل ہو گیا۔ پاکستان
کے قبائلی علاقوں میں ڈرون اب بھی پرواز کرتے ہیں، مگر کسی حملے کا مکان
نہیں۔ خیال رہے کہ امریکا کو ڈرون پروگرام پر سفارتی حساسیت، عوامی
اورعالمی سطح پر شدید تنقید کا سامنا رہا ہے۔
دوسری جانب جمعرات کے روز اسلام آباد ہائی کورٹ نے پاکستان میں امریکی سی
آئی اے کے سابق اسٹیشن ہیڈ اور ان کے قانونی مشیر کے خلاف ڈرون حملے پر قتل
کا مقدمہ درج کرنے کی ہدایت کی ہے، پاکستان کی کسی بھی عدالت نے پہلی بار
سی آئی اے کے سابق اہل کاروں کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا ہے۔ عدالت
نے یہ حکم اسلام آباد پولیس کے افسر کو دیا ہے، جبکہ پولیس کا کہنا ہے کہ
وہ اس ضمن میں لیگل برانچ سے رائے لے کر قانونی کارروائی کرے گی۔ درخواست
گزار کے وکیل شہزاد اکبر نے درخواست کے حق میں دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ان
کے موکل کا بیٹا ذہین اللہ اور ان کے بھائی آصف کریم دسمبر 2009ءمیں میر
علی میں ہونے والے ڈرون حملے میں شہید ہوگئے تھے۔ ان کے موکل کے عزیزوں کا
نہ تو کسی شدت پسند تنظیموں سے تعلق تھا اور نہ ہی وہ کسی مقدمے میں مطلوب
تھے۔ ڈرون حملوں میں بے گناہ افراد کی ہلاکت قتل کے زمرے میں آتی ہے اور
ذمہ دار افراد کے خلاف مقدمہ درج کیا جائے۔ شہزاد اکبر کے مطابق ان کے موکل
کے رشتہ داروں کے قتل کی ذمہ داری پاکستان میں سی آئی اے کے اسٹیشن ہیڈ
جوناتھن بینکس اور ان کے قانونی مشیر جان ایروز پر عاید ہوتی ہے۔ جبکہ کریم
خان کے وکلا نے عدالتی حکم کو ڈرون حملوں میں مارے جانے والے عام لوگوں کی
فتح قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ ان لوگوں کے لیے ایک بڑی جیت ہے، جو ڈرون
حملوں سے متاثر ہیں اور گزشتہ چار پانچ سال سے اس مسئلے کو لے کر مختلف
عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹا رہے ہیں۔ عدالتی حکم سے نہ صرف یہ بات واضح ہو
جاتی ہے کہ ڈرون حملے غیر قانونی ہیں، بلکہ یہ ایک پولیس فوجداری نوعیت کا
جرم ہے۔ اگر عدالتی حکم پر عمل نہ کیا گیا تو وہ متعلقہ افسران کے خلاف
توہین عدالت کی کاروائی کریں گے۔ دوسری جانب بین الاقوامی امور کے ماہرین
کا کہنا ہے کہ سی آئی اے کے دو اعلیٰ اہلکاروں کے خلاف مقدمے کے اندراج کا
عدالتی حکم قابل ذکر پیشرفت ہے۔ جبکہ ڈپٹی اٹارنی جنرل فضل الرحمن کے مطابق
سابق اسٹیشن چیف دسمبر 2010ءمیں پاکستان چھوڑ گئے تھے، بظاہر یہ مشکل نظر
آتا ہے کہ مقدمہ درج ہونے کی صورت میں وہ الزامات کا سامنا کرنے کے لیے
پاکستان واپس آئے۔ |
|