گزشتہ ہفتے جب انہی سطور
میں”میڈیا اور کیا کرے“کے عنوان سے امریکی ایماء پر حکومت کی جانب سے
اشاعتی اور نشریاتی اداروں پر پابندی کا خدشہ ظاہر کیا تو گمان بھی نہیں
تھا کہ جمہوریت کی بحالی کے لیے میڈیا ہی کے کندھوں پر سوار ہو کر ایوان
اقتدار میں پہنچنے والے حکمران اتنی جلدی ان خدشات کو سچائی کا روپ دے دیں
گے۔ جمعرات کے روز قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات و نشریات کی
جانب سے صدر، عدلیہ اور فوج پر تنقیدپر پابندی کی تجویز کے ساتھ ساتھ ضابطہ
اخلاق کی تیاری کے لیے کمیٹی کے قیام کے فیصلے کے بعد واقعتاً ایسا محسوس
ہونے لگا ہے کہ اپنی ناکامیاں چھپانے کے لیے موجودہ حکمران بھی اپنے پیش روﺅں
کے نقش قدم پر چل نکلے ہیں۔ بات فوج اور عدلیہ پر تنقید بارے پابندی تک
محدود رہتی تو کوئی مضائقہ نہیں تھا کیونکہ دونوں ہی ملک کے معزز ترین
ادارے ہیں لیکن جمہوری ووٹوں سے بر سر اقتدار آنے والے صدر مملکت بارے رائے
زنی مانع قرار دینا کم از کم سمجھ سے بالا ہے۔ یہ روش آمرانہ دور اقتدار
میں تو سمجھ میں آجاتی ہے کہ آمر اپنے اقتدار کی طوالت اور ملک کو اپنی من
مرضی کے مطابق چلانے کے لیے کئے گئے فیصلوں سے اختلاف برداشت نہیں کر سکتا
لیکن ایک ایسی حکومت جو خود کو عوام کی نمائندہ قرار دیتے نہ تھکتی ہو کی
جانب سے ایسے اقدامات جہاں خود حکمرانوں کے لیے اندھا گڑھا ثابت ہوتے ہیں
وہیں جمہوریت کی گاڑی کے پٹڑی سے اترنے کا خدشہ بھی رہتا ہے۔ یقینی طور پر
یہ حقیقت عنان اقتدار پر براجمان قیادت بھی جانتی ہوگی کہ ضرورت سے زیادہ
دبائی جانے والی چیزیں پھٹ جایا کرتی ہیں لیکن اس کے مضمرات کا شاید متذکرہ
قائمہ کمیٹی کے ارکان کو علم نہیں اور سر دست ایسا دکھائی دے رہا ہے کہ
تجویز کنندگان محض اپنی ”ایفی شینسی“کے چکر میں ایک ایسے راستے کاانتخاب کر
رہے ہیں جس کا نقصان فریق مخالف کو تو جو ہوگا وہ اپنی جگہ لیکن اس پر اڑنے
والی گرد آزادی رائے کے دعوﺅں پر کچھ اس طرح اٹ جائے گی کہ شاید دھونا بھی
ممکن نہ رہے، یقین نہ کرنے والوں کے لئے عرض ہے کہ ملکی تاریخ اٹھا کر دیکھ
لیں کہ جس نے بھی ریاست کے چوتھے ستون(میڈیا) سے چھیڑ خوانی کی کوشش کی اس
کے ساتھ کیا ہوا، اگر اتنا بھی نہیں تو صرف سابق دور حکومت میں سچائی دبانے
والوں کے ”کارناموں“ پر نظر ڈال لیں صورتحال واضح ہوجائے گی۔
صحافت یا میڈیا کی طاقت کا تصور نہ تو نیا ہے اور نہ ہی یہ باہر سے آیا ہوا۔
درحقیقت برطانوی راج سے پاکستان کی آزادی کا یہ بڑا ہی اہم حصہ تھا جس میں
بڑے بڑے اور نامور صحافیوں نے حصہ لیا جن کی شمولیت کے بغیر آزادی کی
جدوجہد کبھی بھی کامیابی حاصل نہیں کرسکتی تھی۔ سرسید احمد خان جنہوں نے
مسلمانوں اور برطانیہ کے بیچ کے خلا کو دور کیا سے لے کر مولانا محمد علی
جوہر تک جنہوں نے کامریڈ اور ہمدرد کی بنیاد رکھی اور بابائے صحافت ظفر علی
خان سے لے کر غلام رسول مہر و عبدالمجید سالک جیسی قدآور شخصیات تک اور
ابوالکلام آزاد سے لے کر حسرت موہانی تک بہت سارے صحافیوں نے آزادی کے خواب
کو حقیقت دینے کے لیے قلم و صحافتی قوت کا استعمال کیا۔ سب سے بڑھ کر
قائداعظم محمد علی جناح آزادی صحافت پر سب سے بڑا ایمان رکھتے تھے۔ یہی وجہ
تھی کہ انہوں نے 1941ء میں انگریزی روزنامہ ڈان کی بنیاد رکھی اور اس اخبار
نے آگے چل کر مسلم لیگ کے نقطہ نظر کو عوام تک پھیلانے میں ان کی بڑی مدد
کی اور آزادی حاصل کی گئی۔ بدقسمتی سے آزادی کے بعد کے پاکستان میں آزادی
ایک خیال ہی رہی سماجی حقوق و آزادیوں کو محدود کیا گیا اور صحافت کو دبانے
کی کوشش کی گئی لیکن ہمیشہ ہی جس کا ثبوت آزادی صحافت کے حوالے اپنے قیام
کے 62برسوں بعد بھی پاکستان کا عالمی سطح پر 68ویں نمبر پر ہونا ہے جس کے
سب سے زیادہ ذمہ دار حکمران ہی رہے ہیں۔
1980ءاور 1990ءکی دہائیاں پاکستان میں صحافت کی تاریخ کے اہم ابواب ہیں۔
ذوالفقار علی بھٹو اور ضیاءالحق کے ادوار حکومت میں کلمہ حق بلند کرنے
والوں کی لال قلعہ یاترا بھی تاریخ میں محفوظ ہے اور سچائی سے خوفزدہ ہوکر
اہل قلم پر کوڑے برسانے والوں کے مظالم بھی۔ صحافیوں نے شہید ذوالفقار علی
بھٹو کے دور تک اس نظام کے خلاف جدوجہد جاری رکھی۔ بھٹو صاحب صحافتی طاقت
اور آزادی صحافت میں بڑا یقین رکھتے تھے اور انہوں نے نہ صرف اس کی بات کی
بلکہ اتفاق رائے سے قبول کیے گئے 1973 کے آئین کی شق 19 کے ذریعہ آزادی
صحافت کو یقینی بھی بنایا۔ اور پھر ضیاءالحق کا سیاہ دور آیا۔ ایک جنرل جس
نے اپنے اختیارات سے تجاوز کرکے پاکستان کے عوام کے منتخب وزیراعظم پاکستان
کو ہٹایا اور لاکھوں لوگوں کی امیدوں کا قتل کیا۔ ضیاء شاہی دور کی معاشرہ
کے ہر طبقہ کی جانب سے مخالفت کی گئی جس میں پاکستان کے صحافیوں نے بڑا ہی
جرات مندانہ کردار ادا کیا۔ ان کو ملک کے ہر حصہ میں گرفتار کر کے پابند
سلاسل کیا گیا اور ملٹری کورٹس میں گھسیٹا گیا۔ جنرل کی سوچ یہ تھی کہ پریس
کو دبا کے اور معلومات کو کنٹرول کرنے کے ذریعہ ہی عوام کے ذہنوں پر کنٹرول
حاصل کیا جاسکتا ہے مگر آزادی صحافت کے حوالے سے سیاہ ترین گھڑی 30 سال
پہلے آئی جب 13 مئی 1979ءکو 4 صحافیوں کو سرعام کوڑے مارنے کا تحفہ دیا گیا۔
4 جرات مند صحافیوں کو ایک اسٹینڈ سے باندھا گیا اور ان کے جسم پر کوڑے
برسائے گئے۔ ان کا قصور آزادی سے سوچنا اور حکومت کی دی ہوئی کہانیوں کو
چھاپنے سے انکار کرنا تھا۔ ان کی تکلیف٬ ان کا درد اور ہونے والی زیادتی
دنیا نے دیکھی اور جیسے ہی ضیاء کا ظلم بڑھتا گیا اس کے خلاف نفرت بھی بڑھی
جتنی نفرت بڑھی اتنا ہی عوام میں ظلم و ظالم سے نجات کا جذبہ بھی بڑھا اور
عوام میں تبدیلی لانے کی امنگ بھی اور بالآخر فتح آمریت کے سامنے گھٹے نہ
ٹیکنے والوں ہی کی ہوئی۔
سابق صدر جنرل(ر) پرویز مشرف کے دور حکومت کا جائزہ لیں تو اس میں کوئی بھی
شک نہیں کہ ان کے آٹھ یا نوسالہ اقتدار میں پاکستان میں میڈیا نے نئی جہتیں
متعارف کروائیں لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ تلخ حقیقت بھی اپنی جگہ اٹل ہے کہ
پرویز مشرف ہی نے اپنے غیر آئینی اقدامات کا پردہ چاک کرنے پر میڈیا پر سب
سے زیادہ پابندیاں بھی لگائیں اور یہ سلسلہ اس وقت اور زور پکڑ گیا جب نو
مارچ2007ء کو سابق صدر کی جانب سے چیف جسٹس آف پاکستان کیخلاف ایک ریفرنس
بھیج کر انہیں عہدے سے معزول کیا گیا تو پوری قوم سڑکوں پر آگئی۔ جب حقائق
کی تلخی حکمرانوں کی نازک طبیعت کے لیے گراں ہوئی تو انہوں نے قانون کے
ساتھ ساتھ آزادی رائے کی بھی دھجیاں ادھیڑ دیں، نتیجہ یہ ہوا کہ 6جون
2007ءکو ملکی تاریخ میں پہلی بار صحافیوں نے حکومتی مظالم کیخلاف پارلیمنٹ
کی پریس گیلری کے اندر احتجاج کرتے ہوئے دھمکیوں اور نشریات اور اشاعت پر
پابندی کی حکومتی وارننگ پر آواز بلند کی۔ اس احتجاج کا آمروں پر اثر ہوا
یا نہیں اس سے قطع نظر صحافیوں کی اس جرآت نے ایک ایسی تحریک کی داغ بیل
ڈال دی جس نے عدلیہ بحالی تحریک کو بھی اپنے کندھوں پر اٹھا لیا اور یوں
میڈیا عوام کے جم غفیر کو آزادی پر پابندیاں لگانے والوں کیخلاف سڑکوں پر
لے آیا اور یوں خود کو دنیا کا طاقتور ترین شخص تصور کرنے والے کی رخصتی نے
ثابت کردیا کہ سچائی اقتدار سے زیادہ طاقتور ہوتی ہے۔
18فروری 2008ء کے عام انتخابات کے نتیجے میں جمہوری حکومت کے قیام باالخصوص
وزارت اطلاعات کا قلمدان ایک ایسی خاتون کو سونپنے(جس کا اپنا تعلق تقریباً
پونے دو دہائیوں تک عملاً صحافت کے شعبے سے رہا)پر میڈیا پر امید تھا کہ
شاید میڈیا کو اب مشکلات کا سامنا نہیں کرنے پڑے کیونکہ جو حکومت اقتدار
میں آئی ہے اس کا نعرہ ہی آزادی اظہارئے اور آزادی صحافت ہے مگر نئی حکومت
کے قیام کے بعد اب تک 8صحافی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو چکے ہیں متعدد جسمانی
اور ذہنی تشدد کا شکار ہوئے اور معتدد اداروں کو اعلانیہ یا غیر اعلانیہ
پابندی کا سامنا کرنا پڑا۔ عجیب بات یہ ہے کہ آزادی صحافت پر قدغن کے خواہش
مند عناصرایک عرصہ تک تو نظر ہی نہیں آئے لیکن ان کی آوازیں ضرور سنائی
دیتی رہی ہیں جو کہ گزشتہ ہفتے امریکی وزیر خارجہ کی جانب سے پاکستانی
میڈیا کو ہدف تنقید بنانے کے بعد مزید بلند ہونے لگی ہیں جبکہ حکومت کی
جانب سے بھی ان پر عمل کا عندیہ سامنے آچکا ہے۔ حکمران دو طرح کے ہوتے ہیں،
ایک وہ جن کے جانے کے بعد عوام کے دل سے صرف دعائیں نکلتی ہیں اور دوسرے وہ
جن کے حصے میں بددعاﺅں کے سوا کچھ نہیں آتا۔ ہمیں نہیں معلوم کہ وزارت
اطلاعات، ایوان صدر یا پھر وزیر اعظم سیکریٹریٹ قائمہ کمیٹی کی تجاویز کے
جواب میں کیا کرتا ہے لیکن اتنی گزارش ضرور ہے کہ کچھ بھی کرنے سے پہلے
اتنا ضرور سوچ لیا جائے کہ اس سے قبل اقتدار کی بھول بھلیوں میں کھونے والے
بھی ایسی ہی تجاویز پر عمل کے بعد اپنے اپنے انجام سے دوچار ہوئے لہٰذا اگر
آزادی رائے کے دعویداروں نے بھی انہی کی روش کا انتخاب کیا تو صورتحال قطعاً
مختلف نہیں ہوگی کہ اس راستے پر چلنے والوں کا مقدر صرف بھٹکنا ہی ہے۔
|