کالم نگارقوم و ملت کے اساتذہ ہوتے ہیں۔۔۔!
(Imran Ahmed Rajput, Karachi)
قارئین دیکھا جائے تو آج آپ کو
کالم نگاری کے حوالے سے بے شمار لکھنے والے ملیں گے پاکستان میں اور دنیا
کے معتدد ممالک میں کالم نگارکی اپنی ایک پہنچان ہوتی ہے۔ ہم نے جب کالم
لکھنے کا آغاز کیا تو اُس وقت ہمارے کالموں میں بڑی جذباتیت ہوا کرتی تھی
یہ بات ہمارے پرانے قارئین ابھی طرح جانتے ہیں اس جذباتی کیفیت کی ایک وجہ
یہ بھی تھی کہ اُس وقت ہمارے کالموں کا موضوع صرف سیاست ہوتا تھا اور ہمیں
جتنی بھی سیاسی آگاہی ہوتی تھی ہم ان سب کو اپنے کالموں کی نظر کردیا کرتے
تھے۔ یہ سب مشرف دور کی بات ہے جب مشرف نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار
میڈیا کو نئی نئی آزادی دی تھی جس کے ذریعے عوام میں سیاسی شعور بیدار ہونے
میں کافی مدد ملی تھی آپ نے محسوس کیا ہوگا اس وقت نت نئے سیاسی بازیگروں
کا جنم ہورہا تھا ہر گلی ہر کوچے میں ایک سے بڑھ کر ایک سیاستدان پیدا ہونے
لگا تھا اور دیکھا جائے تو یہ اُس میڈل کلاس طبقے کی کامیابی تھی جو وجودِ
پاکستان سے لیکر اب تک ہر سطح پر محرمیوں کا شکار رہی ہے۔ مشرف نے دوفیصد
جاگیرداروں وڈیروں سرمایہ داروں کی برسوں سے سجی ہوئی سلطنت کو شہری
حکومتوں کے قیام کی صورت میں ایک ایسا ایٹم بم مارا تھا جس کے کیمیائی
اثرات ان نام نہاد جمہوریت پسند سیاستدانوں کو آج تک بھگتنا پڑ رہے ہیں ۔جہا
ں تک مشرف صاحب کی بات ہے وہ ملک و قوم کے لیے ایک مخلص رہنما ثابت ہوئے
پاکستان کو ترقی یافتہ ممالک کی دوڑ میں شامل کرنے کی ہر ممکن کوشش کی
جنھوں نے ملک میں موجود دو فیصد مرعات یافتہ طبقے کا مفاد نہیں بلکہ اس
غریب مظلوم عوام کا ساتھ دیا جو تکمیل ِ پاکستان سے لیکر آج تک محرمیوں کا
شکار رہی ہے۔ خیر آج ہمارا موضوع سیاست ہے نہ مشرف بلکہ آج ہمارا موضوع ہے
پاکستان کے وہ جانباز سپاہی جو اپنے قلم کی طاقت سے قوموں کی تقدیر بدلنا
جانتے ہیں۔ جی ہاں کالم نگار جو قوم وملت کے اساتذہ ہوتے ہیں جو پوری قوم
کو شعورِ آگاہی دیتے ہیں کھرے کھوٹے کی سمجھ بوجھ سکھلاتے ہیں صیح غلط کی
پہنچان بتلاتے ہیں حق و باطل میں فرق دکھلاتے ہیں یہی اہلِ دانش اپنی
مدبرانہ سوچ اور اپنی اہلیت و قابلیت کے بل بوتے پر ایک مردہ قوم میں زندگی
کی نئی روح پھونک دیتے ہیں قوموں کو زندہ کرنے والے یہ قلم کار اپنے قلم کی
طاقت سے باطل قوتوں کو تختہ آئنیہ دار پر لٹک جانے پر مجبور کردیتے
ہیں۔تاریخ گواہ ہے ہمیشہ وہ قومیں زندہ و جادواں رہی ہیں جنھوں نے قلم کو
بطور اپنا ہتھیا ر بنایا اور اس کی نکلی سیاہی سے اپنے گرد ظلمت کے
اندھیروں کو دور کیا۔ اگر ہم تاریخ کے پیراہن پر گہری نظر ڈالیں تو ہمیں
پتا چلتا ہے کہ بڑے سے بڑا ظالم جابر قلم سے نکلی ظلم کے خلاف اٹھنے والی
آوازوں سے بچ سکا نہ اسکو روک سکا تادیر یہ کہ ظلم کا خاتمہ نہ ہوگیا۔ قلم
کی سیاہی میں روح پھونکنے والے یہ قلمکار بے جان تحریروں میں ایسی جان
ڈالتے ہیں کہ صدیوں سے بگڑے معاشروں میں تہذیب و تمدن کے انقلاب برپا
ہوجاتے ہیں۔ یہ انقلابی یہ کالم نگار یہ اہلِ دانش حق و صداقت کا پرچم
اٹھائے ہر دور میں ظلم و نا انصافی کے خلاف اپنا کردار ادا کرتے آئے ہیں ۔
جنکی بدولت آج دنیا میں قومیں زندہ ہیں انقلاب اور انقلابی زندہ ہیں۔
باوقار معاشرہ اور معاشرتی نظام زندہ ہے۔ علم و عقل کے اس فکری اثاثے کو
پاکستان میں بھی اُسی طرح قدر کی نگاہ سے دیکھا جانا چاہیئے جس طرح دیگر
ترقی یافتہ ممالک میں کالم نگاروں کو قدرو منزلت کے اعلی مقام پر فائز کر
کے انہیں خراجِ تحسین پیش کیا جاتا ہے۔ ہر سطح پر ان کی پذیرائی کی جاتی ہے
جہاں انہیں عوام کو حقائق پر مبنی سچ بتانے کی پاداش میں مخالفتوں کے پیشِ
نظر مکمل سکیورٹی فراہم کی جاتی ہے وہاں اُن کے ساتھ معاشی اور سماجی
مشقلات میں مکمل تعاون کیا جاتا ہے مزید یہ کہ انہیں دیگر اہم شخصیات کی
طرح وی آئی پی کٹیگریز میں شامل رکھا جاتا ہے حکومتی سطح پر ان کی معاشی
ضروریات کے لیے باقائدہ ماہانہ مشاہراہ مختص کئے جاتے ہیں۔ تاکہ یہ اپنے
فرض سے ایک پل کے لیے بھی غافل نہ ہوں اور معاشی و سماجی مجبوریوں کے تحت
کسی کے آگے جھکنے اور بکنے سے باز رہیں۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان
میں کالم نگاروں کو اِس طرح کی اہمیت دی جاتی ہیں۔؟ کیا اوپر بیان کی گئیں
سہولیات میں سے کوئی ایک سہولت بھی کالم نگار کو پاکستان میں حاصل ہے یہ
تمام سہولیات تو دور کی بات کسی سطح پر بھی انہیں کوئی پذیرائی نہیں ملتی۔
میں یہاں حکومتِ وقت سے گزارش کرنا چاہونگا کہ وہ پاکستان میں تمام مستقل
لکھنے والوں کو دیگر ممالک کی طرح وہ تمام سہولیات دیں جو ان کا حق ہے۔
تمام کالم نگاروں کی کاوشوں کو سرہاتے ہوئے ان کے لیے حکومتِ پاکستان کی
جانب سے ماہانہ مشاہرہ مختص کیا جا ئے تاکہ وہ اپنی معاشی مجبوریوں میں
گھِر کر اپنے فرض سے غافل نہ ہوسکیں ۔ یہاں میں اُن اداروں سے بھی عرض کرنا
چاہونگا جو کالم نگاروں کی آواز کو عوامی حلقوں تک پہنچاتے ہیں وہ اخبارات
و جرائد اور اشاعتی ادارے کالم نگار کی حوصلہ افزائی کے طور پر ادارے کی
آمدنی میں سے کچھ حصہ ان کے لیے بھی مختص کریں تاکہ نئے لکھنے والے اس شعبہ
میں بطور پروفیشن آئیں اور ایک پڑاھا لکھا معاشرہ بنانے میں مدد فراہم کریں۔
یاد رکھیئے جو اندھیروں میں اجالے کا سبب بنے اسے کسی طور بھی بھجنے نہیں
دینا چاہیئے انہیں بھجنے سے بچانا حکومت اور اس کے ساتھ ساتھ ان سب کافرض
ہے جو ان سے وابستہ ہیں ۔جس طرح قوموں کو جہالت کے اندھیروں سے نکالنا کالم
نگاروں کا فرض ہے۔ یاد رکھئے انہیں کے دم سے قومیں زندہ ہیں کیونکہ جن
قوموں میں قلمکار نہیں اہلِ دانش نہیں اُن قوموں میں زندگی کے آثار نہیں وہ
سو سال بھی سانسیں لیتی رہیں لیکن وہ زندوں میں شمار نہیں۔ |
|