اس سے پہلے کہ....

جب لوگ یہ کہتے ہیں کہ خدا دیکھ رہا ہے
تو میں دیکھنے لگتا ہوں کہ کیا دیکھ رہا ہے
ملکی سطح پر موجود کسی بددیانتی کا ذکر ہو یا ضلعی سطح پر ہونے والے گھپلوں کی داستاں ہمارے اذہان میں فورا سیا ستدانوں کا خیال آنے لگتا ہے۔ یہ بات نہیں کہ سیاستدانوں پر اٹھنے والی تمام انگلیاں غلط ہوتی ہیں یا ہمارے سیاستدان بہت پارسا ہو گئے ہیں، جہاں بہت سے عوامی نمائندوں پر کرپشن کے داغ ہیں وہیں بعض ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو صحیح معانوں میں خدمت خلق کو اپنا شعار بنائے ہوئے ہیں۔ بحیثیت قوم جہاں تنقید برائے تنقید ہماری ریت بن چکی ہے وہیں اپنے گریبانوں میں جھانکنا ہمیں لامعانی سا لگنے لگا ہے۔رمضان کی آمد کے ساتھ ہی ہے عام آدمی کی کھال اتارنے کے لئے گرانفروشوں نے چھریاں تیز کر لی جائیں گی اور دونوں ہاتھوں سے لوٹنے کا عمل شروع کر دیا جائے گا۔ایک سبزی فروش سے لے کر مارکیٹ کمیٹی کے افسران تک اور ان افسران کے اوپر بیٹھے دیگر اعلی عہدیداران، سبھی عیدی کے نام پر اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھونے میں مصروف ہو جائیں گے۔دیگر ممالک میں مذہبی و ثقافتی تہواروں پر تمام اشیائے خوردونوش کی قیمتوں پر چھوٹ دی جاتی ہے مگر میری قوم کا تو ہر کام ہی نرالا ہے،ہم نے اپنے مقدس تہواروں کو کمائی کا ذریعہ بنا لیتے ہے اور اس مکروہ دھندا میں ایک ریڑھی بان سے لے کر اسمبلی میں بیٹھے وزیروں تک ،سبھی شامل ہوتے ہیں۔اس ملک کے باسی کسی بھی قانونی اور رفاحی کام کے لئے اس قدر متحد نہیں ہوتے جنتا کسی بھی غیر قانونی اور مفاد عامہ کے خلاف ہونے والے کام تندہی سے کام کرتے ہیں۔ ہر برے کام کے لئے اس قدر مضبوط مافیا سرگرم عمل ہے کہ اس کا سراغ لگا کر اس کے خلاف کاروائی کرنا ناممکن سا لگتا ہے کیونکہ اس مافیا میں بہت سے لوگ اہل اقتدارمیں سے ہوتے ہیں۔رمضان کی آمد کے ساتھ ہی جہاں ہر شے کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگتی ہیں وہیں ملاوٹ شدہ اور گھٹیاو غیر معیاری اشیاء کی بھی بہتات نظر آتی ہے۔رمضان المبارک میں گوشت کی فروخت میں بھی نمایاں اضافہ دیکھا جا سکتا ہے۔مگر آپ نے اور میں نے یہ کبھی تصور بھی نہیں کیا ہو گا کہ جو تصدیق شدہ گوشت ہم اپنے اور اپنے بچوں کے لئے لے کر جا رہے ہیں، وہ گوشت نہیں زہر ہے۔سرکاری مذبحہ خانوں میں یا تو ڈاکٹر موجود ہی نہیں ہوتا اور اگر ہوتا ہے تو وہ ملی بھگت سے مردہ اور بیمار گوشت کو درست قرار دے کر بہت سی معصوم جانوں کے ضیاع میں اپنا حصہ ڈال رہا ہوتا ہے۔یہ مکروہ دھندا صرف سرکاری مذبحہ خانوں تک محدود نہیں بلکہ مردہ گوشت گروخت کرنا باقاعدہ ایک کاروبار بن چکا ہے۔کئی کئی دن سے مردہ پڑے ہوئے جانوروں کو ذبح کر کے ان کا گوشت بازاروں میں فروخت کے لئے بھیج دیا جاتا ہے۔گوشت میں پانی بھر کر اس کا وزن بڑھایا جاتا ہے۔ان جانوروں کے سر، پایوں اور غلیظ انتڑیوں سے بناسپتی گھی کی تیاری کس قدر مکروہ جان لیوا دھندہ ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل نہیں ۔ہمیں سرخ مرچوں کے نام پر اینٹیں، دودھ کے نام پر ہئیر ریموول پاؤڈر،کولڈ ڈرنکس اور مشروبات کے نام پر زہریلا کیمیکل ملا پانی،اصل قیمت کی ادائیگی پر جعلی تیل ، جعلی کھاد ، جعلی ادویات دی جا رہی ہیں۔مگر ان مکروہ دھندوں سے اپنی جیبیں بھرنے والے، کوٹھیاں اور جاگیریں بنانے والے، منرل واٹر پینے والے،سرکاری اخراجات پر چیک اپ کے لئے دبئی، لندن اور امریکہ جانے والے لوگ کیا جانے کہ ایک غریب کی کل کائنات اس کی اولاد ہوتی ہے اور جب ان کے ان دھندوں کی وجہ سے کسی کا بھائی ، کسی کا بیٹا، کسی کا شوہر، کسی کے بڑھاپے کا واحد سہارا دنیا سے چلا جاتا ہے تو اس کے لواحقین پر کیا کیا قیامتیں ٹوٹ پڑتی ہیں۔ میرے پاس الفاظ ختم ہوئے جا رہے ہیں، سوچ رہا ہوں کہ اس سے آگے کیا لکھوں۔میں حکومت وقت سے اپیل کرتا ہوں کہ خدارا! ان مردہ گوشت بیچنے والوں،جعلی و ناقص اشیاء کی تیاری و فروخت میں ملوث تمام افراد کو فی الفور کڑی سے کڑی سزا دی جائے اور اس میں اگر کسی بڑے آدمی کا نام بھی آتا ہے تو اسے بھی ہر گز، ہر گز معاف نہ کیا جائے۔اب بھی وقت ہے کہ اپنا قبلہ درست کر لیا جائے، اس سے پہلے کہ بہت دیر ہو جائے۔۔۔۔

Tajammal Mahmood Janjua
About the Author: Tajammal Mahmood Janjua Read More Articles by Tajammal Mahmood Janjua: 43 Articles with 35227 views Currently, no details found about the author. If you are the author of this Article, Please update or create your Profile here.