میں گلو بٹ کو جانتا نہیں ہوں ٹی وی سکرین پر ہی اسے
دیکھا مگر زندگی میں گلو بٹ جیسے بہت سے لوگوں کو دیکھنے کا شرف حاصل ہوا
ہے۔ پاکستان میں کوئی ایک گلو بٹ نہیں بلکہ یہ ایک کردار ہے جو آپکو ہر
کوچہ و بازار میں نظر آئے گا۔ بنیادی طور گلو بٹ سیاستدانوں کے تنخوادار
پالتو بدمعاش ہوتے ہیں جو کہ سیاستدانوں کے لئیے ہر طرح کے جائز و ناجائز
کام کرتے ہیں ساتھ ہی یہ پولیس تھانہ کے ٹاؤٹ بھی ہوتے ہیں ، خود ہی مخبری
کرکے پکڑواتے ہیں اور بعد میں رشوت کے عوض پولیس سے مک مکا کروا کے چھڑوا
بھی دیتے ہیں، جس میں ان گلو بٹوں کو بھی حصہ ملتا ہے۔ سیاستدان گلو بٹوں
کو علاقے کے شریف لوگوں کو دبانے کے لئیے رکھتے ہیں۔ الیکشن کے دن انکا بڑا
کردار ہوتا ہے یہ پولنگ اسٹیشن کے اندر موجود ہوتے ہیں اور شریف ووٹرز کو
دھمکا کر کہتے ہیں کہ اس نشان پر مہر لگانی ہے۔ مثال کے طور پر میں آپ سے
سچا واقعہ شئیر کرتا ہوں۔ یہ ٢٠٠٨ کے الیکشن کا دور تھا میں مسلم لیگ ن کو
سپورٹ کر رہا تھا اور میں نے مسلم لیگ ن کے امیدوار کا ایک چھوٹا سا جلسہ
بھی کروایا ، جسمیں ایم این اے اور ایم پی اے کے امیدواران تشریف لائے۔ خیر
قصہ مختصر الیکشن کا دن آیا میں نے سوچا کہ پولنگ اسٹیشن جانا چاہئیے اور
اپنے امیدوار کو وؤٹ دینا چاہئیے خیر میں وہاں گیا بیلٹ پیپر لیا اور وؤٹ
کاسٹ کرنے کے لئیے آگے بڑھا تو ایک گلو بٹ نے میرا بازو پکڑ لیا، میں اسے
باخوبی جانتا تھا مگر وہ مجھے نہیں جانتا تھا، مجھے پنچابی میں کہنے لگا
مہر شیر تے لانی اے نہیں تے خیر نہیں۔ میں نے اس سے کہا کہ تم کون ہوتے ہو
مجھے بتانے والے کہ میں نے مہر کہاں لگانی ہے، خیر بات توں توں میں سے عین
ممکن ہے کہ ہاتھا پائی تک پہنچ جاتی مگر ایک اور سنئیر گلو بٹ درمیان میں
آگیا جو مجھے جانتا تھا ، اس نے جونئیر گلو بٹ کو سائیڈ پر کرکے کان میں
اسکے کچھ کہا اور چھوٹے گلو بٹ صاحب ٹھنڈے برف ہو گئے اور مجھ سے کہنے لگے
جاؤ باؤ جی وؤٹ کاسٹ کرو ، میں نے کہا وہ تو میں کروں گا مگر اس سے پہلے
ایک بات کہنا چاہتا ہوں وہ یہ کہ میں گھر سے ارادہ کرکے آیا تھا کہ مہر شیر
پر لگانی ہے، لیکن تمہاری دھمکیوں کے بعد اب تمھیں دکھا کر کسی اور نشان پر
مہر لگاؤں گا اور جو تم کرسکتے ہو وہ کرنا اور اپنے باپ سے بھی کہنا کہ میں
نے اسے وؤٹ نہیں دیا اگر وہ بھی کچھ کرسکتا ہے تو کرلے۔ مجھے آج بھی یاد ہے
کہ میں نے مہر چراغ کے نشان پر لگائی تھی جو کہ ایک آذاد امیدوار کا نشان
تھا اور اس پولنگ اسٹیشن سے اسکا ایک ہی وؤٹ نکلا تھا ۔ جسے میں نے وؤٹ دیا
تھا وہ امیدوار تو الیکشن ہار گیا لیکن میرا ضمیر مطمئن تھا ۔ پاکستان میں
جب اپنا وؤٹ کوئی اپنی مرضی سے نہیں دے سکتا تو پھر یہ کیسی جمہوریت ہے؟
میں نے آپکے سامنے پاکستان کے ایک بڑے شہر کا واقعہ بیان کیا ہے سوچیں یہ
دیہات میں کیا کرتے ہوں گے۔ زندگی میں بہت سے گلو بٹوں سے واسطہ پڑا اور
میں یہ جانتا ہوں کہ یہ انتہائی بزدل لوگ ہوتے ہیں چھوٹے موٹے واقعات میں
تو پولیس انھیں پکڑتی نہیں اگر کسی عدالت کے حکم پر پکڑ بھی لے تو انکے
سیاستدن باپ انھیں فون کر کے چھڑوا لیتے ہیں لیکن اگر ان سے کوئی بڑا حادثہ
سرزد ہوجائے تو انکے سیاسی باپ انھیں عاق کرنے میں ایک منٹ نہیں لگاتے اور
لاتعلقی کا اظہار کردیتے ہیں ، اور جب ان گلو بٹوں کے والدین ان سیاستدانوں
کے پاس جاتے ہیں اور التجا کرتے ہیں کہ صاحب ہمارے بچے کو جیل سے چھڑاؤ
ساری زندگی آپ کے لئیے کام کرتا رہا ہے تو سیاستدان جواب دیتا ہے کہ اوہ
مائی اوہ بڈھے بک بک نہ کر ہمارے لئیے مفت کام نہیں کرتا رہا رقمیں لیتا
تھا۔ اور اگر معاملہ سنگین نوعیت کا ہو جس سے سیاستدان کا سیاسی مستقبل داؤ
پر لگنے جارہا ہو تو یہ پتھر دل پولیس حراست میں یا جعلی مقابلہ میں گلو بٹ
مروا بھی دیتے ہیں اور اگر گلو بٹ نمک حلال کرتے ہوے سب الزام اپنے سر لے
کر چند سالوں کے لئیے جیل چلا جائے تو اسے نواز بھی دیتے ہیں ۔۔ |