بچپن میں پڑھی کہانیاں بھی بڑی عجیب ہوتی ہیں دلچسپ بھی
سبق آموز بھی۔ ایک کہانی پڑھی تھی ایک مفلوک الحال مزدوری کی تلاش میں کہیں
جارہا تھا کہ ایک بزرگ کو زخمی حالت میں دیکھ کر اسے بڑا ترس آیا اس نے
بزرگ کا زخم صاف کیا ،پانی پلایا اور اپنے پاس موجود روکھی سوکھی روٹی
کھلائی اس خدمت سے وہ بزرگ بہت خوش ہوااس کی نیکی کی تعریف کی پھر مفلوک
الحال کے حالات سنے ۔بزرگ نے خوش ہوکرایک عجیب و غریب پتھر دیا۔۔۔یہ کیاہے؟
مفلوک الحال نے دریافت کیا
’’ یہ پارس پتھر ہے بزرگ نے جواب دیا تمہاری نیکی کا انعام ۔۔۔یہ پتھرجس
چیزکوبھی چھولے وہ سونے کی بن جائے گی ۔۔۔یہ کہانی جب بھی یاد آتی سوچ میں
گم ہو جاتا کہ وہ شخص کتنا خوش قسمت ہوگا وہ جس چیزکو چاہے سونے جیسی بنا
سکتاہے۔۔۔پھر خیال آتا وہ بزرگ کیا چیزہوگی جس نے پارس پتھر جیسی چیز
تحفتاً دیدی ۔۔۔پھر سو چاکیا کوئی انسان بھی پارس جیساہو سکتاہے وہ جس کو
بھی چھو لے سونابن جائے۔۔۔پاسے کا سونا۔۔دل نے کہا ایسے کئی انسان تو آج
بھی ہمارے اردگر موجودہیں اورہم انہیں جانتے بھی ہیں۔۔۔شاید انہیں خود بھی
معلوم نہیں کہ اﷲ تعالیٰ نے انہیں پارس جیسی خوبیوں سے نواز رکھاہے اور وہ
جسے چاہیں سچا،سـچا اور کھرا سونا بنا ڈالیں -
پاکستان کے قومی رہنماؤں پر نظردوڑائی جائے تو محسوس ہوگاکہ ذوالفقار علی
بھٹو اور میاں نواز شریف دو شخصیات ایسی ہیں جن کی شخصیت کااعجاز پارس کی
مانندہے انہوں نے سیاست اور اندازِ سیاست کو بدل کر رکھ دیادونوں کی آمد
تہلکہ خیزتھی اسے سیاسی بھونچال بھی کہا جا سکتاہے دونوں قومی رہنماؤں میں
کچھ نہ کچھ مماثلت ضرورہے لیکن کئی قدریں مشترک بھی ۔۔دونوں کو یہ اعزاز
بھی حاصل ہے کہ انہوں نے اپنے دور ِ اقتدار میں جو چاہا وہی کیاجسے پسندکیا
اسے پارٹی ٹکٹ دیا حتیٰ کہ اپنے وقت کے بڑے قدآور سیاستدانوں کو گھر
بٹھادیاکہ
بیٹھے رہو تصور ِ جاناں کئے ہوئے
ملکی تاریخ میں ذوالفقار علی بھٹوایسی طلسماتی شخصیت کے مالک تھے کہ عوام
ان کے گردکھینچے چلے آئے انہوں نے اگر کھمبے تو ٹکٹ دیا تو کھمبا جیت گیاکم
و بیش ایک دہائی تک عوام ،سیاست اور جمہوریت پر ان کا جادو سرچڑھ کر بولتا
رہابلکہ ان کے بعددو مرتبہ ان کی بیٹی محترمہ بے نظیر بھٹو وزیر ٍ اعظم اور
ایک مرتبہ داماد آصف علی زرداری صدرِ پاکستان کے عہدے پر فائز رہے جبکہ
بلاول بھٹو زرداری بھی آئندہ وزیر اعظم کے مضبوط امیدوار ہو سکتے ہیں قومی
سیاست کے دوسرے طلسماتی کردار میاں نواز شریف ہیں جن پر ’’آیا۔۔۔ اور چھا
گیا‘‘کا مقولہ بالکل صادق آتاہے انہیں کئی اعزازات حاصل ہیں میاں نواز شریف
جب میدان ِ سیاست میں آئے اس وقت تک پنجابی وزیر ِ اعطم کا سوچنا بھی گناہ
سمجھا جاتا تھا لیکن ان کی فہم و فراست اور سیاسی حکمت ِ عملی نے ناممکن کو
ممکن کردکھایا کہا جاتاہے اس میں اسٹیبلشمنٹ کا بہت بڑا کردارہے جو بھی
عوامل ہوں بہرحال اس کا کریڈٹ میاں نواز شریف کو بھی جاتاہے کہ پاکستان کی
تاریخ کے پہلے پنجابی وزیرِ اعظم بنے انہیں یہ بھی اعزازہے کہ تیسری بار
وزیر ِ اعظم بننے والے وہ پہلے اور شاید آخری قومی رہنما ہیں۔ میاں نوا
زشریف بلا شبہ مقبولیت کی اس معراج پر ہیں کہ ان کا نام جس سے جڑ جائے
معتبرہو جاتاہے ۔۔۔پارس ہونے کے معانی بھی یہی ہیں لیکن شاید انہیں اپنی اس
خوبی کا احساس ہی نہیں یا پھروہ ایسا کرنا نہیں چاہتے۔۔1977ء میں ذوالفقار
علی بھٹو نے نومولود پیپلز پارٹی کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑا۔بڑے بڑے چہروں
کے مقابلے پرPPP کے امیدوار ایسے تھے جن کو محلے میں بھی کوئی نہیں جانتا
تھا بلکہ لوگ انہیں مذاق کرتے تھے نتیجہ آیا تو بڑے بڑے برج الٹ گئے یوں
سمجھئے سیاسی انقلاب آگیا ذوالفقار علی بھٹو کی پارس جیسی شخصیت نے غیر
معروف امیدواروں کو سونا بنا ڈالا اصلی اور کھرا GOLD۔امیدواروں کی شخصیت،
سیاسی جدوجہد، خاندانی پس منظر سب مائنس ہوگئے بھٹوکا نام جس نام کے ساتھ
نتھی ہوگیا معتبرہوگیا۔انکے بعدقدرت نے میاں نواز شریف کو بھی اسی خوبی سے
نوازا وہ ایک طاقتور لیڈر بن کر ابھرے دومرتبہ وزارت ِ عظمیٰ پر فائزرہے
گذشتہ انتخابات میں تیسری بار وزیر ِ اعظم بننے کی پابندی کے باوجود مسلم
لیگ ن کے امیدواروں کے مقابلے میں نامی گرامی سیاستدان ہار گئے آج کے دن تک
سیاسی میدان میں میاں نواز شریف کی فتوحات کا سلسلہ جاری ہے بلکہ11
مئی2013ء کے عام انتخابات میں مسلم لیگ ن کے متعدد ایسے امیدوار بھی
اسمبلیوں میں پہنچ گئے ہیں جو عام حالات میں شاید کونسلر بھی بننے کی
پوزیشن میں نہیں ہیں اور حامدناصرچٹھہ ،ہمایوں اختر خان،امیر مقام،اقبال
ظفر جھگڑا،چوہدری شجاعت حسین،چوہدری امیرحسین،لیاقت بلوچ،ممتاز بھٹو،عابدہ
حسین، فخر امام،فیصل صالح حیات،شیرپاؤ جیسے رہنما موجودہ پارلیمنٹ سے
باہرہوگئے۔ لاہورمیں ایک لاکھ سے زیادہ ووٹ لے کر کامیاب ہونے والے بیشتر
سیاستدانوں کے ساتھ شیر کا نشان ہٹا دیا جائے تو یقین جانیۓ لوگ انہیں بلی
ماننے سے بھی انکارکردیں گے۔بھٹوکے بعد میاں نواز شریف ایسے قومی رہنما ہیں
جنہوں نے اگر کھمبے تو ٹکٹ دیا تو کھمبا جیت گیا یعنی امیدواروں کی شخصیت،
سیاسی جدوجہد، خاندانی پس منظر سب مائنس ہوگئے جس لیڈر پر اﷲ کا اتنا کرم
ہوکہ اس کا نام ہی کامیابی کی ضمانت بن جائے ۔۔۔وہ جس کو اپنا بنالے دنیا
اسی کی دیوانی ہو جائے ۔۔۔اور جس کا نام جس کے ساتھ جڑ جائے وہی نام
معتبرہو جائے تو ایسے لیڈرسے بھی لوگ مایوس ہونے لگیں۔اس کے دور ِ حکومت
بھی غربت کے مارے اپنے لخت ِ جگر فروخت کرنے لگیں ۔اگر کسی کو اپنے گردے
بیچنے پڑیں۔۔۔یا جنسی درندے روز عزتوں کے جنازے نکالیں یا غربت سے تنگ
مائیں اپنی اولادکو قتل کرنے پر مجبور ہو جائیں تو اسے سو چنا چاہیے کہ
خرابی کہا ں ہے؟۔۔اور ا صلاح ِ احوال کیلئے کیا کرنا چاہیے؟ بلند بانگ
دعوے، خیالی پلاؤ، حکمت کے بغیرپلاننگ سے کچھ نہیں ہونے والا۔۔۔میاں صاحب !
اﷲ تعالیٰ مسلم امہ کی بہتری کیلئے آپ سے کوئی خاص کام لینا چاہتے ہیں
۔۔۔تبھی آپ کو پارس جیسی خوبیوں سے نوازاہے آپ کے انقلابی اقدامات، ٹھوس
منصوبہ بندی،بہتر حکمت ِ عملی اس قوم کو سونا بنا سکتی ہے ۔ ورنہ پاکستان
کی سیاست میں ’’تو خداؤں‘‘ کی کوئی کمی نہیں زمین ان سے بھری پڑی ہے جو
اپنے سامنے کسی کو دم مارنے کی اجازت بھی نہیں دیتے اب معلوم نہیں آپ پارس
بننا پسند کریں گے ۔۔یا؟ ویسے قارئین آپ کا کیا خیال ہے؟ یہ فلسفہ کسی کی
سمجھ میں آجائے تو وہ دوسروں کو ضرور بتادے ۔ویسے ہمارے بیشترحکمرانوں کی
خواہش ہوتی ہے کہ وہ سیاست کے خدا بن بیٹھیں پارس بن کر دوسروں کو فائدہ
دینے کا کیا فائدہ؟ لوگوں کے مسائل حل ہوگئے یا ملک میں خوشحالی آگئی تو
زندہ باد۔۔۔آوے ای آوے کے نعرے لگانے والوں کی تعداد کم ہو جائے گی پارس
بننے کا کیا فائدہ؟ |