جلسہ بہاولپور میں پاکستان تحریک
انصاف کے چیئرمین عمران خان نے عام انتخابات کے نتائج قبول کرنے سے انکار
کرتے ہوئے کہا کہ میاں صاحب اب چار حلقے کھولنے کا وقت بھی گزرچکاہے، مسلم
لیگ (ن)کی حکومت کو ایک ماہ کی مہلت دیتا ہوں، اگر ہمارے مطالبات تسلیم نہ
کیے تو 14 اگست کو اسلام آباد میں سونامی مارچ ہوگا۔انہوں نے کہا کہ ہمارا
حکومت سے پہلا مطالبہ یہ ہے کہ 11 مئی کو کس نے فتح پر تقریر کروائی؟ بتایا
جائے کہ اس سازش میں کون کون شریک تھے۔ دوسرا مطالبہ یہ ہے کہ الیکشن میں
سابق چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کا کیا کردار تھا؟ کتنے پنکچر لگانے پر
ان کے بیٹے کو بورڈ آف انویسٹمنٹ کا وائس چیرمین بنایا گیا۔ہمارا تیسرا
مطالبہ یہ ہے کہ ہمیں بتایا جائے کہ 2013 کے عام انتخابات میں 35 پنکچر
لگانے والی نگران حکومت کا کیا کردار تھا؟ چوتھا مطالبہ یہ ہے کہ ووٹر
لسٹیں کس کے حکم پر تبدیل کی گئیں؟ انہوں نے مزید کہا کہ میاں صاحب کہتے
ہیں کہ بڑی Development ہو رہی پاکستان میں لیکن ہمیں تو سوائے میٹروبس کے
Development نظر نہیں آرہی۔میاں صاحب !آپ کہتے ہوکہ جمہوریت ڈی ریل ہو جائے
گی لیکن میں سوال پوچھتا ہوں کہ کیا الیکشن کے سسٹم کو بہتر کرنے سے
جمہوریت ڈی ریل ہوگی یا مضبوط ہوگی؟؟اس جلسہ میں عمران خان نے الیکشن کمیشن
سے مستعفی ہونے کا بھی مطالبہ کیا۔
اب ان مطالبات میں چند ایسے مطالبات ہیں جو ٹھیک ہے اور اس پر عمل بھی ہونا
بھی چاہیے لیکن آئین کے مطابق۔انصار عباسی صاحب کہتے ہیں کہ عمران خان
انتخابات میں دھاندلی کی بات پر اڑے ہوئے ہیں اور انہیں یہ یقین ہے کہ اگر
الیکشن صاف شفاف ہوتے تو پاکستان تحریک انصاف کامیاب ہو جاتی۔وہ انتخابات
کا الزام جنگ جیو کے علاوہ سابق چیف جسٹس،الیکشن کمیشن اور وزیراعظم میاں
محمد نواز شریف پر لگا رہے ہیں۔جو انتخابات کے عمل کو سمجھتا ہے، جسے
الیکشن کمیشن کے کام سے واقفیت ہو کہ چیف جسٹس آف پاکستان کا انتخابات کے
عمل سے دور دور کا بھی تعلق یا واسطہ نہیں ہوتا۔جس نے دنیا بھر میں
انتخابات کے دوران میڈیاکے کردار کو دیکھا ہو اُس کے لئے ان الزامات کی
کوئی حیثیت نہیں۔تحریک انصاف کو لاہور میں دھاندلی کی شکایت ہے تو کچھ
دوسری سیاسی جماعتیں ہیں جو خیبر پختونخوا میں دھاندلی کا رونا رو رہی ہے۔
اب الیکشن کے سسٹم کو بہتر بنانے کی طرف آتا ہوں،خان صاحب چاہتا ہے کہ
پاکستان میں الیکشن کے سسٹم کو ٹھیک کیا جائے، یہ بات درست ہے اور کوئی بھی
شخص اس سے انکار نہیں کر سکتا، پھر خان صاحب کہتے ہیں کہ موجودہ الیکشن
کمیشن کے ممبرز کو فارغ کر کے نیا الیکشن کمیشن بنایا جائے، یہ بات بھی
درست ہے لیکن یہ سب کیسے ہوگا؟؟ اس کے بارے میں بھی انصار عباسی صاحب کہتے
ہیں کہ جو عمران خان چاہتے ہیں وہ ایک ہی صورت میں ممکن ہے کہ موجودہ آئین
میں ترمیم کی جائے۔اب آئین میں ترمیم پارلیمنٹ کر سکتی ہے جس کا پاکستان
تحریک انصاف بھی حصہ ہے۔۔۔۔اب جو مسئلہ پارلیمنٹ میں حل ہو سکتا ہے تو پھر
جلسوں ، دھرنوں اور سونامی مارچ کا کیا مطلب ؟؟؟
خان صاحب کو ملک میں صرف میٹروبس کے کوئی ترقی نظرنہیں آرہی ، اس پر میں
اتنا کہوں گا کہ جاپان کی بیرونی تجارت تنظیم (جیٹرو) نے کہا کہ تجارتی شرح
نمو میں پاکستان نے دنیا بھر میں دوسرا مقام حاصل کر لیا ہے۔جیٹرو نے دنیا
بھر میں کام کرنے والی 9371 جاپانی کمپنیوں کے ریکارڈ کا جائزہ لیا اور یہ
سامنے آیا کہ تائیوان کے بعد پاکستان نے دوسرا مقام حاصل کر لیا ہے اور اس
نے بھارت اور جاپان کو بھی پیچھے چھوڑ دیا ہے۔اس کے علاوہ زرمبادلہ کے
ذخائر بڑھ رہے ہیں، بجلی کے منصوبوں پر کام شروع ہو رہا ہے اور PIA نے چار
سال بعد منافع کمانا شروع کیا۔میں یہ مانتا ہوں کہ ملک میں اور بھی بہت کام
کرنے چاہیے مگر صرف ایک سال میں ملک کے سارے مسائل حل نہیں ہو سکتے۔
اب گیلپ سروے کی طرف آتا ہوں، اس سروے کے مطابق نواز شریف صاحب کو مقبول
ترین لیڈر جبکہ صوبائی حکومتوں کی کارکردگی میں شہباز شریف سب سے آگے
تھا،اور (ن)لیگ کی کارکردگی میں غیر معمولی بہتری ریکارڈ کی گئی۔اس سروے کے
مطابق سپریم کورٹ کی کارکرگی میں27 فیصد بہتری اور تعلیمی اداروں کی
کارکردگی میں 03 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔اس سروے میں چاروں صوبوں کی
عوام سے رائے لی گئی تھی۔ان سب باتوں سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ مسلم لیگ (ن)کی
حکومت ملک کو ترقی دینا چاہتا ہے اور وہ دن دور نہیں کہ جب پاکستان دنیا
میں ایک ترقی یافتہ ملک کی حیثیت سے اُبھرنے میں کامیاب ہوجائے گا۔ انشاء
اﷲ |