شیخ لئیق احمد۔ایک شخصیت۔۔ ایک مطالعہ

یو تو زندگی میں بے شمار لوگوں سے واستہ پڑتا ہے، کسی سے کبھی کبھار ملاقات ہو تی ہے تو کسی سے اکثر ملاقاتیں رہتی ہیں ۔ ایسی شخصیات بہت کم ہوتی ہیں کہ جن سے ملکر خوش گوار تاثر قائم ہو اور آئندہ پھر سے ملنے کی خواہش بر قرار رہے میرے خاندان میں ایسی ہی ایک شخصیت شیخ لئیق احمد کی تھی۔وہ بہ ظاہر تو معمو لی آدمی تھے لیکن میں سمجھتا ہوں وہ ہر گز ہر گز معمولی آدمی نہیں تھے کیونکہ جس آدمی نے ساری زندگی حالات، ماحول اور معاشرے سے جنگ کی اور کبھی ہار نہیں مانی وہ معمولی آدمی کیسے ہو سکتا ہے۔ لئیق احمد جنہیں مرحوم لکھتے ہوئے دکھ ہوتا ہے،وہ بوڑھے ضرور ہوچکے تھے لیکن بڑھاپے کی اس منزل تک ہر گز نہ پہنچے تھے جس کے ساتھ موت کا تصور وابستہ ہے۔مگر موت تو بر حق ہے ، کسی کو نہیں معلوم کہ اس کا بلاوا کب اور کس وقت آجائے، ہمیں ہر حال میں اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوتا ہے کہ موت بر حق ہے ۔
موت سے کس کو دست کاری ہے
آج وہ کل ہماری باری ہے

لئیق احمد ان لوگوں میں سے تھے جن کی زندگی جہد مسلسل سے عبارت نظر آتی ہے۔ جہاں تک میری یادداشت کام کرتی ہے میں نے انہیں اس وقت د یکھا جب میں پانچویں یا چھٹی جماعت میں تھا ، ہم کراچی کی ایک کچی بستی آگرہ تاج کالونی میں رہا کرتے تھے۔ کچھ کچا اور کچھ پّکّا لیکن کشادہ مکان تھا، جس میں ہمارا خاندان یعنی امی ، ابا ، سات بہن بھائیوں کے علاوہ ہمارے دو چچا(جلیس احمد اور مغیث احمد) اور دو پھو پھیاں (موبینہ خاتون اور تسلیمہ خاتون) بھی رہا کرتے تھے۔کمانے والے ہمارے والد صاحب ہی تھے ،ہم سب بہن بھائی چھوٹے اورپڑھ رہے تھے، شاید ہمارے چچا بھی کچھ کرنے لگے تھے، صحیح یاد نہیں، گزر بسر اچھے طریقے سے ہو رہا تھاکیوں کہ والدصاحب اور والدہ دونوں ہی فضول خرچ نہیں تھے، قنائت پسند تھے، تھوڑے کو بہت جانتے تھے ، ہمیشہ اپنے سے نیچے والوں کو ہی دیکھا کرتے تھے ، ہم نے انہیں کبھی اپنے سے اوپر والوں کے بارے میں بات کرتے نہیں سنا۔ ہماری امی کے حقیقی بھائی اور بہنیں کراچی میں نہیں تھے ، لئیق احمد صاحب ہماری امی کے کسی رشتہ سے بھائی ہوتے تھے، ان کی حقیقی بہن ہماری امی کے بڑے بھائی جناب زبیر احمد سبزواری کی شریک حیات تھیں۔اس رشتہ سے ہماری امی انہیں’’ بھائی لئیق ‘‘ اور ان کی بیگم کو ’’بھابی ‘‘ کہا کرتیں اور ہم سب انہیں لئیق ماموں اور ان کی بیگم کو ’’مامی‘‘ کہتے ہیں،مامی (بیگم لئیق احمد) کے ایک حقیقی بھائی جناب ’احمد حسن ‘‘ ان دنوں ہمارے پڑوسی بھی تھے، انہیں سب لوگ کیپٹن صاحب کہا کرتے تھے کیوں کہ یہ فٹبال کے بہت اچھے کھلا ڑی ہونے کے ساتھ پاکستان ٹوبیکو کمپنی کی فٹبال ٹیم کے کیپٹن تھے،بہت ہی ہنس مکھ، خیال کرنے والے اور ملنسار انسان تھے۔انہیں بھی ہم ماموں ہی کہا کرتے تھے۔ ان دونوں خاندانوں کا ہمارے گھر آنا جانا تھا، شیخ لئیق اُن دنوں پوسٹ آفس میں کام کیا کرتے تھے اور کورنگی کریک میں ان کی پوسٹنگ تھی اس سے پہلے کسی اور جگہ رہی ہوگی میرے علم میں نہیں،ہمارے اور ان کے گھر میں کئی میل کا فاصلہ تھا اس کے با وجود آنا جانارہتا تھا، اکثر عید و بقراعید سے ایک روز قبل یہ ہمارے گھر آجاتے ایک ساتھ خوشیاں منانے کی روایت قائم تھی۔اس وقت ان کے دو ہی بچے ’’مینا اور پپو‘‘ تھے ، خوش حال زندگی بسرہو رہی تھے ، وقت گزرتا گیا، بچے دو سے نو ہوگئے ، ملازمت بدستور جاری رہی اسی دوران وہ نامسا عد حالات سے دوچار ہوئے ملازمت جاتی رہی لیکن خوددار تھے، حالات کا مقابلہ کرتے رہے ، اتنی مشکل آن پڑی کے کرائے کے گھر میں رہنا بھی مشکل ہوگیا، مجبو رناً ہمارے والد صاحب سے اپنی پریشانی کا ذکر کیا انہوں نے بے چوں و چراں کرایہ کا مکان چھوڑ کر اپنے گھر منتقل ہونے کا نہ صرف مشورہ دیا بلکہ انہیں بمعہ ساز و سامان اپنے گھر لے آئے۔ ہمارے والد صاحب اﷲ مغفرت کرے کسی بھی اپنے یا پرائے کا دکھ تکلیف نہیں دیکھ سکتے تھے۔ جہاں تک ممکن ہوتا اس کی مدد کرنے میں کسی سے مشورہ کرنا تو دور کی بات دیر نہیں کرتے تھے۔ یہ پہلا واقعہ نہ تھا وہ ایسا پہلے بھی کئی بار کر چکے تھے۔

میرے والد صاحب قبلہ انیس احمد مر حوم کے ماموں جناب غلام مصطفی سبزواری مرحوم کے سالے ضمیرحسن سبزواری مالی طور پر پریشانی کا شکار ہوئے اور ان کے ساتھ بھی نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ کرایہ کے مکان میں رہنا مشکل ہو گیا ۔ اس وقت بھی ہمارے والد صاحب نے انہیں اپنے گھر میں پناہ دی ، ہمارے گھر کا صحن کافی بڑا تھا ، کمرے تو شاید ایک یا دو ہی تھے،آنگن میں چھونپڑی ڈالی اور ہنسی خو شی کافی عرصہ رہتے رہے۔یہ وہ وقت تھا جب ناظربھائی پڑھ رہے تھے،بعد میں انہوں نے بی ای کیا اور سول انجینئر ہوگئے۔ہم ناظر بھائی کے والد صاحب کوضمیر تا یا کہا کرتے تھے۔ اﷲ مغفرت کرے بے حد ہنس مکھ اور مذاقیہ واقع ہوئے تھے ،وہ جتنے دن ہمارے گھر میں رہے ،گھر میں ہر وقت محفل جمی رہتی اور سب ان کے لطیفوں جن میں زیادہ تر ان کی آب بیتی ہوا کرتی تھی محظوظ ہوتے رہتے۔ ایک واقعہ سنا یا کہ وہ ہندوستان میں چند دوستوں کے ہمراہ رات میں شاید اپنی نوکری سے فارغ ہو کر آرہے تھے راستہ سنسان تھا، گھپ اندھیرا بھی ، کہتے ہیں کہ اتنے میں ایک خوبصورت عورت ہمارے سامنے آگئی ، ہمارے اوسان اس وقت خطا ہوگئے جب ہماری نظر اس کے پیروں پر پڑی ، اس کے پیر الٹے تھے ان کے کہنے کے مطابق وہ چڑیل تھی، کہنے لگے کہ وہ کبھی ہمارے آگے اور کبھی ہمارے پیچھے ، یہی نہیں بلکہ کچھ دیر بعد وہ عورت کے بجائے بکری کا بچہ بن کر ہمارے آگے اور پیچھے چلنے لگی،انہوں نے کہا کہ میں چڑیل کو بھگا نے کی ترکیب اپنے کسی بزرگ سے سن چکا تھا، ہم اس زمانے میں دھوتی پہنا کرتے تھے، اس وقت بھی دھوتی پہنی ہوئی تھے ، میں نے تو بھئی اپنی دھوتی نیچے سے اٹھائی اور اوپرکاندھوں پر ڈال لی۔جوں ہی میں نے یہ ترکیب استعمال کی چڑیل رفو چکر ہوگئی اور ہم دوستوں کی جان میں جان آئی ۔اسی طرح کی بے شماری باتیں اور لطیفے وہ ہر وقت سناتے رہتے تھے۔ مچھلی کے شکار کے بے انتہا شوقین تھے۔یہ خاندان ہمارے گھر کے آنگن میں کافی عرصہ رہا۔ جب حالات بہتر ہوگئے تو انہوں نے اپنا مکان کرائے پر لے لیا ۔اسی طرح لئیق ماموں کے خاندان نے بھی ہمارے گھر میں کچھ وقت گزارا، یہ وہ وقت تھا جب ان کے تمام ہی بچے چھوٹے تھے کسی بچے نے میٹرک بھی نہیں کیا تھا۔اس کے باوجود بہت اچھا وقت گزرا ، لئیق ماموں اور مامی دونوں ہی فراخ دل، در گذر کرنے والے اورر نیک طبیعت تھے، کچھ عرصے بعد حالات بہتر ہو گئے تو انہوں نے ہمارے گھر کے سامنے ہی کرایے کا مکان لے لیا اور اس میں رہنے لگے۔

خاندانوں کو اپنے گھر پناہ دینے کے علاوہ انفرادی طور پر مختلف شخصیات کو دوران تعلیم اپنے گھر رکھنا، ان کے کھانے پینے کا ااہتمام کر نا بھی ہمارے والد صاحب مرحوم کی زندگی کا حصہ تھا۔، ہمارے خاندان کے وہ احباب جو اندرون ملک سے کراچی میں حصول تعلیم کے لیے آئے اکثر کو ہمارے والد صاحب نے اپنے گھر پناہ دی اور جب تک انہوں نے اپنی تعلیم مکمل نہ کر لی، ان کی تمام تر سہولیات کا خیال رکھا، مجھے ان میں سے بعض کے بارے میں علم ہے ،ایک شیخ طاہر حسن جو میرے والد صاحب کے چچا’’ مفیق احمد مرحوم‘‘ کے متبنیٰ بیٹے تھے، اس وقت ملتان میں وکالت کرتے ہیں ، دوسرے شاہد احمد صدیقی واجد احمدمرحوم کے صاحبزاے تھے۔ ہم نے کسی لمحے اپنے والد صاحب کی زبان سے یہ بات نہیں سنی کہ انہوں نے کسی کے ساتھ کوئی احسان کیا، گویا وہ نیکی کر کے بھول جانے والوں میں سے تھے۔ وہ اس بات سے بخوبی آگاہ تھے کہ یہی حکمِ خدا وندی بھی ہے۔سورۃ النحل آیت نمبر ۹۰، ارشادباری تعا لیٰ ہے’’ خدا تم کو انصاف اور احسان کرنے اور رشتہ داروں کو (خرچ سے مدد) دینے کا حکم دیتا ہے ۔ ‘‘ ۔ میری یاد داشت میں ہے کہ شکیل احمد سبزواری جو میرے ماموں زادبھائی ہیں جب پنجاب سے کراچی آئے تو ہمارے ہی گھر قیام کیا۔صوفی محمد احمد مرحوم بھی بہت عرصہ ہمارے ہی گھر میں رہے۔

۱۹۶۸ء کی بات ہے میں میٹرک کر چکا تھا، میرا تعلیمی ریکارڈ بہت نمایاں نہیں تھا ، بس نارمل تھا۔ ڈاکٹر یا انجینئر بننے کے کوئی آثار نہیں تھے۔ فیصلہ ہواکہ میں کوئی ٹیکنیکل لائن اختیار کروں، ساتھ ہی اپنی پڑھائی بھی جاری رکھوں۔چنانچہ میں نے عبداﷲ ہارون کالج میں شام کی شفٹ میں داخلہ لے لیا ۔ لئیق ماموں جو پاکستان مشین ٹول فیکٹری میں ملازم تھے، انہوں نے مجھے فیکٹر ی میں شروع ہونے والی اپرنٹس شپApprenticeship)میں بھر تی کرادیا۔ یہ خالصتاً ٹیکنیکل کام تھا۔ شروع کے دو ماہ لوہے کے ٹکڑوں کوبنچ (Bench) پر کس نے کے بعد فائل کے ذریعہ مخصو ص طریقے سے گھسنا ہو تا تھا ۔ دو ماہ کے بعد کارکردگی کی بنیاد پر کوئی مشین مین بن جاتا ، کوئی خراد مشین(Lathe Machine) کا کاریگر تو کوئی بنچ فٹر ہی رہتا، میں ہر روزفجر کے وقت گھر سے نکلتا، بس کے ذریعہ سٹی اسٹیشن پہنچتا اور وہاں سے مہران ایکسپر یس کے ذریعہ جو ۶ بجے چلا کرتی تھی مشین ٹول فیکٹر ی پہنچا کرتا۔ مرپٹ کر میں نے دو ماہ گزارلیے اس کے بعد مجھ میں یہ ہمت نہیں تھی کہ میں اسے جاری رکھ سکتا ،چنانچہ میں نے بغیر اطلاع کے ٹول فیکٹری جانا بند کردیا۔ لئیق ماموں کیوں کہ آفس میں تھے اس وجہ سے میری جاں بخشی ہوگئی ورنہ شاید پو لس کے ذریعہ بلوالیا جاتا۔یہ میری زندگی کی اولین ملازمت یا ایسی پڑھائی تھی کہ جس کے بعد روزگار کا سلسلہ شروع ہوجاتا۔ لئیق ما موں اکثر کہا کرتے تھے کہ تمہارا بیج ٹول فیکٹری کا اولین بیج تھا، کافی ترقی ہوتی ، لیکن اس قدر سخت محنت کا کام میرے بس کی بات نہیں تھی۔ مجھے تو قلم چلانا تھا اور تعلیم کے میدان میں رہنا تھا خراد مشین کا’’خرادیہ‘‘ کیسے بن سکتا تھا۔

شیخ لئیق احمد خوبصورت انسانوں میں سے تھے، ہنستی صورت ، موہنی مورت ، گوری رنگت، لمبا قد، دلکش کتابی چہرہ، دل میں اتر جانے والی مسکراہٹ، غلافی آنکھیں، صورت شکل ، وضع قطع ، چہرے مہرے سب سے شرافت ، تحمل، وضع داری اور معصومیت کا خوش گوار اظہار، اردو غزل میں محبوب کا جو نقشہ شاعر کے ذہن میں ہوتا ہے وہ سب کچھ آپ کی شخصیت میں نمایاں تھا۔خوش پوشی، جامہ زیبی ، عام لباس میں بھی ایک پھبن،با وقار ، حلیم و بردبار، معاملہ فہم ، گفتار میں نر می اور مٹھاس، جب بھی ملاقات ہوئی لطافت اور محبت کا احساس ہوا۔ اگر کوئی صنف نازک ان صفا ت کی ہو تو بھلا کیسے شاعروں اور عاشقوں کی نظروں سے اوجھل رہ سکتی ہے اسی طرح ایک مرد آہن اس قدر خو بصورت، پر وجاہت اور جاذب نظر ہو تو نا چاہتے ہوئے بھی صنف نازک کی نظروں سے کیسے بچ سکتا تھا۔اس میں ان کا کوئی قصور نہ تھا،اپنے آپ کو بہت بچا یا ، محفوظ رکھا لیکن انسان تو پھر انسان ہے ، خطا کا پتلا بھی چنانچہ وہ بھی زندگی کے کسی حصہ میں جب کہ ان کی پوسٹنگ جناح اسپتال کے پوسٹ آفس میں تھی کسی چاہنے والے کی چاہت میں گرفتار ہوگئے ۔لیکن انہوں نے بہت جلد یہ محسوس کرلیا کہ ان پر بہت ذمہ داریاں ہیں، وہ تو ایک ایسے گلشن کے باغباں ہیں کہ جسے کئی ننھے ننھے پودوں کی آبیاری کرنا ہے انہیں پر وان چڑھانا ہے، ابھی توکلیوں نے پھول بننا ہے، پودوں نے تنا ور درخت کا روپ دھارنا ہے۔ اگر باخباں نے اپنے گلشن سے توجہ کہیں اور کرلی تو گلشن اجڑ جائے گا اور وہ تمام کلیاں اور پھول بن کھلے ہی مرجھاجائیں گے ۔ باغباں کو یہ کیسے گوارا ہوسکتا تھا اس نے اپنے رب سے توبہ کی اور اپنا راستہ بدل لیا۔

پاکستان مشین ٹول فیکٹری میں ملازمت مل چکی تھی اور ملیر کے علاقے کھو کھرا پار کالونی میں مکان خرید لیا تھا۔آپ اپنے بچوں کے ساتھ خوش و خرم رہنے لگے۔زندگی کی گاڑی پھر سے پٹری پر آگئی، بچے بڑے ہورہے تھے کچھ تعلیم حاصل کررہے تے اور کچھ بر سر روزگار بھی ہوچکے تھے، بڑی بیٹی اور بڑے دوبیٹوں کی شادی بھی کرچکے تھے۔یہ ۱۹۹۰ء کی دیہائی تھی جو پاکستان میں منفردسیاسی کلچر لیے ہوئے تھی جس نے سندھ کے شہری علاقوں کو ایک نیا سیاسی کلچر دیا ۔ نوجوانوں کی ایک بہت بڑی تعداد عملی سیا ست میں حصہ لینے لگی، گھر کے بڑے بزرگ دیکھتے ہی رہ گئے ، شاید ہی کوئی گھر ایسا ہو جس کے بچے اس سیاست سے محفوظ رہے ہوں۔ لئیق احمدکے بچے بھی اس سیاست سے دوچار ہوئے،بڑے بیٹے خالد مر تضیٰ نے اسٹیل مل میں ملازمت کے ساتھ ساتھ مزدور یونین میں نام پیدا کیا ، اس دور میں یونین کا چیر مین اسٹیل مل کے چیر مین سے کچھ کم نہ تھا ،ہزاروں مزدوروں کی سربرہی بڑا اعزاز تھاساتھ ہی روب و دب دبہ، دوسرے بیٹے بھی بر سرِ روزگار ہوگئے، حالات بہتر ہوئے، مالی خوش حالی آئی،گلشن پھلنے پھولنے لگا، باغ باں فرط مسرت سے پھولے نہ سماتا تھا،اپنے گلستان کی کلیوں اور پھولوں کو دیکھ دیکھ کر دل ہی دل میں خوش ہور ہا تھا، مگر فلکِ کج رفتار کو گلستاں کا رنگ و بو ایک آنکھ نہ بھایا، آتشِ حسد سے جل اُٹھا، تیور بدلنے لگے ۔ چرخِ کہن کی جبیں شکن آلود ہوگئی۔ ہواؤں نے اس کی حاسد تمازت جذب کرلی اور اپنی نر م لطافت ، آسودگی کھو بیٹھیں،رات کے بگو لے اُڑ نے لگے ، ہواؤں کے جھکڑ چلنے لگے۔ حالات نے پھر سے پلٹا کھا یا، کراچی کی ایک سیاسی جماعت کے خلاف فو جی آپریشن شروع ہوا ، آگ اور خون کا بازار گرم ہوا، بے شمار لوگ مارے گے، کچھ رو پوش ہوگئے، بعض ملک سے ہی فرار ہوگئے۔ معروف شاعر پروفیسر عنایت علی خان نے اپنی ایک نظم ’’یہ کراچی ہے‘‘ میں اس دور کے کراچی کا حقیقی نقشہ کھینچا ہے:
یار دکھلا نا شام کا اخبار
کون زخمی ہیں کون مر دہ؟
شکر ہے ان میں اپنا نام نہیں
گو یا ہم شام تک تو زندہ ہیں؟

ان حالات سے لئیق احمد کا خاندان بھی متاثر ہوا ، نوبت یہاں تک پہنچی کے اپنے بھرے گھرکو رات کی تاریکی میں خیرباد کہنا پڑا، بالکل اس طرح جیسے ۱۹۴۷ء میں مسلمانوں کی ایک بڑی جماعت نے بے سروسامانی کے عالم میں ہندوستان سے پاکستان ہجرت کی تھی، لئیق احمد کو پاکستان میں ایک اور ہجرت کرنا پڑی، انہوں نے اپنے بھرے گھر کو خیرباد کہا ۔ ابتدا میں تمام اہل خانہ نے ہمارے ہی گھر قیام کیا،
بعد میں کہیں اور رہائش اختیار کی، حالات بہتر ہونے کے بعداپنے گھر گلبرگ منتقل ہوگئے۔

سیاسی حالات کے بہتر ہوجانے کے بعد زندگی میں ایک بار پھر سے ٹہراؤ آیا، حالات اچھے ہوگئے، تمام بچے بر سرِروزگار ہوگئے، آپ نے اپنی دو بیٹیوں (شمو، بانو) کی شادی کردی اوروہ اپنے گھر کی ہوئیں۔ اس سے قبل آپ اپنی دوبیٹیوں (مینا، گوگی) کی شادی پہلے ہی کرچکے تھے۔ بیٹیوں کے فرض سے سبکدوش ہوچکے تھے۔ مرحلہ تیسرے بیٹے کامران( مننے) کی شادی کا تھا۔ ایک دن میں شہناز کے ہمراہ ان کے گھر گیا ہوا تھا باتوں ہی باتوں میں شادی کاذکر آیا، شہناز نے کہاکہ میری ایک دوست کی بیٹی اچھی ہے ، اگر مناسب خیال کریں تو دیکھ لیں۔ ان دنوں میرا تبادلہ عبد اﷲ ہارون گورنمنٹ کالج سے گورنمنٹ گرلز کالج، فیڈرل بی ایریا ، بلاک ۱۶ میں ہو گیا تھا، اس وقت یہ بچی (سعدیہ ) اس کالج میں انٹر میں پڑھا کرتی تھی، میں نے بھی اسے دیکھا ہوا تھا، میں نے شہناز سے اتفاق کرتے ہوئے رشتہ سے اتفاق کیا، ماموں اور مامی دونوں نے کہا کہ ٹھیک ہے دیکھ لیتے ہیں۔ کچھ ہی عر صہ بعد ہم ان کے ہمراہ شہناز کی دوست (عشرت زبیر) کے گھر گئے ماموں نے ایک نظر اس بچی کو دیکھا اور فیصلہ کیا کہ ہمیں منظور ہے ، بات آگے بڑھی اور شادی ہوگئی، الحمد اﷲ آج یہ چوڑی اپنے گھر میں مثالی تصور کی جاتی ہے۔دونوں گھرانے خوش ہیں۔اتنی ہی خوشی ہمیں بھی ہے۔

لئیق احمد صاحب کے ایک بیٹے شوکت ضیاء (شبو) کا مجھ پر ایک ایسا احسان ہے جسے میں کبھی بھلا نہیں سکوں گا۔ یہ ۱۹۷۵ء کی بات ہے میں نے ایم اے کرنے کے بعد ملازمت اور اس کے ساتھ ساتھ لکھنے کی ابتدا کی تھی، اردو میں ایک کتاب مرتب تو کرلی تھی اس کی اشاعت سے قبل ٹائپنگ کا مرحلہ در پیش تھا، کیوں کہ اس کتاب پر کم سے کم خرچ کرنا تھا ، چنانچہ طے ہوا کہ اس کتاب کے اردو ٹائپ رائٹر پر اسٹینسل کٹوالیے جائیں، اس وقت کمپیوٹر ہمارے ملک میں نہیں آیا تھا، یہ اردو ٹائپ رائٹر اور اسٹینسل کا زمانہ تھا، نہ معلوم کیسے شوکت (شبو )سے ملاقات ہوئی اور میں نے اپنی اس مشکل کا ذکر اس سے کیا ، اس وقت وہ کسی کمپنی میں شاید بن قاسم میں ملازم تھا اور انگریزی کے ساتھ ساتھ اردو ٹائپنگ بھی جانتا تھا ۔ اس نے مجھ سے یہ کام کرنے کو کہا میں نے بھی موقع غنیمت جانا اسے مسودہ دے دیا ۔ شبو نے چند روز میں پوری کتاب کے اسٹینسل کا ٹ کر لادئے ، اس طرح میری پہلی کتاب ’’پاکستان میں سائنسی و فنی ادب ‘‘ کے عنوان سے ۱۹۷۵ء میں شائع ہوئی، لکھنے اور چھپنے کا سلسلہ جو آج سے ۳۲ سال قبل شروع ہوا تھا الحمداﷲآج بھی جاری ہے۔ شبو نے اسٹینسل ا پنے ہی پاس سے استعمال کیے۔ میں نے بہت کوشش کی کہ کم از کم اسٹینسل کی قیمت ہی ادا کردوں لیکن اس نے ایک نا سنی، میں جب بھی اپنی اس کتاب کو دیکھتا ہوں شبو کے عمل کو یاد ضرور کر تا ہوں۔اس کے اس عمل نے مجھے لکھنے اور چھپنے کی ایسی راہ دکھائی کہ میں طویل عرصہ گزر جانے کے بعد بھی اسی راہ کا مسافر ہو کر رہ گیا ہوں۔

۳۱ ما رچ ۲۰۰۶ء جمعہ کی نماز پڑھ کر گھر میں جو ں ہی داخل ہوا شہناز جو ٹیلی فون پر کسی سے بات کر رہی تھیں میری جانب متوجہ ہوئیں اور کہا کہ لئیق ماموں کا انتقال ہوگیا، میرے پیروں تلے جیسے زمین نکل گئی ہو۔ نا بیماری کی خبر ، نہ اسپتال میں داخل ہونے کی اطلاع ، پھر اچانک یہ کیا ہوا۔ معلوم ہوا کہ وہ لیاقت نیشنل اسپتال میں ہیں، میں فوری طور پراسپتال پہنچ گیا، وہ ایمر جنسی وارڈ کے ایک بیڈ پر سفید چادر میں ملبوس تنہا موجود تھے، معلوم ہوا کہ ان کے ہمراہ جو احباب ہیں وہ اسپتال سے ان کی رخصت کی کاروائی میں مصروف ہیں، ایسا محسوس ہوا کہ اسپتال کا عملہ انہیں اس دنیا سے رخصت کر کے کچھ دیر پہلے ہی فارغ ہوا ہے، چادر پر تازہ خون واضح تھا، دونوں ہاتھ بینڈیچ کے ذریعہ بیڈ سے بندھے ہوئے ا ور دونوں ہاتھوں میں انجکشن یا ڈریپ کے لیے کینو لا (Cannula) لگا ہوا تھے ، گردن میں بھی ایک جانب کینولا لگا ہوا تھاجس کے ذریعہ ایک ٹیوب دل کی جانب پاس کی گئی تھی۔ شیو بڑھی ہوئی تھی جس سے اندازہ ہوا کہ وہ چند روز سے اس قابل نہیں تھے کہ شیو ہی بنا لیتے ، ورنہ وہ تو عام زندگی میں صاف شفاف رہنے کے عادی تھے، چہرے سے نقاہت ، افسردگی، تھکاوٹ کے آثار نمایاں تھے، ان کے چہرے سے یہ احساس نمایاں تھا کہ موت نے انہیں ابھی ابھی مات دی ہے ، روح کو ان کے جسے رخصت ہوئے کچھ دیر ہی ہوئی ہے۔ انہوں نے اپنی ہمت و طاقت کے مطابق ملک الموت کا مقابلہ کیا لیکن پھر یہ سوچ کر ہتھیار ڈالدئے کہ یہ من جانب اﷲ ہے ، میرا وقت پورا ہوچکا ہے، جس قدر زندگی مجھے عطا کی گئی تھی وہ پوری ہوئی ، یہ سفر اب اختتام کو پہنچا اور اب اس عالم فانی سے ایک نئے اور ابدی سفر کا آغاز ہونا ہے، اور پھر اپنی جان اپنے خالق کے سپرد کری۔میں ان کے برابر موجود تھا ، انہیں ٹک ٹکی باندھے دیکھ رہا تھا، ان سے تعلق کے حوالے سے ایک فلم ذہن میں چل رہی تھی ، ان کے ساتھ گزرے لمحات ، ملاقاتیں اور واقعات ایک ایک کرکے نظروں کے سامنے تھے۔ اسپتال کے ایک کارکن نے انہیں اسپتال سے رخصت کرنے کے انتظامات شروع کیے، گردن میں داخل ایک ٹیوب باہر نکالی جس کے ساتھ ان کا تازہ خون بھی باہر آیا، دونوں ہاتھوں میں لگے ہوئے ’کینولے‘ نکالے گئے، نئی سفید چادر میں لپیٹا گیا ، اس عمل میں میں اس کارکن کی مدد کر تا رہا۔ تیاری مکمل ہوئی اور ایمبو لینس میں گھر کی جانب روانہ ہوئے ، میں اپنی گاڑی میں ساتھ ساتھ تھا، گھر پہنچے جہاں ان کے اہل خانہ نے آہوں اور سسکیوں میں ان کا استقبال کیا، وہاں موجود ہر فرد آنسوں بہا رہا تھا، بین کرتی ہوئے ان کی بیٹیاں اور بیٹے اور دیگر عزیز و عقارب نوحہ کنا تھے۔لاہور اور اسلام آباد سے ان کی ایک بیٹی اور بیٹے کو پہنچنا تھا ، رات ہوچکی تھی چنانچہ فیصلہ ہوا کہ تدفین صبح ہو ، غسل دینے کے بعد ان کے جستدخاکی کو ایدھی کے سرد خانہ میں رکھوا دیا گیا، ، صبح تدفین ہوئی ، سیکڑوں کی تعدا میں احباب ان کے سفر آخرت میں شریک تھے جن میں ان کے عزیز رشتہ دار، دوست احباب اور کراچی کی انتظامیہ کے لوگ بھی بڑی شامل تھے۔قومی و صوبائی اسمبلی کے بعض اراکین، وزراء اور متحدہ قومی موو منٹ کے بے شمار کارکن بھی شریک سفر تھے۔اﷲ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے۔ آمین۔ اپنے جد امجدشیخ محمد ابراہیم آزادؔ کے اس شعر پر اپنی بات ختم کرتا ہوں ؂
ہم نشیں پوچھتے کیا ہو میرے دل کی حالت
صدمہ کیا دے گئے دنیا سے جانے والے
( مصنف کی کتاب ’’یادوں کی مالا ‘‘شائع شدہ ۲۰۰۹ء میں شامل )
 
Prof. Dr Rais Ahmed Samdani
About the Author: Prof. Dr Rais Ahmed Samdani Read More Articles by Prof. Dr Rais Ahmed Samdani: 866 Articles with 1437920 views Ph D from Hamdard University on Hakim Muhammad Said . First PhD on Hakim Muhammad Said. topic of thesis was “Role of Hakim Mohammad Said Shaheed in t.. View More