تحفظ پاکستان بل کی منظوری میں اپوزیشن کا مستحسن کردار

وزیراعظم پاکستان میاں محمد نواز شریف کو مسلم لیگ (ن) کے سینیٹرز اور اراکین اسمبلی کے ہمراہ حلیف جماعتوں اور اپوزیشن اراکین سینیٹ و اسمبلی کا بھی مشکور ہونا چاہئے جن کے تعاون سے پاکستان کو دہشتگردی اور جرائم سے پاک کرکے پر امن و محفوظ ریاست بنانے کے میاں نوازشریف کے عزم کی تکمیل کیلئے تیار کیا جانے والا ”تحفظ پاکستان بل “ سینیٹ کے بعد قومی اسمبلی سے بھی کثرت رائے سے منظور ہوکردوسال کیلئے قانون کی شکل میں نافذالعمل ہونے اور میاں نوازشریف کے عزم و خواب کو تعبیر و تکمیل دینے جارہا ہے ۔ قومی اسمبلی ایم کیو ایم نے پیش کردہ مذکورہ بل پر تحفظات کا اظہار کیا مگر تاہم شدید تحفظات کے باوجود ایم کیو ایم کی جانب سے بل کی حمایت کی گئی جبکہ تحریک انصاف نے رائے شمالی میں حصہ نہیں لیا۔دوسری جانب جماعت اسلامی کی جانب سے بل کی بھرپور مخالفت کی گئی اور موقف اختیار کیا گیا کہ تحفظ پاکستان بل آئین کے آرٹیکل 8 اور 10 سے متصادم ہے جبکہ ملزم کو گولی مارنے کا اختیار گریڈ 15 کے بجائے گریڈ 17 کے مجاز افسر یا مجسٹریٹ کو دیا جانا چاہیئے تھا۔واضح رہے کہ سینیٹ پہلے ہی تحفظ پاکستان بل 2014 کی منظوری دے چکی ہے جبکہ حکومت کو بل کی منظوری کے لئے ملکی دوسری سب سے بڑی سیاسی جماعت پیپلزپارٹی کی خاموش حمایت حاصل تھی۔تحفظ پاکستان کے نام سے منظور ہونے والا یہ بل آرڈیننس کی شکل میں نافذ کیا گیا تھا اور اس پر بہت زیادہ اعتراضات ہوئے حتیٰ کہ قومی اسمبلی کی مجلس قائمہ میں تنازعہ رہا۔ ایک مرتبہ اس کی مدت بھی پوری ہو گئی تھی، قومی اسمبلی میں بہرحال یہ بل متفقہ طور پر منظور نہ کیا جا سکا اور حکومت کو اپنی اکثریت کے حوالے سے منظوری حاصل کرنا پڑی، لیکن سینیٹ میں جہاں حکومتی اراکین اقلیت میں ہیں یہ متفقہ طور پر منظور ہوا، جس کی بنیادی وجہ افہام و تفہیم کا عمل تھا۔ میاں رضا ربانی کی صدارت میں کمیٹی نے اس پر شق وار غور کیا اور اسے بعض ترامیم کے ذریعے قدرے نرم بھی بنایا۔ جیسے 90روزہ تحویل کو60روز میں تبدیل کیا گیا۔ سینیٹر رضا ربانی نے بجا کہا کہ یہ قانون وقت کی ضرورت ہے اس لئے اسے منظور کیا جا رہا ہے ورنہ حکومت کے لئے یہ ممکن نہیں تھا کہ سینیٹ سے منظور کرا لیتی۔ انہوں نے اور دوسرے اراکین سینیٹ نے یقین ظاہر کیا کہ اس قانون کا غلط اور سیاسی مخالفین کے خلاف استعمال نہیں کیا جائے گا اور احتیاط برتی جائے گی۔تحفظ پاکستان جیسے قوانین برطانیہ اور امریکہ میں بھی منظور کئے گئے تاکہ دہشت گردی سے عہدہ برآ ہوا جائے۔ پاکستان میں دہشت گردی کے علاوہ بھتہ خوری، ٹارگٹ کلنگ اور اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں بہت اضافہ ہوا، قانون نافذ کرنے والے اداروں نے گرفتاریاں بھی کیں، لیکن ایسے ملزموں کے خلاف کوئی گواہی نہیں آتی تھی اور اگر کوئی گواہ مل جائے، تو عدالت میں منحرف ہو جاتے تھے۔ اس کے علاوہ یہ ملزم زیر تفتیش ہوتے ہوئے جرائم کا اعتراف کر لیتے اور پھر عدالت میںمکر جاتے تھے۔ یوں ایسے لوگ بَری ہو جاتے اور ان کا کوئی کچھ بھی نہ بگاڑ پاتا۔ ایسی صورتحال میں تحفظ پاکستان جیسے قانون کی ضرورت پڑی، اب اسکی منظوری میں حزب اختلاف کے جذبہ کی بھی داد دینا چاہئے اور حکومت کو بھی حزب اختلاف کی اس بات پر توجہ دینا ہو گی کہ قانون قومی نقطہ نظر سے منظور کرایا گیا ہے، تو اس کا غلط استعمال نہیں ہونا چاہئے۔ توقع ہے کہ یہ قانون سنگین جرائم کا قلع قمع کرنے میں معاون ثابت ہو گا۔
Imran Changezi
About the Author: Imran Changezi Read More Articles by Imran Changezi: 194 Articles with 147173 views The Visiograph Design Studio Provide the Service of Printing, Publishing, Advertising, Designing, Visualizing, Editing, Script Writing, Video Recordin.. View More