لفظوں کا قتل

ہر وہ لفظ جو ہم بولتے، سنتے، پڑھتے یا لکھتے ہیں زندہ ہوتا ہے۔دنیا کی ساری رنگینی اور سنگینی الفاظ ہی کی مرہون منت ہے۔ اگر الفاظ نہ ہوں تو زندگی بے معنی ہوکر رہ جائے۔ الفاظ اپنے اندر غضب کی طاقت رکھتے ہیں، ایک لفظ برف میں آگ لگاسکتا ہے تو کوئی لفظ بھڑکتے شعلوں پر پانی کا کام کرجاتا ہے۔ ہمارا ہنسنا اور رونا کیا ہے؟ یہ سب الفاظ کا الٹ پھیر ہی تو ہے،یہ الفاظ ہی تو ہوتے ہیں جو ہمیں پل میں لوٹ پوٹ اور پل میں آبدیدہ کرجاتے ہیں۔ ویسے کتنی عجیب بات ہے کہ الفاظ بھی انسانوں کی طرح مرجاتے ہیں۔ ایسا لفظ جو مردہ قوموں کو اٹھادے، کبھی کبھی خود مردہ ہوجاتا ہے، وہ انسانی زندگی سے لاتعلق ہوکر کسی ڈکشنری میں بند ہوکر رہ جاتا ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس لیے کہ انسان لفظوں سے ان کی روح نکال کر انہیں بے معنی کردیتا ہے۔ بات کچھ مشکل ہوگئی ہے، ذرا آسان پیرائے میں سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
’’قومی خودمختاری‘‘ آپ کثرت سے یہ لفظ سنتے ہیں، جس کا مطلب ہر ملک کو اپنی جغرافیائی حدود میں مکمل آزادی حاصل ہوناہے۔ کوئی دوسرا ملک اس کے معاملات میں دخل اندازی نہیں کرسکتا۔ کسی ملک کو اسی وقت باقاعدہ ملک تسلیم کیا جاتا ہے جب اس کے پاس چار چیزیں ہوں، جن میں سے ایک قومی خودمختاری ہے۔ اتنا اہم لفظ جو ملکوں کی آزادی کا ضامن ہوتا ہے، پاکستان میں ایک تماشا بن کر رہ گیا ہے۔ ہر ڈرون حملے کے بعد چند سطری بیان جاری کیا جاتا ہے، جس میں یہ جملہ دہرایا گیا ہوتا ہے کہ ’’پاکستان اپنی خودمختاری پر کوئی سمجھوتا نہیں کرے گا‘‘ بھلا یہ کیسی خودمختاری ہے جو درجنوں ڈرون حملوں، ایرانی فورسز کی روزروز کی گولاباری اور افغان فوجیوں کی دراندازی کے باوجود پامال نہیں ہوتی؟ بلاشبہ دنیا میں اس لفظ کی بہت آبرو ہے، مگر پاکستان میں یہ لفظ برسوں پہلے ’’انتقال‘‘ کرچکا ہے۔
ایسا ہی ایک لفظ جہاد ہے۔ یہ محض ایک لفظ نہیں بلکہ مقدس مشن ہے۔ مسلمانوں کی عزت کی علامت ہے، مگر یقین جانیے ہم لوگوں نے اس لفظ کو بھی رسوا کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ اس لفظ کا اس کثرت سے غلط استعمال کیا گیا کہ لوگ اس کی اصل کو ہی بھول گئے، کوئی ڈینگی کے خلاف جہاد کررہا ہے تو کوئی پولیو کے خلاف جہاد میں مصروف ہے۔ کونسلر صاحب محلے میں کچرے کے خلاف جہاد کررہے ہیں تو کوئی جہالت اوربے روزگاری کے خلاف جہاد کا دعوے دار ہے۔ چودھری برادران کا آج ہی بیان چھپا ہے کہ وہ حکومت کے خلاف جہاد میں مصروف ہیں۔ اتنے سارے ’’جہادوں‘‘ میں اصل والا جہاد پتا نہیں کہاں گم ہوگیا؟ جہاد، ہجرت، نصرت بڑی مقدس اصطلاحات ہیں، ان کے پیچھے ایک فلسفہ کارفرما ہے مگر یار لوگوں نے ان کو اس بے دردی سے استعمال کیا کہ آدمی دل تھام لے۔ پچھلے دنوں ’’را‘‘ کے منصوبے کے تحت ہندو خاندان پاکستان سے بھارت منتقل ہورہے تھے، ایسے میں بعض اخبارات نے سرخیاں جمائیں کہ مزید اتنے ہندو خاندان بھارت ’’ہجرت ‘‘کرگئے۔ ارے بھائی! کیا ہندو بھی ہجرت کرتے ہیں؟ اس کی جگہ نقل مکانی کا لفظ مناسب ہے۔

’’انقلاب‘‘ بھی ایک بڑا مظلوم لفظ ہے، اس پر بھی لوگوں نے بہت ہاتھ صاف کیے ہیں۔ یہ لفظ کیا ہے؟ تمنا، آرزو، جوش، ولولہ، حرارت، اور جرأت کا دوسرا نام ہے۔ کسی کی زندگی سے یہ لفظ بے دخل ہوجائے تو پھر وہ انسان، انسان نہیں رہتا۔ اسی لفظ نے تخت گرائے اور تاج اچھالے ہیں، شہبازکو ممولے سے یہی لڑاتا ہے، غلام قوموں نے اسی لفظ کی بدولت انگڑائی لی اور آزادی کا سورج ان پر طلوع ہوا۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہم لوگوں نے زندگی کو زندگی بنانے والے اس جذبے کو بھی کھیل تماشا بنادیا ہے۔ جس مداری کو دیکھو، انقلابی بنا پھرتا ہے۔ گھر کا نہ گھاٹ کا مگر صاحب ہے انقلابی۔ پچھلے 67 برسوں میں قوم کو اتنی بار انقلاب کے نام پر ٹیکا لگایا گیا کہ اب وہ انقلاب کا لفظ سنتے ہی بتیسی نکال دیتی ہے۔

بھٹو خود کو بڑا انقلابی کہتے تھے، ان کا دعویٰ تھا کہ وہ کسانوں اور ہاریوں کے حقیقی نمایندے ہیں، حالاں کہ وہ خود جاگیردار تھے۔ انہوں نے اپنے دائیں بائیں جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو ہی جمع رکھا، مگر برسوں کسانوں کے نام پر ڈراما رچاتے رہے۔ آج بھی ان کی پارٹی یہی کچھ کررہی ہے۔ عوام، عوام کا نعرہ لگانے والے بلاول کو کسی کسان یا ہاری سے ملنا بھی گوارا نہیں، مگر ہیں وہ بڑے انقلابی!! معاملہ صرف بھٹو یا پی پی پی کا نہیں، باقی سیاست دانوں کا بھی یہی حال ہے۔ دنیا میں سب سے زیادہ قائد انقلاب اور امام انقلاب پاکستان میں پائے جاتے ہیں، ان میں تازہ اضافہ طاہرالقادری کا ہوا ہے بلکہ یہ تو چیف انقلابی کے طور پر میدان میں کودے ہیں۔ ان سب لوگوں نے مل کر ’’بے چارے انقلاب‘‘ کو ایسا رگڑالگایا ہے کہ وہ دم ہی توڑ بیٹھا ہے۔

ان لوگوں کی وجہ سے پاکستان میں تو انقلاب کبھی کا مرحوم ہوچکا ہے، سیاست دان عوام کو دھوکا دینے کے لیے محض اس کی لاش اٹھائے پھررہے ہیں۔ ہر ایک نے انقلاب کی دکان سجائی ہوئی ہے، جس میں عوام کو الو بنانے کا ایک سے بڑھ کر ایک آئٹم موجود ہے۔ سیاست دانوں کے ٹوپی ڈراموں کی وجہ سے اب لفظ انقلاب میں کوئی حرکت نہیں رہی ہے، اب انقلابی نعروں پر لہو کم ہی گرم ہوتا ہے۔ جن لوگوں کے لہو میں کچھ حرارت باقی ہے، وہ انقلاب کے ان اماموں اور قائدین کی الٹی قلابازیوں اور دو رخی سے مایوس ہوکر گھروں میں بیٹھ گئے ہیں۔

آپ خود بتائیں جس ملک میں شیخ رشید جیسے آدمی کے پوسٹروں پر قائد انقلاب لکھا جائے، وہاں کوئی انقلاب پر اعتبار کرے گا؟ جو قوم قبض کے توڑ کی چورن تک کا نام ’’انقلابی چورن‘‘ رکھ لے، اس کی دماغی قبض شاید ہی کبھی ختم ہوسکے!!
munawar rajput
About the Author: munawar rajput Read More Articles by munawar rajput: 133 Articles with 111170 views i am a working journalist ,.. View More