حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلوی
ؒاپنی تصنیف حیات الصحابہ ؓ میں تحریر کرتے ہیں کہ حضرت ابن عمر ؓ فرماتے
ہیں کہ حضرت عمر ؓ کے پاس عراق سے مال آیا حضرت عمر ؓ اسے تقسیم فرمانے لگے
ایک آدمی نے کھڑے ہو کر کہا ہو سکتا ہے کبھی دشمن حملہ آور ہو جائے یا
مسلمانوں پر اچانک کوئی مصیبت آپڑے تو ان ضرورتوں کیلئے اگر آپ اس مال میں
سے کچھ بچا کر رکھ لیں تو اچھا ہے یہ سن حضرت عمر ؓ نے فرمایا ۔ تمہیں کیا
ہو گیا اﷲ تمہیں مارے یہ بات تمہاری زبان سے شیطان نے نکلوائی ہے اور اﷲ
تعالیٰ نے اس کا جواب مجھے بتایا اﷲ کی قسم کل کو پیش آنے والی ضرورت کیلئے
میں آج اﷲ کی نافرمانی نہیں کر سکتا ۔ نہیں (میں مال جمع کر کے نہیں رکھ
سکتا بلکہ )میں تو مسلمانوں (کی ضرورتوں )کیلئے وہ کچھ تیار کر کے رکھوں گا
جو حضور ؐنے تیار کیا تھا (اور وہ ہے اﷲ اور رسولؐ کی اطاعت اور تقویٰ اور
تقویٰ مال جمع کرنا نہیں ہے بلکہ دوسروں پر مال خرچ کرنا ہے )
قارئین!1947ء میں رمضان کی مبارک ساعتوں میں دنیا کے نقشے پر ظاہر ہونے
والے پاکستان کے متعلق مختلف باتیں مختلف ادوار میں روحانیت سے تعلق رکھنے
والے لوگ کرتے رہے ہیں ۔ پاکستان کو 20ویں صدی کی کرامت اور دنیا کے تمام
مسلمانوں کیلئے ایک لیڈر کی حیثیت سے متعارف کروایا جاتا رہا ہے آج چھ سے
زائد عشرے گزر چکے ہیں اور پاکستان اپنوں اور بیگانوں کی غداریوں اور
سازشوں کا شکار ہو کر دو لخت ہونے کے صدمے سے بھی گزر چکا ہے اور معاشی و
معاشرتی سطح پر اگر ہم بغور جائز ہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ انحطاط کا عمل
اتنے منفی انداز میں اثر انداز ہوا ہے کہ یہ تمام باتیں ایک خواب و سراب
لگتی ہیں کہ پاکستان بھلا کس طرح امت مسلمہ کی قیادت کا اعلیٰ ترین فریضہ
انجام دے گا اور کیسے اس بلند ترین منصب کا اہل قرار پائے گا ۔ اس دنیا کو
تھری ڈی ورلڈ کہا جاتا ہے اور چوتھی سمت کا تعلق مافوق الفطرت باتوں کے
ساتھ ہے اگر پاکستان کے قیام کو ہی لے لیں تو پاکستان کا معرض وجود میں آنا
ہی ایک ایسی بات ہے کہ اعداد وشمار کے گورکھ دھندے کو ٹٹولنا شروع کریں تو
الجبرے یا میتھ کے سوال کی طرح اس کا جواب بھی وہ نہیں نکلتا جو عملی صورت
میں پاکستان کے قیام کی شکل میں ہمارے سامنے آیا پھر جس طرح اس نوزائیدہ
مملکت کو بڑے بڑے چیلنجز کا سامنا تھا ان تمام مشکلات سے گزرتے ہوئے کس طرح
یہ مملکت قائم بھی رہی اور روز بروز مضبوط بھی ہوتی رہی وہ بھی عقل و شعور
سے کوسوں دور کے معاملے دکھائی دیتے ہیں جس ملک میں سوئی سے لیکر ہوائی
جہاز تک ہر شے بیرون ممالک سے درآمد کی جاتی ہو اور حتیٰ کہ کئی وزیراعظم
بھی ایسے گزرے کہ جنہیں امریکہ سے امپورٹ کر کے پاکستان کو چلانے کی ذمہ
داریاں سونپی گئیں وہ ملک بوجوہ مشکل ترین ہمسایہ کے فوج اسلحے اور طاقت کی
ایک ایسی دوڑ میں شامل ہونے پر مجبور ہو گیا کہ جس کا نتیجہ اس شکل میں
نکلا کہ یہ ملک دنیا ئے اسلام کی پہلی جوہری طاقت بن گیا ۔ اس ملک کے متعلق
پوری دنیا میں یہ لطیفہ مشہور ہوا کہ دنیا کی ساتوں جوہری قوت پاکستان کے
پاس ایٹم بم تو موجود ہے لیکن بجلی نہیں ہے ۔ آخر کیوں اس طرح کی کرامت
سرزد ہوئی کہ پاکستان کی فوج دنیا کی ٹاپ ٹین افواج میں شامل ہو گئی اور
پاکستان کی سکیورٹی ایجنسیز اور بالخصوص آئی ایس آئی کو دنیا کی پانچ
بہترین سپائی ایجنسیز میں شامل کیا گیا ۔ یہ تمام باتیں ایک خاص سمت کی طرف
بھرپور اشارے کر رہی ہیں ۔ پاکستان میں مختلف ادوار میں سیاسی قوتیں
قائداعظم کے ویژن کا نام لیکر برسر اقتدار آتی رہیں اور دو قومی نظریے کی
بنیاد پر پاکستان کو ایک ماڈل اسٹیٹ کی حیثیت سے دنیا کے سامنے پیش کرنے
کیلئے اپنے اپنے منشور عوام کے سامنے رکھتی رہیں ان سیاسی جماعتوں کے
قائدین اور کارکنوں میں ویژن اور عمل کا بہت بڑا فقدان فوجی حکومتوں کو
مدعو کرتا رہا اور فوجی حکمران بھی سیاستدانوں کی بددیانتی اور نااہلی کا
رونا روتے ہوئے اقتدار سنبھالتے رہے اور ’’تبدیلی اور انقلاب‘‘کی باتیں
کرتے رہے یہ علیحدہ بات ہے کہ ہر کسی کے اقتدار سے عوام کیلئے کوئی اچھی
خبر برآمد نہ ہوتی رہی اور ہوتے ہوتے ایک وقت ایسا بھی آیا کہ جب بین
الاقوامی برادری نے پاکستان پر اعتماد کرنا چھوڑ دیا پاکستانی پاسپورٹ کو
دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں انتہائی حقارت کی نظر سے دیکھا جانے لگا اور
بین الاقوامی سطح پر یہ بات کی جانے لگی کہ پاکستانی حکمران اور سیاست دان
انتہائی کرپٹ لوگ ہیں اور پاکستانی قوم پر بھروسہ نہیں کیا جاسکتا ۔
حالانکہ پاکستان کا سواد اعظم شروع سے ہی ایسا نہ تھا پاکستان کے قیام
کیلئے برصغیر کے مسلمانوں نے لاکھوں جانوں کا نذرانہ پیش کر کے قربانی کی
ایک ایسی مثال قائم کی تھی جس کی نظیر دنیا میں کم ہی ملتی ہے اور ہم اپنے
ایمان کی روشنی میں یہ بات انتہائی وثوق سے کہتے ہیں کہ پاکستان کا تمام
حوادث سے گزرتے ہوئے اب تک قائم رہنا اور روز بروز حیران کن انداز میں
مضبوط ہوتے جانا ان لاکھوں شہداء کے خون کی برکت ہے کہ جنہوں نے انتہائی
سچے جذبوں کے ساتھ کلمے کی خاطر بننے والی اس مملکت کی بنیادوں کو استوار
کیا پاکستان کی بنیادوں میں ان لاکھوں مخلص شہداء کا لہو یقینا خالق کائنات
کے پیش نظر ہے جس کی وجہ سے یہ مملکت ابھی تک قائم ہے اور انشاء اﷲ تعالیٰ
وہ دن آکر رہے گا کہ جب ملک میں حقیقی قیادت تبدیلی لیکر آئیگی اور تمام
کرپٹ سسٹم مکڑی کے کمزور جالے کی طرح بکھر جائے گا ۔
قارئین! ہماری اس تمہید کا مقصد آپ کے سامنے کوئی جھوٹا خواب رکھنا ہر گز
نہیں ہے دنیا میں بڑے بڑے طاقتور آئے اور چلے گئے اور بڑی بڑی سلطنتوں اور
تہذیبوں نے حکمرانی کی اور اپنا وقت پورا کر کے رخصت ہوتے گئے ۔ قرآن پاک
اور الہامی کتابوں میں واضح ترین اندازمیں خالق کائنات کی طرف سے پیغام دیا
گیا ہے کہ اگر انسان اﷲ تعالیٰ کے حکم سے روگردانی کریگا اور کوئی بھی قوم
اﷲ کے حکم سے منہ موڑے گی تو اﷲ ہر گز کسی کا محتاج نہیں ہے اور وہ اس قوم
کی جگہ کسی دوسری قوم کو لے آئے گا۔ ایسا ہی سبق ہمیں دنیا کے بڑے بڑے
فراعین کے انجام سے ملتا ہے کہ جو اپنے آپ کو خدا کہتے تھے اور یہ سمجھتے
تھے کہ ان کی بادشاہت اور سلطنت کو زوال نہیں آسکتا کس طرح وہ خاک میں مل
گئے اور آج ایسے ہو گئے ہیں کہ جیسے کبھی ان کا وجود تھا ہی نہیں ۔ پاکستان
ہم اپنے ایمان کی روشنی میں سمجھتے ہیں کہ تمام تدریجی مراحل سے گزر کر
انقلاب کی اس منزل کی جانب بڑھ رہا ہے کہ جس کے بعد ایک انتہائی روشن سویرا
اس قوم کی تقدیر بن کر طلوع ہو گا فوجی حکمرانی کے مختلف ادوار سے گزرنے کے
بعد ’’روٹی کپڑا اور مکان‘‘کا پرچم اٹھائے لوگوں کو ایک موقع ملا جو ان
لوگوں انتہائی بھرپور انداز میں ضائع کیا اب دوسرا موقع میاں محمد نواز
شریف کو ملا ہے لیکن مختلف واقعات بتا رہے ہیں کہ وہ ایک انتہائی کٹھن
مرحلے سے گزرتے ہوئے قیادت کی وہ ذمہ داریاں ادانہیں کر پا رہے وقت جس کا
تقاضا کر رہا ہے ۔ انصاف کی بات کرنے والے کپتان خان کی باتیں بہت دل آویز
ہیں لیکن صوبہ خیبرپختونخواہ میں وہ عملی انداز میں وہ پرفارمنس ایک سال
ایک ماہ گزرنے کے باوجود نہیں دکھا پائے جس کا دعویٰ وہ ’’سہ ماہی
اقتدار‘‘ملنے کی صورت میں کیا کرتے تھے ۔ امریکہ نے پاکستان کی سرزمین پر
’’دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ‘‘کے سلوگن سے آگ اور بارود کی جو پنیری
لگائی تھی اب وہ تمام فصلیں جوان ہو چکی ہیں اور اس کا نتیجہ بھی پوری قوم
کے سامنے ہے کہ افواج پاکستان بھی براہ راست اس کی زد میں آچکی ہیں ۔ سوچنے
کی بات یہ ہے کہ ان سب مسائل کا حل کیا ہے اور آخر کیسے ان تمام مسائل سے
نکل کر پاکستان سب سے پہلے اپنے پیروں پر کھڑا ہو سکتا ہے اور اس کے بعد
امت مسلمہ کی قیادت کے منصب کی جانب بڑھ سکتا ہے جس طرح کے حالات اس
پاکستان میں ہیں ویسی ہی صورتحال ایک دور میں پاکستان سے سب سے زیادہ محبت
رکھنے والے دنیا کے واحد ملک ترکی میں بھی موجود تھی خلافت عثمانیہ کو ختم
کرنے کے بعد برطانیہ سمیت یورپ کے مختلف ممالک ترکی کے مختلف علاقوں پر
قبضے کر رہے تھے اور مصطفی کمال ترک فوجوں کی قیادت سنبھالے ملک کے دفاع کی
کوششیں کرنے میں مصروف تھے ۔ تاریخ کی کتابوں میں یہ بات نقل کی جاتی ہے کہ
برطانیہ نے خلیفہ کو اس حد تک مجبور کر دیا کہ ترک فوجوں کو حکم دیا گیا کہ
وہ قبضہ کرنے والے غاصب ممالک کے خلاف جدوجہد ترک کر دیں اس پر مصطفی کمال
نے شدید مزاحمت کرتے ہوئے خلیفہ کے احکامات ماننے سے انکار کیا اور مذہبی
طبقے کے اس رویہ کو بھی شدید تنقید کا نشانہ بنایا جو مسلمانوں میں تفرقہ
بازی اور لڑائی جھگڑے کو فروغ دیتے ہوئے اختلاف امت کی شکل میں سامنے آرہا
تھا ۔ مصطفی کمال نے ترک وطنیت کا نعرہ لگاتے ہوئے تمام غیر ملکی افواج کو
شکست دی اور ایک ایسی ترکی کی بنیاد رکھی جس میں مذہبی طبقہ پر سخت قسم کی
پابندیاں عائد کر دی گئیں ۔ مصطفی کمال کو پوری قوم نے اتاترک کا خطاب دیا
اور ترک فوج ملک کی سب سے بڑی فیصلہ ساز قوت بن گئی ترکی میں کرپشن اسی طرح
موجود تھی جس طرح آج پاکستان میں دکھائی دیتی ہے ۔ ترکی میں معاشی اور
سماجی سطح پر وہی مسائل موجود تھے جو آج پاکستان میں ہمارے چاروں طرف رقص
کرتے دکھائی دیتے ہیں اور ترکی میں بھی ایسے مسائل روز بروز سامنے آرہے تھے
کہ عالمی برادری نے ترکی کو یورپ کا ’’مردِ بیمار‘‘قرار دے دیا تھا ۔ ایسے
میں طیب اردگان کی صورت میں اسلامی طاقتوں سے تعلق رکھنے والا ایک ایسا
روشن خیال مئیر سامنے آیا کہ جس نے انتہائی قلیل عرصہ میں اپنے کردار ،
تدبر ، علم ، حکمت اور دانش مندی سے ایک شہر کو اس انداز میں ریفارم کیا کہ
پوری دنیا عش عش کر اٹھی۔ طیب اردگان کی طرف سے لائی گئی تبدیلی کا یہ سفر
جاری رہا اور آج طیب اردگان کی پارٹی اسلامی اصولوں پر ترکی کو استوار کرتے
ہوئے اس ملک کو دنیا کی ٹاپ ففٹین معیشتوں میں شامل کر چکی ہے ۔ طیب اردگان
نے تبدیلی کے اس تمام سفر میں نفرت کی کوئی بات نہیں کی بلکہ اپنے عمل کے
ساتھ اپنے قول کو ثابت کیا اور پوری قوم جمہوری طریقہ سے تبدیلی کے اس سفر
میں شامل ہوتی چلی گئی اور ایک وقت ایسا آیا کہ فوج جسے سب سے بڑی طاقت کہا
جاتا تھا اور جرنیل جس کے ہر حکم کو قانون سمجھا جاتا تھا وہ بھی اس تبدیلی
کو تسلیم کرنے پر مجبور ہو گئے۔
قارئین! اس وقت پاکستان میں ایک طرف تو وہ قوتیں موجود ہیں کہ جو اسلحے اور
طاقت کے ساتھ اقتدار پر قبضہ کر کے اسلام ’’نافذ ‘‘ کرنا چاہتی ہیں اور
دوسری جانب امریکہ کی پیروی کرنے والے وہ’’ تہذیبی انتہاپسند‘‘ بھی موجود
ہیں کہ جو ’’ہز ماسٹر وائس ‘‘ بن کر تمام اسلام پسندوں کو ’’دم پخت بم
پخت‘‘ کرنا چاہتے ہیں ۔ ہم دل سے یہ چاہتے ہیں کہ یہ دونوں انتہاؤں پر
پہنچے ہوئے لوگ کسی درمیانی راستے کی جانب رجوع کریں ۔ کینیڈا سے تشریف
لانے والے علامہ طاہر القادری بھی انقلاب کی بات کر رہے ہیں لیکن اس کی آؤٹ
لائنز کیا ہوں گی یہ انقلاب کس طریقہ سے آئے گا اور کس انداز میں یہ مملکت
کو مثبت نتائج کی جانب لیکر جائے گا یہ تمام تفصیلات ابھی سامنے نہیں آئی
ہیں ۔ آج پاکستان کے نوجوانوں کو اگر ہم دیکھتے ہیں تو پتہ چلتا ہے کہ وہ
عمران خان کو تبدیلی کا پیغامبر سمجھتے ہیں ۔ اسلامی طبقات میں بہت سی
تفریقات دکھائی دیتی ہیں جمہوری جماعتوں میں ’’بچہ جمہورا کلچر‘‘کے علاوہ
کچھ دکھائی نہیں دیتا اس تمام گرد وغبار میں سمجھ نہیں آرہا کہ تبدیلی کیسے
آئیگی ۔لیکن ہم ایک مرتبہ پھر اپنے کالم کی تمہید کی جانب اپنے تمام پڑھنے
والوں کی توجہ مرکوز کروائیں گے کہ جب تبدیلی نے آنا ہوگا تو خود بخود
حالات بنتے چلے جائیں گے ۔ بالکل اسی طرح کہ جس طرح پاکستان کا قائم ہونا
ایک خواب تھا ، پاکستان کا قائم رہنا ایک سراب تھا اور پاکستان کا اسلامی
دنیا میں واحد جوہری طاقت بننا بھی ناقابل یقین تھا اسی طرح انقلاب نے اپنا
راستہ خود بناناہے اور پاکستان کہ نصیب میں انقلاب لکھاجا چکا ہے یہاں بقول
چچا غالب ہم یہ کہتے چلیں ۔
منظور تھی یہ شکل ، تجلی کو نور کی
قسمت کھلی ترے قدورخ سے ظہور کی
اک خونچکاں کفن میں کروڑوں بہاؤ ہیں
پڑتی ہے آنکھ تیرے شہیدوں پہ حور کی
گرمی سہی کلام میں ، لیکن نہ اس قدر
کی جس سے بات اس نے شکایت ضرور کی
قارئین! تبدیلی کے اس سفر میں پاکستان میں میڈیا جن مراحل سے گزر رہا ہے وہ
بھی تدریج کی جانب انتہائی واضح اشارے ہیں مختلف میڈیا ہاؤسز کے ساتھ جو جو
واقعات پیش آرہے ہیں وہ رائے عامہ کو متاثر کر رہے ہیں اور اس کے نتائج بھی
انقلاب اور تبدیلی کے اس سفر میں مرتب ہو رہے ہیں ۔یہاں ہم یہ بات بھی
بتاتے چلیں کہ ہم نے آزاد کشمیر ریڈیو ایف ایم 93میرپور میں گزشتہ چند
سالوں کے دوران آٹھ سو کے قریب انتہائی اہم شخصیات جن میں موجودہ صدر و
وزیراعظم آزاد کشمیر ، سابق صدور و وزرائے اعظم ، وفاقی وزراء ، سیاسی
جماعتوں کے قائدین ، تحریک انصاف کے قائد عمران خان سے لیکر پاکستان کو
ایٹمی قوت بنانے والے محسن پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان اور پاکستان میں
تعلیمی انقلاب برپا کرنے والے ڈاکٹر عطا الرحمن سمیت مختلف لوگوں سے
سینکڑوں انٹرویوز میں یہ بات نوٹ کی ہے کہ تمام قیادت احساس زیاں رکھتی ہے
اور ’’لائیو ٹاک ود جنید انصاری‘‘ میں درد دل کیساتھ مختلف قومی شخصیات نے
اس منزل گم گشتہ کی جانب بارہا اشارے کیے کہ جس منزل کے حصول کیلئے لاکھوں
مسلمانوں نے اپنے لہو سے داستان حریت لکھی تھی ۔ اسی طرح ہم نے آزاد کشمیر
کے سب سے پہلے لائیو ویب ٹی وی چینل ’’ کشمیر نیوز ڈاٹ ٹی وی‘‘ کے مقبول
ترین پروگرام ’’لائیو ٹاک ود جنید انصاری اینڈ راجہ حبیب اﷲ خان‘‘میں بھی
مختلف اہم ترین شخصیات سے جوٹی وی انٹرویوز کیے ان میں بھی تبدیلی کی تڑپ
واضح طور پر دکھائی دی ۔ سابق ڈائریکٹر جنرل آئی ایس آئی جنرل حمید گل نے
ایسے ہی ایک انتہائی اہم انٹرویو میں پاکستان کے قیام کو بھی ایک خواب کو
حقیقت میں تبدیل ہونا قرار دیا اور اس منزل کی جانب ٹھوس اندازمیں اشارہ
دیا کہ جب پاکستان امت مسلمہ کی قیادت کریگا ۔ اﷲ کرے کہ مشکل کی یہ گھڑیاں
جلد ختم ہوں اور وہ وقت آئے کہ جب یہ سنہری سویرا ایک حقیقت بن کر پوری
انسانیت کیلئے فلاح کا پیغام لیکر سامنے آجائے ۔ آمین
آخر میں حسب روایت لطیفہ پیش خدمت ہے ۔
سروے کرنے والے ایک ادارے نے ایک سرکاری دفتر کے انچارج کو سوال لکھ کر
بھیجا ۔
’’آپ کے ہاں کتنے لوگ کام کرتے ہیں ‘‘
دفتر کے انچارج نے بہت سوچنے کے بعد جواب لکھا ۔
’’سو میں سے چار پانچ‘‘
قارئین! بدقسمتی سے انقلاب اور تبدیلی کی باتیں کرنے والے ہم تمام لوگوں
میں باعمل افراد کی کچھ کمی ہے ۔ مجھ سمیت ہم سب لوگوں کو ’’صاحبان قول
وقال‘‘ سے ’’صاحبان عمل ‘‘ میں تبدیل ہونا ہو گا۔ انقلاب اور تبدیلی تب ہی
آئیگی ۔ |