انتخابی نظام میں تبدیلی ناگزیر ہے۔ . . . . . . . .
ہمارے انتخابی نظام میں علاقے کے نمائندگی ایک ایسے شخص کے حوالے کردی جاتی
ہے جو ووٹنگ میں اپنے حلقے کی اکثریت کے لوگوں کا اعتماد حاصل کرنے میں
بُری طرح ناکام ہوتا ہے ۔
مثلا“۔ ۔ 2013 کے الیکشن میں قومی اسمبلی کے حلقہ نمبر 8 سے آفتاب احمد خان
شیر پاؤ 37 ہزار 44 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے ۔جبکہ انکی محالفت میں ووٹ ڈالنے
والوں کی تعداد 1 لاکھ 2 ہزار 1 سو تھی ۔
(انکی مخالف صرف چار بڑی جماعتوں کے نمائندوں نے مجموعی طور پر 90 ہزار کے
قریب ووٹ حاصل کیئے)
اب ایک معمولی عقل رکھنے والا بھی سمجھ سکتا ہے کہ 1 لاکھ 2 ہزار 1 سو
مخالفانہ ووٹ لینے والا صرف 37 ہزار 44 ووٹ (یعنی تقریبا“ ایک تہائی ووٹ)
لیکر حلقے کے لوگوں کی نمائندگی کرنے کا حقدار کیسے ہوگیا۔
اس طریقہء انتخاب میں موجودہ اقتدار مافیا ووٹوں کی غیرمنطقی تقسیم سے خوب
فائدہ اُٹھاکر اپنے نااہل امیدواروں کو جتوانے میں کامیاب ہو جاتی ہے جبکہ
اسکی مخالفت میں پڑنے والے کروڑوں ووٹرز کے ووٹ ضائع ہو جاتے ہیں۔ اس لیئے
ضروری ہے کہ انتخابی نظام میں درج ذیل تبدیلیاں لائی جائیں:-
- افراد کے بجائے پارٹیوں کو ووٹ ڈلوائے جائیں ( الیکشن سے پہلے ہر پارٹی
اپنے منشور میں ان افراد کے کوائف بھی دے جنہیں وہ حاصل شدہ سیٹوں پر
اسمبلی میں بھیجیں گی تاکہ لوگ پارٹی کے پروگرام اور نمائندوں کی صلاحیّتوں
کو دیکھ کر ووٹ دیں)
- اسمبلیوں میں سیٹوں کی تعداد تمام پارٹیوں کو حاصل شدہ ووٹوں کے تناسب سے
دی جائیں۔ مثلاّ 300 کی اسمبلی ہے اور کسی پارٹی کو %10 ووٹ ملے ہیں تو اس
پارٹی کو اسمبلی میں 30 سیٹیں دی جائیں۔
- پارٹیوں کو اپنے نمائندوں کو اسمبلی میں بھیجنے اور واپس بلانے اور ان کی
جگہ دوسروں کو بھیجنے کا اختیار دیا جائے۔ (اس طرح پارلیمنٹری نمائندوں پر
عوام کا کنٹرول قائم ہوگا)
۔ سیاسی پارٹیوں کے بہترین نمائندے قانون سازی پر توجہ دیں گے اور حلقے کے
لوگوں کے مسائل بلدیاتی نمائندے حل کریں گے۔
- اس طریقہ کار میں ملک کے کسی شہری کا کوئی ایک ووٹ بھی ضائع نہیں ہوگا۔
۔ آئین کی دفعہ 78(4) کے علی الرغم علاقائیت، صوبائیت، فرقہ واریت، ذات،
برادری، قبیلے، نسلی اور قومی تعصبات کے نام پر ووٹ ڈالنے والوں کی حوصلہ
شکنی ہوگی۔
پاکستان کے انتخابی نظام کو مندرجہ بالا طریقے سے بدلنے سے موجودہ اقتدار
مافیا کو راستے سے ہٹایا جاسکےگا، کیونکہ اسکی موجودگی میں پاکستان کی
خوشحالی کا کوئی مؤثر انقلابی پروگرام نہیں بن سکتا۔ |