ایک آدمی تین پریشانیوں کا شکار تھا یا یوں سمجھئے کے اس
کی تین خواہشات تھیں پہلی تو یہ کہ بہت غریب تھا اور چاہتا تھا کہ کسی طرح
اس کی غربت خوشحالی میں تبدیل ہو جائے دوسری پریشانی ، مشکل یا خواہش یہ
تھی کافی عرصہ شادی کو ہو گیا تھا اور اس کے یہاں کوئی اولاد نہیں ہوئی تھی
وہ لاولد تھا اور بڑی شدید آرزو تھی کہ اس کے یہاں اولاد ہو جائے تیسری
خواہش یہ تھی اس کی ماں جو بوڑھی تھی لیکن نابینا ہوگئی تھی وہ چاہتا تھا
کہ میرے پاس اتنے پیسے آجائیں کہ میں اپنی والدہ کا بہت اچھا علاج کرکے ان
کی بینائی واپس دوبارہ بحال کرادوں۔ایک دن ایک فقیر نے اس کے دروازے پر
آواز لگائی کہ میں بھوکا ہوں کوئی مجھے کھانا کھلادے اس شخص نے اس فقیر کو
روکا اور اسے کھانا کھلا دیا کھانا کھانے کے بعد فقیر نے اس آدمی سے کہا کے
تو نے مجھے کھانا کھلایا میرا پیٹ بھرا تیری جو خواہش وہ تو بتادے میں اﷲ
سے دعا کروں گا اور مجھے امید ہے کہ اﷲ تعالی میری دعا قبول کرلے گا بس تو
اپنی ایک خواہش بتادے ۔اب وہ شخص سوچ میں پڑگیا کہ ماں کی بینائی کی بات
کروں تو ماں کی آنکھیں تو آجائیں گی لیکن غربت کی پریشانی اور بے اولاد
ہونے کا غم قائم دائم رہے گااور اگر اولاد کی دعا منگواؤں تو ماں بھی اندھی
رہے گی اور غربت بھی ختم نہیں ہو گی اور اگر غربت سے خوشحالی کی تبدیلی کی
بات کروں تو ماں کا علاج تو کرالوں گا لیکن اولاد کی خواہش پوری نہ ہو سکے
گی ،وہ کچھ دیر خاموش رہا پھر ایک ترکیب اس کے دماغ میں آئی اور اس نے فقیر
سے کہا کہ میری تو بس ایک ہی خواہش ہے اور آپ اﷲ سے اسی خواہش کے پورے ہونے
کی دعا مانگیے وہ یہ کہ میں چاہتا ہوں کہ میری ماں اپنے پوتے کوسونے کے
کٹورے میں دودھ پیتا ہوا دیکھے۔دیکھیے اس نے کس عقلمندی سے اپنی تینوں
آرزؤں کو ایک ہی جملے میں پرو دیا ۔مولانا طاہرالقادری کے حوالے سے موجودہ
حکومت بھی تین قسم کی پریشانیوں کا شکار تھی پہلی تو یہ کہ اسلام آباد جو
بین الاقوامی شہر ہے ملک کا دارالخلافہ ہے وہاں اگر مولانا اتر گئے اور پھر
کوئی بڑا تصادم ہو گیا تو بین الاقوامی سطح پر اس کے بڑے گہرے منفی اثرات
مرتب ہوں گے ویسے بھی جو خفیہ ایجنسیوں کی رپورٹیں آرہی تھیں یا ایک منصوبے
کے تحت بنوائی جا رہی تھیں اس نے پورے اسلام آباد میں خوف اور سراسمگی کی
فضا پیدا کردی تھی اور یہ جان بوجھ کر کیا گیا تاکہ حکومت کوئی دوسرا قدم
اٹھائے تو اس پر بہت زیادہ تنقید نہ ہو اور اسلام آباد کے رہائشی بھی سکون
کا سانس لے سکیں دوسری پریشانی یہ تھی کہ مولانا اتر گئے اور اسلام آباد
میں کچھ نہیں ہوا اور یہ پر امن طور پر اپنا قافلہ لے کر اسلام آباد سے
لاہور کی طرف مارچ کرتے ہیں تو کہیں ایسا نہ ہو کہ مہنگائی،بے روزگاری اور
لوڈشیڈنگ کے عذاب میں گرفتار افراد پنجاب کے چھوٹے بڑے شہروں سے نکل کر
آجائیں اور یہ قافلہ عوامی انقلاب کی شکل اختیار کرلے تیسری اہم نوعیت کی
الجھن یہ تھی اگر یہ عوامی قافلہ طاہری قیادت میں لاہور آگیا تو لاہور کی
انتظامیہ جو پہلے ہی ماڈل ٹاؤن کے سانح پر نفسیاتی اور اعصابی دباؤ کا شکار
ہے دوسری طرف عوامی تحریک کے کارکن جو پہلے ہی بہت مشتعل ہیں تو پھر لاہور
جو پورے ملک کا اعصابی مرکز ہے کسی بڑے تصادم کی گرفت میں نہ آجا ئے ا ور
پھرملکی سیاست پر اس کے کیا اثرات پڑتے اس کا تصور بھی خوفناک تھا ۔اب
حکومت ان تینوں مشکلات سے نکلنے کا کوئی ایک راستہ تلاش کرہی تھی ریاست بڑی
طاقتور ہوتی ہے اور پھر طاقتوروں کو مشیر بھی اچھے مل جاتے ہیں پھر وہی
ترکیب سوچی گئی جو1999میں رو بہ عمل لائی گئی تھی کہ جس طرح پرویز مشرف کے
طیارے کو کسی ائیر پورٹ پر لینڈنگ کی اجازت نہیں دی اور وہ اس وقت اتر سکے
جب نواز شریف کی حکومت ختم ہو چکی تھی لیکن اس مرتبہ مولانا طاہرالقادری کے
طیارے کو صرف اسلام آباد میں لینڈنگ سے روکا گیا اور اسے لاہور میں اتارا
گیا طیارہ جب لاہور ائیر پورٹ پر اترا تو اس وقت حکومت وقت نفسیاتی طور پر
دو مشکلات پر قابو پاچکی تھی اور اس کا مورال جو کئی دنوں سے مائل بہ زوال
تھا اچانک بلند سطح پر آگیا ایک تو اسلام آباد کا خطرہ ٹل گیا دوسرا وہ
عوامی قافلہ جو اسلام آباد سے لاہور تک کا سفر طے کرتا اس سے بھی جان چھوٹ
گئی اس نفسیاتی فتح نے حکومت کی سودے بازی کی پوزیشن کو مضبوط کردیا اور جب
طاہر القادری صاحب نے یہ مطالبہ کیا کہ انھیں واپس اسلام آباد پہنچایا جائے
تو سرکار نے اس مطالبے مسترد کرنے میں کوئی دیر نہیں لگائی پھر ان کا دوسرا
مطالبہ یہ سامنے آیا کہ انھیں جہاز سے اتارنے کے لیے کور کمانڈر کو بھیجا
جائے اس پرحکومت خاموش رہی ادھر مولانا کئی جگہ فون کرتے رہے لیکن ایسے
موقع پر عموماَ نو ریسپانس ملتا ہے مولانا کے چہرے سے مایوسی نمایاں ہونے
لگی تھی جو سب پڑھ رہے تھے ملک کی سات شخصیتیں براہ راست اس مسئلے کو حل
کرنے کی کوشش کرہی تھیں ان میں نواز شریف ،شہباز شریف،چوہدری نثار،گورنر
سندھ،گورنر پنجاب،اور چوہدری شجاعت کی کوششوں سے یہ طے ہوا کہ مولانا کا یہ
مطالبہ مان لیا جائے کہ گورنر پنجاب انھیں لینے کے لیے آئیں مولانا نے اس
تاثر کو ضائع کرنے کے لیے کہ وہ سرکاری مہمان بن کے گورنر پنجاب کے ساتھ
طیارے سے باہر آئے ہیں باہر میڈیا سے یہ بات کہا کہ میں گورنر صاحب کے ساتھ
اس لیے باہر نہیں آیا کہ پنجاب کے گورنر ہیں بلکہ یہ میرے دیرینہ دوست ہیں
اور ایک دوست کی حیثیت سے ان کے ساتھ آیا ہوں ایک موقع پر انھوں نے کہا کہ
سیکیو ریٹی مسائل کی وجہ سے گورنر کے ساتھ سفر کرہا ہوں کہ مجھے کچھ ہو گا
تو یہ بھی میرے ساتھ ہوں گے ۔مولانا تو اور بھی دیر تک طیارے میں بیٹھنے کا
ارادہ رکھتے تھے لیکن کچھ بین الاقوامی قانونی مسائل تھے پھر یہ ایمریٹ
ائیر کی انتظامیہ نے پندرہ منٹ کا وقت دیا اور کہا کہ اس کے بعد طیارے کا
اے سی بند کردیا جائے گا ۔بہر حال حکومت اور مولانا کے درمیان یہ ایک
اعصابی جنگ بھی تھی اس میں کوئی شک نہیں کہ مولانا طاہرالقادری نے حکمرانوں
کے اعصاب کو ہلا کر رکھ دیا تھا لیکن دوسری طرف سرکارنے جو اسٹریٹیجی
اختیار کی وہ بھی کمال درجے کی تھی اب یہ مرحلہ تو پایہء تکمیل کو پہنچا اب
آگے کا منصوبہ کیا ہے یہ مولانا جلد بتائیں گے ہو سکتا ہے اب گرینڈ الائنس
کی ڈگڈگی بجائی جائے ۔ |