بلوچستان کا دوسروں سے تقابل

اس بات پہ حیرانگی ہوتی ہے کہ اکثر لوگ ایک چیز کو دوسرے سے جب تقابل کرتے ہیں تو زمینی حقائق کو یا تو مسخ کرتے ہیں یا پھر انہیں حقائق تک رسائی ہوتی ہی نہیں ہے۔ اکثر لوگ تامل مزاحمت سے بلوچ مزاحمت کا تقابل کرتے ہیں مگر دونوں مزاحمتوں کا آپس میں صحیح تقابل نہیں کرتے اور روایتی طور پر اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں جس سے مسائل کو سمجھنے کے بجائے مزید کنفیوژن پیدا ہوتی ہے۔

تامل قوم پرست سری لنکا کے شمال، شمال مغربی اور شمال مشرقی علاقےکی آزادی کے لیے لڑ رہے تھے جو اُسے عیلم کے نام سے آزاد کرنا چاہتے تھے۔ ان علاقوں میں تامل لوگوں کی اکثریت ہے اور تین طرف سے سمندر میں گھیرا ہوا علاقہ ہے جس کا کل رقبہ اکیس ہزار نو سو کلومیٹر، آٹھ ہزار چار سو اسکوائرمیل ہے ۔ جس میں ایک ہزارچارسو مربع کلو میٹر پانی پر محیط ہے۔ اسی علاقے پر تامل ٹائیگر کا مکمل کٹرول نہیں تھا صرف شمال میں ایک ڈسٹرکٹ جزیرہ جافنا پر اُن کا کنٹرول تھا جہاں انہوں نے عیلم کے نام سے اپنی خود ساختہ گورنمنٹ بھی قائم کی تھی ۔ صرف جافنا پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے انہوں نے انسانی حقوق کی کُل کر خلاف ورزی کی تھیں اور سول وار شروع کیا تھاجس میں اَسی ہزار سویلن افراد کوانہوں نے قتل کیا تھا۔ جافنا جزیرہ اُن کے لیے اس وجہ سے اہم تھا کہ وہ انڈیا کے صوبے تامل ناڈوسے نزدیک تھاجہاں اُن کو آمد و رفت کی سہولت تھی کیونکہ سری لنکا خود ایک جزیرہ ملک ہے جس کا کسی ملک سے زمینی سرحد نہیں ملتا۔ پورے شمال کو چھوڑ کر باقی شمال مشرقی اور شمال مغربی علاقوں میں جو باقی نسل کے لوگ تھے وہ تامل کے ساتھ نہیں تھے۔ اس وجہ سے انہیں ریجن پر مکمل کنٹرول حاصل نہیں ہوسکا۔ تامل کی کُل تعدادتقریباً اڑتیس لاکھ بتاتے ہیں لیکن وہ سارے جافنا جزیرے میں نہیں تھے ۔

اُن کی جنگ صرف جافنا اور اُس کے آس پاس تک محدود تھی اور وہ دوسرے علاقوں میں گوریلہ کاروائیاں کرتے تھے۔شمالی مشرقی اور شمال مغربی علاقوں کے تامل ایریاپر اُن کی کاروائیاں نہ ہونے کے برابر تھیں، اور اس حصے پر اُن کا کوئی کنٹرول نہیں تھا۔شمال مشرقی اور شمال مغربی تامل ایریاجن کی وہ آزادی کے لیے جنگ لڑ رہے تھے وہ اُن کے لیے محفوظ پناہ گاہ نہیں تھے اور اُن ایریا پر مکمل سری لنکا کا کنٹرول تھا۔ کیونکہ وہاں پر انہیں سری لنکا سے باہر نکلنے کے لیے آمدورفت کے مسائل درپیش تھے۔ انہوں نے انڈیا کی جغرافیہ میں تامل ناڈو ریاست کے تامل قوم پرستوں کو اپنے ساتھ ملانے کے لیے وہاں پر مداخلت کی اور انڈیا نے انہیں اپنے لیے خطرہ سمجھا اور انہیں پُر امن طریقے سے حقوق دلانے کی کوشش کی ، جس پر تامل نے انڈیا کی سیاست میں مداخلت کرکے راجیوگاندھی کو قتل کیا جسے وہ اپنے لیے خطرہ سمجھتے تھے۔ جس پر انڈیا اور دنیا نے تامل کو دہشت گرد قرار دیا اور دنیا ان سے پہلے بھی خوش نہیں تھی کیونکہ انہوں نے سول وار شروع کیا تھا اور اسی ہزار کے قریب لوگوں کو قتل کیاتھا۔ جب بھی سری لنکن آرمی اُن پر حملہ کرتا تو وہ عام پبلک کا قتلِ عام کرتے تھے تاکہ سری لنکن سرکار پر دباؤ بڑھ جائے اور وہ اُن پر حملہ نہ کرے۔انہوں نے کئی صحافی بھی مارے ہیں۔ یہی حکمتِ عملی دنیا سمیت انڈیا کو ناگوار گزُری اور انہیں دنیا کے لیے خطرہ سمجھا، سری لنکن گورنمنٹ نے انڈیااور دیگر قوتوں کو اعتماد میں لے کر جافنا ڈسٹرکٹ پر فوجی کاروائی کی جس میں اُن کا ڈکٹیٹر سربراہلاک ہوگیا اور اُن کے حوصلے پست ہوگئے اور بچے کچھے تاملوں نے ہتھیار ڈال دئیے اور جنگ سے دستبردار ہوگئے۔ بچے کھچے اعلیٰ طبقے کے تامل جو اُن کے سپورٹرز تھے وہ پہلے سے باہر روپوش تھے۔

بائیس ہزار کے قریب تامل ٹائیگرز جو جنگ کرتے تھے اب وہ سری لنکن سرکار سے پینشن وصول کررہے ہیں۔ ہندو ٹائم کی ایک رپورٹ کے مطابق ایک تامل قوم پرست نے آسٹریلیا میں سیاسی پناہ کے لیے ایک درخواست جمع کرائی اور اُس میں یہ مؤقف اختیار کیا کہ سری لنکن سرکار سے جنگ کرتے ہوئے وہ اُن سے پنشن لینے کے متمحل نہیں ہوسکتے اور وہ مکمل طور پر اپنی آزادی کی تحریک سے دستبردار بھی نہیں ہوسکتے اسی لیے اس نے سری لنکا چھوڑ دیا ہے۔ آزادی کی جنگ کے باوجود ابھی تک سری لنکا ہمارے علاقوں میں کسی غیرملکی این جی او یا دیگر فلاحی اداروں کو جانے نہیں دے رہا۔ انہی ایشوز پر وہ سری لنکاسے اپنے سیاسی اختلافات سے دستبردار ہونے کو تیار نہیں ہیں۔ یورپ سے زیادہ وہ آسٹریلیا اور اُن کے لوگوں کو پسند کرتے ہیں اسی لیے اُسے آسٹریلوی سرکار سیاسی پناہ دے ۔ تامل مزاحمت کار سیاسی طور پر اتنے پختہ بھی نہیں تھے صرف اُن کی مزاحمت اپنے علاقوں میں مضبوط تھی ۔ اور وہ انسانی حقوق جیسے چیزوں سے واقف نہیں تھے۔ اُن کی سول آبادیوں پر پے درپے حملوں کی وجہ سے وہ مغربی میڈیا پر چھائے ہوئے تھے۔ تامل کا سربراہ ڈکٹیٹر تھا اُس نے تمام اختیارات اپنے پاس رکھے ہوئے تھے اور تحریک سے جڑے دوسرے لوگوں کی قائدانہ تربیت نہیں کی تھی ۔ جس کی موت کے بعد وہ تحریک کو کریش ہونے سے بچانے میں کردار ادا کرتے۔ دوسری طرف سری لنکا کے لیے یہ زندگی اور موت کا مسئلہ تھا کہ وہ ملک کے تین اطراف کے ساحلی علاقوں کو تامل کے حوالے کرے اور خود صرف جنوب، اور جنوب مشرقی اور جنوب مغربی ساحلی علاقوں کو اپنے پاس رکھے۔ تامل کی جنگ آزادی میں سری لنکا پر معاشی بحران کا بھاری بوجھ پیدا ہوگیاتھا ، تمام غیرملکی سرمایہ کار اپنی سرمایہ شمال، اور شمال مشرقی اور شمال مغربی تامل علاقوں سے لپیٹ کر نکل چکے تھے اور نئے بیرونی سرمایہ کاریکے لیے کوئی ملک تیار نہیں تھا۔

سری لنکا کا کُل رقبہ پینسٹھ ہزار چھ سو کلو میٹر ہے اور آبادی دوکروڈ ستائیس لاکھ سات ہزار ہے۔ سارے تامل کے ساتھ نہیں تھے۔بلوچستان کا کل رقبہ تین لاکھ ساتھ ہزارایک سو نوے کلو میٹر ہے ۔اور آبادی ۱۹۹۸ میں پاکستان نے اسی لاکھ بتایا ہے۔ جب سے بلوچوں نے جنگ شروع کی ہے تو اس کے بعد آبادی کا صحیح فیگر نہیں بتایا جارہا۔ ایک اندازے کے مطابق بلوچستان کی آبادی ایک کروڈدس لاکھ سے بھی اوپر ہو گی اور بھاری اکثریت پاکستان کے ساتھ رہنے کے لیے تیارنہیں ہے۔اور اپنی پسماندگی کا زمہ دار پاکستان کو سمجھتاہے۔ اور بلوچ ،سری لنکن تامل سے مختلف نوعیت کی جنگ لڑ رہے ہیں جو کہ گوریلہ جنگ ہے اور انہوں نے مختلف مزاحمتی اور سیاسی تنظیموں کے ذریعے ، مختلف لوگوں کی سربراہی میں بلوچستان کے اہم علاقوں تک اس جنگ کو پھیلا دیا ہے ، اور مزاحمت جاری ہے۔ پاکستانی فرسز کا بلوچستان پر کنٹرول ہے لیکن ابھی تک آزادی پسندوں پر کنٹرول حاصل کرنے میں ناکام رہا ہے ۔ وہ آئے روز پاکستانی فورسز اور تنصیبات پر حملے کرتے ہیں، بلوچ آزادی پسندوں کے بجائے پاکستان فورسز اور ڈیتھ اسکواڈوں اور مذہبی جماعتوں نے زیادہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کی ہیں۔ جس میں آئے روز شعیہ کا قتل عام، مسنگ پرسنز، لوگوں کے گھروں کو جلانا، مسخ شدہ لاشیں اور اجتماعی قبریں شامل ہیں۔ جس کا فائدہ بیرونی دنیا میں بلوچ کو ملا ہے اور پاکستان کو بیرونی دنیا میں اس طرح کے حکمت عملیوں سے تنقید کا سامنا کرنا پڑ رہاہے۔

بلوچ کے پاس اس وقت جنگ لڑنے کے لیے سنجیدہ جنگی حکمت عملی اور سنجیدہ لوگ نہیں ہیں۔ ہر چیز روایتی بنیادوں پر کیا جارہاہے اور آزادی پسندجنگجوؤں اور دیگر قیادت کے درمیان شدید فکری و نظریاتی بحران پایا جاتاہے۔ابھی تک آزادی پسند کسی بھی سیاسی اور سماجی نظریے میں پختہ نہیں ہیں۔ ہر چیز میں اپنی ذاتی انا اور پسندو ناپسند اور اپنااپنا ایک مخصوص تنگ دائرہ اُن کی ترجیحات میں شامل ہے، جبکہ آزادی کی جنگ لڑنے کے لیے روشن خیالی اور کشادہ دلی کی ضرورت ہوتی ہے۔ تنگ نظری اور روایتی سیاست کے ساتھ اگر آزادی حاصل کی بھی جائے تو لوگوں کا حال پہلے سے بھی بدتر ہوگا۔ کیونکہ آزادی کی جنگ اپنے ساتھ ساتھ سماجی انقلاب بھی لاتاہے جس سے آزادی پسند سرے سے ہی قاصر ہیں۔

کبھی کبھار بنگلہ دیش کو بھی بلوچستان سے تقابل کرکے اینکرپرسنز اور وزیر یہ کہتے ہیں کہ بنگلہ دیش سے انڈیا کی سرحد ملتی ہے اسی لیے وہاں انڈیا نے پاکستان کے خلاف فوج اتارا ہے جب کہ بلوچستان میں انڈیا کا سرحد نہیں ملتی اسی لیے انڈیا وہاں پر اپنی فوج نہیں اتار سکتاہے۔ اگر بلوچستان سے انڈیا کا سرحد نہیں ملتا یہ تو ٹھیک ہے ۔لیکن بحرہند کے جزیروں پر امریکہ، نیٹو اور انڈین فضائیہ اور نیوی کے ائیر بیس بلوچستان کے ساحل سے اتنی دُور نہیں ہیں اگر انڈیا یا امریکہ بلوچستان میں فوجی مداخلت کرنا چاہے تو وہ پانچ گھنٹوں میں کرسکتا ہے۔ اسی لیےضروری ہے کہ جب کوئی دوچیزوں کے درمیان اگر تقابلی مطالعہ کرتا ہے تو حقیقت پسندی اور زمینی حقائق کو مدنظر رکھ کر تجزیہ کرے۔ روایتی تجزیہ اورخوش فہمی سے زمینی حقائق وقتی طور پر نظر انداز تو ہوسکتے ہیں مگر مکمل طور پر چھپائے نہیں جاسکتے ۔
Shoaib Shadab
About the Author: Shoaib Shadab Read More Articles by Shoaib Shadab: 8 Articles with 9918 views Shoaib Shadab is a Research Scholar and Progressive Writer. He is Founder-President of Liberal Scholars Society, Balochistan .. View More