پاکستان ایسو سی ایشن دبئی کی جانب سے منعقدہ ایک تقریب
میں مجھےسبکدوش کرنل اشفاق حسین کو’’مومن ہو تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی‘‘
کی امتیازی شان کے ساتھ قلمی جہاد فرماتے ہوئے دیکھنے کی سعادت نصیب ہوئی
اور پھر یہ بھی ہواکہ ’’نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں ‘‘ کی
مصداق انہوں نےوہاں موجود تمامسامعینکادل جیت لیا ۔فوج کو لوگ باگ کانٹوں
کی سیج اور صحافت کو پھولوں کا ہار سمجھتےہیں اس لئے اکثر آرزو مند فوجی
حضرات تلوار کو پھینک کر قلم (یاآج کل ٹی وی کے پردے پر مائک)کو سنبھالنے
کیلئے اس قدر بے چین ہوتے ہیں کہ جیسے ہی وظیفہ کے مستحق قرار پاتے ہیں قبل
از وقت سبکدوش ہو کرصحافت کی چکا چوند دنیا میں قدم رنجا فرمالیتے ہیں۔
اس کے برعکس چونکہ کرنل اشفاق حسین کرنل صاحبایک روایت شکن انسان ہیں اس
لئے نصف صدی قبلذرائع ابلاغ میں اپنی کامیابیوں کے جھنڈے گاڑنے کے بعدوہ
صحافت کی چمک دمک کو خیرباد کہہ کرفوج میں داخل ہوگئےاوربنجر و سنگلاخ
عسکری زمین پر ظرافت کے رنگ برنگے خوشبودار پھول کھلا نے میں مصروف ہو گئے۔
بارہ سال قبل مجبوراًفوجی وردی کو اتار پھینکنے کے بعد بھی سبکدوشکرنل صاحب
گلشنِ ادب کو گلِ گلزار کرنے کے کارِ خیر میں لگے ہوئے ہیں ۔ الحمد اللہ یہ
سلسلہ ہنوز جاری و ساری ہے اور ہم جیسے قارئین کی دعا ہے اللہ کرے زورِ قلم
اور زیادہ ۔غالب نے کہا تھا ؎
سو پشت سے ہے پیشۂٔ آباء سپہ گری
کچھ شاعری ذریعۂ عزت نہیں مجھے
غالب اس دور کا شاعر تھا جب غلامی کی بس آمد آمد تھی لیکن منیر نیازی کے
زمانے تک جس کا خودانہوں نے اعتراف اس طرح کیا ہے کہ ’’نسلوں کا فاصلہ ہے
میرے ان کے درمیاں‘‘ امت غلامی میں طاق ہو چکی تھی۔ گردشِ زمانہ کےنشیب و
فراز نے ’جو تھا ناخوب بتدریج وہی خوب ہوا ‘ کی مصداق ہماری کایا پلٹ
کےکررکھ دی ۔ من حیث القوم ہم تلوار کے بجائے قلم پر قناعت کر بیٹھ گئے اور
اسی کو اپنے لئے باعثِ فخر و سعادت سمجھنے لگے ۔ ایسے میں منیر نیازی کو
کہنا پڑا ؎
سو پشت سے تھا پیشۂ آباء سپہ گری
کچھ شاعری ذریعۂ عزت ہوئی مجھے
مندرجہ بالا دونوں اشعارمیں معمولی سی تبدیلی سے معنیٰ اور مفہوم میں زمین
آسمان کا فرق واقع ہوجاتا ہے اوراس کی وجہ نفسیاتی ہے۔فوج پیشے کا نہیں
ایک مخصوص طرزِ فکر و عمل کا نام ہے ۔ غالب چونکہ فوجی ذہنیت کے حامل تھے
اس لئے شاعری بھی کرنے کا فیصلہ کیا تو اپنا تخلص غالب رکھا حالانکہ فتح و
غلبہ کا تعلق شاعری سے نہیں جنگ و جدال سے ہے ۔ شاعری تو منیر نیازی جیسے
عاجز و نیازمندلوگوں کاشعارہوتا ہے جوبڑی انکساری کے ساتھ اعتراف کرتے ہیں
کہ ؎
زندہ رہیں تو کیا ہے جو مر جائیں ہم تو کیا
دنیا سے خامشی سے گزر جائیں ہم تو کیا
اس لئےمیری تو رائے یہ ہے کہ سپہ گری کی نفسیا ت سے نہ ہی کوئی غیر فوجی
کما حْقہُ واقف ہو سکتا ہے اور نہ اس کی معرفت ہی کروا سکتا۔ اس کام کیلئے
تو عقل و خرد کا حامل فوجی درکار ہوتاہے جو بقول کرنل اشفاق حسین اپنی
تربیت کے دوران نہ صرف زخمی بلکہ شہید بھی قراردیا جاچکاہو۔کرنل صاحب نے
فوجی تربیت کے دوران جعلی زخمیوں اور شہیدوں کی دو نہایت عمدہ مثالیں پیش
کیں ۔ انہوں نے بتایا فوج میں تربیت کے دوران فوجی دستوں کومختلف فرضی
صورتحال سے گزارہ جاتا ہے مثلاً کسی ایسے درہّ کو پار کرنا جس پر دشمن
تعینات ہو۔زیرتربیت دستہ جس احتیاط کے ساتھ اس میں سے گزرتاہے اس کی بنیاد
پر ممتحن فیصلہ کردیتا ہے کہ اس میں سے کتنےفوجی مارے گئے اور کون کون زخمی
ہوا۔ ایک فوجی ٹرک اسی طرح کی تربیت سے لوٹتے ہوئے خراب ہو گیا۔ گاؤں
والوں کو مدد کیلئے بلایا گیا تو انہوں نے دیکھا ٹرک کے اندر کئی فوجی
موجود ہیں لیکن نیچے اتر نہیںرہےلوگوں کے استفسار پر انہیں بتلایا گیا کہ
یہ سب زخمی ہیں حالانکہ سب کے سب بھلے چنگے تھے۔
ایک اور دفعہ ان سے کسی افسر دوست نے شکایت کی کہ مجھے اس پل کے پار جاکر
چائے پینی ہے لیکن یہ چوکیدارسپاہی ہے کہ جانے نہیں دیتا۔ کہتا ہے کہ یہ پل
تباہ ہو چکا ہے حالانکہ وہ صحیح سلامت ہے ۔ کرنل صاحب نے کہا اس احمق کے
بجائے اس کے افسر سے بات کرو ۔ دوست نے بتایا میں نے افسر سے بات کی تو اس
نے جواب دیا کہ وہ شہید ہو چکا ہے۔ اب اس طرح کے تجربات و مشاہدات سے کوئی
شہری بھلا کیوں کر بہرہ ور ہو سکتا ہے؟اس لئے کرنل صاحب کی تحریر و تقریر
عسکری آداب واطوار اور تہذیب و تمدن کو جاننے کا نہایت معتبر اور دلچسپ
وسیلہ ہے۔ اس کی بنیاد قیاس و گمان کے بجائے حقائق پررکھی گئی ہے۔کرنل صاحب
کا انداز بیان اس قدر ظریفانہ ہے کہ ان کی معیت میں سامع یا قاری فرط و
مسرت کے عالم میں علم وعرفان کے بیش بہا موتی سمیٹتا چلا جاتا ہے اور بوریت
اس کےقریب نہیں پھٹکتی ۔
فوج اپنی تلوار کے زور سے زمینوں پر قابض ہوتی ہے لیکن فنکار اپنے قلم کی
مدد سےدلوں کو مسخر کرتا ہے اور اس کا بہترین نمونہ کرنل اشفاق حسین کی
ذاتِ گرامی ہے۔ ویسے یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ فوجیوں کوبہادری کے جوہر
دکھلانے کیلئے اپنی سرحدسے نکل کردشمن کی سرحدوں میں داخل ہونا پڑتا ہے
لیکن کرنلصاحب نے دوستوں کی سر زمین دبئی میں آکربت شکن محمود غزنوی کی
طرحامارات کی ایک ایک ادبی روایت کو چن چن کر توڑا۔ میں تو اس شخص کی تلاش
میں سر گرداں ہوں جس نے کرنل صاحب کو ہماری ان ساری رو ایتی کمزوریوں
سےواقف کرایا۔
آہنی زنجیروں کو توڑنا بہت آسان ہو تا ہے لیکن ذہنی شکنجوں سے آزادی
حاصل کرنا نہایت مشکل۔اس لئے کہ لوہے کا قفل ہرکس و ناکس کونظر آجاتا ہے
مگر دل پر پڑے ہوئے تالے دوسروں کوتوکجا خود اپنے آپ کو بھی دکھلائی نہیں
دیتے ۔ مجھے یہ اعتراف کرتے ہوئے خوشی محسوس ہوتی ہے کہ کرنل صاحب نے اپنی
شگفتہ ضرب کاری سے اس معرکہ کو بخوبی سر کیا۔ عسکری ادب میں جنٹلمین کے
حیثیت سے پہچانے جانے والے اس روایت شکن جرنیل نےاپنی مبارک مہم کی بسم
اللہ وقت کی پابندی سے کی ۔عصرِ حاضر کی ایک بڑی ستم ظریفی یہ ہے کہ
پابندیٔ وقت کے ساتھ پانچ وقت نماز قائم کرنے والی امت کوبھی وقت کا پابند
بنانے کیلئے فوجی ڈنڈے کی ضرورت پیش آتی ہے ۔
متحدہ عرب امارات کی روایت کایہ جز و لاینفک ہے کہ اگر کوئی ادبینشست
بعدمغرب شروع کرنا ہو تو عصر بعد کا اعلان کیا جائے اسی لئے جب مجھے بتایا
گیا کہ پروگرام ساڑھے سات بجے ہے تو میں سمجھ گیا کہ یہ ساڑھے آٹھ بجے
ہوگا ۔ حسب عادت جب میں ۹ بجے پہنچا تو لوگ نمازِ عشاء سے فارغ ہوکر اجتماع
گاہ میں جمع ہورہے تھے لیکن مجھے حیرت کا جھٹکا اس وقت لگا جب پتہ چلا کہ
یہ دوسری نشست ہے اور عشاء سے قبل ایک نشست ہو چکی ہے جس میں میرے چہیتے
مزاح نگار کبیر خان صاحب اپنی تحریر سنا کر فارغ ہوچکے ہیں اور دیگر کئی
اکابر اپنا خراجِ عقیدت پیش کرچکے ہیں ۔ کرنل صاحب کی تقریر کے دوران مژدہ
کھلا کہ مبادہ یہ فوجی تربیت کا اثر ہو ۔ اگر ایک فوجی کے اعزاز میں منعقد
ہونے والی تقریب میں بھی وقت کی پابندی نہ ہو سکے تو بھلا آئی ایس پی آر
ٹریننگ کا کیا فائدہ ؟
ہمارے یہاں منتظمین ِ کرامتقریب کے آغاز میں ہونے والی تاخیر کا ٹھیکرہ
سامعین کے سر پھوڑتے ہیں اور یہ کہہ کر بری الذّمہ ہوجاتے ہیں کہ اگر
شرکاءوقت پر نہ آئیں تو پروگرام وقت پر کیوں کر شروع کیا جائے۔لیکن یہ بھی
دیکھنے میں آیا ہے کہ سامعین تو کجا صاحب اعزاز اور منتظمین تک وقت پر
نہیں آتے۔ دبئی میں غالباً کورٹ مارشل کاخوف سب کو وقت پر لےآیا۔ میں نے
اپنا غم غلط کرنے کیلئے سوچا کبیر خان صاحب اپنے ہی آدمی ہیں ۔ ان سے
مضمون لے کر پڑھ لوں گا لیکن اس سے پہلے کہ میں جھولی پھیلاتا سامعین میں
سے ایک نوجوان نمودار ہوا اور کبیر خان صاحب سے ان کامضمون لے اڑا ۔میں
اپنی دوسری شکست پرہاتھ ملتا رہ گیا اور اپنے آپ کو بہلانے کیلئے سوچنے
لگا کسی مضمون کوپڑھنے اور سننے میں وہی فرق ہے جوکھونٹے پر ٹنگی ایک بے
جان وردی اور وردی پوش فوجی میں ہے۔ چھوڑو اس نوجوان کو ویسے بھی کوئی مزہ
نہیں آئیگا لیکن ایسا کرتے ہوئے میں بھول گیا کہ جس لطف کی محرومی کا میں
ماتم کررہا ہوںوہ نوجوان تو اس سے بہرہ مندہوچکا ہے اور اسے دوبالا کرنے کے
اہتمام میں بھی مجھ پر سبقت لےگیاہے۔
امارات کی ادبی دنیا کا سب سے بڑا بت شاعری ہے ۔ یہاں پر ادبی تقریب مشاعرہ
کے ہم معنیٰ ہوکر رہ گئی ہے ۔جب بھی نثری نشست پر گفتگوہوتی ہے تو کہہ دیا
جاتا ہے نثرمیں کسی کودلچسپی نہیں ہے ایسی نشست میں کوئی نہیں آئیگا وغیرہ
وغیرہ ۔میں اکثر سوچا کرتا تھا کہ آخراس حصار سے کیونکر آزاد ی نصیب ہو
لیکن اب پتہ چلا کہ اس کیلئے کسی کرنل کی ضرورت ہوتی ہے جس کا قلم تلوار سے
تیز ہو۔ کرنل اشفاق حسین کے اعزاز میں منعقد ہونے والی نثری نشست اس کی
زندہ مثال ہےجس میں نہ صرف شرکاء کی تعداد و دلچسپی قابلِ رشک تھی بلکہ نظم
و ضبط کے حوالے سے بھی یہ نہایت پروقار اور یادگار محفل تھی۔ حاضرین کے ذوق
و شوق نے ان تمام دلائل کی ہوا نکال دی جو نثری نشستوں کے خلاف پیش ہوتی
تھیں۔ کرنل صاحب کے اس احسان عظیم کیلئے شعراء حضرات نہ سہی لیکن جناب کبیر
خان اور مجھ جیسے نہ جانے کتنے نثر نگار ان کے ممنون و مشکور ہیں۔کرنل صاحب
کے اس چمتکار نے ایک اور خلش دور کردی کہ آخر فوجیوں کا ادب میں کیا کام ؟
یہ نہایت خوش کن انکشاف تھا کہ دنیائے ادب میں بہت سارے ایسے کام ہیں جنہیں
کوئی غیرفوجی نہیں کرسکتا ۔ ان کو انجام دینے کیلئے وردی پوش سپاہیوں کو
قلم تھام کر مارشل لاء نافذ کرنا پڑتا ہے۔
اردو دنیا میں ایک مایوس کن غلط فہمی یہ بھی پائی جاتی کہ کتاب سے ہمارا
رابطہ ٹوٹ گیا ہے لیکن اس بت کوتوڑنے کیلئے کرنل اشفاق حسین کی کتاب
جنٹلمین بسم اللہ کے ۲۵ ایڈیشن اور دیگر کتابوں کے مزید۴۰ ایڈیشنس کی
اشاعتکافی ہے ۔ گوں ناگوں وجوہات کی بناء پریہ ممکن ہے کہ کتابوں سے ہمارا
اپنارابطہ ٹوٹ گیا ہو لیکن آج بھی ایسے طلباء موجود ہیں جو امتحان کے
زمانے میں اپنی درسی کتابوں کے اندرکرنل صاحب کی کتاب چھپا کر پڑھتے ہیں
اوراپنی اس حرکت کا جواز بھی ان کے پاس موجود ہے۔ قصہ یوں ہے کہ کرنل اشفاق
حسین صاحب کو کسی طالب علم کا خط موصول ہوا جس میں لکھا تھا کہ امتحان کا
زمانہ ہے اور اس دوران وہ اپنی درسی کتاب کے اندر ان کی کتاب چھپا کر پڑھتا
ہے۔ کرنل صاحب نے اسے لکھا کہ برخوردار اپنے آپ پراور مجھ پر رحم کرو ۔
امتحان کے بعد میری کتابیں پڑھ لینا۔ اس طالب علم نے جواب دیا ۔ میں تو آپ
کوعقلمند آدمی سمجھتا تھا لیکن افسوس کہ آپ بھی میرے والد کی طرح بے وقوف
نکلے۔ آپ کواتنا بھی نہیں پتہ کہ اس زمانے میں درسی کتابیں پڑھ پڑھ کر ہم
لو گ کس قدر بور ہو جاتے ہیں اس لئے درمیان میں آپ کی کتاب پڑھنی پڑتی ہے
۔ جس مصنف کا قاری اس قدر ذہینوفطین ہو اس کی ذہانت کا اندازہ کرنا مشکل
نہیں ہے۔
دوسروں کی ہنسی اڑانا نہایت سہل ہوتا ہے لیکن اپنے آپ پر ہنسنا اوردوسروں
کوہنسانا بڑا مشکل کام ہے۔ جو لوگ دبئی کی نشست میں موجودتھے ان کو اس بات
کا اندازہ ہوگیا کہ کرنل صاحب کیلئے یہ بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔ کرنل صاحب
نے فوجی زندگی کے جو واقعات سنائےان میں کمال اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ تھا،
خودنمائی کے بجائےاپنے آپ کاتمسخراوردیگر افرد کی تعریف و توصیف کا پہلو
اجاگر ہوتا تھا مثلاً ایک افسرکا نووارد اشیاق حسین سے یہ سننے کے بعد بھی
کہ اسے بات کرنے کی تمیز نہیں ہے محض دلجوئی کی خاطر کہہ دینا کہ اس کے
بغیر تربیت رکی ہوئی اسلئے وہ تاخیر نہ کرے اور اس بہلوائے پرکرنل صاحب
کایقین کرلینا۔ اس کے علاوہ نفیساتی تفتیش کے دوران اپنے ناکام ہوجانے کا
برملا اعتراف اور اس کے باوجود منتخب ہوجانے کا ذکر۔سچ تو یہ ہے جن پاکیزہ
نفوس کے اندر عجز و انکسار پایا جاتا ہے رب کریم کی جانب سے ان کےتکریم و
احترام کا اہتمامکردیاجاتاہے اور جس پر العزیز و الرحمٰن مہربان ہوجائے اس
کیلئےقبولیت عام لکھ دی جاتی ہے ۔ اس کا ثبوت گلگت کا وہ طالب علم ہے جس نے
کہا تھاکرنل صاحب میں آپ پر جان نثار کرسکتا ہوں لیکن فی الحال آپ کو
دینے کیلئے میرے پاس صرف یہ معمولی سا قلم ہے۔
عصر حاضر کی نفسا نفسی کے عالم میں ہنسنے ہنسانے سے مشکل کام دوسروں کے دکھ
درد کو محسوس کرنا اور سامعین و قارئین کو اس غم میں شریک کرلینے کا فن ہے
۔کرنل صاحب نے اپنے خطاب کے اختتام پر میجر شبیر شریف شہید کا ذکر کیا اور
ان کی زندہ دلی کے ایسے واقعات سنائے جو’فاتح سبونہ‘ میں پڑھنے سے تعلق
رکھتے ہیں لیکن جب انہوں نے میجر شبیرکی شہادت کا واقعہ نہایت دلسوز انداز
میں بیان کیا توہال میں موجود کوئی ایک دل ایسا نہیں تھا جس نے میجر کی ماں
کا درد محسوس نہ کیا ہو اور کوئی ایک آنکھ ایسی نہ تھی جو نمناک نہ ہوئی
ہو۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آیا کہ وہ عقیدت و محبت کے بادل دبے پاؤں کہاں
سے وارد ہوئے اور کیونکر برسنے لگے ۔ کرنل صاحب نے محترمہ مریم جمیلہ کی
کتاب کا ترجمہ کرکے ایک باشعور مصلح کی ذمہ داری ادا کی ہے۔ موصوفہ نیویارک
کے یہودی گھرانے میں پیدا ہوئی تھیں اور مشرف بہ اسلام ہو کرامریکہ سے
لاہور آبسی تھیں۔ امید ہے کرنل صاحب کا یہ ثوابِ جاریہ روزِ قیامت ان
کیلئےعظیم اثاثہ قرار پائے گا۔
دبئی کی اعزازی تقریب میں بعد از خطاب سوال و جواب کا موقع تھا اور اس
دوران وہ راز افشاء ہوگیا کہ جس نے کرنل اشفاق حسین کو اس قدر عظیم مصنف
بنا دیا ہے کہ نہ وہ لکھنے سے تھکتے ہیں اور نہ قاری پڑھنے سے تھکتا ہے۔
مختلف پیچیدہ اور مایوس کن سوالات کے نہایت سہل اور امیدافزاء جوابات اس
حقیقت کی دلیل تھے کہ یہ خدادا وصف جسے حاصل ہو جائے وہ خود بھی خوش رہنے
کا سراغ پالیتا ہے اوردوسروں کواپنی خوشیوں میں شریک کرلینا اس کیلئے آسان
ہو جاتا ہے۔ یہ بھی ایک دلچسپ حقیقت ہے خوشیوں کو جس قدر تقسیم کیا جائے
انمیں اسی قدر اضافہ ہوتا چلا جاتا ہے۔
کرنل صاحب کو رب کائنات نے نہ صرف منفی روایات کو مسمار کرنے کے فن سے
نوازہ ہے بلکہ مثبت روایات کو قائم کرنے کی صفتِ عالیہ سے بھی آراستہ
فرمایا ہے ۔ عصر حاضر کے بازارمیں برانڈیڈ شہ ویسے بھی مہنگی بکتی ہے۔ کرنل
صاحب نے جنٹلمین کو اپنا ٹریڈ مارک یعنی امتیازی نشان بنا یااور اب تو یہ
عالم ہے کہ اگرکوئی اور بھی جنٹلمین ماشاء اللہ نام کی کتاب لکھ مارے تو
لوگ اسے کرنل اشفاق حسین کی تصنیف سمجھ کر پڑھنےلگیں گے لیکن بہت جلد انہیں
پتہ چل جائیگا کہ یہ اصلی نہیں بلکہ نقلی جنٹلمین ہے۔ کرنل صاحب کی جنٹلمین
استغفرا للہ جن لوگوں نے پڑھی ہے وہ جانتے ہیں کہ جو جعلی ہووہ جنٹلمین
نہیں ہو سکتا بقول شاعر ؎
ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہےفوج میں جنٹلمین پیدا
سمع خراشی معاف یہ علامہ اقبال کا نہیں میرااپنا شعر ہے ۔ اگر منیر نیازی
جیسا صاحبِ ثروت شاعر غالب کے شعر پر ہاتھ مار سکتا ہے تو مجھ جیسے حقیر
فقیر انسان کے گنجینۂ اقبال سے ایک آدھ شعر اچک لینے پر کسے اعتراض ہو
سکتا ہے ؟ یہ کرنل اشفاق حسین صاحب کا اعجاز ہے کہ ان پر زیر تحریرمضمون نے
مجھ جیسے خشک ماحولیاتی ڈاکٹر کو فائر کرکے شاعر بنا دیا۔ میں اس عنایت
کیلئے کرنل صاحب کا پیشگی شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے میرے اس
نوزائیدہنحیف و لاغر شعر کو اپنی داد سے نواز کر میری حاصلہ افزائی کی اور
دعا کرتا ہوں کہ کرنل صاحب ہماری ملاقات مزیداللہ والے جنٹلمین حضرات سے
کرواتے رہیں تاکہ ہماری کڑوی کسیلیزندگی میں ہنسی کے فوارے چھوٹیں اور
ماحول خوشگوار سے خوشگوار تر ہوتا چلا رہے۔ |