قوموں کا مقدر

لگتاہی نہیں یہ پاکستانی پولیس کے جوان ہیں ۔۔نہتے شہریوں کو ان کے اپنے خون میں لہو لہان کرنے والے۔۔ خواتین پر تشدد کی انتہا اور درجنوں افرادپر سٹیٹ گولیاں برسانے والے ۔۔دل مانتا ہی نہیں کوئی پاکستانی اتنا شقی القلب بھی ہو سکتاہے ۔۔۔اپنے ہم وطنوں سے انسانیت سوزیہ سلوک کہ دل کانپ کانپ جائے ۔ نوجوانوں بوڑھوں، عورتوں سے کوئی امتیاز نہ تمیز ۔۔ ایسا سنتے آئے تھے کہ مقبوضہ کشمیرمیں بھارتی درندوں نے ظلم وبربر یت کا بازار گرم کررکھاہے یا پھر ہمارے شیر جوانوں نے انگریز دورمیں جلیانوالہ باغ میں جنرل ڈائر کی یاد تازہ کردی ۔۔۔لوگ ایک دوسرے سے پوچھتے پھرتے ہیں سانحہ ٔ لاہور کیونکر پیش آیا؟ پورے لاہور میں ہرپوش آبادی۔ہر بااثر شخصیت کی رہائشگاہ اور ہرپولیس اسٹیشن،بڑے سکول، کالج اور محکمے کے مین گیٹ پر بیریئر لگے ہوئے ہیں بلکہ دہشت گردی کے پیش ِ نظر حکومت نے خود ایسا کرنے کی ہدایات دی ہوئی ہیں ماڈل ٹاؤن میں درجنوں مقامات پر بیریئر لگے دکھائی دیتے ہیں اس کے باوجود صرف منہاج القرآن سیکرٹریٹ سے بیریئر ہٹانے کا حکم دینا ایک معمہ بلکہ عجوبہ ہے اس مقصد کیلئے آدھی رات کو پولیس کی بھاری اور مسلح نفری کے ساتھ اپریشن کلین اپ کرنا بد نیتی ظاہر کرتاہے یہاں بیرئیر ہٹانا مقصودہوتاتو ایسے حالات پیدا ہی نہیں ہوسکتے تھے۔لوگ کہتے ہیں پولیس نے منہاج القرآن سیکرٹریٹ پر اس انداز سے دھاوا بولا جیسے کوئی غیر ملکی دہشت گردیا جا سوس گرفتار کرنا ہوں اس کے ساتھ ساتھ گلو بٹ نامی شیر ِ لاہورنے مار دھاڑسے بھرپور اداکاری کرکے مولا جٹ کو مات دیدی۔ایک بات سمجھ سے بالا ہے کہ منہاج القرآن سیکرٹریٹ سے بیرئیر ہٹانااتنا بڑا یا حساس معاملہ نہ تھا جس پرپولیس نے کشت وخون سے ہلاکو خان کا کردار ادا کرنا اپنا فرض جان لیا دنیا بھرمیں جہاں سنگین معاملات بھی درپیش ہوں قانون نافذ کرنے والے ادارے ہمیشہ لوگوں پرظلم کرنے سے گریز کرتے ہیں احتجاجی مظاہرین کو منتشر کرنے کیلئے پانی کی تیز دھاریں پھینکی جاتی ہیں حالات زیادہ حدسے گذر جائیں تو ربڑکی گولیاں مارنے پر اکتفاکیا جاتا ہے۔ گولی چلانے کی اجازت انتہائی مجبوری کے عالم میں دی جاتی ہے کوشش کی جاتی ہے کہ ہوائی فائرنگ کی جائے یا مظاہرین کی ٹانگوں میں فائر کئے جائیں تاکہ جانی نقصان کم سے کم ہو لیکن سانحہ ٔ لاہور میں نہ جانے کیوں پولیس نے نشانہ باندھ کر سٹیٹ گولیاں برسا ڈالیں یہ تو ٹارگٹ کلنگ والی صورت ِ حال ہوئی نا! منہاج القرآن سیکرٹریٹ سے بیریئر ہٹانے کے معاملہ پر لگتاہی نہیں یہ پاکستانی پولیس کے جوان ہیں ۔۔ بہرحال یہ معاملہ اتنا بھی سادہ نہیں لگ رہا جتنا تاثر دینے کی کوشش کی جارہی ہے شنیدہے کہ ’’ اپریشن مڈ نائٹــ‘‘ کا سب سے بڑا مقصد منہاج القرآن سیکرٹریٹ پر قبضہ کرنا تھا جہاں کارکنوں سے موجودہ حکومت کے خلاف طاہر القادری کا ساتھ دینے کیلئے عہدو پیمان اور حلف لیا جارہا تھا ۔ جب پولیس نے دھاوا بولا اسی وقت شیخ الاسلام کو خبر کردی گئی جنہوں نے ذاتی طورپرپل بھر میں ملکی و غیرملکی میڈیا کو با خبر کردیااوریوں پل پل کی رننگ کمنٹری دنیا بھر میں دیکھی جانے لگی نہتے شہریوں کو ان کے اپنے خون میں لہو لہان کرنے والوں نے شاہ سے زیادہ شاہ کے وفادار بن کر میاں شہباز شریف کی کوئی خدمت نہیں کی۔ باخبر لوگوں کا کہناہے کہ سانحہ ٔ لاہورپر خادم ِ اعلیٰ خاصے مضطرب اور اداس اداس ہیں لیکن ایک بات کی ابھی تک سمجھ نہیں آئی18گھنٹے کا اپریشن، میڈیا پر لمحہ بہ لمحہ کوریج ،آنکھوں دیکھا حال اورنہتے لوگوں کی ہلاکت کے باوجود میاں شہباز شریف کا لاعلم رہنا تجاہل ِ عارفہ ہے یا واقعی جان بوجھ کر انہیں حالات سے بے خبر رکھا گیاہے ۔اس بات پر ہر دردِ دل رکھنے والامتفق ہے جو کچھ ہوا وہ ہرگزنہیں ہونا چاہیے تھا اختلاف رائے برداشت کرنا جمہوریت کا حسن اور صحتمند روایت ہے مخالفین کو جان سے مارڈالنا درندگی کی انتہا اور فسطائیت کی علامت ہے۔میاں نواز شریف اورمیاں شہباز شریف اپنے وزیروں ،مشیروں اور پارٹی عہدیداروں کو بھی انسانیت سے محبت کی تلقین کریں اتنا ظلم اور احتجاج کے باوجود اب بھی کچھ ’’سیانے‘‘ حکومتی دفاع میں بے سروپا باتیں کرکے ماحول خراب کرنا چاہتے ہیں پرویز رشید نے ایک ایسی بات کہہ ڈالی جس کی امید بھی نہیں کی جا سکتی تھی اپنے تازہ ترین ارشادمیں انہوں نے فرمایا ہے سانحہ ٔ لاہور میں طاہرالقادری بھی ملوث ہو سکتے ہیں یعنی گولیاں برسانے والے پولیس اہلکار شیخ الاسلام نے بھجوائے ہوں گے اس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ درجن بھرسے زائد لوگوں کی ہلاکت کے بعد بھی اگرکسی نے کچھ نہیں سیکھا تو پھر ایسی سوچ پر انا ﷲ وانا الیہ ِ راجعون ہی پڑھا جا سکتاہے ہمارے شیر جوانوں نے انگریز دورمیں جلیانوالہ باغ میں جنرل ڈائر کی یاد تازہ کردی اور حکومتی سیانے اس کے حق میں بھی دلیلیں دے رہے ہیں یار کمال ہوگیا اقتدار کا جادو اتنا سر چڑھ کر بولتا کبھی کبھارہی دیکھنے میں آتاہے۔ میاں شہباز شریف سانحہ ٔ لاہور کے ذمہ داروں کو کیفرِ کردار تک پہچانے کی بات کرتے ہیں اور ان کے ساتھی اس کے برعکس باتیں کرکے اپنے ہی وزیر ِ اعلیٰ کی کوششوں کو سبوتاژ کررہے ہیں اب معلوم نہیں یہ بوکھلاہٹ ہے، نئی حکمت ِ عملی یا پھرحالات سے توجہ ہٹانے کی کوشش ۔۔۔کہ عوام یونہی تقسیم درتقسیم ہوتے رہیں اور سیاستدانوں کے گلشن کا کاروبار بھی چلتا رہے۔ جو ہونا تھا ہو چکا اب ٹھنڈے دل و دماغ سے حالات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے شیخ الاسلام طاہر القادری کی آمد پر تدبر،فہم وفراست اور بہترین منصوبہ بندی سے معاملات بہتر بنائے جا سکتے ہیں کہتے ہیں اس تحریک کو کامیاب ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا جس کی خون سے آبیاری کی گئی ہو طاہر القادری کے‘‘ انقلابــ‘‘ کو خود حکومت نے ایک درجن سے زائد بے گناہوں کا خون مہیا کر کے آسان بنادیاہے۔۔۔حکومت مخالف سب جماعتیں عوامی تحریک کے ساتھ ہیں ۔۔۔سانحہ ٔ لاہورکے باعث عوام کے دل میں طاہر القادری کیلئے نرم گوشہ پیدا ہو گیاہے اورپھر نظام بدلنے کی جو باتیں تواترسے شیخ الاسلام کررہے ہیں یہ عوام کی محرومیوں کو زبان ملنے والی بات ہے جس سے ہمدردیاں یقینا ان کے حصہ میں آرہی ہیں بلاشبہ طاہر القادری عوام کا لہو گر ماکر سوئے ہوئے جذبات آگ لگا نے کی صلاحیت رکھتے ہیں جبر،ظلم اور نامعقولیت سے اس نقلاب کو روکا گیا تو عوامی جذبات بپھر سکتے ہیں یاد رکھیں جذبات بھی پانی کی مانند ہوتے ہیں پانی کو راستہ نہ ملے تو وہ خود راستہ بنا لیتا ہے جذبات کو راستہ نہ ملے تو سب کچھ تہس نہس بھی ہو سکتاہے جب انقلاب ناکام ہو جائے تو خانہ جنگی قوموں کا مقدر بن جاتی ہے۔۔۔ خدا خیر کرے۔
Sarwar Siddiqui
About the Author: Sarwar Siddiqui Read More Articles by Sarwar Siddiqui: 111 Articles with 84294 viewsCurrently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.